30 لاکھ افراد کا مارچ، تہران ایران ذوالفقار علیؑ ہے، کے نعروں سے گونج اٹھا
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: راستے کے اختتام پر جب ہم انقلاب چوک پر پہنچے تو سورج آسمان پر پوری بلندی پر کھڑا تھا۔ گویا وہ بھی اس شان کی گواہی دینے آیا تھا۔ اور اجتماع عروج پر پہنچ چکا تھا، لوگ اب اس کی روشنی میں دعا مانگ رہے تھے۔ ظالم سے دشمنی کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ ایثار کےراستے کو جاری رکھنے کی دعا۔۔ علیؑ کے راستے پر استقامت کے لیے۔ اس دن کے لیے جب عدالت کا ظہور ہوگا اور دنیا ولایت کا ذائقہ چکھے گی۔ ایک نوجوان، جو اپنے دوستوں کے ساتھ نعرے لگاتا ہے آج ہم سے جوش اور جذبے سے بات کرتا ہے۔ وہ موجودہ ایران کے حالیہ دنوں کی خوبصورت تشبیہ ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ روشنی اور اندھیرے کی جنگ ہے۔ خصوصی رپورٹ:
جب ہم انقلاب چوک پہنچے تو سورج آسمان پر پوری بلندی پر کھڑا تھا۔ گویا یہ بھی تہران کے عوام کے ملین مارچ کی شان کا مشاہدہ کرنے آیا ہے۔ لوگوں کا اجتماع جو اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا، اب یہ لوگ آج کے اس سورج کی روشنی میں دعائیں مانگ رہے تھے اور "لبیک یا علیؑ" کا نعرہ لگا رہے تھے۔ سورج ابھی افق سے اوپر نہیں چڑھا تھا کہ فردوسی اسکوائر سے انقلاب اسکوائر تک تہران کی گلیاں آہستہ آہستہ جگمگا اٹھیں۔ لیکن یہ بیداری دارالحکومت کی روزمرہ زندگی سے جیسی نہیں تھی، بلکہ یہ قیام کی ایک شکل ہے۔ والہانہ محبت کیساتھ "لبیک یا علیؑ" کی صدا، نیاز کے موکب اور عطر کی خوشبو ہوا میں لپٹی ہوئی تھی۔
وہ لوگ شاید جن کے دل رات کو کانپ رہے ہوں گے، لیکن ان کے قدم پہاڑ کی طرح مضبوط تھے۔ ایران، چند گھنٹے پہلے، ایک بزدلانہ حملے میں زخمی ہوا تھا۔ لیکن 30 لاکھ تہرانیوں نے ڈرنے کے بجائے ایک نیا اور انوکھا افسانہ رقم کیا ہے۔ گویا ان کے دلوں میں لگے زخم نے نہ صرف ان کو خوفزدہ اور زمین گیر نہیں کیا بلکہ ان کی رگوں میں نیا خون بھی انڈیل دیا تھا۔ یہ خون ایمان کی بدولت ہے جو شاہؑ نجف کی دین ہے۔ سڑکیں بیدار آنکھوں اور شعلہ ور دل رکھنے والے لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ گھومنے پھرنے والے بچے، ہاتھ سے بنے تختے اٹھائے نوجوان، سر پر پہنے اسکارف والی نوجوان خواتین، آنسوؤں کی چمک کی حامل مسکراتی مائیں اور سالہا سال کے تجربے اور فخر سے لبریز چہروں والے بوڑھے لیکن ہشاش باپ۔
ماں کی گود میں چھ ماہ کے بچے سے لے کر چھڑی لے کر چلنے والے 80 سالہ بوڑھے تک، سب آ چکے تھے۔ سڑکیں اور گلیاں نہ صرف لوگوں سے بھری ہوئی تھیں بلکہ روشنی اور نور کا ایک انبوہ تھا۔ جوش کی شمع، حب الوطنی کی قندیلیں، وفا کے چراغ جل رہے تھے۔ 10 کلومیٹر کے راستے پر 2400 موکب لگائے گئے تھے اور 100،000 سے زائد رضاکار زائرین اور حاضرین کو مختلف خدمات فراہم کر رہے تھے۔ راستے کے درمیان میں، استقبالیہ مواکب میں سے ایک کے پاس، میں نے ایک نوجوان ماں سے بات کی۔ اس نے اپنی چھوٹی بیٹی کو بازوؤں میں پکڑ رکھا تھا، اس کی آنکھیں سرخ تھیں، تھکاوٹ سے نہیں بلکہ ان آنسوؤں سے جو چھپ نہیں سکتے۔
