شہید رجائی بندرگاہ کے واقعہ پر رہبر انقلاب اسلامی کے پیام کے سبق آموز نکات
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: پیام میں واقعے کی اصل وجہ تلاش کرنے اور تخریب کاری کے ممکنہ عوامل کی نشاندہی کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن ہونے پر زور دیا گیا ہے یا قصورواروں یا ان لوگوں کو سامنے لانے پر زور دیا گیا ہے جو واقعے کی پیشگی اطلاع دینے میں ناکام رہے۔ خصوصی رپورٹ:
اسلامی جمہوریہ ایران کی شہید رجائی بندرگاہ میں آتشزدگی کے واقعے کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا پیغام خاص طور پر میڈیا، سیاست دانوں اور حکام کے لیے اہم اسباق پر مشتمل ہے، جو مختلف واقعات پر ان کے تمام سابقہ پیغامات میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
پہلا نکتہ: رہبر انقلاب اسلامی بلاشبہ ملک کے اہم واقعات کی لمحہ بہ لمحہ خبروں کے متعلق سب سے زیادہ باخبر فرد ہیں۔ تاہم، واقعات کی وجہ اور تفصیلات پر گفتگو کرتے ہوئے، اگرچہ اس سطح پر آگاہ کرنے والوں کے لیے، اس طرح کے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے اسباب، انداز اور کچھ مفروضے زیادہ تیزی سے اور درست طریقے سے تشکیل پاتے ہیں، لیکن ابتدائی پیغامات میں ان کا بنیادی موقف یہ ہے کہ مزید تفصیلی تحقیقات کی جائیں اور ماہرین کی رائے کے لیے اس موضوع کے لیے موزوں اداروں سے رجوع کیا جائے۔
ایسے واقعات کی تفتیش اور انتظام میں اداروں کی ساکھ اور اختیار کو ظاہر کرنا ان کا ہمیشہ سے ایک اصول رہا ہے اور اس کا تعلق کسی مخصوص حکومت یا دور تک محدود نہیں ہے۔ اس قسم کے رویے اس سے بڑھ کر، ہم سب کے لیے ایک سبق ہیں کہ کسی واقعے کا شعوری طور پر اور مستند انداز میں تحقیق کی روشنی میں جواب دیں، ماہرین کی آراء اور ایجنسیوں کی رپورٹس کا حوالہ دیں اور اس واقعے کا تجزیہ کرنے اور اس کی جڑ تک پہنچنے میں جلد بازی نہ کریں۔
دوسرا نکتہ: رہبر انقلاب کی جانب سے پہلا مطالبہ واقعہ کو کنٹرول کرنے پر توجہ مرکوز کرنا، امداد فراہم کرنے اور کاموں کو زیادہ تیزی سے انجام دینے پر زور دینا ہے، زخمیوں اور نقصانات کو کم کرنا ہے تاکہ واقعے کے بعد کے نازک وقت میں اس کے طول و عرض اور نتائج کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ، واقعے کی اصل وجہ تلاش کرنے اور تخریب کاری کے ممکنہ عوامل کی نشاندہی کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن طور پر اثرانداز ہونے پر زور دیا گیا ہے یا قصورواروں یا ان لوگوں کو سامنے لانے پر زور دیا گیا ہے جو واقعے کی پیشگی اطلاع دینے میں ناکام رہے۔
تیسرانکتہ: رہبر انقلاب کے پیغامات میں ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کی تکرار کو روکنے کے لیے کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے تحقیقات کا حکم دیا جائے۔ پیش منظر کے طور پر اسٹریٹجک اور انتظامی نقطہ نظر کے ساتھ، انہوں نے میدان عمل میں موجود ایجنسیوں اور گروپوں کی کارکردگی اور ان لوگوں کی بھی تعریف کی ہے جنہوں نے واقعہ کے پیش آنے کے بعد اسے کنٹرول کرنے لئے منظم کوشش کی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پر زور دیا گیا ہے رہبر انقلاب واقعات کی واقعے کی کرنے اور اور ان کے لیے
