Express News:
2025-11-03@16:37:29 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT

غزل
 ہوتا ہوں آپ میں کبھی ہوتا نہیں ہوں میں
کیوں کر بنوں کسی کا کہ اپنا نہیں ہوں میں 
اک عمر یہ شعور سمجھتے گزر گئی
لیکن شعور آج بھی سمجھا نہیں ہوں میں 
اے دوست تجھ کو حق ہے مجھے تو بھی چھوڑ دے
اب تو کسی کے حق میں منافع نہیں ہوں میں 
سچ ہے ترے رفیق کے جیسا میں نہیں تھا 
خوش ہوں ترے رفیق کے جیسا نہیں ہوں میں
جاہ و جلال ہے ترا کمتر تری طرح 
دنیا ترے مقام کا بھوکا نہیں ہوں میں
سب کچھ لٹا کے خاک بسر در بدر پھرا
پر کندِ نہ تراش کو بھایا نہیں ہوں میں
کاظم ؔمرا خدا ہے جو شہ رگ سے ہے قریب 
اتنا اداس ہو نہیں تنہا نہیں ہوں میں
(کاظم رضا۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل
میرا تھا مگر مجھ سے جدا ہو کے مرا ہے
اک شخص گرفتارِ انا ہو کے مرا ہے
بخشی تھی محبت نے جسے رونقِ دنیا
ویرانے میں نفرت کا خدا ہو کے مرا ہے
آواز کی لہروں کے تعاقب میں پریشاں
اک شور مری چپ کی صدا ہو کے مرا ہے
کس واسطے سورج پہ میں الزام لگاؤں
دیوار سے جب سایہ خفا ہو کے مرا ہے
مدت سے نگہباں تھا مرے ضبط کا حانی
آنکھوں سے جو کل اشک ادا ہو کے مرا ہے
(حانی ہنجرا۔ڈسکہ)

۔۔۔
غزل
دشتِ الفت میں کھو گئے آخر
جان سے ہاتھ دھو گئے آخر
رات اختر شماریوں میں کٹی
تو نہ آیا تو سو گئے آخر
تیری ہر بات مان لیتے ہیں
تو نے چاہا تو لو گئے آخر
عشق کا سلسلہ عجیب سا ہے
ہنستے پہلے تھے رو گئے آخر
جان اپنی بھی وار دی ہم نے
تم ہمارے نہ ہو گئے آخر
میرے محبوب تیری فرقت میں
چار کندھوں پہ ڈھو گئے آخر
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)

۔۔۔
غزل
 پیٹ کی آگ بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 
لوگ مزدوری کماتے ہوئے مر جاتے ہیں 
اے بشر پیڑ نہ کاٹ اِن پہ ہمارے گھر ہیں
’ ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ‘
ایسے گھڑتے ہیں کچھ احباب مَصارع جن کو 
سب گلوکار بھی گاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جانے کتنے ہیں مصور جو تری چاہت میں
تیری تصویر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں 
مانگتا ہے وہ تعلق میں سہولت محکم
اور ہم ساتھ نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 
(زین محکم سکھیکی۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل
قہقہے آنسوئوں میں تر کرلو
اب یونہی زندگی  بسر کرلو
جھوٹ کے سلسلے نہیں روکو
بس انھیں تھوڑا مختصر کرلو
اس میں آخر فریب  ملتا ہے
پیار جتنا بھی ٹوٹ کر، کرلو
غم نبھاتا ہے ساتھ مرنے تک 
سو، اسے اپنا ہمسفر کرلو
سچ نے تو آشکار ہونا ہے
تم بھلے لاکھ اگر مگر کرلو
آگہی کرب ہے نزاکتؔ جی
خود کوخودسے بھی بے خبر کرلو
 (نزاکت ریاض۔پنڈ مہری، تحصیل حسن ابدال)

۔۔۔
غزل
اُس مشربِ وصال کی وہ چاشنی ملی 
ہر چیز رقص کرتے ہوئے ڈولتی ملی
سورج کی کیا مجال جو روشن اِسے کرے 
ماہِ فلک کو تجھ سے یہ تابندگی ملی 
یہ کارِ سخت پہلے نہ تھا میرا ہم مزاج 
تجھ سے ملا تو عشق کی جادوگری ملی 
میں ہوں نوائے وقتِ سحر، نغمہ ہائے شوق
مجھ سے ہی اس چمن کو ترو تازگی ملی 
کرتا ہوں خرچ اس کو میانہ روی کے ساتھ
معلوم ہے کہ زیست نہیں مفت کی ملی
مانگا خدا سے کوئی جو مجھ کو سمجھ سکے 
بدلے میں کوئے فکر تری دوستی ملی
( جنید ضیاء۔ بونیر)

