Express News:
2025-06-09@11:24:41 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT

غزل
 ہوتا ہوں آپ میں کبھی ہوتا نہیں ہوں میں
کیوں کر بنوں کسی کا کہ اپنا نہیں ہوں میں 
اک عمر یہ شعور سمجھتے گزر گئی
لیکن شعور آج بھی سمجھا نہیں ہوں میں 
اے دوست تجھ کو حق ہے مجھے تو بھی چھوڑ دے
اب تو کسی کے حق میں منافع نہیں ہوں میں 
سچ ہے ترے رفیق کے جیسا میں نہیں تھا 
خوش ہوں ترے رفیق کے جیسا نہیں ہوں میں
جاہ و جلال ہے ترا کمتر تری طرح 
دنیا ترے مقام کا بھوکا نہیں ہوں میں
سب کچھ لٹا کے خاک بسر در بدر پھرا
پر کندِ نہ تراش کو بھایا نہیں ہوں میں
کاظم ؔمرا خدا ہے جو شہ رگ سے ہے قریب 
اتنا اداس ہو نہیں تنہا نہیں ہوں میں
(کاظم رضا۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل
میرا تھا مگر مجھ سے جدا ہو کے مرا ہے
اک شخص گرفتارِ انا ہو کے مرا ہے
بخشی تھی محبت نے جسے رونقِ دنیا
ویرانے میں نفرت کا خدا ہو کے مرا ہے
آواز کی لہروں کے تعاقب میں پریشاں
اک شور مری چپ کی صدا ہو کے مرا ہے
کس واسطے سورج پہ میں الزام لگاؤں
دیوار سے جب سایہ خفا ہو کے مرا ہے
مدت سے نگہباں تھا مرے ضبط کا حانی
آنکھوں سے جو کل اشک ادا ہو کے مرا ہے
(حانی ہنجرا۔ڈسکہ)

۔۔۔
غزل
دشتِ الفت میں کھو گئے آخر
جان سے ہاتھ دھو گئے آخر
رات اختر شماریوں میں کٹی
تو نہ آیا تو سو گئے آخر
تیری ہر بات مان لیتے ہیں
تو نے چاہا تو لو گئے آخر
عشق کا سلسلہ عجیب سا ہے
ہنستے پہلے تھے رو گئے آخر
جان اپنی بھی وار دی ہم نے
تم ہمارے نہ ہو گئے آخر
میرے محبوب تیری فرقت میں
چار کندھوں پہ ڈھو گئے آخر
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)

۔۔۔
غزل
 پیٹ کی آگ بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 
لوگ مزدوری کماتے ہوئے مر جاتے ہیں 
اے بشر پیڑ نہ کاٹ اِن پہ ہمارے گھر ہیں
’ ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ‘
ایسے گھڑتے ہیں کچھ احباب مَصارع جن کو 
سب گلوکار بھی گاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جانے کتنے ہیں مصور جو تری چاہت میں
تیری تصویر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں 
مانگتا ہے وہ تعلق میں سہولت محکم
اور ہم ساتھ نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 
(زین محکم سکھیکی۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل
قہقہے آنسوئوں میں تر کرلو
اب یونہی زندگی  بسر کرلو
جھوٹ کے سلسلے نہیں روکو
بس انھیں تھوڑا مختصر کرلو
اس میں آخر فریب  ملتا ہے
پیار جتنا بھی ٹوٹ کر، کرلو
غم نبھاتا ہے ساتھ مرنے تک 
سو، اسے اپنا ہمسفر کرلو
سچ نے تو آشکار ہونا ہے
تم بھلے لاکھ اگر مگر کرلو
آگہی کرب ہے نزاکتؔ جی
خود کوخودسے بھی بے خبر کرلو
 (نزاکت ریاض۔پنڈ مہری، تحصیل حسن ابدال)

