Express News:
2025-09-19@11:40:54 GMT

بجٹ اور ہم

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

رواں مالی سال کا بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی اور منشاء سے بنایا گیا ہے، 80 کی دہائی تک ہماری معیشت بہتر تھی بلکہ ایسا کہیے کہ پاکستان کی معیشت، ہندوستان سے زیادہ مضبوط تھی۔ ہم معاشی اعتبار سے آزاد نہیں۔ ہمارا بجٹ آئی ایم ایف بناتا ہے،کیونکہ ہماری آمدنی ہمارے اخراجات سے بہت کم ہے۔

ہماری درآمدات سے ہماری برآمدات کا تنا سب انتہائی کم تھا۔ ایک طرف ہمیں ڈالرکی اشد ضرورت تھی اور دوسری طرف مقامی بینکوں سے قرضوں کی۔ ان زمانوں میں ہماری شرح نمو انتہائی کم تھی اور اس سے زیادہ ہم نوٹ چھاپتے تھے، جس سے ہماری افراطِ زر بڑھتی تھی۔ افراطِ زر غریب کو غریب ترکر دیتی ہے اور امیر لوگ چونکہ اپنی دولت کو ڈالرز میں رکھتے ہیں، لہٰذا ان پر اثراندازکم ہوتی ہے۔

ایسا بھی ہوا کہ شرفاء کے پاس کالے دھن کی ریل پیل ہوئی یعنی وہ پیسہ جس پر ٹیکس نہیں لگتا۔ اس پیسے کا نعم البدل شرفاء نے ہاؤسنگ اسکیمز کی شکل میں نکالا۔ یعنی کاغذات میں پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ اور مارکیٹ میں قیمت پچیس کروڑ۔ اس طرح سے اس کالے دھن کو چھپایا جاتا تھا۔ یہ پیسے سوئس بینک بھی منتقل کیے جاتے تھے۔ ہمارے بہت سے ریٹائرڈ جنرلز، ریٹائرڈ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ ججز اور سیاستدانوں نے اپنے پیسے دبئی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں منتقل کیے۔

ہمارا بجٹ اس تمام سسٹم کا عکس ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 8.

2% لوگ غربت کی لکیرکے نیچے ہیں اور پاکستان میں یہ شرح 44.7% ہے۔ تعلیم کے اوپر ہم اپنی مجموعی پیداوارکا ایک فیصد بھی خرچ نہیں کرتے۔ ترقیاتی بجٹ ہزار ارب روپے ہے، جس میں ہر سال کمی کی جاتی ہے جب کہ دفاعی بجٹ میں 20% کا اضافہ کیا گیا ہے جوکہ شاید مجبوری بھی ہے۔ آزادی کے بعد اور پچھتر سال گزر جانے کے بعد بھی ہم اس خطے میں ایک ایسی تنازعے پر کھڑے ہیں جس کا کوئی حل نہیں نکل رہا ہے اور اس خطے میں مودی کی شکل میں ہندو فاشزم ہم پر مسلط ہے۔

اس تنازعے کو ورلڈ فورمز پر اٹھایا گیا ہے۔ بلاول بھٹو نے اس حوالے سے دنیا کی اقوام کا ضمیر جھنجوڑ ہے اور وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے، برِصغیر ان تمام بڑی طاقتوں کا میدانِ جنگ بن چکا ہے جو اس وقت آپس میں تضادات اور تنازعات کا شکار ہیں۔

چین کی ٹیکنالوجی نے مغرب کی ٹیکنالوجی کو مات دے دی، جس کا مظاہرہ پاکستان اور ہندوستان کے حالیہ ٹکراؤ میں ہوا۔ پاکستان نے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے چین کی عزت بڑھائی اور ہندوستان نے مغرب اور امریکا کو رسوا کیا۔ ہتھیاروں کی اس ریس میں پاکستان اور ہندوستان غربت کی دلدل میں مزید دھنستے جا رہے ہیں۔ کیا اس ریس کو بڑھاوا دے کر ہم نے ایک اور صدی گزارنی ہے؟ جب حالات بدلیں گے تو جنگ کا بیانیہ بھی بدلے گا اور ساتھ ہی وہ اشرافیہ بھی رسوا ہوگی جو جنگ اور تنازعات کو بڑھاوا دیتی ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی۔

اس بات میں دو رائے نہیں کہ اس حکومت کو معیشت بدحالی سے بھی بدتر حالت میں ملی تھی اور انھوں نے اس معیشت کو سنبھالا ہے۔ افراطِ زر کی شرح کو 33% سے 5% تک لے کر آئے ہیں، ڈالرکی اڑان کوکنٹرول کیا، مالیاتی نظم و ضبطFiscal Discipline  کو بتدریج بہتر بنایا جا رہا ہے۔ بڑے عرصے بعد ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری ترسیلاتِ زر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ بلواسطہ ٹیکسز Indirect Taxes ضرور لاگو ہوئے ہیں لیکن یہ حکومت آٹھ ہزار ارب ٹیکسزکلیکشن کو چودہ ہزار ارب تک لے کر آئی ہے۔Tax to GDP Rate آٹھ فیصد سے 10.2% تک لے کر آنا اس حکومت کی بڑی کامیابی ہے، لیکن کیا اس کا فائدہ غریب عوام کو ملا ؟ نہیں ! پاکستان کی آدھی آبادی بھوک و افلاس کا شکار ہے۔

تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں اور ایسے لوگ اب سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر ڈاکٹر من موہن سنگھ یا پھر ڈاکٹر عبد السلام نہیں بن سکتے۔ ان حالات میں اس ملک کی بقاء خطرے میں ہے۔ اس بات کو سمجھنا ہم سب کے لیے اشد ضروری ہے۔ ایسے حکومتی رویوں کے خلاف ایک دن عوام سڑکوں پر نکلیں گے۔ سندھ میں سب سے بڑا کاروبار اغواء برائے تاوان بن چکا ہے۔ سندھ کے عوام ان وڈیروں اور سرداروں کے لیے ایک لاوا بن رہے ہیں جو آہستہ آہستہ پک رہا ہے۔

ملک میں جو اصلاحات لانی تھیں، وہ حکومت اب تک نہیں لاسکی، اگر یہ اصلاحات اس وقت لائی گئیں جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا تو وہ عوام کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوںگی، جیساکہ سوویت یونین میں گوربا چوف کے دور میں ہوا۔ ہماری سیاست اور حکومت دونوں میں دور اندیشی نہیں۔ جس سطح کی سیاسی قیادت ہمارے پاس ہونی چاہیے وہ اب ہمیں میسر نہیں ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون جوکل تک جمہوریت کی باتیں کرتے تھے آج انھوں نے بھی اپنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔

آئی ایم ایف نے ہماری حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہFiscal Discipline لائیں اگر ایسا نہ ہوا تو ہم ایک دفعہ پھر پستی کی طرف چلے جائیں گے،کیونکہ ہمارے پاس ایک مضبوط قیادت کی کمی ہے جو کہ جمہوریت کی بات کرے۔ ہماری قیادت نے جمہوریت کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ بے نظیر کے بعد پیپلز پارٹی کے خد و خال بدل گئے۔ پیپلز پارٹی اب وہ پارٹی ہے جو پہلے پیر پگارا کی ہوا کرتی تھی، مگر ان میں اتنی ایمانداری تو تھی کہ وہ اس بات کو قبول کرتے تھے۔

اس منظر نامے میں بس یہ بات خوش آیند ہے، پاکستان دیوالیہ ہونے کی پوزیشن سے اب باہر ہے، مگر ہم ریفارمز کے عمل میں شکست کھا چکے ہیں جو بروقت ہونی چاہیے تھی۔ پاکستان کو نہ صرف معاشی بلکہ ماحولیاتی چیلنجزکا سامنا بھی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان شدید خطرے کی دہلیز پر ہے۔

اس سال دو ہزار ارب کے اضافی ٹیکسز بڑھائے اور نئے ٹیکسز لاگوکیے گئے ہیں۔ کیا یہ ٹیکسز افراطِ زرکی شرح کوکم کر پائیں گے؟ بالکل ایسے ہی جیسے پچھلے مالی سال میں تین ہزار ارب کے اضافی ٹیکسز لاگو کیے گئے مگر افراطِ زرکی شرح بڑھی نہیں بلکہ اس میں کمی آئی۔ ہمارے زرعی شعبے میں شرح نمو انتہائی مایوس کن رہی، یعنی 0.4% ۔ جب کہ ملک کی 55% لیبر فورس اس شعبے سے منسلک ہے اور مجموعی پیداوار میں ان کا حصہ  26% ہے، جس کا مطلب یہ ہی کہ دیہی علاقے مزید غربت کی طرف جائیں گے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ان کا رخ شہروں کی طرف ہوگا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے لیے ہے اور

پڑھیں:

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ

پاکستان اور سعودی عرب نے مشترکہ دفاعی معاہدہ پر دستخط کر دیے ہیں۔ جس کے بعد ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور ہوگا۔ اس معاہدہ پر دستخط کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ ریاض گئے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی اور پھر معاہدہ پر دستخط کی تقریب ہوئی۔

پاکستان و سعودی عرب کے درمیان آٹھ دہائیوں پر محیط برادرانہ، اسٹریٹجک اور دفاعی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ اس معاہدہ کو ''اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے'' (SMDA) کہا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا اور مشترکہ دفاع کو مضبوط بنایا جائے گا۔وزیر اعظم پاکستان کی سعودی عرب آمد پر انھیں سعودی جنگی جہازوں نے سلامی دی ۔جو اپنی جگہ اہم ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس باہمی دفاعی معاہدہ نے عالمی منظر نامہ کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس معاہدہ پر دستخط کے بعد ایک اعلیٰ سعودی عہدیدار نے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدہ کو کسی خاص واقعہ کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ کے بعد عرب دنیا میں عدم تحفظ کا احساس مضبوط ہو گیا تھا۔ عرب دنیا میں یہ سوچ مضبوط ہو گئی تھی کہ اسرائیل کے خلاف شاید امریکا ان کا دفاع نہیں کر سکتا اور اسرائیل کے سوا انھیں فی الحال کسی سے خطرہ نہیں ہے۔ اس لیے عرب دنیا کو اپنے دفاع کے کمزور ہونے کا احساس پیدا ہوگیا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا باہمی دفاع کا معاہدہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے نیٹو ممالک کے درمیان بھی یہی معاہدہ ہے۔ ایک نیٹو ملک پر حملہ تمام نیٹو ممالک پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ شمالی کوریا اور روس کے درمیان بھی ایسا معاہدہ ہے، اور بھی ممالک نے اپنے دوست ممالک کے ساتھ ایسے مشترکہ دفاعی معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ یہ معاہدے دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کے مظہر ہوتے ہیں۔ اس لیے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ معاہدہ اب دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ ہم سعودی عرب کا ہر قسم کی جارحیت سے دفاع کرنے کے اب پابند ہیں۔ یہ صرف اسرائیل کے لیے نہیں ہے۔ اگر یمن کے حوثی بھی اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں جیسے انھوں نے ماضی میں میزائیل داغے بھی ہیں۔ تو ہم تب بھی سعودی عرب کے دفاع کے پابند ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب بھی بھارت کے خلاف ہمارے دفاع کا پابند ہوگیا ہے۔ اگر بھارت ہم پر حملہ کرے گا تو یقیناً وہ سعودی عرب پر حملہ تصور ہوگا۔ یقیناً یہ بھارت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تو کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی معاشی تعلقات بھی موجود نہیں ہیں۔ لیکن سعودی عرب اور بھارت کے درمیان کافی معاشی تعلقات موجود ہیں۔ بھارت کے لیے یہ خطرناک ہوگا کہ اب پاکستان سے اس کی لڑائی سعودی عرب سے بھی لڑائی تصور ہوگی۔

ایک رائے یہ ہے کہ اب سعودی عرب کے دفاع میں پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت بھی استعمال کر سکتا ہے۔ سعودی عرب کے دفاع میں پاکستان اپنی میزائیل ٹیکنالوجی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ سعودی عرب کے دفاع کے لیے ہم اپنے میزائیل سعودی عرب میں لگا سکتے ہیں، یہ زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔ اسرائیل کو پہلے یہ خطرہ تھا کہ ہمارے میزائل اسرائیل پہنچ سکتے ہیں۔ اس نے امریکا کو کئی بار شکایت لگائی ہے کہ ہم بڑی رینج کے میزائل بنا رہے ہیں جو بھارت کی بجائے اسے بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن اب تو ہم یہ میزائل سعودی عرب میں بھی لگا سکتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ خطہ کی صورتحال بھی دلچسپ ہو گئی ہے۔ بھارت اوراسرائیل کے درمیان پہلے ہی دفاعی تعلقات موجود ہیں۔ اسرائیل بھارت کو دفاعی ٹیکنالوجی دیتا ہے لیکن بھارت اور اسرائیل کے درمیان کوئی باہمی دفاعی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ میں ہم نے اسرائیل کی ٹیکنالوجی کا پاکستان کے خلاف استعمال دیکھا ہے۔اسرائیلی ڈرون پاکستان پر آئے تھے۔ لیکن اب اسرائیل کے لیے زیادہ پریشان کن صورتحال ہے کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ ہو گیا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ کیا دیگر عرب ممالک بھی پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے کریں گے۔ کیا متحدہ عرب امارات بھی ایسا معاہدہ کرے گا۔ کیا قطر، بحرین اور دیگر عرب دنیا بھی پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے کرے گی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ عرب دنیا نے مل کر پاکستان کے ساتھ ایسا معاہدہ کیوں نہیں کیا۔ ایسا معاہدہ عرب اجلاس کے موقع پر بھی ہو سکتا تھا۔ویسے تو سعودی عرب عرب دنیا کا لیڈر ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عرب دنیا سعودی عرب کے پیچھے چلتی ہے۔ اس لیے پاکستان اور عرب دنیا کے درمیان دفاعی تعاون کے نئے راستے کھلیں گے۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ پاکستان ایسے معاہدے اور عرب دنیا کے ساتھ کرے گا۔ مشترکہ دفاع کا معاہدہ صرف سعودی عرب کے ساتھ ہی ہوگا۔ لیکن دیگر عرب دنیا کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھے گا جو اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ سعودی عرب ترکیہ کے ساتھ بھی یہ معاہدہ کر سکتا تھا۔ وہ روس چین کے ساتھ بھی یہ معاہدہ کر سکتا تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ترکیہ اور سعودی عرب کے درمیان اعتماد کا وہ رشتہ نہیں ہے جو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہے۔ترکیہ نے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا ہے جب کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہوا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کا دفاعی تعاون پہلے ہی امریکا کے ساتھ موجود ہے۔ وہ امریکا اور روس کے درمیان جاری کسی تناؤ کا حصہ نہیں بننا چاہتا ہوگا۔ اسی طرح کہا جا رہا ہے کہ آگے چین اور امریکا کے درمیان بھی تنازعات ہوں گے۔ چین اگلی سپر طاقت ہے۔

اس لیے سعودی عرب چین اور امریکا کے درمیان کسی لڑائی کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتا ہوگا۔ سعودی عرب ایک ایسے دفاعی پارٹنر کی تلاش میں تھا جس کے ساتھ معاہدے سے عالمی طاقتوں کے درمیان تنازعے کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ وہ ایک غیر جانبدار دفاعی پارٹنر کی تلاش میں تھا جو پاکستان سے بہتر میسر نہیں تھا۔ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے بہت خوش آئند ہے۔ پاکستان پہلے ہی سعودی سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔

پاکستان سعودی سرمایہ کاری کے لیے پہلے ہی کوشش کر رہا تھا۔ اب اس کے راستے بھی کھل گئے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ تعاون صرف دفاع تک محدود رہے گا۔ تعان بڑھے گا تو سب شعبوں میں بڑھے گا۔ اس لیے یہ معاہدہ پاکستان کے لیے خوشحالی کی نوید بھی لائے گا۔ مسلم دنیا کی سیاست بھی بدل گئی ہے۔ پاکستان کی مسلم دنیا میں پہلے ہی بہت اہمیت تھی۔ اب تو پاکستان اور سعودی عرب اکٹھے نظر آئیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ
  • ہمارا خاندان، ہماری ذمے داری
  • غزہ میں ہماری آنکھوں کے سامنے نسل کشی ہورہی ہے۔ میئر لندن
  • ہماری ہائیکورٹ کے رولز  ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہو گئے: جسٹس محسن کیانی
  • اسرائیل کے حملوں سے ہماری کارروائیوں میں شدت آئیگی، یمن
  • لازوال عشق
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • ہماری پُرزور کوشش کے بعد بھی بانی پی ٹی آئی تک رسائی نہیں مل رہی: عمر ایوب
  • ہماری ہائیکورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے، جسٹس محسن کیانی