۔۔۔
غزل
پہلو نشیں رہا ہے جو کل تک کدھر گیا
جانے کہاں یہ میرا دلِ در بدر گیا 
جاتے ہیں میرے سامنے وہ غیر کی طرف
ہائے! کوئی سنبھالے یہ میرا جگر گیا
اندھے کے ہاتھ آئی ہے تلوارِ تند و تیز
آئے گا جو بھی سامنے اس کا تو سر گیا 
پھیلی ہوئی ہے ہر سو اداسی مکان میں
ایسے وہ چھوڑ کر مرے دیوار و در گیا 
اب تو دلِ بے چارہ کا چارہ نہیں کوئی
جب سے چھڑا کے ہاتھ مرا چارہ گر گیا 
پہلے پہل تو دور سے پہچانتا تھا وہ
لیکن وہ آج پاس سے گزرا، گزر گیا 
ٹھہری ہوئی ہے آج بھی یہ نظرِ پر امید
جس راہ مجھ کو چھوڑ مرا ہمسفر گیا 
آنکھوں کا رزقِ اشک ہوا تنگ کس لیے
کس واسطے یہ رنج کا  دریا اتر گیا
اک بار کے فریب سے آیا نہ باز دل
چوکھٹ پہ ان کی آج میں بارِ دگر گیا
ہیں ثبت اب بھی دل پہ نقوشِ رخِ جمال
دیکھے اسے اگرچہ زمانہ گزر گیا
اب آئے ہیں وہ کس لیے لینے مری خبر
کوئی انھیں بتاؤ کہ فیصل ؔتو مر گیا
(فیصل رشید۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل
ہوا سے دوستی ہے، خواب روشنی کے ہیں
 مری جناب، مسائل یہ زندگی کے ہیں
قدم قدم پہ بکھرتی ہیں آرزو کلیاں
 جو راستے میں کھڑے پل ہیں بے بسی کے ہیں
چراغ لے کے چلے ہیں ہوا کے پہلو میں
 ہمیں خبر ہے یہ لمحے تو بے کلی کے ہیں
نگاہِ شوق میں جو عکس جگمگاتے ہیں
 وہ آئینے تو نہیں، ٹکڑے روشنی کے ہیں
صدا یہ دیتی ہے ہر شے سکوتِ شب میں کہیں
 جو درد، ہنستے لبوں پر ہیں شاعری کے ہیں
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
آنسو دکھائی دیتے ہیں کب بارشوں کے بیچ
جینا بھی اک کمال ہے ان حادثوں کے بیچ
مزدور نیند پوری کرے یا وہ دیکھے خواب
اک خواب ٹوٹتا ہے کئی کروٹوں کے بیچ
اک عکس تھا کہ جس سے تھی اچھی دعا سلام
وہ بھی نہ ٹوٹ جائے کہیں آئنوں کے بیچ
نطشے کا فلسفہ ہو کہ اقبال کی خودی
دونوں ہی دفن ہوگئے ہیں سازشوں کے بیچ 
اک دائرہ ہے زندگی اس مستطیل میں
چھپنا فضول جائے گا سب زاویوں کے بیچ  
ٹانکا کہاں چھپا ہے کہاں کوئی چاک ہے
کرتے کا رہ گیا ہے بھرم سلوٹوں کے بیچ
آنکھوں نے ضبط سیکھ لیا ایک عمر  بعد
کب تک بھلا وہ رہتی مری عادتوں کے بیچ
ٓپیتا اگر نہ زہر تو پھر سوچ یہ مقیمؔ
سقراط کیسے رہتا بھلا بزدلوں کے بیچ
(رضوان مقیم ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
نوائے باغباں ہم لکھ رہے ہیں 
صدائے بلبلاں ہم لکھ رہے ہیں
رقم تاریخ کی تم نے سلف کی 
تمہاری داستاں ہم لکھ رہے ہیں 
اثر انداز ہوتا تھا جو دل پر 
وہ اندازِ بیاں ہم لکھ رہے ہیں 
خزاں دیدہ چمن تم نے لکھا تھا 
بہارِ گلستاں ہم لکھ رہے ہیں 
لکھا ہے تم نے سوزِ خانقاہی 
مجاہد کی اذاں ہم لکھ رہے ہیں 
نہیں ہے جن سے واقف بزمِ دوراں 
وہ اسرارِ نہاں ہم لکھ رہے ہیں 
اندھیرا چھٹ رہا ہے دھیرے دھیرے 
چراغِ ضو فشاں ہم لکھ رہے ہیں 
نویدِ ارمغاں حیدرؔ سنائے
ابھی آہ و فغاں ہم لکھ رہے ہیں
(حیدر میواتی ندوی۔ میوات، انڈیا)

۔۔۔
غزل
تیرے بن دل میرا قبرستان ہے 
دفن جس میں ایک اک ارمان ہے
خواب سب بکھرے پڑے ہیں جابجا 
آگیا غم کا عجب طوفان ہے
بے رخی پر عقل یہ حیران ہے
یوں ملا جیسے کوئی انجان ہے 
ہجر کی شب تیری یادوں کا ہجوم 
میرے جینے کا یہی سامان ہے
آج تک کوئی نہیں بھایا مجیدؔ
وہ گیا دل کا چمن ویران ہے
(مجید سومرو۔ پنو عاقل، سندھ)

۔۔۔
غزل
مجھ کو اتنی سی بس شکایت ہے
لمحہ بھر بھی نہیں رعایت ہے
دلِ مضطر سکون پائے جو
کیا پڑھوں کونسی وہ آیت ہے
یاخدا بخش دے، نجات اب تو
دل ہزیمت طرف سے غایت ہے
بن چکا ہے جگر نوالہ اب
سانس رک جا تجھے ہدایت ہے
موت دعوت کرے منور ؔکی
زیست کو اس قدر حمایت ہے
(منور علی۔ گجرات)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوئے مر جاتے ہیں ہم لکھ رہے ہیں نہیں ہوں میں ہو کے مرا ہے کے بیچ کے ہیں

پڑھیں:

شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟

محبت کے بادشاہ، شاہ رخ خان آج اپنی 60ویں سالگرہ منا رہے ہیں، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئی نسل جین زی آج بھی ان کی پرانی رومانوی فلموں کی دیوانی ہے۔ جدید دور میں جہاں رشتے ڈیٹنگ ایپس اور میسجنگ تک محدود ہو گئے ہیں، وہاں نوجوان نسل پرانے انداز کی محبت میں پھر سے کشش محسوس کر رہی ہے اور اس کے مرکز یقینا شاہ رخ خان ہیں۔

’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’ویر زارا‘ اور ’محبتیں‘ جیسی فلمیں آج بھی نوجوانوں کے جذبات کو چھو رہی ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور تھیٹر ری ریلیز کے ذریعے یہ فلمیں دوبارہ دیکھی جا رہی ہیں اور جین زی فلمی شائقین شاہ رخ خان کے سادہ مگر گہرے رومانس کو نئے انداز میں سراہ رہے ہیں۔

فلم ٹریڈ تجزیہ کار گِرش وانکھیڑے کے مطابق، شاہ رخ خان کا جین زی سے تعلق صرف یادوں تک محدود نہیں بلکہ ان کی خود کو وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت نے انہیں ہر دور سے وابستہ رکھا ہے۔

انہوں نے کہا، ’شاہ رخ خان ہمیشہ سے آگے سوچنے والے فنکار ہیں۔ وہ میڈیا، ٹیکنالوجی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ خود کو اپڈیٹ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو صرف ایک اداکار نہیں بلکہ ایک برانڈ کے طور پر منوایا ہے۔‘

اسی طرح فلمی ماہر گِرش جوہر کا کہنا ہے کہ یہ نیا جنون کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک فطری تسلسل ہے۔ ان کا ماننا ہے، ’شاہ رخ خان ایک عالمی ستارہ ہیں۔ ان کی فلموں میں جو جذبہ اور رومانوی اپیل ہے، وہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ آج بھی دیکھیں تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے، یہی ان کی فلموں کی ابدی طاقت ہے۔‘

شاہ رخ خان کی پرانی فلموں کے مناظر اکثر انسٹاگرام ریلز اور ٹک ٹاک پر دوبارہ وائرل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ جین زی انہیں نئے رنگ میں پیش کرتی ہے، مگر محبت کا جذبہ وہی رہتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یش راج فلمز اور دیگر پروڈکشن ہاؤسز اب ان فلموں کو خاص مواقع پر محدود ریلیز کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ نئی نسل ان فلموں کو بڑی اسکرین پر دیکھ سکے۔

جنرل منیجر ڈی لائٹ سینماز راج کمار ملہوتراکے مطابق: ’یہ ری ریلیز بزنس کے لیے نہیں بلکہ ناظرین کے جذبات کے لیے کی جاتی ہیں۔ شاہ رخ خان کی فلموں کے گانے، کہانیاں اور کردار لوگوں کے دلوں میں پہلے سے جگہ بنا چکے ہیں، اس لیے لوگ دوبارہ وہ تجربہ جینا چاہتے ہیں۔‘

اگرچہ یہ ری ریلیز بڑے مالی منافع نہیں دیتیں، مگر ان کی ثقافتی اہمیت بے مثال ہے۔ تھیٹرز میں نوجوان شائقین 90 کی دہائی کے لباس پہن کر فلمیں دیکھنے آتے ہیں، گانوں پر جھومتے ہیں اور مناظر کے ساتھ تالیاں بجاتے ہیں اس طرح ہر شو ایک جشن میں بدل جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی مقبولیت کا راز صرف یادیں نہیں بلکہ ان کی مسلسل تبدیلی اور ارتقاء ہے۔ حالیہ بلاک بسٹر فلمیں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ رومانس کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ایکشن کے بھی شہنشاہ بن چکے ہیں۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ جین زی کے لیے شاہ رخ خان صرف ایک اداکار نہیں بلکہ محبت کی علامت ہیں۔ ڈیجیٹل دور کے شور میں ان کی فلمیں یاد دلاتی ہیں کہ عشق اب بھی خالص، جذباتی اور انسانی ہو سکتا ہے۔

شاید اسی لیے، جب تک کوئی راج اپنی سمرن کا انتظار کرتا رہے گا، شاہ رخ خان ہمیشہ محبت کے بادشاہ رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد