نوآبادیاتی نظام اور مظلوم عوام کا مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
سائنس، ٹیکنالوجی، اور خاص طور پر عسکری قوت کے محاذ پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ ہم یہ بات عام طور پر کہتے ہیں جو بالکل درست ہے کہ ہم سائنس، ٹیکنالوجی، اور عسکری قوت میں مغربی اقوام سے بہت پیچھے ہیں۔ اور اس وقت جو تقابلی صورتحال ہے وہ اس لطیفے کی صورت میں زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکتی ہے کہ ایک شخص سے کسی نے پوچھا کہ تم جنگل میں جا رہے ہو اور بالکل خالی ہاتھ ہو، اچانک کوئی درندہ تمہارے سامنے آجائے اور تم پر حملہ آور ہونا چاہے تو تم اس وقت کیا کرو گے؟ اس نے جواب دیا کہ بھئی میں نے کیا کرنا ہے، جو کچھ کرنا ہے اسی نے کرنا ہے۔ ہماری صورتحال بھی سائنس، ٹیکنالوجی، اور عسکری قوت کے حوالے سے اس وقت عالمی استعمار کے سامنے اسی طرح کی ہے کہ ہم ایک خالی ہاتھ شکاری کی طرح درندوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے ہیں اور ہم میں سے ہر شخص صرف اس انتظار میں ہے کہ اس پر کون سا درندہ کس وقت جھپٹتا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں یہ محرومی ہماری نا اہلی اور بد نصیبی کی انتہا ہے اور یقیناً اس میں سب سے زیادہ قصوروار ہم ہیں کہ ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی اور اس کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو تیل کی عظیم دولت عطا فرمائی وہ بھی ہمارے اس کام نہ آسکی کہ ہم اسے سائنس اور ٹیکنالوجی سے اپنی محرومی کو ختم یا کم کرنے کے لیے استعمال کر سکیں۔ ہماری یہ دولت دوسروں کے کام آئی اور ہماری نااہلی کی وجہ سے نہ صرف تیل کے چشمے بلکہ ان سے حاصل ہونے والی دولت بھی دوسروں کے کنٹرول میں ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں اس میں سے رائلٹی کے نام پر جو خیرات اور سود کے چار پیسے ملتے ہیں وہ بھی عیاشی پر خرچ ہوتے ہیں اور اس میں سے جو تھوڑے بہت پیسے بچ جاتے ہیں وہ مغربی ملکوں کے بینکوں میں پڑے ہیں جو کسی وقت بھی منجمد ہو سکتے ہیں۔
لیکن ہماری اس اجتماعی کوتاہی کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی، اور عسکری اسلحہ و مہارت میں ہمارے ایک حد سے آگے بڑھنے پر پابندیاں ہیں کہ جو ٹیکنالوجی اور مہارت قابضوں اور حملہ آوروں کے پاس ہے ہم وہ حاصل نہیں کر سکتے۔ ہمارے گرد اقوام متحدہ کی لگائی ہوئی قدغنوں کا حصار ہے۔ عراق نے ایٹم بم بنانا چاہا تو اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا اور اب خود عراق پر بھی قبضہ کر لیا گیا ہے۔ پاکستان نے ہمت کر کے ایٹم بم بنا لیا ہے تو اس کے باوجود کہ ہماری ایٹمی قوت و صلاحیت کا تناسب ہمارے معترضین و معاندین کی ایٹمی قوت و صلاحیت کے مقابلے میں ایک فیصد کا بھی نہیں ہے لیکن ہمارا ایٹم بم برداشت نہیں ہو رہا۔ اور ہماری ایٹمی صلاحیت کو ختم کرانے کی عالمی مہم اب آخری مراحل میں داخل ہو رہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عالمی اداروں میں ہمارے طلبہ اور ماہرین کو ایک حد سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے اور ٹیکنالوجی کی جدید ترین صلاحیت اور وسائل تک ہماری رسائی تقریباً ناممکن بنا دی گئی ہے۔ اور یہ بھی اس ’’ریموٹ کنٹرول غلامی‘‘ کا ایک حصہ ہے جسے ہم نے آزادی سمجھ رکھا ہے اور جس کے فریب سے نکلنے کے لیے ہم اجتماعی طور پر سنجیدہ نہیں ہیں۔
یہ ایک جھلک ہے جو میں نے نوآبادیاتی شکنجے کے بارے میں آپ کو دکھانے کی کوشش کی ہے جو ہمارے گرد قائم ہے اور جس میں ہم بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ پہلے یہ شکنجہ نظر نہیں آتا تھا مگر اب تھوڑا تھوڑا نظر آنے لگا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس کے بارے میں بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گنجائش بلکہ ضرورت ہے۔ لیکن سردست یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دو محاذ ایسے ہیں جن پر ہم اس وقت کام کر سکتے ہیں اور انہی پر سب سے پہلے کام کرنا ضروری ہے۔
ایک علم یعنی باخبری اور انفرمیشن کا محاذ ہے جبکہ دوسرا سیاسی اور فکری بیداری کا محاذ ہے۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ صورتحال اور معروضی حقائق سے باخبر نہیں ہیں۔ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے، بلکہ ہمارے داخلی حلقوں میں کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں اس بے خبری سے نجات حاصل کرنا ہوگی، اس جہالت اور لاعلمی سے پیچھا چھڑانا ہوگا، اور معروضی حقائق سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے صورتحال کا صحیح ادراک کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم سطحی باتیں کرنے اور جذباتی نعرے لگانے کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے۔
دوسرا شعبہ سیاسی اور فکری بیداری کا ہے جس میں عالم اسلام بہت پیچھے اور بہت ہی پیچھے ہے۔ ہمارے پاس سیاسی جدوجہد، عالمی رائے عامہ، اور انسانی ضمیر کا ہتھیار آج بھی موجود ہے جسے اگر ہم کامیابی کے ساتھ استعمال کر سکیں تو حالات کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ اس میں ہمیں آزاد اقوام کی سیاسی جدوجہد سے استفادہ کرنا ہوگا اور عالمی سطح پر اپنا موقف پیش کرنے اور اس کا احساس بیدار کرنے کے لیے محنت کرنا ہوگی۔ یہ کام مشکل ضرورت ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اور ہمارے پاس اس وقت صرف یہی ایک راستہ باقی ہے۔ اگر ہمارے علماء کرام، اساتذہ، دانشور، اور صحافی اس کی اہمیت کا احساس کریں تو وہ اپنے اپنے شعبہ میں ذہن سازی، فکری تربیت، اور جذبۂ حریت کو بیدار کرنے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے اور میرا ایمان ہے کہ اگر ہم اپنے حصے کا کام صحیح طور پر کر گزریں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ضرور آئے گی اور کامیابی کے راستے ضرور کھلیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اور ٹیکنالوجی سکتے ہیں کے ساتھ کر سکتے اور اس اور ہم ہے اور کے لیے ہو رہا
پڑھیں:
ہماری حکومت گرانے کی ان کی اوقات ہے، نہ حیثیت، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا
وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہماری جنگ حق کی ہے یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے، ان کی بار بار چیلنج کر رہا ہوں کہ سیاسی طریقوں سے یہ ہماری حکومت گرا سکتے ہیں، جمہوری طریقے سے ہماری حکومت گرانے کی ان کی اوقات ہے نہ حیثیت۔
اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹس پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس ملک میں قانون حرکت میں نہیں ہے، جو حالات ہیں اس کی جنگ بانی پی ٹی آئی لڑ رہے ہیں، یہ جھوٹے اور من گھڑت کیسز بہت پہلے سے چل رہے تھے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کرتے ہیں، اس طرح کی پیشیوں سے ہم گھبرانے والے نہیں ہیں، پانچ اگست کو ہر ضلعے ہر حلقے سے عوام نکلے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف یہ کیس 2016 سے چل رہا ہے، میرے خلاف جو کیس بنایا گیا ہے اس کیس میں کچھ بھی نہیں ہے، میرے اوپر اسلحہ اور بوتلیں ڈالی گئی ہیں، جب یہ کیس بنایا گیا میں نہ ہی وہاں موجود تھا نہ ہی وہ گاڑی میری تھی۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ یہ کیسز کو لٹکاتے ہیں، ہماری جنگ حق کی ہے یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے، میں اپنے صوبے میں اس احتجاج کو لیڈ کروں گا۔
انہوں نے کہا میں ان کو بار بار چیلنج کر رہا ہوں کہ یہ سیاسی اور جمہوری طریقوں سے ہماری حکومت نہیں گراسکتے، حکومت گرانے کی ان کی اوقات ہے نہ حیثیت، ہاں غیر قانونی طریقوں سے تو تم نے پورا پاکستان ٹیک اوور کیا ہوا ہے، وہ کرتے رہو آپ۔