پڑھیں:
نومبر، انقلاب کا مہینہ
نومبر کی شامیں جب دھیرے دھیرے اُترتی ہیں تو یورپ کے شمال میں سرد ہوا کے جھونکے صرف پتوں کو ہی نہیں، تاریخ کے اوراق کو بھی ہلا دیتے ہیں۔ 1917 نومبر میں جب پیٹرو گراڈ کی سڑکوں پر مزدوروں، کسانوں سپاہیوں اور طلبہ کے نعرے گونج رہے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی تاریخ ایک نئے موڑ پر آ کر ٹھہری۔ روس کے عوام نے صدیوں پر محیط ظلم جاگیرداری اور سامراجی جکڑ سے نکلنے کے لیے ہاتھوں میں سرخ پرچم تھام لیا۔ دنیا نے پہلی بار دیکھا کہ اقتدار محلات سے نکل کر کارخانوں اورکھیتوں کے بیٹے، بیٹیوں کے ہاتھ میں آیا۔
اکتوبر انقلاب جو ہمارے کیلنڈر میں نومبر میں آیا، صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی، یہ انسان کی برابری، آزادی اور عزتِ نفس کے خواب کی تعبیر تھی۔
لینن اور ان کے رفقا نے جو راہ دکھائی وہ صرف روس کے لیے نہیں تھی۔ وہ ایک ایسی چنگاری تھی جس نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا تک کے محکوم دلوں میں اُمیدکے چراغ روشن کیے۔
اس انقلاب نے بتایا کہ تاریخ کے پہیے کو صرف طاقتور نہیں گھماتے، کبھی کبھی محروم مزدور اور مفلس بھی اُٹھ کر دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ اکتوبر انقلاب نے دنیا کو یہ سکھایا کہ کوئی سماج اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اس کے مزدور اورکسان زنجیروں میں جکڑے ہوں۔ مگر ہر انقلاب کے بعد وقت کی گرد بیٹھتی ہے۔
خوابوں کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور نئے تضادات جنم لیتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ یہ سوال بھی ابھرا کہ کیا انقلاب محض ایک رومانی تصور تھا یا تاریخ کا ایسا موڑ جس نے انسان کو وقتی طور پر یقین دلایا کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے؟
نومبرکی یاد ہمیں یہ سوچنے پر مجبورکرتی ہے کہ انقلاب محض بندوقوں یا قلعوں کی فتح نہیں ہوتا بلکہ ذہنوں اور دلوں کی آزادی کا نام ہے۔ وہ سماج جو اپنے فکری اور اخلاقی سانچوں کو بدلنے سے گریزکرے، وہ انقلاب کے قابل نہیں ہوتا۔
روس نے یہ جرات کی اس نے بتوں کو توڑا، بادشاہت کو ختم کیا اور محنت کش انسان کو تاریخ کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ مگر جب ہم اس روشنی کو اپنے وطن پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو دل کسی اداس شام کی طرح بھاری ہو جاتا ہے۔
یہاں مزدور اب بھی اپنی مزدوری کے لیے ترستا ہے، کسان اب بھی زمین کا بوجھ اُٹھائے فاقہ کرتا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی انقلاب کے نعرے گونجے۔ ہماری زمین پر جنم لینے والی ترقی پسند تحریکیں چاہے، وہ مزدور تحریک ہو، کسان کمیٹی ہو یا طلبہ کی جدوجہد سب کسی نہ کسی موڑ پر ریاستی جبر، نظریاتی تقسیم اور مایوسی کا شکار ہوئیں۔
