Express News:
2025-09-18@13:51:32 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT

غزل
 ہوتا ہوں آپ میں کبھی ہوتا نہیں ہوں میں
کیوں کر بنوں کسی کا کہ اپنا نہیں ہوں میں 
اک عمر یہ شعور سمجھتے گزر گئی
لیکن شعور آج بھی سمجھا نہیں ہوں میں 
اے دوست تجھ کو حق ہے مجھے تو بھی چھوڑ دے
اب تو کسی کے حق میں منافع نہیں ہوں میں 
سچ ہے ترے رفیق کے جیسا میں نہیں تھا 
خوش ہوں ترے رفیق کے جیسا نہیں ہوں میں
جاہ و جلال ہے ترا کمتر تری طرح 
دنیا ترے مقام کا بھوکا نہیں ہوں میں
سب کچھ لٹا کے خاک بسر در بدر پھرا
پر کندِ نہ تراش کو بھایا نہیں ہوں میں
کاظم ؔمرا خدا ہے جو شہ رگ سے ہے قریب 
اتنا اداس ہو نہیں تنہا نہیں ہوں میں
(کاظم رضا۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل
میرا تھا مگر مجھ سے جدا ہو کے مرا ہے
اک شخص گرفتارِ انا ہو کے مرا ہے
بخشی تھی محبت نے جسے رونقِ دنیا
ویرانے میں نفرت کا خدا ہو کے مرا ہے
آواز کی لہروں کے تعاقب میں پریشاں
اک شور مری چپ کی صدا ہو کے مرا ہے
کس واسطے سورج پہ میں الزام لگاؤں
دیوار سے جب سایہ خفا ہو کے مرا ہے
مدت سے نگہباں تھا مرے ضبط کا حانی
آنکھوں سے جو کل اشک ادا ہو کے مرا ہے
(حانی ہنجرا۔ڈسکہ)

۔۔۔
غزل
دشتِ الفت میں کھو گئے آخر
جان سے ہاتھ دھو گئے آخر
رات اختر شماریوں میں کٹی
تو نہ آیا تو سو گئے آخر
تیری ہر بات مان لیتے ہیں
تو نے چاہا تو لو گئے آخر
عشق کا سلسلہ عجیب سا ہے
ہنستے پہلے تھے رو گئے آخر
جان اپنی بھی وار دی ہم نے
تم ہمارے نہ ہو گئے آخر
میرے محبوب تیری فرقت میں
چار کندھوں پہ ڈھو گئے آخر
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)

۔۔۔
غزل
 پیٹ کی آگ بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 
لوگ مزدوری کماتے ہوئے مر جاتے ہیں 
اے بشر پیڑ نہ کاٹ اِن پہ ہمارے گھر ہیں
’ ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ‘
ایسے گھڑتے ہیں کچھ احباب مَصارع جن کو 
سب گلوکار بھی گاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جانے کتنے ہیں مصور جو تری چاہت میں
تیری تصویر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں 
مانگتا ہے وہ تعلق میں سہولت محکم
اور ہم ساتھ نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 
(زین محکم سکھیکی۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل
قہقہے آنسوئوں میں تر کرلو
اب یونہی زندگی  بسر کرلو
جھوٹ کے سلسلے نہیں روکو
بس انھیں تھوڑا مختصر کرلو
اس میں آخر فریب  ملتا ہے
پیار جتنا بھی ٹوٹ کر، کرلو
غم نبھاتا ہے ساتھ مرنے تک 
سو، اسے اپنا ہمسفر کرلو
سچ نے تو آشکار ہونا ہے
تم بھلے لاکھ اگر مگر کرلو
آگہی کرب ہے نزاکتؔ جی
خود کوخودسے بھی بے خبر کرلو
 (نزاکت ریاض۔پنڈ مہری، تحصیل حسن ابدال)

۔۔۔
غزل
اُس مشربِ وصال کی وہ چاشنی ملی 
ہر چیز رقص کرتے ہوئے ڈولتی ملی
سورج کی کیا مجال جو روشن اِسے کرے 
ماہِ فلک کو تجھ سے یہ تابندگی ملی 
یہ کارِ سخت پہلے نہ تھا میرا ہم مزاج 
تجھ سے ملا تو عشق کی جادوگری ملی 
میں ہوں نوائے وقتِ سحر، نغمہ ہائے شوق
مجھ سے ہی اس چمن کو ترو تازگی ملی 
کرتا ہوں خرچ اس کو میانہ روی کے ساتھ
معلوم ہے کہ زیست نہیں مفت کی ملی
مانگا خدا سے کوئی جو مجھ کو سمجھ سکے 
بدلے میں کوئے فکر تری دوستی ملی
( جنید ضیاء۔ بونیر)

