اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ مالی وسائل کی قلت کے باعث دنیا بھر میں امدادی کارروائیاں بند ہو رہی ہیں جس کا نتیجہ لاکھوں لوگوں کی اموات کی صورت میں نکلے گا۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی رابطہ کار ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ انتہائی ضرورت مند لوگوں کے لیے امدادی وسائل کی فراہمی روکنا کوئی ایسی بات نہیں جس پر فخر کیا جائے۔

اس سے لاکھوں لوگوں کو جان لیوا خطرات کا سامنا ہو گا۔ Tweet URL

افغانستان کے جنوبی شہر قندھار کے ایک ہسپتال میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ امدادی وسائل میں کمی آنے کے اثرات ملک کے ہسپتالوں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

ڈاکٹروں کو ایسے ہولناک فیصلوں پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے کہ کون سی زندگی کو تحفظ دینا زیادہ ضروری ہے۔ مالی بحران کے باعث اقوام متحدہ کی امدادی ٹیموں کے ملک بھر میں 400 بنیادی مراکز صحت بند کرنا پڑے ہیں۔

ٹام فلیچر نے قندھار کے دورے میں صوبائی گورنر ملا شیریں اخوند سے بھی ملاقات کی اور ملک میں انسانی بحران سے نمٹنے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا۔

افغانستان میں چار دہائیوں سے جاری جنگوں کے بعد 22.

9 ملین لوگوں یا نصف آبادی کو بقا کے لیے انسانی امداد کی ضرورت ہے۔خواتین کے لیے مشکل حالات

اقوام متحدہ خبردار کر چکا ہے کہ امدادی مقاصد کے لیے سرمایہ کاری میں بڑے پیمانے پر کمی آنے سے افغانستان میں خواتین طبی کارکن بھی متاثر ہو رہی ہیں جن کے معاوضوں میں دو تہائی حد تک کمی کی جا چکی ہے۔

ملک میں خواتین کی حالت زار کو عالمی برادری نے بھی قابل مذمت قرار دیا ہے۔ طالبان حکمرانوں کی جانب سے جاری کردہ متعدد احکامات نے ان کی زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔گزشتہ روز پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے ملک میں خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کیا تھا جنہیں طالبان حکومت میں بڑھتے ہوئے جبر کا سامنا ہے۔

قبل ازیں اس دورے میں بات کرتے ہوئے ٹام فلیچر نے واضح کیا کہ لڑکیوں کی تعلیم اور معاشی میدان میں خواتین کی مکمل شرکت کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔

پناہ گزینوں کی واپسی، وسائل پر دباؤ

اقوام متحدہ کے متعدد ادارے مالی وسائل کی شدید قلت کے باعث دنیا بھر میں کئی امدادی پروگراموں کو ختم کر چکے ہیں۔ ان میں 'اوچا' کے علاوہ عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی)، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ (یو این ایچ سی آر) شامل ہیں۔

ان حالات میں افغانستان میں غذائی قلت بڑھ رہی ہے، بنیادی خدمات کا فقدان ہے اور معاشی اشاریے سنگین حالات کا پتا دیتے ہیں۔ سیکڑوں طبی مراکز بند ہو جانے سے 30 لاکھ لوگوں کی بنیادی صحت کی خدمات تک رسائی ختم ہو گئی ہے۔ ہمسایہ ممالک سے بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجے جانے سے ملکی وسائل پر دباؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

رواں مہینے ہی 250,000 سے زیادہ پناہ گزینوں کی واپسی ہوئی جن میں 96 ہزار کو پاکستان اور ایران سے بیدخل کیا گیا ہے۔

ٹام فلیچر نے صوبے میں پناہ گزینوں کی وصولی کے مرکز کا دورہ بھی کیا جہاں اقوام متحدہ اور اس کے امدادی شراکت دار لوگوں کو طبی سہولیات اور نقد امداد فراہم کر رہے ہیں۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ پناہ گزینوں میں خواتین کے لیے

پڑھیں:

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش

نیو یارک:

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش کردی۔

یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالیہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی کوشش کی حمایت کے لیے تیار ہیں جو فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔

اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرحان عزیز حق نے اے پی پی کے نمائندے کے سوالات کے جواب میں کہا کہ سیکریٹری جنرل کا ماننا ہے کہ پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ ہر اُس اقدام کی حمایت کے لیے تیار ہے جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرے اور بات چیت کو فروغ دے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 22 اپریل کو پہلگام واقعے میں 26 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف متعدد اقدامات کا اعلان کیا جن میں 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی، سرحد کراسنگ کی بندش، سفیروں کی ملک بدری، اور کچھ پاکستانی ویزہ ہولڈرز کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم شامل ہے۔

پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے لیے ویزے کی رعایتی اسکیم کو فوری طور پر معطل کر دیا، کچھ بھارتی سفارتکاروں کو ملک بدر کیا اور اپنی فضائی حدود بھارتی پروازوں کے لیے بند کر دی۔

اقوام متحدہ کے فوجی مبصر مشن (UNMOGIP) کے کردار کے بارے میں سوال کے جواب میں فرحان حق نے واضح کیا کہ اس گروپ کی موجودگی اس مقام پر نہیں ہے جہاں حملہ ہوا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ فوجی مبصر مشن اپنا مینڈیٹ جاری رکھے ہوئے ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے مبصرین کو لائن آف کنٹرول پر کام کی اجازت دیتا ہے جب کہ بھارت اس کی اجازت نہیں دیتا۔ راولپنڈی میں قائم یہ مبصر مشن 44 فوجی مبصرین اور 75 سویلین عملے (25 بین الاقوامی، 49 مقامی) پر مشتمل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان واپس جانے والے پناہ گزینوں کیلئے 7 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کا مطالبہ
  • سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش
  • پاکستان اور بھارت تحمل سے کام لیں، اقوام متحدہ کا کشیدگی کم کرنے پر زور
  • افغانستان: پاکستان اور ایران سے لوٹنے والے مہاجرین ایک انسانی بحران
  • پاکستان نے تمام تر اقتصادی اور سلامتی کے چیلنجز کے باوجود لاکھوں افغانوں کو پناہ دی، عاصم افتخار
  • نوشکی: ٹرک میں آگ لگنے کا واقعہ، ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ
  • اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش
  • پناہ گزینوں کی میزبانی کرنیوالے ممالک کو گرانٹس دی جائے: پاکستانی مندوب افتخار احمد
  • غزہ پر اسرائیلی پابندیوں کے خلاف عالمی عدالت میں سماعت شروع