UrduPoint:
2025-06-10@22:09:53 GMT

تلخ بحث کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی کی اولین ملاقات

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

تلخ بحث کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی کی اولین ملاقات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اپریل 2025ء) آج ہفتہ 26 اپریل کو ویٹی کن سٹی میں پوپ فرانسس کی تدفین کے موقع پر امریکی اور یوکرینی صدور کے مابین سینٹ پیٹرز بیسیلیکا میں مختصر ملاقات ہوئی۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی تلخ بحث کے بعد یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ اس دوران امریکی صدر نے یوکرینی رہنما پر روس کے ساتھ امن معاہدے کے لیے زور دیا۔

صدر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں روس کے ساتھ بغیر کسی شرط کے جنگ بندی کے امکان پر بھی گفتگو کی۔ انہوں نے اسے ''ایک علامتی ملاقات‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مختصر گفتگو سے امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔

دوسری جانب روس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی افواج نے ''سرحدی علاقے کروسک کو مکمل طور پر آزاد کرا لیا ہے‘‘۔

(جاری ہے)

یوکرین کا تاہم کہنا ہے کہ اس کی فوج اب بھی روسی علاقے کروسک کے محاذوں پر لڑ رہی ہے۔ یوکرین مستقبل میں امن مذاکرات میں اس ریجن کو سودے بازی کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔

یوکرینی صدارت کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں دکھایا گیا کہ ٹرمپ اور زیلنسکی پوپ فرانسس کی تدفین سے قبل بیسیلیکا کے ایک گوشے میں آمنے سامنے بیٹھے گہرے گفتگو میں مصروف تھے۔

زیلنسکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''ہم نے مختلف موضوعات پر کھل کر بات چیت کی۔ تمام پہلوؤں پر مثبت نتائج کی امید ہے۔ اپنے عوام کی جانوں کا تحفظ، مکمل اور غیر مشروط جنگ بندی اور ایسا پائیدار امن جو کسی نئی جنگ کو روکے۔‘‘

زیلنسکی کے معاون نے بھی اس ملاقات کو ''تعمیری‘‘ قرار دیا جبکہ وائٹ ہاؤس نے اس رابطے کو ''انتہائی نتیجہ خیز گفتگو‘‘ کہا۔

تاہم امریکی صدر جنازے کی رسم کے بعد طے شدہ شیڈول کے مطابق روم سے روانہ ہو گئے اور مزید بات چیت نہیں ہوئی۔ دیگر یورپی رہنماؤں کے ساتھ بھی ٹرمپ کی ملاقات

دونوں رہنماؤں نے برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر اور فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے ساتھ بھی مختصر بات چیت کی۔

ماکروں کے دفتر نے چاروں رہنماؤں کے درمیان تبادلہ خیال کو ''مثبت‘‘ قرار دیا اور بعد میں ماکروں نے زیلنسکی سے علیحدہ ملاقات بھی کی۔

سینٹ پیٹرز اسکوائر میں امریکی صدر ٹرمپ دنیا بھر کے درجنوں رہنماؤں سے ملے، جو ان سے تجارتی محصولات اور دیگر مسائل پر بات کرنا چاہتے تھے۔

لیکن سب سے زیادہ توجہ ٹرمپ کی زیلنسکی کے ساتھ ملاقات کو ملی کیونکہ امریکی صدر یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ٹرمپ اگرچہ صدر ولادیمیر پوٹن سے یوکرین پر حملے روکنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے جنگ کا الزام زیلنسکی پر بھی عائد کیا ہے۔

ہفتے کے دن روم پہنچنے کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا کہ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور اب روس و یوکرین کے رہنماؤں کو اعلیٰ سطح پر مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا، ''زیادہ تر اہم نکات پر اتفاق ہو چکا ہے‘‘۔

ادھر پوٹن نے بھی امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے ساتھ ملاقات میں یوکرین سے براہ راست مذاکرات کے امکان پر گفتگو کی۔

ٹرمپ کی یورپی کمیشن کی صدر سے بھی ملاقات

یورپی اتحادیوں کو تجارتی محصولات کے فیصلے سے ناراض کرنے کے باوجود ٹرمپ نے یورپی کمیشن کی سربراہ ارزلا فان ڈئر لایئن سے مصافحہ کیا اور ان سے ملاقات پر اتفاق کیا۔ اس موقع پر دیگر رہنما بھی ان کے ساتھ بات کرنے کے خواہاں نظر آئے۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ملاقاتیں مختصر ہوں گی، ''سچ کہوں تو جنازے کے موقع پر ملاقاتیں کرنا کچھ بے ادبی سی لگتی ہے۔‘‘

