— جنگ فوٹو

خان اکیڈمی پاکستان نے کیئر فاؤنڈیشن کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت دونوں ادارے مل کر خانمیگو کا پائلٹ پروگرام شروع کریں گے۔

یہ پروگرام پاکستان میں موجود کیئر فاؤنڈیشن کے اسکولوں میں اساتذہ کو جدید اے آئی ٹیکنالوجی سے لیس کرے گا تاکہ تدریس کا معیار بہتر بنایا جا سکے۔

کیئر فاؤنڈیشن گزشتہ 30 سالوں سے تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے اور اس وقت ملک بھر میں 1100 اسکولوں کو سپورٹ فراہم کر رہا ہے۔ اس شراکت کے ذریعے اساتذہ کو خانمیگو اے آئی جیسے جدید ٹولز فراہم کیے جائیں گے، جو ناصرف سبق کی منصوبہ بندی میں مدد دیں گے بلکہ بچوں کی دلچسپی اور سیکھنے کے عمل کو بھی بہتر بنائیں گے۔

خان اکیڈمی اور اخوت کا اشتراک، خانمیگو اے آئی اسسٹنٹ اسکولوں میں متعارف کروایا جائے گا

یہ معاہدہ اخوت کے بانی و چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب اور خان اکیڈمی پاکستان کے سی ای او ذیشان حسن کے درمیان طے پایا۔

بانی و چیئرپرسن کیئر فاؤنڈیشن مسز سیما عزیز کا کہنا ہے کہ یہ شراکت ہماری اُس سوچ کی عکاسی کرتی ہے کہ ہر بچے کو معیاری تعلیم تک برابر رسائی حاصل ہونی چاہیے، خانمیگو جیسے اے آئی ٹولز کے ذریعے ہمارے اساتذہ مزید مؤثر انداز میں پڑھا سکیں گے اور بہتر نتائج لا سکیں گے۔

خان اکیڈمی پاکستان کے سی ای او ذیشان حسن کا کہنا ہے کہ ہمیں خوشی ہے کہ کیئر فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر پاکستان میں خانمیگو کا پائلٹ سسٹم متعارف کروا رہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ یہ ٹول ہمارے اساتذہ کی روزمرہ تدریس میں مدد دے گا اور نئی نسل کے سیکھنے کے سفر کو بہتر بنائے گا۔

یہ پائلٹ پروگرام پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں اے آئی کے مثبت استعمال کی جانب ایک اہم قدم ہے، اگر کامیاب رہا تو یہ شراکت ملک بھر کے اسکولوں میں ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کی راہ ہموار کرے گی، جس سے سیکھنے اور سیکھانے کا معیار بہتر ہو گا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: کیئر فاؤنڈیشن خان اکیڈمی اے ا ئی

پڑھیں:

بارود اور دلیل کا چراغ

برصغیرکی زمین نے نجانے کتنے ہی لشکروں کے نقوش اپنے دامن پرسجارکھے ہیں۔کبھی خنجرکی جھنکارنے امن کی فضاکو چیرڈالا،اورکبھی الفاظ کی تاثیرنے خونریزی کے طوفان کوروک لیا۔آج جب تاریخ ایک اورموڑپرکھڑی ہے،سوال یہ ہے کہ آیا ماضی کاخوں آشام سایہ پھرہمارے حال پرمنڈلارہاہے؟
ہندوستان اورپاکستان کے درمیان کشیدگی نہ صرف ایک علاقائی تنازع ہے بلکہ جنوبی ایشیاکے امن،ترقی،اوربقاء کے لئے ایک مسلسل خطرہ بن چکاہے۔ پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ موجودہ طاقت کاتوازن کہاں کھڑاہے، بھارت کن داخلی بحرانوں میں گھراہوا ہے،اورمودی ہمیشہ کی طرح اب بھی اپنی عوام کوپاکستان اورچین کی طرف سے شدید خطرات کامنظرنامہ دکھاکراپنے آئندہ انتخابات میں جیتنے کے لئے فالس فلیگ جیسے ڈراموں کاسہارالے کر اس خطے کومیدانِ جنگ بنانے پرتلاہواہے۔ مستقبل میں جنگی تبدیلیوں کاکیامنظرنامہ ممکن ہوسکتاہے،تاریخی ودستاویزی حقائق اورعالمی ردعمل پرمبنی شواہد قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کررہاہوں۔
تاریخ کے صفحات اگرچہ خون سے ترہیں،مگروہ ہمیں ہرصفحہ پرامن کاسبق بھی دیتے ہیں۔موجودہ حالات میں،دونوں ممالک کے بیانات اور اقدامات اگرچہ مخاصمت کی بورکھتے ہیں،مگریہ کہناقبل ازوقت ہوگاکہ جنگ یقینی ہے۔ہاں،تصادم کاخدشہ ضرورموجود ہے۔ سرحدوں پربڑھتی ہوئی کشیدگی، سفارتی سطح پرتلخ بیانی اورعسکری مشقیں ایک نئے محاذکی پیش خیمہ ہوسکتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اوربھارت میں ایک اورتصادم متوقع ہے؟
عقل سلیم گواہی دیتی ہے کہ جنگ کوئی کھیل نہیں،اورتصادم محض تلواروں کے جھپٹنے کانام نہیں، بلکہ دوقوموں کی بقا،معیشت اورتہذیب کافیصلہ کن لمحہ ہوتاہے۔موجودہ حالات میں بارودکی بوفضامیں رچی بسی محسوس ہوتی ہے،جیسے خاموش دریاکے نیچے تندوتیزلہریں چھپی ہوں۔اگرمتعصب ہندومودی نے عقل وتدبرکو ترک کیااورجذبات کوسازشوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا تو یہ تصادم بعیدنہیں۔
بھارتی حکمرانوں کی طرف سے تند وتیزبیانات کے بعدیقینایہ سوال اٹھتاہے کہ کیابھارت اپنی شکست کابدلہ لینے کی تیاری کررہا ہے؟نہ صرف سیاسی بیانات، بلکہ دفاعی بجٹ میں اضافہ اوراسرائیل وامریکا سے اسلحہ کی خریداری اس امرکی دلیل ہیں کہ بھارت خطے میں بالادستی کاخواب دیکھ رہاہے۔تاریخ شاہدہے کہ زخم خوردہ اناجب عقل پرغالب آتی ہے تو بسااوقات اقوام کوہلاکت کے دہانے پرلاکھڑاکرتی ہے۔تاریخ کاسبق یہی ہے کہ جوطاقت شکست سے دوچارہو،وہ خاموش نہیں رہتی،بلکہ انتقام کی آگ میں اندر ہی اندرجلتی ہے۔بھارت کاعسکری تیور،اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدے،اورپاکستان کے خلاف مسلسل بیان بازی یہ ظاہرکرتی ہے کہ وہ پھرسے آزمانے کے درپے ہے لیکن قومی غیرت کا تقاضایہ ہے کہ پاکستان ہوشیار،تیاراورپرامن رہے،مگرفوری جواب میں کمزوری ہرگزنہ دکھائے۔
امریکی صدرٹرمپ اپنے سرپرسیزفائر کا سہر اسجائے ساری دنیامیں یہ اعلان کررہے ہیں کہ مئی کے اوائل میں دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے دہانے پرپہنچ چکی تھیں،میں نے فوری مداخلت کرتے ہوئے ایٹمی جنگ سے اس خطے کوبچالیا،کیاواقعی ایسا ہی ہے جیساکہ وائٹ ہاس کے نئے فرعون کابیانیہ ہے؟جوکچھ ہوا،وہ صرف عسکری تصادم نہ تھا،بلکہ خطے کے مستقبل کوایٹمی دھویں میں لپیٹ دینے کی سنگین علامت تھا۔ایک غلطی،ایک ناقص فیصلے کانتیجہ کروڑوں زندگیاں ہوسکتی تھیں۔اگرچہ سفارتی ذرائع نے وقتی طورپرآگ بجھائی، مگر راکھ میں چنگاری باقی ہے۔یقیناجو لمحہ گزرا،وہ صرف تاریخ کاایک صفحہ نہیں،بلکہ انسانیت کی پیشانی پرلکھاوہ سیاہ دھبہ ہے،جسے اگردوبارہ دہرایاگیاتو نہ تاریخ بچے گی،نہ پیشانی۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف جنگی تیاریوں میں تھے اورجوہری ہتھیاروں کے سائے تلے ہم سب ایستادہ تھے۔یہ لمحہِ عبرت تھا،مگرافسوس کہ سیکھنے والے کم اوردہرانے والے زیادہ ہیں۔