ایک زمانہ تھا جب کراچی کی فیکٹریوں سے لے کر پنجاب کے کھیتوں تک سرخ جھنڈا ہوا میں لہرا کرکہتا تھا کہ ’’ دنیا بھر کے مزدور ایک ہو جاؤ‘‘ مگرآج وہ آواز مدھم ہے، نہ وہ جلسے رہے نہ وہ عزم، شاید اس لیے کہ ہماری سیاست نے نظریے کو نکال پھینکا اور موقع پرستی کو گلے لگا لیا۔
جو لوگ مزدوروں کے حق کی بات کرتے تھے، وہ خود سرمایہ داروں کے دربار میں جا بیٹھے، جو قلم عوام کی جدوجہد کا ہتھیار تھا، وہ اب اشتہار کا آلہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں انقلابی جدوجہد کی کمزوری دراصل ہمارے اجتماعی احساسِ زیاں کی علامت ہے۔
ہم نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں، وہ نسلیں جو کبھی لینن چی گویرا یا فیض کے الفاظ سے آگ پاتی تھیں، آج کسی موبائل اسکرین پر عارضی غم اور مصنوعی خوشی کی پناہ ڈھونڈتی ہیں۔ یہ وہ خلا ہے جو صرف فکر سے یقین سے اور اجتماعی جدوجہد سے پُر ہو سکتا ہے۔
نومبرکا مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انقلاب ایک دن میں نہیں آتا۔ وہ برسوں کے صبر، قربانی اور شعور سے جنم لیتا ہے۔ روس کے مزدور اگر محض اپنی بھوک کے خلاف اُٹھتے تو شاید تاریخ نہ بدلتی۔ مگر انھوں نے صرف روٹی نہیں، عزت، علم اور انصاف کا مطالبہ کیا۔
یہی مطالبہ آج بھی زندہ ہے ماسکو سے کراچی تک انسان کے دل میں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ انقلاب کا خواب اگر دھندلا بھی جائے تو اس کی چنگاری باقی رہتی ہے۔ وہ چنگاری جو کسی طالب علم کے ذہن میں سوال بن کر جنم لیتی ہے، کسی مزدورکے نعرے میں صدا بن کر گونجتی ہے یا کسی ادیب کے قلم میں احتجاج بن کر ڈھلتی ہے، یہی چنگاری آنے والے کل کی روشنی ہے۔
یہ مہینہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہر وہ سماج جو ظلم اور نابرابری کو معمول سمجھ لے وہ اپنے زوال کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے، اگر روس کے عوام اپنی خاموشی توڑ سکتے تھے تو ہم کیوں نہیں؟ ہم کیوں اپنی تقدیر کے فیصلے چند طاقتور ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں؟
شاید اس لیے کہ ہم نے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا زندگی میں نہیں جیا۔وقت گزر چکا مگر تاریخ کے اوراق کبھی بند نہیں ہوتے۔ شاید کسی اور نومبر میں کسی اور زمین پر نئی نسل پھر سے وہی سرخ پرچم اُٹھائے اورکہے ہم اس دنیا کو بدلیں گے اور جب وہ دن آئے گا تو ماسکو سے کراچی تک ہر انقلابی روح ایک لمحے کے لیے مسکرائے گی۔
آج کے عہد میں جب دنیا ایک بار پھر معاشی ناہمواری، ماحولیاتی تباہی اور جنگوں کی لپیٹ میں ہے تو اکتوبر انقلاب کی گونج نئے سوال اٹھاتی ہے۔ کیا انسان پھر سے وہی جرات کرسکتا ہے کیا طاقتورکے خلاف کھڑے ہوکر نظام کو بدلنے کا خواب دیکھا جاسکتا ہے؟
شاید یہی سوال نومبر کی ہوا میں بسا ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری کے بت پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں مگر ساتھ ہی دنیا کے ہر گوشے میں کوئی نہ کوئی مزدور طالب علم یا ادیب اب بھی انصاف اور برابری کے خواب کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
وہ شاید تھکے ہوئے ہیں مگر ہارے نہیں۔ شاید آنے والے برسوں میں یہ بکھری ہوئی چنگاریاں مل کر پھر سے ایک روشنی بن جائے۔