۔۔۔
غزل
اُس مشربِ وصال کی وہ چاشنی ملی 
ہر چیز رقص کرتے ہوئے ڈولتی ملی
سورج کی کیا مجال جو روشن اِسے کرے 
ماہِ فلک کو تجھ سے یہ تابندگی ملی 
یہ کارِ سخت پہلے نہ تھا میرا ہم مزاج 
تجھ سے ملا تو عشق کی جادوگری ملی 
میں ہوں نوائے وقتِ سحر، نغمہ ہائے شوق
مجھ سے ہی اس چمن کو ترو تازگی ملی 
کرتا ہوں خرچ اس کو میانہ روی کے ساتھ
معلوم ہے کہ زیست نہیں مفت کی ملی
مانگا خدا سے کوئی جو مجھ کو سمجھ سکے 
بدلے میں کوئے فکر تری دوستی ملی
( جنید ضیاء۔ بونیر)

۔۔۔
غزل
پہلو نشیں رہا ہے جو کل تک کدھر گیا
جانے کہاں یہ میرا دلِ در بدر گیا 
جاتے ہیں میرے سامنے وہ غیر کی طرف
ہائے! کوئی سنبھالے یہ میرا جگر گیا
اندھے کے ہاتھ آئی ہے تلوارِ تند و تیز
آئے گا جو بھی سامنے اس کا تو سر گیا 
پھیلی ہوئی ہے ہر سو اداسی مکان میں
ایسے وہ چھوڑ کر مرے دیوار و در گیا 
اب تو دلِ بے چارہ کا چارہ نہیں کوئی
جب سے چھڑا کے ہاتھ مرا چارہ گر گیا 
پہلے پہل تو دور سے پہچانتا تھا وہ
لیکن وہ آج پاس سے گزرا، گزر گیا 
ٹھہری ہوئی ہے آج بھی یہ نظرِ پر امید
جس راہ مجھ کو چھوڑ مرا ہمسفر گیا 
آنکھوں کا رزقِ اشک ہوا تنگ کس لیے
کس واسطے یہ رنج کا  دریا اتر گیا
اک بار کے فریب سے آیا نہ باز دل
چوکھٹ پہ ان کی آج میں بارِ دگر گیا
ہیں ثبت اب بھی دل پہ نقوشِ رخِ جمال
دیکھے اسے اگرچہ زمانہ گزر گیا
اب آئے ہیں وہ کس لیے لینے مری خبر
کوئی انھیں بتاؤ کہ فیصل ؔتو مر گیا
(فیصل رشید۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل
ہوا سے دوستی ہے، خواب روشنی کے ہیں
 مری جناب، مسائل یہ زندگی کے ہیں
قدم قدم پہ بکھرتی ہیں آرزو کلیاں
 جو راستے میں کھڑے پل ہیں بے بسی کے ہیں
چراغ لے کے چلے ہیں ہوا کے پہلو میں
 ہمیں خبر ہے یہ لمحے تو بے کلی کے ہیں
نگاہِ شوق میں جو عکس جگمگاتے ہیں
 وہ آئینے تو نہیں، ٹکڑے روشنی کے ہیں
صدا یہ دیتی ہے ہر شے سکوتِ شب میں کہیں
 جو درد، ہنستے لبوں پر ہیں شاعری کے ہیں
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
آنسو دکھائی دیتے ہیں کب بارشوں کے بیچ
جینا بھی اک کمال ہے ان حادثوں کے بیچ
مزدور نیند پوری کرے یا وہ دیکھے خواب
اک خواب ٹوٹتا ہے کئی کروٹوں کے بیچ
اک عکس تھا کہ جس سے تھی اچھی دعا سلام
وہ بھی نہ ٹوٹ جائے کہیں آئنوں کے بیچ
نطشے کا فلسفہ ہو کہ اقبال کی خودی
دونوں ہی دفن ہوگئے ہیں سازشوں کے بیچ 
اک دائرہ ہے زندگی اس مستطیل میں
چھپنا فضول جائے گا سب زاویوں کے بیچ  
ٹانکا کہاں چھپا ہے کہاں کوئی چاک ہے
کرتے کا رہ گیا ہے بھرم سلوٹوں کے بیچ
آنکھوں نے ضبط سیکھ لیا ایک عمر  بعد
کب تک بھلا وہ رہتی مری عادتوں کے بیچ
ٓپیتا اگر نہ زہر تو پھر سوچ یہ مقیمؔ
سقراط کیسے رہتا بھلا بزدلوں کے بیچ
(رضوان مقیم ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
نوائے باغباں ہم لکھ رہے ہیں 
صدائے بلبلاں ہم لکھ رہے ہیں
رقم تاریخ کی تم نے سلف کی 
تمہاری داستاں ہم لکھ رہے ہیں 
اثر انداز ہوتا تھا جو دل پر 
وہ اندازِ بیاں ہم لکھ رہے ہیں 
خزاں دیدہ چمن تم نے لکھا تھا 
بہارِ گلستاں ہم لکھ رہے ہیں 
لکھا ہے تم نے سوزِ خانقاہی 
مجاہد کی اذاں ہم لکھ رہے ہیں 
نہیں ہے جن سے واقف بزمِ دوراں 
وہ اسرارِ نہاں ہم لکھ رہے ہیں 
اندھیرا چھٹ رہا ہے دھیرے دھیرے 
چراغِ ضو فشاں ہم لکھ رہے ہیں 
نویدِ ارمغاں حیدرؔ سنائے
ابھی آہ و فغاں ہم لکھ رہے ہیں
(حیدر میواتی ندوی۔ میوات، انڈیا)

