۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ایشیا بنیادی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا ادراک کرنے کی سیاسی خواہش پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔  اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ایشیا بنیادی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا ادراک کرنے کی سیاسی خواہش پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے ممالک سے دو ریاستی حل کی بحالی کے لیے کوششیں تیز کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔   اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا کہ 18 مارچ کو جنگ بندی معاہدے کے خاتمے کے بعد سے تقریباً دو ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ انہوں نے غزہ کی پٹی کے لئے امداد کی ترسیل پر عائد پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو انسانی بحران میں دھکیل دیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تباہی کے دہانے پر ہے دو ریاستی حل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے

پڑھیں:

مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کا یمن پر گہرا اثر، ہینز گرنڈبرگ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) یمن کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی ہینز گرنڈبرگ نے خبردار کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی نازک صورتحال ملک پر بری طرح اثرانداز ہو رہی ہے جہاں امن و استحکام کے لیے خطے میں بڑے تنازعات پر قابو پانا ضروری ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یمن کا غیرحل شدہ تنازع ایک ایسی فالٹ لائن کے مترادف ہے جس سے پیدا ہونے والے جھٹکے ملکی سرحدوں سے باہر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں اور اس سے موجودہ علاقائی مخاصمتیں مزید بڑھ رہی ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر عدم استحکام سے یمن میں تقسیم بھی بڑھتی جا رہی ہے اور پائیدار امن کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ Tweet URL

ہینز گرنڈبرگ نے اسرائیل اور انصاراللہ (حوثیوں) کے مابین تشویشناک اور خطرناک کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ خطے میں عدم استحکام کے اسباب پر قابو پانے تک یمن میں امن عمل کی صورتحال بدستور نازک رہے گی۔

(جاری ہے)

تشدد کا موجودہ سلسلہ یمن کو اس عمل سے مزید دور لے جا رہا ہے جو طویل مدتی استحکام اور معاشی ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔یو این کے خلاف جارحیت

نمائندہ خصوصی نے حالیہ دنوں صنعا اور حدیدہ میں انصاراللہ کی جانب سے اقوام متحدہ کے عملے کے 22 ارکان کی ناجائز گرفتاری کو اقوام متحدہ کے خلاف کھلی کشیدگی قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ حراستیں، اقوام متحدہ کے دفاتر پر دھاوا بولنا، اس کی املاک کو قبضے میں لینا اور اس طرح امن کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں اور یمن عوام کو امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنا ناقابل قبول ہے

ان کا کہنا تھا کہ خانہ جنگی کے نتیجے میں یمن کے ہزاروں لوگ زیرحراست ہیں اور اس تکلیف دہ مسئلے کو حل کرنے میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔

مذاکرات کی اہمیت

ہینز گرنڈبرگ نے کہا کہ اگرچہ یمن میں نسبتاً استحکام برقرار ہے، لیکن الضالع، مآرب اور تعز جیسے علاقوں میں حالیہ عسکری سرگرمیاں اس امر کا اشارہ ہیں کہ اگر کسی بھی فریق سے کوئی غلطی ہوئی تو ملک دوبارہ مکمل جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ ایسی کسی جنگ کے نتائج یمن اور پورے خطے کے لیے نہایت تباہ کن ہوں گے۔

معاشی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یمن کی اقتصادی ترقی باہمی تعاون کو فروغ دینے، قومی اداروں کو سیاست سے پاک کرنے اور ایک جامع قومی تصور کو اپنانے کی بدولت ہی ممکن ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ یکطرفہ فیصلے شاذ و نادر ہی مؤثر ثابت ہوتے ہیں اور مکالمہ اختلافات کو ختم کرنے اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

بدترین غذائی قلت

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، اقوامِ متحدہ کی کارروائیوں کو درپیش تحفظ کے مسائل، معاشی تباہی اور خانہ جنگی نے یمن کو دنیا میں شدید غذائی قلت کا شکار تیسرا بڑا ملک بنا دیا ہے۔

آئندہ سال فروری سے پہلے مزید 10 لاکھ افراد شدید بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں جبکہ ایک کروڑ 70 لاکھ یمنی شہری پہلے ہی خوراک کی شدید کمی کا سامنا کر رہے ہیں اور 20 فیصد گھرانوں میں کسی نہ کسی فرد کو روزانہ فاقہ کرنا پڑتا ہے۔

امدادی کاموں میں مشکلات

انہوں نے کونسل کو بتایا کہ امدادی وسائل کی کمی اور مشکل حالات کار کے باوجود امدادی کارکنوں نے ضرورت مند لوگوں کو ہرممکن مدد پہنچائی ہے۔

تاہم، موجودہ حالات میں زندگیوں کو تحفظ دینے اور پائیدار بہتری کی بنیاد رکھنے کے لیے خاطرخواہ اقدامات کرنا ممکن نہیں رہا۔

انہوں نے اقوامِ متحدہ کے عملے کی حراستوں کو نہایت پریشان کن اور ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے یمن کے لوگوں کو کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس سے نہ تو بھوکوں کو کھانا ملے گا، نہ بیماریوں کا علاج ہو گا اور نہ ہی نقل مکانی کرنے والوں کو تحفظ ملے گا۔

ٹام فلیچر نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے عملے کو رہا کیا جائے، ادارے کی عمارتوں پر قبضہ چھوڑا جائے اور امدادی تنظیموں کو اپنا کام دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے خوراک کی کمی اور غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کو مالی وسائل کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اجتماعی بھوک کو یمن کا مستقبل متعین کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں ہسپتال تباہی کے دہانے پر، ڈبلیو ایچ او کے سربراہ
  • جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاس کا ہر لمحہ قیمتی، اینالینا بیئربوک
  • فلسطین کے مسئلے پر ہار ماننا درست نہیں، فرانچسکا آلبانیز
  • اقوام متحدہ: 2026 کے مجوزہ بجٹ میں اصلاحات اور 500 ملین ڈالر کٹوتیاں
  • غزہ کی صورتحال اخلاقی، سیاسی اور قانونی طور پر ناقابلِ برداشت ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • یورپی ملک لکسمبرگ کا فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان
  • مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کا یمن پر گہرا اثر، ہینز گرنڈبرگ
  • وزیراعظم شہباز شریف کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 25 ستمبر کو ملاقات کی تیاریاں
  • اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
  • اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد