اسلام ٹائمز: راستے کے اختتام پر جب ہم انقلاب چوک پر پہنچے تو سورج آسمان پر پوری بلندی پر کھڑا تھا۔ گویا وہ بھی اس شان کی گواہی دینے آیا تھا۔ اور اجتماع عروج پر پہنچ چکا تھا، لوگ اب اس کی روشنی میں دعا مانگ رہے تھے۔ ظالم سے دشمنی کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ ایثار کےراستے کو جاری رکھنے کی دعا۔۔ علیؑ کے راستے پر استقامت کے لیے۔ اس دن کے لیے جب عدالت کا ظہور ہوگا اور دنیا ولایت کا ذائقہ چکھے گی۔ ایک نوجوان، جو اپنے دوستوں کے ساتھ نعرے لگاتا ہے آج ہم سے جوش اور جذبے سے بات کرتا ہے۔ وہ موجودہ ایران کے حالیہ دنوں کی خوبصورت تشبیہ ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ روشنی اور اندھیرے کی جنگ ہے۔ خصوصی رپورٹ:

جب ہم انقلاب چوک پہنچے تو سورج آسمان پر پوری بلندی پر کھڑا تھا۔ گویا یہ بھی تہران کے عوام کے ملین مارچ کی شان کا مشاہدہ کرنے آیا ہے۔ لوگوں کا اجتماع جو اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا، اب یہ لوگ آج کے اس سورج کی روشنی میں دعائیں مانگ رہے تھے اور "لبیک یا علیؑ" کا نعرہ لگا رہے تھے۔ سورج ابھی افق سے اوپر نہیں چڑھا تھا کہ فردوسی اسکوائر سے انقلاب اسکوائر تک تہران کی گلیاں آہستہ آہستہ جگمگا اٹھیں۔ لیکن یہ بیداری دارالحکومت کی روزمرہ زندگی سے جیسی نہیں تھی، بلکہ یہ قیام کی ایک شکل ہے۔ والہانہ محبت کیساتھ "لبیک یا علیؑ" کی صدا، نیاز کے موکب اور عطر کی خوشبو ہوا میں لپٹی ہوئی تھی۔

وہ لوگ شاید جن کے دل رات کو کانپ رہے ہوں گے، لیکن ان کے قدم پہاڑ کی طرح مضبوط تھے۔ ایران، چند گھنٹے پہلے، ایک بزدلانہ حملے میں زخمی ہوا تھا۔ لیکن 30 لاکھ تہرانیوں نے ڈرنے کے بجائے ایک نیا اور انوکھا افسانہ رقم کیا ہے۔ گویا ان کے دلوں میں لگے زخم نے نہ صرف ان کو خوفزدہ اور زمین گیر نہیں کیا بلکہ ان کی رگوں میں نیا خون بھی انڈیل دیا تھا۔ یہ خون ایمان کی بدولت ہے جو شاہؑ نجف کی دین ہے۔ سڑکیں بیدار آنکھوں اور شعلہ ور دل رکھنے والے لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ گھومنے پھرنے والے بچے، ہاتھ سے بنے تختے اٹھائے نوجوان، سر پر پہنے اسکارف والی نوجوان خواتین، آنسوؤں کی چمک کی حامل مسکراتی مائیں اور سالہا سال کے تجربے اور فخر سے لبریز چہروں والے بوڑھے لیکن ہشاش باپ۔

ماں کی گود میں چھ ماہ کے بچے سے لے کر چھڑی لے کر چلنے والے 80 سالہ بوڑھے تک، سب آ چکے تھے۔ سڑکیں اور گلیاں نہ صرف لوگوں سے بھری ہوئی تھیں بلکہ روشنی اور نور کا ایک انبوہ تھا۔ جوش کی شمع، حب الوطنی کی قندیلیں، وفا کے چراغ جل رہے تھے۔ 10 کلومیٹر کے راستے پر 2400 موکب لگائے گئے تھے اور 100،000 سے زائد رضاکار زائرین اور حاضرین کو مختلف خدمات فراہم کر رہے تھے۔ راستے کے درمیان میں، استقبالیہ مواکب میں سے ایک کے پاس، میں نے ایک نوجوان ماں سے بات کی۔ اس نے اپنی چھوٹی بیٹی کو بازوؤں میں پکڑ رکھا تھا، اس کی آنکھیں سرخ تھیں، تھکاوٹ سے نہیں بلکہ ان آنسوؤں سے جو چھپ نہیں سکتے۔