ادارت: افسر اعوان

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی صدر کے ساتھ کی صدر کے بعد

پڑھیں:

امریکی شہر لاس اینجلس میں مظاہرے اور بدامنی جاری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جون 2025ء) امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں امیگریشن حکام کے چھاپوں کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ رات بھی جاری رہا، جہاں پولیس نے شہر کے مرکزی علاقوں میں احتجاج کو ختم کرانے کی کوشش کیں۔

اطلاعات کے مطابق شہر کے بعض علاقوں میں گاڑیوں کو جلا دیے جانے کے واقعات بھی پیش آئے، جبکہ قانون نافذ کرنے والے حکام کے زیر استعمال گاڑیوں پر پتھراؤ کے بعض واقعات بھی پیش آئے۔

حکام نے شہر کی بعض اہم شاہراہوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

ایل اے پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین ’’ڈاؤن ٹاؤن ایریا تک پہنچ گئے تھے، جہاں سے اب وہ باہر نکل گئے ہیں۔‘‘

لاس اینجلس: تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن، مظاہرے، جھڑپیں، نیشنل گارڈ کی تعیناتی

واضح رہے کہ جمعے کے روز امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے وفاقی ایجنٹوں کے جانب سے متعدد چھاپوں کے دوران درجنوں افراد کی گرفتاری کے بعد پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

درجنوں افراد گرفتار

امیگریشن حکام کے چھاپوں کے بعد علاقے کے ہزاروں افراد ان کارروائیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

محکمہ پولیس کا کہنا ہے کہ لاس اینجلس میں بدامنی کے دوران اب تک کم از کم 39 افراد کو گرفتار کیا گیا اور پولیس نے متنبہ کیا ہے کہ مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی۔

مقامی پولیس نے اس احتجاج کو روکنے کے لیے ’غیر قانونی اجتماع‘ پر پابندی کا بھی اعلان کیا ہے۔

جدید شہروں میں آگ تیزی سے کیوں پھیلتی ہے اور سدباب کیا ہے؟

پولیس چیف جم میکڈونل نے بتایا کہ گزشتہ رات 29 افراد کو گرفتار کیا گیا، جبکہ کم از کم تین پولیس افسران کو معمولی چوٹیں آئیں۔

ان کا کہنا تھا، ’’ہم مزید گرفتاریاں کر رہے ہیں جیسا کہ ہم کہہ رہے ہیں اور ہم اس پوزیشن میں جانے کی کوشش میں ہیں، جہاں ہم مزید گرفتاریاں کر سکیں۔

‘‘

پولیس چیف جم میکڈونل نے کہا، ’’ہم لوگوں کو جواب دہ بنائیں گے اور اس تشدد کو روکنے کے لیے ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، کریں گے۔‘‘

صدر ٹرمپ کی مسلح دستے تعینات کرنے کی ہدایت

امریکی صدر ٹرمپ نے اس دوران اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اس احتجاج پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن پر زور دیا۔

ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے لکھا کہ ایل اے پولیس کے سربراہ جم میکڈونل نے کہا ہے کہ وہ ایل اے میں مسلح دستے لانے کے بارے میں ’’صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔ انہیں چاہیے، ابھی!!! ان ٹھگوں کو اس سے بھاگنے نہ دیں۔ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں!"

انہوں نے اپنی ایک اور پوسٹ میں لکھا، ’’لاس اینجلس میں واقعی سب کچھ برا دکھائی دے رہا ہے، مسلح دستے بلائیے!"

