فوجی عدالتوں سے متعلق کیس میں جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ پالیسی فیصلہ حکومت جو مرضی کرے عدالت نے تو اپنا کیس دیکھنا ہے۔ حکومت کے پالیسی فیصلے سے مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ پالیسی فیصلہ بھی کرلیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا ہے سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں۔ پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرے یا نہ کرے۔

سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 3 نکات پر دلائل عدالت کے سامنے رکھوں گا۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ 9 مئی کو کیا ہوا تھا؟ دوسرا نکتہ عدالت کو کرائی گئی یقین دہانیوں پر عملدرآمد کا ہے، تیسرا نکتہ اپیل کا حق دینے سے متعلق ہے۔ گزشتہ ہفتے فیصلہ ساز نہروں کے مسئلے اور پاک بھارت تنازع میں مصروف رہے۔ اپیل کے حق والے نکلتے پر حکومت سے مشاورت کے لیے مزید ایک ہفتہ درکار ہوگا۔

مزید پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: شکایت کنندہ خود کیسے ٹرائل کر سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پالیسی فیصلہ حکومت جو مرضی کرے عدالت نے تو اپنا کیس دیکھنا ہے۔ حکومت کے پالیسی فیصلے سے مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ پالیسی فیصلہ بھی کرلیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا ہے سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں۔ پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرے یا نہ کرے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کو تینوں نکات پر دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا 45 منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا۔ قانونی نکات پر خواجہ حارث دلائل مکمل کرچکے ہیں۔ عدالت نے مزید سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جسٹس جمال مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر سپریم کورٹ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل فوجی عدالت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر سپریم کورٹ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل فوجی عدالت جسٹس جمال مندوخیل پالیسی فیصلہ فوجی عدالت

پڑھیں:

لاہور ہائیکورٹ، زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویوز کیخلاف درخواست پر پولیس و دیگر فریقین سے جواب طلب

لاہور ہائیکورٹ نے زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویوز کے خلاف درخواست پر پولیس اور دیگر فریقین سے تحریری جواب طلب کرلیا ہے۔

جمعے کے روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے ایڈووکیٹ وشال شاکر کی دائر درخواست پر سماعت کی،عدالتی حکم پر پولیس افسران و دیگر متعلقہ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: چنگ چی رکشہ بنانے والی کمپنیوں کو بند کیا جانا چاہیے، لاہور ہائیکورٹ

دوران سماعت جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کے قانون میں بھی واضح طور پر درج ہے کہ انکوائری اور تفتیش کی تفصیلات پبلک نہیں کی جا سکتیں۔

فاضل جج نے قصور واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ایس ایچ او کے ملوث ہونے کی اطلاعات آئیں۔ عدالت نے ہدایت کی کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے اور کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی جائے تاکہ ملزمان کو محفوظ راستہ نہ مل سکے۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے سوال اٹھایا کہ کیا زیرِ حراست ملزمان کی ویڈیو بنا کر ان کی تشہیر کرنا ضروری ہے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے موقف اپنایا کہ عوام میں آگاہی پھیلانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی نگرانی کا فیصلہ

عدالت نے واضح کیا کہ صرف اشتہاری ملزمان کی تصاویر شائع کی جائیں، اور کسی بھی ویڈیو سے شہریوں کی تضحیک نہیں ہونی چاہیے، اگر کسی اشارے پر کسی شہری کی تضحیک ہوئی تو اس علاقے کا ایس پی ذمہ دار ہوگا۔

سی ٹی او لاہور نے مؤقف اپنایا کہ جو لوگ ہماری ویڈیوز بناتے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے، جس پر جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ قانون موجود ہے، آپ ان کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔

سی ٹی او لاہور نے عدالت کو بتایا کہ سب سے زیادہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سرکاری اہلکار و افسران کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے عمر قید کے مجرم کو ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا

 جسٹس علی ضیا باجوہ  نے ریمارکس دیے کہ ٹریفک اہلکاروں  کے چالان کی رقم ان کے تنخواہ سے کاٹی جانی چاہیے، ہر وہ قدم جس سے پالیسنگ بہتر ہو وہ سوشل میڈیا پر ہونی چاہیے، آپ عدالت کی معاونت کریں کہ میڈیا پر ملزم کو ایکسپوز کرنے سے فئیر ٹرائل کیسے متاثر ہوتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے مؤقف پیش کیا کہ پولیس کی طرف سے اب ایک عادت بن گئی ہے سب سے پہلے میڈیا والوں کو بلا کر انٹرویو کرواتے ہیں، جب کیس عدالت میں آتا ہے تو پراسیکیوشن کا کیس کچھ اور ہوتا ہے، انٹرویو کچھ اور ہوتا ہے۔

جسٹس علی ضیا باجوہ  نے ریمارکس دیے کہ میڈیا، پولیس، پراسکیوٹر جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل سب یہاں ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ غلط ہے،ایڈوکیٹ میاں علی حیدر نے مؤقف اپنایا کہ اس سے پیسے، ڈالر کمائے جاتے ہیں، اس لیے ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملزمان کا گواہوں کے بیانات پر جرح کا حق ختم نہیں کیا جاسکتا، لاہور ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ جاری

جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ انسانی جبلت ہے ہر انسان مشہور ہونا چاہتا ہے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news انٹرویوز جسٹس علی ضیا باجوہ لاہور ہائیکورٹ ملزمان

متعلقہ مضامین

  • فیصلہ کرلیں سول نظام ناکام ہو چکا، سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں، جج آئینی بینچ
  • بھارت کے اقدام پر آج عالمی عدالت انصاف روانگی تھی لیکن منسوخ کر دی، اٹارنی جنرل 
  • یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا ہے: جسٹس جمال مندوخیل
  • یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں کہ سول نظام ناکام ہو چکا، سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں، جسٹس مندوخیل
  • یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں سول نظام ناکام ہو چکا، سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں: آئینی بنچ
  • یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں سول نظام ناکام ہو چکا سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں: جسٹس جمال خان مندوخیل
  • عمران خان نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا، 200 سے زائد کیسز کا حوالہ
  • عمران خان نے چیف جسٹس یحیی آفریدی کو خط لکھ دیا، 200 سے زائد کیسز کا حوالہ
  • لاہور ہائیکورٹ، زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویوز کیخلاف درخواست پر پولیس و دیگر فریقین سے جواب طلب