اقوامِ عالم،بالخصوص اقوامِ متحدہ،امریکا،چین اورروس نے فوری طورپرکشیدگی میں کمی کی اپیل کی مگران بیانات میں سنجیدگی کم،سفارتی رسمیت زیادہ دکھائی دی۔گویادنیابرصغیرکو میدانِ جنگ بننے سے روکناچاہتی ہے،مگرسنجیدہ ثالثی کے لئے قدم پیچھے کھینچ لیتی ہے۔لیکن جونہی پاکستان نے بھارتی جارحیت کاجواب دیاتوفوری طورپرگھنٹیاں بجنے لگیں اورفوری سیز فائرکے لئے بے تابی بڑھ گئی۔عالمی تجزیہ نگاربھی تسلیم کرچکے ہیں کہ سیزفائرکے لئے امریکااوربرطانیہ میں سیزفائرکے لئے فوری سنجیدگی کے پیچھے کئی اورعوامل بھی پنہاں تھے کہ وہ امریکاجس نے اعلانیہ اس جنگ سے لاتعلقی کااظہار کیا مگرپاکستانی جواب کے بعد اس سرعت کے ساتھ کیوں حرکت میں آگیا اور اس سیزفائرمیں اب مسئلہ کشمیر کاایک مرتبہ پھر ذکرکرکے پاکستان کولالی پاپ سے بہلانے کی لالچ بھی دی گئی۔
ہم سب جانتے ہی کہ بھارتی جارحیت پرعالمی طاقتیں وہ خاموش تماشائی بن گئیں،جیسے کوئی ظالم فلم کاناظرہو،اوراس کاضمیر محض’’تشویش‘‘کے بیانات دے کرمطمئن ہوجائے۔ اقوامِ متحدہ نے چندرسمی جملے ادا کیے،مگرمؤثراقدام ندارد۔صرف پاکستان سے دوستی نبھانے والے چین،ترکی اورچنددیگرممالک پہلے دن سے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے اوراس سلسلے میں پاکستان کی سفارتی کارکردگی کے چرچے بھی شروع ہوگئے ۔دنیا کو چاہیے تھاکہ ثالثی کافعال کرداراداکرتی، مگراکثر طاقتور، امن کونفع کے ترازومیں تولتے ہیں ۔ اگرآئندہ ایٹمی خطرہ پیداہوگیاتو دنیاکے ہاتھوں میں صرف مذمتی بیانات ہوں گے اورزمین پرلاشیں۔ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آنے والے صرف لاہوریادہلی نہیں ہوں گے، بلکہ اس کازہر ہواں میں گھل کرلندن، نیویارک،ماسکوتک پہنچے گا۔اگرخدانخواستہ آئندہ ایٹمی خطرہ درپیش ہوتودنیا کی خاموشی ایک مجرمانہ غفلت تصورکی جائے گی۔عالمی برادری کوچاہیے کہ محض تشویش کااظہار کرنے کی بجائے تدبیر اختیارکرے۔یہ وقت ہے کہ دنیافیصلہ کرے، خاموش رہنا ہے یاضمیرکوبیدارکرنا ہے؟
پانی حیات کی علامت ہے اورجب یہی آبِ حیات کوہتھیاربنادیاجائے تویہ ظلمِ عظیم ہے۔سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پاکستان کی زراعت،معیشت اورخودمختاری پروار کے مترادف ہے۔بھارت کی یہ روش نہ صرف معاہداتی اصولوں کی پامالی ہے بلکہ یہ پانی کوایک نئی جنگ کامحرک بنانے کی کوشش ہے۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پانی زندگی ہے، اورزندگی کابہاروک دینا ظلمِ عظیم ہے۔بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی صرف قانونی نہیں،اخلاقی اورانسانی جرم بھی ہے۔ پاکستان کی زراعت، صنعت،اورخودمختاری کا دارو مدار انہی دریاں پرہے۔ پانی کی جنگ،بارود سے زیادہ خوفناک ہوسکتی ہے۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • شہید فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب سے خانوادہ شہداء میں بکروں کی تقسیم
  • گلگت بلتستان، اساتذہ کی ڈگریوں کی تصدیق کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی گئی
  • سندھ حکومت کا بڑا فیصلہ: 4 سیٹر رکشوں پر پابندی
  • پاکستان درست سمت گامزن، شہباز شریف نے معیشت کو بہت بہتر کر دیا، نواز شریف
  • حکومت اور اساتذہ سے مذاکرات کرے اور ان کے مطالبات حل کرے، سید علی رضوی
  • بہتر حج انتظامات، گرمی سے متاثرہ عازمین کی تعداد میں 90 فیصد کمی ریکارڈ
  • بارود اور دلیل کا چراغ
  • قربانی ہر صاحب حیثیت پر فرض ہے، خرم نواز گنڈاپور
  • عطا تارڑ سے ڈی جی سول انفارمیشن سروس اکیڈمی کی الوداعی ملاقات
  • وزیراعظم کا دیامیر میں پولیو کیس کا نوٹس، امیونائزیشن کی بہتری کی ہدایت