Daily Sub News:
2025-04-29@16:10:50 GMT

چینی صدر کا برکس ممالک کے نیو ڈیولپمنٹ بینک کا دورہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

چینی صدر کا برکس ممالک کے نیو ڈیولپمنٹ بینک کا دورہ

چینی صدر کا برکس ممالک کے نیو ڈیولپمنٹ بینک کا دورہ WhatsAppFacebookTwitter 0 29 April, 2025 سب نیوز


بیجنگ :چینی صدر شی جن پھنگ نے شنگھائی میں برکس ممالک کے نئے ترقیاتی بینک کا دورہ کیا اور  بینک کی صدر دلما روسیف کے ساتھ بات چیت کی۔منگل کے روز شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ نیو ڈیولپمنٹ بینک ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے ممالک اور ترقی پذیر ممالک کی جانب سے قائم کئے جانے والا پہلا کثیر الجہتی ترقیاتی ادارہ ہے۔ میزبان ملک کی حیثیت سے چین نیو ڈیولپمنٹ بینک کے ساتھ   تعاون کو مضبوط بنانے اوراس  بینک کے ذریعے دیگر رکن ممالک کے ساتھ اپنے ترقیاتی منصوبوں کے اشتراک  کا خواہاں ہے۔ہمیں گلوبل ساؤتھ کی ترقیاتی ضروریات کے مطابق  زیادہ اعلی معیار، کم لاگت اور پائیدار انفراسٹرکچر فنانسنگ فراہم کرنا ہوگی۔ ترقی پذیر ممالک کو ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے اور سبز اور کم کاربن تبدیلی کو تیز کرنے میں مدد کے لئے مزید سائنس اور ٹیکنالوجی فنانس اور گرین فنانس منصوبوں کو نافذ کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ  بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے  کی اصلاحات میں گلوبل ساؤتھ کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے گلوبل ساؤتھ کی آواز  بلند کرنا ضروری ہے۔ روسیف نے کہا کہ نیو ڈیولپمنٹ بینک ترقی پذیر ممالک اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے ممالک کی ترقی میں فعال کردار ادا کرے گا۔ یکطرفہ تحفظ اور خود پسندی بین الاقوامی قوانین کے اختیار کو ختم کرتی ہے ،صنعتی اور سپلائی چین کے استحکام کو کمزور کرتی ہے۔ چینی حکومت  گلوبل ساؤتھ کے مفادات کا مضبوطی سے تحفظ کرتے ہوئے کثیرالجہتی اقدامات کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور بین الاقوامی انصاف کا مضبوطی سے دفاع کرتی ہے، جو  عالمی برادری کے لیے ایک مثال قائم کی گئی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرٹیرف اور تجارتی جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا، چینی وزارت خارجہ ٹیرف اور تجارتی جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا، چینی وزارت خارجہ چینی صدر کی شمالی چین کے  لیاؤیانگ شہر میں آتشزدگی کے حادثے پر اہم ہدایات عالمی اثر و رسوخ کے حامل سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کی نئی ہائی لینڈ کی تعمیر  کو تیز تر کیا جائے، چینی صدر غیر ملکی سرمایہ کاروں کا چین کے اقتصادی “انجن” کے کردار پر بھرپور اعتماد چین اور روس کے درمیان باہمی اعتماد میں تبدیلی نہیں آئی، چینی وزیر خارجہ برکس ممالک کو ترقی کے نصب العین میں اہم قیادت کا کردار ادا کرنا چاہیے، چینی وزیر خارجہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: برکس ممالک چینی صدر ممالک کے

پڑھیں:

امن کی شمع کو جلنے دو

ہم امن کے خواہاں لوگ کس کرب سے گزر رہے ہیں یہ احساس کرنا آج بہت مشکل ہے کیونکہ پورا خطہ اک عجیب ہولناک اور جذباتی کیفیت میں مبتلا ہے،ہم امن پسندوں کے درد کو آج سمجھنا اتنا ہی مشکل درد ہے جیسے شکم مادر کے درد میں لوٹنے والی ماں کے احساس اور کیفیت کو سمجھنا،ہم امن کی آشا کے دیپ جلانے کی خواہش اور امید کے پیغامبر کیوں کر خطے کے امن کو تنگ نظر مذہب پرستی کی بھینٹ چڑھنے دیں۔

کیوں نہ ہم امن،پیار اور محبت کی منڈلیاں سجائیں اور اپنی نسل میں بٹوارے کی سوچ کی جگہ باہمی ربط اور مثبت سوچ کے دیے جلائیں،ایسا ممکن ہے اور ایسا ہو بھی سکتا ہے،بس صرف ہمیں اپنے لہجے اور گفتگو کو غور و فکر اور اپنا پن دینا ہے،نفرت کی تمام شاخوں کو کاٹ کر انسان کی حرمت اور عزت کو مقدم رکھنا ہے۔

جعفر ایکسپریس کا افسوسناک واقعہ ہو یا پہلگام کا متشدد واقعہ،ان دونوں واقعات کی کھوجنا مل بیٹھ کر کرنے سے ہی امن کی کرن سر ابھارے گی،ایسا آج بھی ممکن ہے کہ ہم آپس میں ایک پڑوسی کی طرح مل بیٹھ کر خطے سے نفرت،تشدد اور دوری کو ختم کرکے مل بیٹھ کر دہشت گردی کے تمام راستے بند کردیں اور خطے کی سیاسی اور معاشی آزادی کی جنگ مل بیٹھ کر طے کریں،یہ ممکن ہے کیوں کہ مشکل فیصلے کڑے وقت پر کرنا ہی دانشمندی کہلاتا ہے۔

کیا ہم نہیں جانتے کہ کنول کی فطری صلاحیت حشرات اور پانی کے ضرر رساں کیڑوں سے لڑ کر جدوجہد کے نتیجے میں سارے منفی کرداروں کی روک تھام یا ٹانگ کھینچنے کے عمل سے بچتے بچاتے اپنے اعتماد اور صلاحیت سے نمو پا کر دنیا میں خوبصورتی اور عزم کا نشان بن کر’’کنول‘‘ بنتا ہے۔ اسی طرح ’’چنبیلی‘‘ کے پھول کی بھینی بھینی خوشبو شام سمے سے رات کے خنک پہر تک انسانی تخلیق کے وہ گوشے وا کر دیتی ہے جن سے دوستی، محبت، امن اور سنگی سے محبت بھرے جذبات کی آمیزش انسان پر وہ سحر طاری کردیتی ہے جو سب کے لیے امن و سکون کی شانتی کا پیغام ہوتا ہے۔

 سوچتا ہوں کہ ہم ’’کنول‘‘ کی خوبصورت جدوجہد اور چنبیلی کی جہاں کو معطر کردینے والی صلاحیت کو نجانے کیوں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے گریز پا ہیں، ہمارے ہاں جانے کیوں ماضی کی دانش کو کریدنے اور اس میں چھپے ہوئی زندگی کو دیکھنے اور غورکرنے کا رجحان کیوں تنزلی کی طرف جارہا ہے۔

کیا ٹیکنالوجی کی جدت نے واقعی ہماری دانش پرکاری ضرب لگادی ہے کہ ہم ماضی کی دانش پر غور و فکرکو مکمل بھول چکے ہیں، لگتا ایسا ہی ہے کہ آج کی نسل کو ٹیکنالوجی کی ترقی کی آڑ میں جہاں دانش پر غور و فکر سے روکا جا رہا ہے، وہیں نوجوان نسل جدید ٹیکنالوجی کے پیچھے ایسا سرپٹ دوڑ رہی ہے کہ نہ اس میں سماج کو بنانے کی فکر ہے اور نہ ہی اہل دانش کے ان مثبت رویوں کو دیکھنے کی فرصت ہے جن پر غور و فکر پیدا کرنا آج کے سماج کا نہ صرف فرض ہے بلکہ اہل دانش کی فکر میں تحقیق کے بعد اس میں مزید وسعت پیدا کرنے کی ضرورت بھی ہے۔

اب تو نوجوان نسل سماجی بیگانگی کے ایسے پھیرے میں مبتلا ہو چکی ہے جہاں وہ جھوٹ کو سچ، ملامت کو مزاحمت اور انتشار کو جدوجہد سمجھنے لگی ہے۔ اس مرحلے پر جب سماج سیاسی اور معاشی بے راہ روی کا شکار رہے گا تو خطے کی ترقی اور آپسی ہم آہنگی کے تخلیقی سوتے کیونکر پھوٹیں گے؟ ایسے ماحول اور جاں سوز لمحات میں میرے دیس میں شنگھائی سربراہی کانفرنس نے ایک مرتبہ پھر دو روٹھے پڑوسیوں کو ایک دوسرے سے باہمی ربط اور آپسی رشتوں کو مضبوط کرنے کا بہانہ فراہم کیا تھا، جس سے فائدہ اٹھایا جانا دراصل دانش کی فتح کہلایا جاسکتا تھا۔