۔۔۔
غزل
تیرے بن دل میرا قبرستان ہے 
دفن جس میں ایک اک ارمان ہے
خواب سب بکھرے پڑے ہیں جابجا 
آگیا غم کا عجب طوفان ہے
بے رخی پر عقل یہ حیران ہے
یوں ملا جیسے کوئی انجان ہے 
ہجر کی شب تیری یادوں کا ہجوم 
میرے جینے کا یہی سامان ہے
آج تک کوئی نہیں بھایا مجیدؔ
وہ گیا دل کا چمن ویران ہے
(مجید سومرو۔ پنو عاقل، سندھ)

۔۔۔
غزل
مجھ کو اتنی سی بس شکایت ہے
لمحہ بھر بھی نہیں رعایت ہے
دلِ مضطر سکون پائے جو
کیا پڑھوں کونسی وہ آیت ہے
یاخدا بخش دے، نجات اب تو
دل ہزیمت طرف سے غایت ہے
بن چکا ہے جگر نوالہ اب
سانس رک جا تجھے ہدایت ہے
موت دعوت کرے منور ؔکی
زیست کو اس قدر حمایت ہے
(منور علی۔ گجرات)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوئے مر جاتے ہیں ہم لکھ رہے ہیں نہیں ہوں میں ہو کے مرا ہے کے بیچ کے ہیں

پڑھیں:

سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز

جنگل کی طرح ’سماجی غول‘ بنانا

رضوان طاہر مبین

ایک ’غول‘ ضروری ہے، جی ہاں بہت ضروری ہے صاحب۔۔۔!

ہمارے آج کے سماج کی ایک تلخ حقیقت ایسی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے کچھ نہ کچھ ’ہم نوا‘ ہونا بہت ضروری ہیں، ورنہ آپ بُری طرح تنہا کردیے جاتے ہیں، جیسے کسی جنگل میں اکیلے جانور کو درندے بھنبھوڑ دیتے ہیں، اس لیے وہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی گروہ کے بغیر اس سماج کے ’طاقت وَر‘ آپ کو بھی بھنبھوڑ ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کسی موضوع پر اختلاف رائے یا اپنی آزادانہ رائے رکھنے کی پاداش میں یہی نام نہاد پڑھے لکھے اور ’’دانش وَر‘‘ آپ کو کچا نہ بھی چبا ڈالیں، تو پکا پکا کر ضرور نگل جائیں گے!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ ’غول‘ کیسا ہو۔۔۔؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوں کہ آپ اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اِسے آپ پیار سے یا مصلحت سے ’غول‘ کبھی نہیں کہیں گے، بلکہ ’ہم خیال‘ کہیں گے، ہم پیالہ بتائیں گے یا پھر کوئی ’لابی‘ کہلائیں گے۔

اب یہ ’لابی‘ کام کیا کرتی ہے۔۔۔؟

یہ بڑا دل چسپ سوال ہے، جناب، یہی تو پھر سارے کام کرتی ہے، اور بعضے وقت جب یہ کام کرتی ہے، تو کبھی کبھی تو آپ کو کچھ کرنے کی ہی ضرورت نہیں رہتی، سمجھ رہے ہیں ناں۔۔۔

اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی کوئی آپ پر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے، کسی بھی جگہ کوئی کٹھنائی ہو، زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، آڑھا یا ترچھا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، آپ کا یہ ’غول‘ اس نظریے کے تحت آپ کے ’دفاع‘ کے لیے سینہ سپر ہو جائے گا کہ ’’صحیح ہے یا غلط ہے، یہ اہم نہیں، آدمی ہمارا ہے بس یہی اہم ہے۔۔۔!!‘‘

اپنی ’لابی‘ بنانے کے لیے آپ کو کرنا کیا ہوگا۔۔۔؟

’غول‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے ’اتحاد‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اتحاد میں کتنی ’’برکت‘‘ ہوتی ہے، یہی برکت آپ کو یہاں اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اس ’اتحاد‘ کے واسطے اپنی ’لابی‘ کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملانا ہوگا۔ چاہے سورج آپ کے سر پر آگ برسا رہا ہو، لیکن اگر آپ کے ’جَتھے‘ نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت تاریک آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور جھینگر جھنگار رہا ہے، تو آپ کو بہر صورت یہی راگ الاپنا ہوگا کہ چاند کتنا روشن ہے اور اس وقت جھینگر کی آوازوں کے کیا زیر و بم ہیں۔

اس کے ساتھ ہی حسب ضرورت ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے اور مخالفانہ دلائل پر منطقی و غیر منطقی ہر دو طرح کے بھرپور تمسخرانہ انداز سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا، الغرض یہ جان لیجیے کہ آپ کے گروہ کے ’مائی باپوں‘ نے جو کہہ دیا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ بات کبھی فراموش نہیں کیجیے گا۔۔۔! اور آپ کی اپنی رائے/ نقطہ نظر/ اختلاف اور آپ کے اپنے ذاتی یا آزادانہ موقف ٹائپ کی کسی چیز کی اب کوئی گنجائش نہیں ہوگی، سچ صرف اور صرف وہی ہوگا جو آپ کے اِس ’’غول‘‘ نے کہہ دیا ہے، بات وہی اونچی ہوگی جو آپ کے ’’لَمڈوں‘‘ نے نعرۂ مستانہ بنا کر بلند کردی ہے۔۔۔ کوئی سچ کی تلاش نہیں ہوگی، عقل وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی استعمال نہیں ہوگا۔

بعد میں یہ ساری ’خرمستی‘ آپ کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کرے گی کہ آپ رات بے رات اور وقت بے وقت کچھ فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے لے کر آپ کی روزی روٹی، دکھ بیماری، کاروبار ملازمت، ترقی اور ہمہ قسم کے مفادات سے لے کر سماج کے بدمعاشوں اور ’غیر بدمعاشوں‘ کے سارے کے سارے مسائل اور وسائل اب آپ کی فکر بالکل بھی نہیں ہوگی، بلکہ جیسے آپ نے ہر بار ان کی ’ہاہاکار‘ میں حصہ ڈالا ہوگا، ایسے ہی صحیح یا غلط سے قطعی طور پر بے پروا ہو کر یہ بھی آپ کے وقت پڑنے پر جائز وناجائز ہر ’پھڈے‘ میں آپ کی پشت پر بلکہ آپ سے بھی آگے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو غول پسند معاشرے میں وہ سکون فراہم کریں گے کہ بس آپ سوچ ہی سکتے ہیں!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ گروہ یا ’لابی‘ کیسی ہو۔۔۔؟ یا یہ غول بنائے کیوں کر بنائے جا سکتے ہیں۔۔۔؟

اس کے لیے بے آپ اپنی ذاتی وخاندانی مماثلتیں ’کام میں‘ لے سکتے ہیں، جیسے:

آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔۔۔؟

کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

ملک کے کس صوبے کے رکھوالے اور کس علاقے کے نام لیوا ہیں۔۔۔؟

آپ کس نسل، ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

اتفاق سے آپ کے شجرے میں کوئی خاص عنصر یا شخصیت موجود ہے؟ تو آپ (موقعے کے لحاظ سے) اس کا عَلم بھی بلند کر سکتے ہیں۔