میں نے سوال کیا آج کیوں آئے ہیں؟ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، "پچھلی رات میں دھماکے کی وجہ سے سو نہیں سکی، میرا دل پریشان تھا، لیکن جب میں صبح اٹھی تو میں نے خود سے کہا کہ مجھے آنا ہے، اگر علی (خامنہ ای) اب اکیلا رہ جائے گا تو اور کون بچے گا؟ میں اس لیے آئی ہوں کہ میری بیٹی کو معلوم ہو کہ ہم خطرے کے وقت بھی علی (خامنہ ای) کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آئس کریم اور شربت تقسیم کرنے والے اسٹال کے آگے، میں نے ایک باپ کو اپنے دو سالہ جڑواں بچوں کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے دیکھا۔ دور سے وہ دو پروں والا پرندہ دکھائی دے رہا تھا، مسکراتے بچے اس پر بیٹھے تھے۔

دوسری طرف ایک لڑکی حضرت علی ؑکے ہاتھ کی تصویر کو رنگین کر رہی تھی۔ اس کی ماں نے کہا، "میں کل رات غصے میں تھی، میں نے اپنے آپ سے کہا کہ حقیقی تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ ہم کل آسکیں، تاکہ ہماری بیٹی کھیل سکے، اور غدیر کے دل میں پروان چڑھے۔ میں خوف کو امید میں بدلنے آئی ہوں۔" راستے میں ہجوم کے سمندر میں غدیر کے موکب خوشی اور ایثار کے جزیروں کی طرح نکل کھڑے ہوئے تھے۔ کچھ کھانا پیش کر رہے تھے، کچھ مسکرا رہے تھے، کہیں بچوں کے لیے کھیل کا سامان تھا اور کچھ صرف جوش و جذبے کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ چھوٹے جھولوں پر بچوں کے قہقہے، اے اہلِ جہان علیؑ اللہ کے ولی ہیں، کے نعروں کی گونج تھی اوریہ پورے شہر کو لرزا رہی تھی۔

لیکن واقعہ کی انتہا یہ تھی کہ ہجوم نے یک زبان ہو کر کہا، ہم کوفی نہیں ہیں جو علی تنہا چھوڑ دیں۔ میں دور سے ویل چیئر والی عورت کو دیکھتا ہوں۔ میں قریب آتا ہوں اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیسی ہیں تو وہ کہتی ہیں کہ خدا کی قسم اگر ہم کسی دھمکی کیوجہ سے پیچھے ہٹ جاتے تو آج نہ عاشورہ کی خبر تھی نہ غدیر کی، ہم ایک ہی مٹی کے بچے ہیں، کل رات انہوں نے میزائلوں سے حملہ کیا، آج ہم ان کے سامنے اپنے عشق کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایک فریاد جو نہ صرف زبانوں سے بلکہ دلوں سے نکلی تھی۔ ایسی فریاد جس نے پتھروں کو بھی ہلا کر دیا تھا۔

راستے کے اختتام پر جب ہم انقلاب چوک پر پہنچے تو سورج آسمان پر پوری بلندی پر کھڑا تھا۔ گویا وہ بھی اس شان کی گواہی دینے آیا تھا۔ اور اجتماع عروج پر پہنچ چکا تھا، لوگ اب اس کی روشنی میں دعا مانگ رہے تھے۔ ظالم سے دشمنی کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ ایثار کے راستے کو جاری رکھنے کی دعا، علیؑ کے راستے پر استقامت کی دعا، اس دن کی دعا جب عدالت کا ظہور ہوگا اور دنیا ولایت کا ذائقہ چکھے گی۔ ایک نوجوان، جو اپنے دوستوں کے ساتھ نعرے لگاتا ہے آج جوش اور جذبے سے بات کرتا ہے۔ وہ موجودہ ایران کے حالیہ دنوں کی خوبصورت تشبیہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ روشنی اور اندھیرے کی جنگ ہے، دشمن خوف کے ساتھ آیا اور ہم امید کے ساتھ۔ وہ بم لے کر آئے، ہم پرچم لیکر، وہ ابھی تک نہیں سمجھ پائے کہ یہ لوگ ایمان والے، ہم علی ؑ والے ہیں، علی کے محاذ پہ ہیں، خواہ یہ دنیا لرزتی رہے، پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے راستے رہے تھے کے ساتھ کے لیے کی دعا کر رہے

پڑھیں:

دو ملک نہیں صرف فلسطین نامی ایک ملک ہونا چاہیئے، ذوالفقار بھٹو جونیئر

پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو شہید کے پوتے نے کہا کہ بلوچستان میں ہونے والے ظلم کی مذمت کرتے ہیں، گلگت بلتستان میں بھی سیاسی قیدی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو شہید کے پوتے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے کہا ہے کہ دو ملک نہیں بلکہ صرف فلسطین کے نام سے ایک ملک ہونا چاہیئے، مجھے اسٹیبلشمنٹ کی کوئی سپورٹ نہیں ہے، میں خود اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کر رہا ہوں، میری ہمشیرہ فاطمہ بھٹو آرہی ہیں، ہم ان کے ساتھ نئی پارٹی کا اعلان کریں گے۔ کراچی میں اپنی رہائش گاہ 70 کلفٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہائی جیک ہوچکی ہے، ہم زرداری لیگ کو مسترد کرتے ہیں، یہ وہ پیپلز پارٹی نہیں جو ذوالفقار علی بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو شہید کی تھی، ہم پی پی پی کے ساتھ کبھی بھی نہیں کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی پالیسی کے ساتھ ہر کوئی نہیں ہے، میں لیاری سے الیکشن لڑوں گا۔ انہوں نے کہا کہ لیاری کے لوگ اور عوام مشکل میں ہیں، پی پی پی کی صوبائی حکومت متاثرین کو گھر فراہم کرے، یہ لوگ بھیگ نہیں مانگیں گے۔

ذوالفقار بھٹو جونیئر نے کہا کہ جب میں نے لاہور میں کسانوں کے ساتھ پریس کانفرنس کی تھی تو اپنی پارٹی کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پارٹی کے نام پر غور کر رہے ہیں، الیکشن میں اگر موقع ملا تو لیاری سے الیکشن لڑوں گا، لیاری کے لوگوں نے پی پی پی کو ووٹ دیا، لیکن آج کے لیاری کی صورتحال دیکھیں، ایل ڈی اے کی اسکیم 42 میں لیاری متاثرین کو جگہ دینی چاہیئے، اگر آپ شاہراہ بھٹو بنا سکتے ہیں تو لیاری والوں کو گھر کیوں نہیں دے سکتے، شاہراہ بھٹو کراچی کے عوام کے منہ پر طمانچہ اور فضول پروجیکٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ کی کوئی سپورٹ نہیں، اسٹبلشمنٹ نے ہمارے خاندان کے ساتھ بہت زیادتی کی، یہ جھوٹ ہے کہ مجھے اسٹبلشمنٹ کی کوئی سپورٹ ہے، میں خود اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کر رہا ہوں، میری ہمشیرہ فاطمہ بھٹو آرہی ہے، ہم ان کے ساتھ پارٹی کا اعلان کریں گے، ہمارا یوتھ ونگ ہمارے ساتھ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہر وڈیرہ ایک جیسا نہیں ہے، میں بھی ایک وڈیرہ ہوں اور آپ کے سامنے ہوں، موجودہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں، ہم کو آئین کا تحفظ کرنا ہے، آئین کو اصل شکل میں بحال ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ میں وطن پرست اور سندھ پرست ہوں، خود مختاری ہونی چاہیئے، غزہ ایک اہم فارن پالیسی معاملہ ہے، دو ملک نہیں بلکہ صرف فلسطین کے نام سے ایک ملک ہونا چاہیئے، ہم شہید ذوالفقار اور مرتضیٰ بھٹو شہید کے فلسفہ سے الگ نہیں ہو رہے، بلوچستان میں ہونے والے ظلم کی مذمت کرتے ہیں، گلگت بلتستان میں بھی سیاسی قیدی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب نے لیاری کیلئے ایک ماسٹر پلان بنایا تھا، لیاری ان کے دل کے قریب تھا، لیاری پیرس بننے والا تھا، ہم پیرس کی کاپی تو نہیں کریں گے، لیکن اسے خوبصورت بنائیں گے، زرداری لیگ اور پی ٹی آئی کے نمائندے اقتدار میں آکر کھا پی کر چلے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کو پتہ ہے کون پاکستان چلا رہا ہے، ہم نوجوانوں کی طاقت سے اس نظام کو بدل سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہائی جیک ہوچکی ہے، ہم زرداری لیگ کو مسترد کرتے ہیں، یہ پیپلز پارٹی وہ نہیں، جو ذوالفقار علی بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو شہید کی تھی، زرداری لیگ میں تصور سے بھی زائد کرپشن ہو رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے کہا کہ ہم نے اردو اسپیکنگ کمیونٹی کے ساتھ بھی ملاقاتیں کی ہیں، وہ بھی اس ملک کا حصہ ہیں، ہم نظام کے مخالف ہیں، کسی پارٹی کے مخالف نہیں، میں سندھ پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، نون لیگ اور زرداری لیگ امیروں کی سیاست کر رہے ہیں، غریبوں کی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی اسٹیبلشمنٹ کیلئے کام کر رہی ہے، پی پی پی نے میر مرتضیٰ بھٹو کے راستے میں بہت رکاوٹیں ڈالیں، ہم پی پی پی کے ساتھ کبھی بھی نہیں کام کریں گے، پیپلز پارٹی ختم ہوچکی ہے، صورتحال ایسی ہی رہی تو پاکستان پیپلز پارٹی کا مستقبل کچھ نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حوالہ ہنڈی میں ملوث 5 افراد گرفتار، 75 لاکھ روپے برآمد، ایف آئی اے
  • ’انڈیا کس منہ سے کھیلے گا!‘ شاہد آفریدی کے طنز پر ہال قہقہوں سے گونج اُٹھا
  • دو ملک نہیں صرف فلسطین نامی ایک ملک ہونا چاہیئے، ذوالفقار بھٹو جونیئر
  • بھارت کس منہ سے پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلے گا، اسدالدین اویسی نے سوال اٹھا دیا
  • ایران میں سزائے موت پر عملدرآمد کے بڑھتے رحجان پر وولکر ترک کو تشویش
  • ذوالفقار بھٹو جونیئر کا لاڑکانہ سے الیکشن لڑنے کا اعلان 
  • کیا یہ واقعی خاتون ہیں؟ ووگ میں اے آئی ماڈل کی موجودگی نے معیار حسن پر سوالات اٹھا دیے
  • پنجاب ٹریفک قوانین: رواں سال48 لاکھ 76 ہزار سے زائد افراد کے ڈرائیونگ لائسنس جاری
  • ہیپاٹائٹس سی: 2030 تک ایک کروڑ 65 لاکھ افراد کی اسکریننگ ہوگی، وزیر اعظم
  • ہیپاٹائٹس کے عالمی دن پر وزیراعظم کا ایک کروڑ 65 لاکھ افراد کی سکریننگ کا اعلان