پاکستان میں شنگھائی سربراہ کانفرنس کے اس اہم موقعے پر تو یہ ممکن تھا کہ بھارت اپنے قومی پھول ’’کنول‘‘ ایسا اور پاکستان اپنے قومی پھول ’’چنبیلی‘‘ ایسی مہک امن کی خاطر خطے کے امن پرور عوام میں اس طرح بکھیر دیں کہ دونوں ممالک کے عوام آپسی رشتوں کو ’’کنول‘‘ اور ’’چنبیلی‘‘ کی خوبصورتی اور تازگی مانند استوار کریں، خطے میں ’’چنبیلی‘‘ اور ’’کنول‘‘ کی سیوا کر کے ان دونوں قومی پھولوں ایسے رویے اپنی زندگی اور اپنے رہن سہن کا شعار بنا لیں۔ دونوں ممالک کے امن پرور عوام ہمیشہ سے ایک دوجے کے دکھ سکھ کے ساتھی اور ساجھے دار رہے ہیں اور ایسا ہونا آج بھی ممکن ہے۔

جب دس برس کے وقفے کے بعد شنگھائی سربراہ کانفرنس میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر جی اسلام آباد آسکتے ہیں، بلاول بھٹو بطور وزیر خارجہ بھارت جاسکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کے بیچ اہل دانش، صحافی، فن و ثقافت کے مہان فنکار اور کرکٹ، ہاکی، فٹ بال کے کھلاڑی کیوں نہیں ایک دوسرے سے مل کر خطے کے ان دو ممالک کی معاشی، سیاسی اور امن و شانتی کی آشا کو ایک دوسرے کے عوام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

ایسا ہوسکتا ہے، ہوتا رہا ہے، پردھان منتری واجپائی کے امن کو بھارت کی سرکار خطے کی ترقی اور محبت میں تقسیم در تقسیم کرسکتی ہے، کیونکہ ایسا ہوتا رہا ہے جب پاکستان اور بھارت کے بچھڑے خاندان ویزے کی سہولت کے تحت ملے ہیں، ایک دوجے کے دکھ سکھ کی ساجھے داری اور رشتے داری کی ہے۔

یہ ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ پاک انڈیا فورم، سارک ممالک کے طلبہ وفود، اہل دانش اور صحافی ایک دوسرے کے ممالک میں آسانی سے آتے رہے ہیں اور محبتوں کو بڑھاتے رہے ہیں اور ایک دوجے کے ساتھاری رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونوں ممالک کی سرکار اور وزارت خارجہ کے بس میں یہ بات نہیں کہ معاشی محرومی کے شکار خطے کے دو پڑوسی ممالک کے عوام کی خوشحالی کو ’’کنول‘‘ مانند خوبصورت اور ’’چنبیلی‘‘ مانند امن اور محبت سے معطر کردیں؟ ایسا ہونا اس وقت ہی ممکن ہے جب عملی اقدامات کیے جائیں اور متنازعہ امور اور جنگی بیانات سے پرہیزکیا جائے۔بقول ساحر لدھیانوی کہ!

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لیے اے شریف انسانو

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

متعلقہ مضامین

  • امریکی حکومت کو اعتماد کے عالمی بحران کا سامنا ہے، چینی میڈیا
  • عالمی اثر و رسوخ کے حامل سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کی نئی ہائی لینڈ کی تعمیر  کو تیز تر کیا جائے، چینی صدر
  • چین اور روس کے درمیان باہمی اعتماد میں تبدیلی نہیں آئی، چینی وزیر خارجہ
  • برکس ممالک کو ترقی کے نصب العین میں اہم قیادت کا کردار ادا کرنا چاہیے، چینی وزیر خارجہ
  • امداد میں کمی اور تجارتی تناؤ کثیر فریقی نظام پر سوالیہ نشان، گوتیرش
  • محکمہ خزانہ کےبجٹ افسران کی ترقی کامعاملہ لٹک گیا
  • ’پھنس گئے ہیں موذی جی‘
  • یحییٰ آفریدی چین اور ترکیہ کا دورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچ گئے
  • امن کی شمع کو جلنے دو