یہی نہیں آپ کا مذہب اور آپ کے مسلک اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ’غول‘ بننے کی یہ سہولت بہت سی سیاسی، مذہبی اور تفرقہ باز جماعتیں بھی بہت خوبی سے فراہم کرتی ہیں، اب تو اس کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ بھی دل وجان سے آپ کے لیے ’حاضر‘ ہیں، اور اس کام کے باقاعدہ ’معاوضے‘ سالانہ انعامات اور بین الاقوامی اکرامات کی صورت میں آپ کو ہاتھ کے ہاتھ مطمئن بھی کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ آپ ’قدرت‘ کی دی گئی ان مماثلتوں اور صلاحیتوں سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔۔۔!

کیوں کہ فی زمانہ یہ ساری خاصیتیں بڑی کارآمد اور کارگر ہیں، یہی نہیں ’غول‘ بنانے کے لیے آپ کے پیشے کا بھی کافی اہم کردار ہوتا ہے، آپ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ اور کام میں بھی کیسا اور ’’کس طرح‘‘ کے کام زیادہ فرماتے ہیں۔۔۔؟ اس مناسبت سے بھی آپ کسی نہ کسی سے گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔ اب ہم آپ کو کیا کیا کھل کر بتائیں کہ اگر آپ تاجر، شاعر، ادیب، صحافی، مصنف، ڈاکٹر، نرس، وکیل، استاد، بیوروکریٹ، بِلڈر، پراپرٹی ڈیلر ہیں، تو آپ بھی بہ آسانی اس سماج کے ’نائیوں‘، ’موچیوں‘ سے لے کر ’نان بائیوں‘ کی طرح ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انجمن تشکیل دے سکتے ہیں، اور انجمن سے ہمیں یاد آیا کہ اگر آپ ان میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب بھی ایک ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کی سہولت تو ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود رہتی ہے، جہاں دو، چار فارغ، (بلکہ طبیعت سے فارغ) مگر چالاک دماغ اور آگ آج کل کی زبان میں کہیے تو ’’سمجھ دار‘‘ احباب جمع ہوئے، لیجیے وہیں آپ کا ایک بھرپور کام یاب اور بھرپور فعال غول تیار ہوگیا ہے، اب آپ ایک دوسرے کے لیے ساری خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسے فارسی میں کہا گیا ہے کہ ’’میں تمھیں حاجی کہوں، تم مجھے مُلا کہو!‘‘

 بھارت کا سفارتی رافیل

ابنِ امین

ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید جنگ تھم چکی ہے، اور اب ہم ایک ذمے دار اور باشعور پڑوسی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کی کوئی صورت نکال لیں گے۔ لیکن ہمارا پڑوسی، جو کہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے، اس جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتا ہے جس کے نتائج کے بارے میں نہ یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کوئی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی سطح کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ تاہم، حالیہ پہلگام حملے (اپریل 2025) اور اس کے بعد بھارت کے 'آپریشن سندور' (مئی 2025) کے تناظر میں، بھارت نے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے۔

اس مہم کے تحت سات وفود دنیا کے مختلف خطوں میں روانہ کیے گئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان، بشمول مسلم اراکین پارلیمنٹ، اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کو شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت کی پوری سیاسی قیادت پاکستان سے درپیش خطرات پر یک زبان ہے۔ ان کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کا معاون ہے۔ یہ کوششیں بظاہر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔

اس سفارتی یلغار کے ساتھ ساتھ، بھارت نے دیگر جوابی اقدامات بھی کیے جن میں اہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش، سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی، پاکستانی سفارت کاروں کی بے دخلی، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزوں پر پابندی شامل تھی۔ خاص طور پر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اہم اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام تھا، جسے بھارت نے ’’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘‘ سے جوڑا۔ یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے کیوںکہ معاہدہ یک طرفہ کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صورت حال پانی کی سلامتی کو ایک اہم فلیش پوائنٹ میں بدل دیتی ہے، جو ممکنہ طور پر روایتی فوجی ذرائع سے بھی آگے تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔

اس تمام صورت حال میں، بھارتی سیاست داں اور سابق سفارت کار ششی تھرور کی نیویارک میں حالیہ ملاقاتیں اور موجودگی بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کے بیانیے کو مزید تقویت دینا ہے۔

تاہم، تجزیاتی نقطۂ نظر سے، یہی مہم پاکستان کے لیے ایک غیرمتوقع مگر غیرمعمولی سفارتی موقع کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایسے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور ان کی تائید کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے جاتے ہیں، تو لامحالہ بین الاقوامی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ادارے بھی اس بیانیے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے پاکستان کے مؤقف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت جس پلیٹ فارم کو صرف اپنا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہی پلیٹ فارم پاکستان کے لیے اپنے مؤقف کو سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کو محض دفاعی انداز اپنانے کی بجائے ایک فعال، شواہد پر مبنی اور بیانیہ ساز حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

پاکستان نے سفارتی سطح پر ابتدائی ردعمل میں عالمی سفیروں کو اعتماد میں لیا، حملے کی غیرجانب دار تحقیقات کی پیشکش کی، اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس معاہدے کی معطلی کو ایک ممکنہ اشتعال انگیز اقدام کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ فوری روابط قائم کیے تاکہ بھارت کے یک طرفہ بیانیے کو توازن دیا جا سکے۔ 

یہ تمام اقدامات ایک فعال اور اسٹریٹجک سفارت کاری کی غمازی کرتے ہیں، اور 2025 کے بحران کے بعد پاکستان کی میڈیا حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ماضی کے ’’ٹکڑے ٹکڑے، دفاعی اور ردعمل پر مبنی‘‘ نقطۂ نظر کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی سفارتی یلغار نے پاکستان کو بین الاقوامی مکالمے کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔

 ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی سیاسی بحران، اقتصادی غیریقینی صورت حال، اور سفارتی خاموشی کا شکار تھا، بھارت کی یہ مہم ایک اتفاقیہ موقع بن گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف خود کو ایک پرامن، قانون پر کاربند اور تعمیری ریاست کے طور پر متعارف کرائے بلکہ اپنے حقیقی چیلینجز، قربانیوں اور امن پسندی کو عالمی بیانیے کا حصہ بھی بنائے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں ’’غیرجانب دارانہ سے مثبت تاثر میں واضح اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان کے لیے اب ناگزیر ہے کہ وہ محض رسمی سفارتی بیانات سے آگے بڑھے اور ایک منظم، سائنسی، اور ادارہ جاتی حکمت عملی کے تحت عالمی میڈیا (جیسے CNN، BBC، Sky News)، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس اور ڈاسپورا نیٹ ورکس کو متحرک کرے۔ ڈاسپورا نیٹ ورکس سے مراد وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز ہیں جو اپنے میزبان ملکوں میں پالیسی، میڈیا، اور رائے سازی پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ نیٹ ورکس پاکستان کی سفارتی soft power کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

بھارت نے اپنے وفود میں صرف سیاست داں نہیں بلکہ سابق سفیروں، سفارتی ماہرین اور ابلاغی شخصیات کو شامل کر کے بیانیہ سازی کا ایک بھرپور ماڈل پیش کیا ہے۔

پاکستان کے لیے اس وقت چیلینج صرف ردعمل دینا نہیں بلکہ ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ہے جو مستقل بنیادوں پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ’’گرے زون‘‘ حکمت عملیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے، جہاں وہ جوہری حد سے نیچے محدود حملوں کے ذریعے اخراجات عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ’’جوہری تباہی کی طرف ایک غلط قدم کے خطرے‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا کی نظریں خطے پر مرکوز ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ، پالیسی ادارے، اور تجزیہ کار جنوبی ایشیا کی صورتحال کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر پیش کرے بلکہ اپنی دانش، امن پسندی اور سفارتی بلوغت سے ایک نئے عالمی امیج کی بنیاد رکھے۔ بھارت کی الزاماتی سفارت کاری پاکستان کے لیے ایک ایسے کوریڈور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو سفارتی تنہائی کو سفارتی مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید
  • سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • تین سال پہلے کے نرخ اب؟
  • بس اب بہت ہو چکا
  • عید الاضحی کا اہم پیغام