اپنی ایک اور پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے لکھا: ’’چہروں پر ماسک پہنے لوگوں کو ابھی، فوراﹰ گرفتار کرو!‘‘

لاس اینجلس: آگ کے سبب ہلاکتیں 16، ڈیڑھ لاکھ بے گھر، ٹرمپ کی تنقید

کیلیفورنیا کے گورنر کی صدر ٹرمپ پر سخت تنقید

ریاست کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم کا کہنا ہے کہ ’صورتحال مزید شدت اختیار کر سکتی‘ ہے اور ’میرینز کی تعیناتی کا خدشہ‘ بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے لاس اینجلس میں ہونے والے مظاہروں کے دوران میرینز کی تعینات کرنے کی دھمکی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’امن و امان کے تحفظ‘‘ کے لیے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے، جبکہ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے خبردار کیا ہے کہ پینٹاگون قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں کی مدد کے لیے لاس اینجلس میں فعال ڈیوٹی میرینز بھیجنے کے لیے تیار ہے۔

عام طور پر گورنر کی درخواست پر ہی ریاست کی نیشنل گارڈ فورس کو تعینات کیا جاتا ہے۔ تاہم ایکس پر ایک پوسٹ میں نیوزوم نے کہا، ’’مظاہروں کے خلاف کارروائی کا نظم و نسق مقامی پولیس نے سنبھال رکھا تھا، اس کے باوجود ٹرمپ نے اس طرح کا اقدام کیا ہے۔‘‘

امریکہ: لاکھوں تارکین وطن ملک بدر کیے جانے کا امکان

انہوں نے مزید کہا: ’’لاس اینجلس، پرامن رہیں۔

اس جال میں نہ آئیں، جس کی انتہا پسند امید کر رہے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ کیلیفورنیا کے گورنر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کو ’’غیر قانونی‘‘ اور ’’غیر اخلاقی‘‘ فعل قرار دیتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’’ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ حالات پیدا کیے ہیں، جو آج رات آپ اپنے ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے ۔ ۔ ۔ وہ اس آگ میں ایندھن ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔‘‘

ریاستی گورنر نے صدر ٹرمپ کی جانب سے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کو ایک غیر آئینی عمل قرار دیتے ہوئے کہا، ’’ہم کل اس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے بارے میں غور کرنے والے ہیں۔‘‘

نیوزوم نے ٹرمپ کو ’’سرد پتھر کے مانند جھوٹا‘‘ قرار دیا اور کہا کہ احتجاج شروع ہونے کے بعد صدر نے جب فون کال کی، تو اس دوران انہوں نے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے بارے میں کوئی بات تک نہیں کی تھی۔

ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی افغان شہریوں کے لیے بڑا دھچکہ

لاس اینجلس کی میئر کا بھی ٹرمپ پر الزام

لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے بھی ٹرمپ انتظامیہ پر الزام عائد اور کہا کہ وائٹ ہاؤس ہی شہر میں کشیدگی میں اضافے کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ پرامن رہیں اور ’’(امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ) کی انتظامیہ کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔

‘‘

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے میئر باس نے کہا کہ ایل اے میں منظر عام پر آنے والی ’’افراتفری (ٹرمپ) انتظامیہ کی جانب سے اکسائے جانے کا نتیجہ ہے۔‘‘

واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس نے نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر بدامنی جاری رہی تو وہاں میرینز کو بھی بھیج دیا جائے گا۔

باس نے کہا، ’’جب آپ ہوم ڈپو اور کام کی جگہوں پر چھاپے مارتے ہیں، جب آپ والدین اور بچوں کو جدا کرتے ہیں، اور جب آپ ہماری سڑکوں پر بکتر بند دستوں کے قافلے لاتے ہیں، تو آپ خوف و ہراس کا باعث بنتے ہیں۔ اور وفاقی دستوں کی تعیناتی تو خطرناک قسم کی کشیدگی میں اضافہ ہی کرتی ہے۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ پنجاب سے امریکی ناظم الامور اور قونصل جنرل کی ملاقات
  • ٹرمپ کی پالیسیاں، تنازعات کا ابھار
  • امریکی ناظم الامور نٹالی بیکر اور قونصل جنرل کرسٹن ہاکنز کی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے ملاقات
  • کیا صدر ٹرمپ امریکا کو مارشل لا کی طرف لے جا رہے ہیں؟
  • ایران پر نئی امریکی پابندیاں‘ 10 افراد اور 27 ادارے بلیک لسٹ
  • امریکا سے جوہری مذاکرات کا چھٹا دور اتوار کو ہوگا، ایران
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حادثے سے بال بال بچ گئے
  • ٹرمپ کی غزہ پر نظر برقرار، ایک بار پھر امریکی تحویل میں لینے کا اشارہ دے دیا
  • امریکی شہر لاس اینجلس میں مظاہرے اور بدامنی جاری
  • جرمن چانسلر کی ٹرمپ سے ملاقات، ان کے دادا کی جائے پیدائش کا سرٹیفکیٹ بطور تحفہ پیش