تلخ بحث کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی کی اولین ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اپریل 2025ء) آج ہفتہ 26 اپریل کو ویٹی کن سٹی میں پوپ فرانسس کی تدفین کے موقع پر امریکی اور یوکرینی صدور کے مابین سینٹ پیٹرز بیسیلیکا میں مختصر ملاقات ہوئی۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی تلخ بحث کے بعد یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ اس دوران امریکی صدر نے یوکرینی رہنما پر روس کے ساتھ امن معاہدے کے لیے زور دیا۔
صدر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں روس کے ساتھ بغیر کسی شرط کے جنگ بندی کے امکان پر بھی گفتگو کی۔ انہوں نے اسے ''ایک علامتی ملاقات‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مختصر گفتگو سے امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب روس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی افواج نے ''سرحدی علاقے کروسک کو مکمل طور پر آزاد کرا لیا ہے‘‘۔
(جاری ہے)
یوکرین کا تاہم کہنا ہے کہ اس کی فوج اب بھی روسی علاقے کروسک کے محاذوں پر لڑ رہی ہے۔ یوکرین مستقبل میں امن مذاکرات میں اس ریجن کو سودے بازی کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔یوکرینی صدارت کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں دکھایا گیا کہ ٹرمپ اور زیلنسکی پوپ فرانسس کی تدفین سے قبل بیسیلیکا کے ایک گوشے میں آمنے سامنے بیٹھے گہرے گفتگو میں مصروف تھے۔
زیلنسکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''ہم نے مختلف موضوعات پر کھل کر بات چیت کی۔ تمام پہلوؤں پر مثبت نتائج کی امید ہے۔ اپنے عوام کی جانوں کا تحفظ، مکمل اور غیر مشروط جنگ بندی اور ایسا پائیدار امن جو کسی نئی جنگ کو روکے۔‘‘
زیلنسکی کے معاون نے بھی اس ملاقات کو ''تعمیری‘‘ قرار دیا جبکہ وائٹ ہاؤس نے اس رابطے کو ''انتہائی نتیجہ خیز گفتگو‘‘ کہا۔
تاہم امریکی صدر جنازے کی رسم کے بعد طے شدہ شیڈول کے مطابق روم سے روانہ ہو گئے اور مزید بات چیت نہیں ہوئی۔ دیگر یورپی رہنماؤں کے ساتھ بھی ٹرمپ کی ملاقاتدونوں رہنماؤں نے برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر اور فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے ساتھ بھی مختصر بات چیت کی۔
ماکروں کے دفتر نے چاروں رہنماؤں کے درمیان تبادلہ خیال کو ''مثبت‘‘ قرار دیا اور بعد میں ماکروں نے زیلنسکی سے علیحدہ ملاقات بھی کی۔
سینٹ پیٹرز اسکوائر میں امریکی صدر ٹرمپ دنیا بھر کے درجنوں رہنماؤں سے ملے، جو ان سے تجارتی محصولات اور دیگر مسائل پر بات کرنا چاہتے تھے۔
لیکن سب سے زیادہ توجہ ٹرمپ کی زیلنسکی کے ساتھ ملاقات کو ملی کیونکہ امریکی صدر یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ اگرچہ صدر ولادیمیر پوٹن سے یوکرین پر حملے روکنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے جنگ کا الزام زیلنسکی پر بھی عائد کیا ہے۔
ہفتے کے دن روم پہنچنے کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا کہ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور اب روس و یوکرین کے رہنماؤں کو اعلیٰ سطح پر مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا، ''زیادہ تر اہم نکات پر اتفاق ہو چکا ہے‘‘۔
ادھر پوٹن نے بھی امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے ساتھ ملاقات میں یوکرین سے براہ راست مذاکرات کے امکان پر گفتگو کی۔
ٹرمپ کی یورپی کمیشن کی صدر سے بھی ملاقاتیورپی اتحادیوں کو تجارتی محصولات کے فیصلے سے ناراض کرنے کے باوجود ٹرمپ نے یورپی کمیشن کی سربراہ ارزلا فان ڈئر لایئن سے مصافحہ کیا اور ان سے ملاقات پر اتفاق کیا۔ اس موقع پر دیگر رہنما بھی ان کے ساتھ بات کرنے کے خواہاں نظر آئے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ملاقاتیں مختصر ہوں گی، ''سچ کہوں تو جنازے کے موقع پر ملاقاتیں کرنا کچھ بے ادبی سی لگتی ہے۔‘‘
ادارت: افسر اعوان
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی صدر کے ساتھ کی صدر کے بعد
پڑھیں:
روس نے امریکی پرزوں والا شمالی کورین میزائل استعمال کیا ہے، صدر زیلنسکی
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یوکرینی صدر نے کہا کہ کیف میں شہریوں کی ہلاکت کا سبب بننے والے میزائل میں کم از کم 116 ایسے پرزے شامل تھے، جو دیگر ممالک سے فراہم کیے گئے، اور بدقسمتی سے ان میں سے بیشتر امریکی کمپنیوں کے تیار کردہ تھے۔ اسلام ٹائمز۔ یوکرینی صدر زیلنسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ روس کی جانب سے دارالحکومت کیف پر فائر کیے جانے والا میزائل شمالی کوریا کا فراہم کردہ تھا، جس میں درجنوں پرزے امریکی کمپنیوں کے تیار کردہ تھے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یوکرینی صدر نے کہا کہ کیف میں شہریوں کی ہلاکت کا سبب بننے والے میزائل میں کم از کم 116 ایسے پرزے شامل تھے، جو دیگر ممالک سے فراہم کیے گئے، اور بدقسمتی سے ان میں سے بیشتر امریکی کمپنیوں کے تیار کردہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال نہایت تشویشناک ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ روس اور شمالی کوریا کے درمیان عسکری تعاون مسلسل بڑھ رہا ہے، جس کے اثرات عالمی امن و سلامتی پر پڑ سکتے ہیں۔ زیلنسکی نے عالمی برادری خصوصاً امریکا اور اس کے اتحادیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ روس اور شمالی کوریا پر مزید سخت پابندیاں عائد کریں، ہمیں اس صورت حال پر خاموش نہیں رہنا چاہیے، روس شمالی کوریا سے مہلک ہتھیار لے رہا ہے اور ان میں استعمال ہونے والی مغربی ٹیکنالوجی عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ حالیہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ جو میزائل کیف پر گرا، وہ ایک ایسا جدید اسلحہ تھا جو بظاہر شمالی کوریا نے تیار کیا اور روس کو فراہم کیا، یہ میزائل شہری علاقوں میں استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں عام شہری ہلاک و زخمی ہوئے۔ یوکرین کا کہنا تھا کہ روس مسلسل شہری علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور اب جب کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ میزائل نہ صرف شمالی کوریا سے آیا بلکہ اس میں امریکی ٹیکنالوجی بھی استعمال ہوئی، دنیا کو مزید سنجیدگی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔
واضح رہے کہ روسی افواج اور یوکرینی فوج کے درمیان جنگ فروری 2022 سے جاری ہے اور اس دوران روس پر متعدد بار یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ دیگر ممالک سے ہتھیار حاصل کر کے یوکرین میں استعمال کر رہا ہے، شمالی کوریا کی جانب سے روس کو اسلحہ فراہم کیے جانے کی اطلاعات پہلے بھی سامنے آ چکی ہیں تاہم حالیہ انکشاف اس سلسلے کا سب سے اہم اور تشویشناک باب ہے۔