۔۔۔
غزل
پہلو نشیں رہا ہے جو کل تک کدھر گیا
جانے کہاں یہ میرا دلِ در بدر گیا 
جاتے ہیں میرے سامنے وہ غیر کی طرف
ہائے! کوئی سنبھالے یہ میرا جگر گیا
اندھے کے ہاتھ آئی ہے تلوارِ تند و تیز
آئے گا جو بھی سامنے اس کا تو سر گیا 
پھیلی ہوئی ہے ہر سو اداسی مکان میں
ایسے وہ چھوڑ کر مرے دیوار و در گیا 
اب تو دلِ بے چارہ کا چارہ نہیں کوئی
جب سے چھڑا کے ہاتھ مرا چارہ گر گیا 
پہلے پہل تو دور سے پہچانتا تھا وہ
لیکن وہ آج پاس سے گزرا، گزر گیا 
ٹھہری ہوئی ہے آج بھی یہ نظرِ پر امید
جس راہ مجھ کو چھوڑ مرا ہمسفر گیا 
آنکھوں کا رزقِ اشک ہوا تنگ کس لیے
کس واسطے یہ رنج کا  دریا اتر گیا
اک بار کے فریب سے آیا نہ باز دل
چوکھٹ پہ ان کی آج میں بارِ دگر گیا
ہیں ثبت اب بھی دل پہ نقوشِ رخِ جمال
دیکھے اسے اگرچہ زمانہ گزر گیا
اب آئے ہیں وہ کس لیے لینے مری خبر
کوئی انھیں بتاؤ کہ فیصل ؔتو مر گیا
(فیصل رشید۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل
ہوا سے دوستی ہے، خواب روشنی کے ہیں
 مری جناب، مسائل یہ زندگی کے ہیں
قدم قدم پہ بکھرتی ہیں آرزو کلیاں
 جو راستے میں کھڑے پل ہیں بے بسی کے ہیں
چراغ لے کے چلے ہیں ہوا کے پہلو میں
 ہمیں خبر ہے یہ لمحے تو بے کلی کے ہیں
نگاہِ شوق میں جو عکس جگمگاتے ہیں
 وہ آئینے تو نہیں، ٹکڑے روشنی کے ہیں
صدا یہ دیتی ہے ہر شے سکوتِ شب میں کہیں
 جو درد، ہنستے لبوں پر ہیں شاعری کے ہیں
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
آنسو دکھائی دیتے ہیں کب بارشوں کے بیچ
جینا بھی اک کمال ہے ان حادثوں کے بیچ
مزدور نیند پوری کرے یا وہ دیکھے خواب
اک خواب ٹوٹتا ہے کئی کروٹوں کے بیچ
اک عکس تھا کہ جس سے تھی اچھی دعا سلام
وہ بھی نہ ٹوٹ جائے کہیں آئنوں کے بیچ
نطشے کا فلسفہ ہو کہ اقبال کی خودی
دونوں ہی دفن ہوگئے ہیں سازشوں کے بیچ 
اک دائرہ ہے زندگی اس مستطیل میں
چھپنا فضول جائے گا سب زاویوں کے بیچ  
ٹانکا کہاں چھپا ہے کہاں کوئی چاک ہے
کرتے کا رہ گیا ہے بھرم سلوٹوں کے بیچ
آنکھوں نے ضبط سیکھ لیا ایک عمر  بعد
کب تک بھلا وہ رہتی مری عادتوں کے بیچ
ٓپیتا اگر نہ زہر تو پھر سوچ یہ مقیمؔ
سقراط کیسے رہتا بھلا بزدلوں کے بیچ
(رضوان مقیم ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
نوائے باغباں ہم لکھ رہے ہیں 
صدائے بلبلاں ہم لکھ رہے ہیں
رقم تاریخ کی تم نے سلف کی 
تمہاری داستاں ہم لکھ رہے ہیں 
اثر انداز ہوتا تھا جو دل پر 
وہ اندازِ بیاں ہم لکھ رہے ہیں 
خزاں دیدہ چمن تم نے لکھا تھا 
بہارِ گلستاں ہم لکھ رہے ہیں 
لکھا ہے تم نے سوزِ خانقاہی 
مجاہد کی اذاں ہم لکھ رہے ہیں 
نہیں ہے جن سے واقف بزمِ دوراں 
وہ اسرارِ نہاں ہم لکھ رہے ہیں 
اندھیرا چھٹ رہا ہے دھیرے دھیرے 
چراغِ ضو فشاں ہم لکھ رہے ہیں 
نویدِ ارمغاں حیدرؔ سنائے
ابھی آہ و فغاں ہم لکھ رہے ہیں
(حیدر میواتی ندوی۔ میوات، انڈیا)

۔۔۔
غزل
تیرے بن دل میرا قبرستان ہے 
دفن جس میں ایک اک ارمان ہے
خواب سب بکھرے پڑے ہیں جابجا 
آگیا غم کا عجب طوفان ہے
بے رخی پر عقل یہ حیران ہے
یوں ملا جیسے کوئی انجان ہے 
ہجر کی شب تیری یادوں کا ہجوم 
میرے جینے کا یہی سامان ہے
آج تک کوئی نہیں بھایا مجیدؔ
وہ گیا دل کا چمن ویران ہے
(مجید سومرو۔ پنو عاقل، سندھ)

۔۔۔
غزل
مجھ کو اتنی سی بس شکایت ہے
لمحہ بھر بھی نہیں رعایت ہے
دلِ مضطر سکون پائے جو
کیا پڑھوں کونسی وہ آیت ہے
یاخدا بخش دے، نجات اب تو
دل ہزیمت طرف سے غایت ہے
بن چکا ہے جگر نوالہ اب
سانس رک جا تجھے ہدایت ہے
موت دعوت کرے منور ؔکی
زیست کو اس قدر حمایت ہے
(منور علی۔ گجرات)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوئے مر جاتے ہیں ہم لکھ رہے ہیں نہیں ہوں میں ہو کے مرا ہے کے بیچ کے ہیں

پڑھیں:

قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت

مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔

آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔

دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔

کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔

جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔

 سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔

ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔

 آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔

آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔

اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔

 ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔

قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects  یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔

کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور  'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔

ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘

یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage