رواں مالی سال کا بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی اور منشاء سے بنایا گیا ہے، 80 کی دہائی تک ہماری معیشت بہتر تھی بلکہ ایسا کہیے کہ پاکستان کی معیشت، ہندوستان سے زیادہ مضبوط تھی۔ ہم معاشی اعتبار سے آزاد نہیں۔ ہمارا بجٹ آئی ایم ایف بناتا ہے،کیونکہ ہماری آمدنی ہمارے اخراجات سے بہت کم ہے۔
ہماری درآمدات سے ہماری برآمدات کا تنا سب انتہائی کم تھا۔ ایک طرف ہمیں ڈالرکی اشد ضرورت تھی اور دوسری طرف مقامی بینکوں سے قرضوں کی۔ ان زمانوں میں ہماری شرح نمو انتہائی کم تھی اور اس سے زیادہ ہم نوٹ چھاپتے تھے، جس سے ہماری افراطِ زر بڑھتی تھی۔ افراطِ زر غریب کو غریب ترکر دیتی ہے اور امیر لوگ چونکہ اپنی دولت کو ڈالرز میں رکھتے ہیں، لہٰذا ان پر اثراندازکم ہوتی ہے۔
ایسا بھی ہوا کہ شرفاء کے پاس کالے دھن کی ریل پیل ہوئی یعنی وہ پیسہ جس پر ٹیکس نہیں لگتا۔ اس پیسے کا نعم البدل شرفاء نے ہاؤسنگ اسکیمز کی شکل میں نکالا۔ یعنی کاغذات میں پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ اور مارکیٹ میں قیمت پچیس کروڑ۔ اس طرح سے اس کالے دھن کو چھپایا جاتا تھا۔ یہ پیسے سوئس بینک بھی منتقل کیے جاتے تھے۔ ہمارے بہت سے ریٹائرڈ جنرلز، ریٹائرڈ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ ججز اور سیاستدانوں نے اپنے پیسے دبئی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں منتقل کیے۔
ہمارا بجٹ اس تمام سسٹم کا عکس ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 8.
اس تنازعے کو ورلڈ فورمز پر اٹھایا گیا ہے۔ بلاول بھٹو نے اس حوالے سے دنیا کی اقوام کا ضمیر جھنجوڑ ہے اور وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے، برِصغیر ان تمام بڑی طاقتوں کا میدانِ جنگ بن چکا ہے جو اس وقت آپس میں تضادات اور تنازعات کا شکار ہیں۔
چین کی ٹیکنالوجی نے مغرب کی ٹیکنالوجی کو مات دے دی، جس کا مظاہرہ پاکستان اور ہندوستان کے حالیہ ٹکراؤ میں ہوا۔ پاکستان نے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے چین کی عزت بڑھائی اور ہندوستان نے مغرب اور امریکا کو رسوا کیا۔ ہتھیاروں کی اس ریس میں پاکستان اور ہندوستان غربت کی دلدل میں مزید دھنستے جا رہے ہیں۔ کیا اس ریس کو بڑھاوا دے کر ہم نے ایک اور صدی گزارنی ہے؟ جب حالات بدلیں گے تو جنگ کا بیانیہ بھی بدلے گا اور ساتھ ہی وہ اشرافیہ بھی رسوا ہوگی جو جنگ اور تنازعات کو بڑھاوا دیتی ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی۔
اس بات میں دو رائے نہیں کہ اس حکومت کو معیشت بدحالی سے بھی بدتر حالت میں ملی تھی اور انھوں نے اس معیشت کو سنبھالا ہے۔ افراطِ زر کی شرح کو 33% سے 5% تک لے کر آئے ہیں، ڈالرکی اڑان کوکنٹرول کیا، مالیاتی نظم و ضبطFiscal Discipline کو بتدریج بہتر بنایا جا رہا ہے۔ بڑے عرصے بعد ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری ترسیلاتِ زر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ بلواسطہ ٹیکسز Indirect Taxes ضرور لاگو ہوئے ہیں لیکن یہ حکومت آٹھ ہزار ارب ٹیکسزکلیکشن کو چودہ ہزار ارب تک لے کر آئی ہے۔Tax to GDP Rate آٹھ فیصد سے 10.2% تک لے کر آنا اس حکومت کی بڑی کامیابی ہے، لیکن کیا اس کا فائدہ غریب عوام کو ملا ؟ نہیں ! پاکستان کی آدھی آبادی بھوک و افلاس کا شکار ہے۔
تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں اور ایسے لوگ اب سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر ڈاکٹر من موہن سنگھ یا پھر ڈاکٹر عبد السلام نہیں بن سکتے۔ ان حالات میں اس ملک کی بقاء خطرے میں ہے۔ اس بات کو سمجھنا ہم سب کے لیے اشد ضروری ہے۔ ایسے حکومتی رویوں کے خلاف ایک دن عوام سڑکوں پر نکلیں گے۔ سندھ میں سب سے بڑا کاروبار اغواء برائے تاوان بن چکا ہے۔ سندھ کے عوام ان وڈیروں اور سرداروں کے لیے ایک لاوا بن رہے ہیں جو آہستہ آہستہ پک رہا ہے۔
ملک میں جو اصلاحات لانی تھیں، وہ حکومت اب تک نہیں لاسکی، اگر یہ اصلاحات اس وقت لائی گئیں جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا تو وہ عوام کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوںگی، جیساکہ سوویت یونین میں گوربا چوف کے دور میں ہوا۔ ہماری سیاست اور حکومت دونوں میں دور اندیشی نہیں۔ جس سطح کی سیاسی قیادت ہمارے پاس ہونی چاہیے وہ اب ہمیں میسر نہیں ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون جوکل تک جمہوریت کی باتیں کرتے تھے آج انھوں نے بھی اپنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔
آئی ایم ایف نے ہماری حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہFiscal Discipline لائیں اگر ایسا نہ ہوا تو ہم ایک دفعہ پھر پستی کی طرف چلے جائیں گے،کیونکہ ہمارے پاس ایک مضبوط قیادت کی کمی ہے جو کہ جمہوریت کی بات کرے۔ ہماری قیادت نے جمہوریت کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ بے نظیر کے بعد پیپلز پارٹی کے خد و خال بدل گئے۔ پیپلز پارٹی اب وہ پارٹی ہے جو پہلے پیر پگارا کی ہوا کرتی تھی، مگر ان میں اتنی ایمانداری تو تھی کہ وہ اس بات کو قبول کرتے تھے۔
اس منظر نامے میں بس یہ بات خوش آیند ہے، پاکستان دیوالیہ ہونے کی پوزیشن سے اب باہر ہے، مگر ہم ریفارمز کے عمل میں شکست کھا چکے ہیں جو بروقت ہونی چاہیے تھی۔ پاکستان کو نہ صرف معاشی بلکہ ماحولیاتی چیلنجزکا سامنا بھی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان شدید خطرے کی دہلیز پر ہے۔
اس سال دو ہزار ارب کے اضافی ٹیکسز بڑھائے اور نئے ٹیکسز لاگوکیے گئے ہیں۔ کیا یہ ٹیکسز افراطِ زرکی شرح کوکم کر پائیں گے؟ بالکل ایسے ہی جیسے پچھلے مالی سال میں تین ہزار ارب کے اضافی ٹیکسز لاگو کیے گئے مگر افراطِ زرکی شرح بڑھی نہیں بلکہ اس میں کمی آئی۔ ہمارے زرعی شعبے میں شرح نمو انتہائی مایوس کن رہی، یعنی 0.4% ۔ جب کہ ملک کی 55% لیبر فورس اس شعبے سے منسلک ہے اور مجموعی پیداوار میں ان کا حصہ 26% ہے، جس کا مطلب یہ ہی کہ دیہی علاقے مزید غربت کی طرف جائیں گے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ان کا رخ شہروں کی طرف ہوگا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ بتائے گی پاکستان کیوں زندہ باد
اسرائیل کا ایران پر حملہ غیر متوقع نہیں تھا۔ اسرائیل کی اعلانیہ پالیسی تھی کہ جب بھی ایران ایک خاص حد سے آگے اپنا نیوکلیئر پروگرام لے جائے گا تب اسرائیل اس پر اسٹرائک کرے گا۔ اسرائیلی انٹیلی جنس نے جب یہ رپورٹ کیا کہ ایرانی پروگرام ریڈ لائین سے آگے چلا گیا ہے تو اس کے بعد حملہ ہونا دنوں کی بات تھی۔ حملے کے نتیجے میں اسرائیلی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور ایرانی پاسدران انقلاب سربراہ میجر جنرل حسین سلامی سمیت 6 جوہری سائنسدان بھی نشانہ بنے ہیں۔
درجنوں اسرائیلی طیاروں نے اس حملے میں حصہ لیا۔ یہ شام اور عراق کے راستے ایران پر حملہ آور ہوئے۔ دنیا نے اس حملے کی مذمت شروع کردی ہے۔ امریکا نے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کے اس حملے میں شامل نہیں ہیں۔ اگر ایران نے جوابی کارروائی کی تو ہم اس حملے کو روکنے میں اسرائیل کی مدد کریں گے۔ اسرائیل کا میزائل ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم میزائل حملوں کو روکنے کے لیے خاصا موثر ہے۔
یہاں رک کر ہمیں دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ ایران پر حملوں کی نوبت آئی کیسے۔ 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملوں کا نتیجہ یہ نکلا کے حماس کی ساری ٹاپ قیادت ماری گئی۔ لبنان میں حزب اللہ کی قیادت بھی نشانہ بنی۔ شام میں ایران کی حمایتی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے ساتھ ایران کے پاکستان پر اسٹرائک اور پاکستانی جواب کو بھی جوڑ کر دیکھ لیں۔ ایران جو اپنی پراکسیوں کے ذریعے سب کو آگے لگائے پھر رہا تھا۔ اس کے باوجود ایران مخالف بلکہ دشمن بھی اس کے خلاف براہراست لڑائی سے گریز کر رہے تھے۔
پاکستان ایران کے خلاف کسی لڑائی کا حصہ نہیں بنے گا، یہ ہماری طے شدہ پالیسی ہے۔ ہم برادر مسلمان ملکوں کے آپسی تنازعات سے دُور رہتے ہیں تو اس کے بعد سوال بنتا ہے کہ اگر ایسی بات ہے تو افغانستان میں کیوں کود جاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت ہم ادھر کھڑے ہوتے ہیں جدھر دنیا کھڑی ہوتی ہے۔
اگر مرشد کے الفاظ سے مدد لی جائے تو اسرائیلی پاکستان کو پاکستانیوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ ہم سے کبھی کوئی ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ پنگا نہیں لیں گے۔ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ جتھے رولا ہوسی اوتھے ڈھولا ہوسی۔ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا جدھر کوئی پنگا ہوگا ادھر ہمارا کچھ چنگا ہی ہوگا۔ اگر آپ کو پنگا اور چنگا والی بات سمجھ نہیں آئی تو سرینڈر مودی جی کو دھیان میں لائیں اور دل میں ہی پوچھیں کہ مہاراج ہنڑ آرام اے؟
امریکی فوج کی 250 سالہ تقریبات 14 جون کو ہونی ہیں۔ اسی دن ڈونلڈ ٹرمپ کی سالگرہ بھی ہے۔ ان تقریبات میں صرف ایک مہمان خصوصی بلائے گئے ہیں، بھلا کون؟ فیلڈ مارشل عاصم منیر۔ پاکستان نے انڈیا کو جو چپیڑیں کرائی ہیں اس سے پہلے ہی ٹرمپ ہماری بلائیں لے رہا ہے۔ ہر ہفتے کشمیر پر ثالثی کرانا اور پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ لینا نہیں بھولتا۔
یہ جو کام شروع ہوگیا ہے، اس میں قطار وہاں لگے گی جہاں ہم کھڑے ہوں گے۔ ہمارا جواب یہی ہوگا کہ ہم مصروف ہیں، لڑائیوں جنگوں سے پک چکے ہیں۔ پاکستان میں موجود شدت پسندوں دہشتگردوں کا شافی علاج کرنے پر یکسو ہیں۔ حکومت ترقیاتی کاموں پر کٹ لگا کر 20 فیصد دفاعی بجٹ بڑھا چکی ہے۔ اب دہشتگردی اور رنگ برنگ مسلح گروپوں کا علاج ہوگا۔
ازبکستان سے ریلوے ٹریک خرلاچی کرم ایجنسی سے پاکستان آنا ہے۔ ریکوڈک سے ریلوے ٹریک کراچی گوادر جانا ہے۔ ہمارے پاس ٹائم ہی نہیں ہے کہ کسی اور طرف دیکھیں۔ پاکستان 4 دہائیوں سے مسلسل جنگ کا عملی تجربہ رکھنے اور اس کے نتائج بھگتنے والا ملک ہے۔ اب ہماری بس ہے اور مودی کی بھی ہم نے بس کرا دی ہے۔ جس کا جنگ کو جتنا دل کرتا کرلے اپنا شوق پورا کرے۔
سر جی نے جب پاکستان ہمیشہ زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا تو آپ کیا سمجھے تھے؟ اس کا مطلب تھا اب ہم کسی لڑائی کا حصہ نہیں بنیں گے، ترقی پر فوکس کریں گے پڑھ لکھ کر بڑا انسان (ملک) بنیں گے، خوشیوں میں اپنا حصہ بڑھائیں گے۔ آپ کچھ اور سمجھے تھے تو غلط سمجھے تھے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