میں نے سوال کیا آج کیوں آئے ہیں؟ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، "پچھلی رات میں دھماکے کی وجہ سے سو نہیں سکی، میرا دل پریشان تھا، لیکن جب میں صبح اٹھی تو میں نے خود سے کہا کہ مجھے آنا ہے، اگر علی (خامنہ ای) اب اکیلا رہ جائے گا تو اور کون بچے گا؟ میں اس لیے آئی ہوں کہ میری بیٹی کو معلوم ہو کہ ہم خطرے کے وقت بھی علی (خامنہ ای) کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آئس کریم اور شربت تقسیم کرنے والے اسٹال کے آگے، میں نے ایک باپ کو اپنے دو سالہ جڑواں بچوں کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے دیکھا۔ دور سے وہ دو پروں والا پرندہ دکھائی دے رہا تھا، مسکراتے بچے اس پر بیٹھے تھے۔
دوسری طرف ایک لڑکی حضرت علی ؑکے ہاتھ کی تصویر کو رنگین کر رہی تھی۔ اس کی ماں نے کہا، "میں کل رات غصے میں تھی، میں نے اپنے آپ سے کہا کہ حقیقی تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ ہم کل آسکیں، تاکہ ہماری بیٹی کھیل سکے، اور غدیر کے دل میں پروان چڑھے۔ میں خوف کو امید میں بدلنے آئی ہوں۔" راستے میں ہجوم کے سمندر میں غدیر کے موکب خوشی اور ایثار کے جزیروں کی طرح نکل کھڑے ہوئے تھے۔ کچھ کھانا پیش کر رہے تھے، کچھ مسکرا رہے تھے، کہیں بچوں کے لیے کھیل کا سامان تھا اور کچھ صرف جوش و جذبے کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ چھوٹے جھولوں پر بچوں کے قہقہے، اے اہلِ جہان علیؑ اللہ کے ولی ہیں، کے نعروں کی گونج تھی اوریہ پورے شہر کو لرزا رہی تھی۔
لیکن واقعہ کی انتہا یہ تھی کہ ہجوم نے یک زبان ہو کر کہا، ہم کوفی نہیں ہیں جو علی تنہا چھوڑ دیں۔ میں دور سے ویل چیئر والی عورت کو دیکھتا ہوں۔ میں قریب آتا ہوں اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیسی ہیں تو وہ کہتی ہیں کہ خدا کی قسم اگر ہم کسی دھمکی کیوجہ سے پیچھے ہٹ جاتے تو آج نہ عاشورہ کی خبر تھی نہ غدیر کی، ہم ایک ہی مٹی کے بچے ہیں، کل رات انہوں نے میزائلوں سے حملہ کیا، آج ہم ان کے سامنے اپنے عشق کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایک فریاد جو نہ صرف زبانوں سے بلکہ دلوں سے نکلی تھی۔ ایسی فریاد جس نے پتھروں کو بھی ہلا کر دیا تھا۔
راستے کے اختتام پر جب ہم انقلاب چوک پر پہنچے تو سورج آسمان پر پوری بلندی پر کھڑا تھا۔ گویا وہ بھی اس شان کی گواہی دینے آیا تھا۔ اور اجتماع عروج پر پہنچ چکا تھا، لوگ اب اس کی روشنی میں دعا مانگ رہے تھے۔ ظالم سے دشمنی کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ ایثار کے راستے کو جاری رکھنے کی دعا، علیؑ کے راستے پر استقامت کی دعا، اس دن کی دعا جب عدالت کا ظہور ہوگا اور دنیا ولایت کا ذائقہ چکھے گی۔ ایک نوجوان، جو اپنے دوستوں کے ساتھ نعرے لگاتا ہے آج جوش اور جذبے سے بات کرتا ہے۔ وہ موجودہ ایران کے حالیہ دنوں کی خوبصورت تشبیہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ روشنی اور اندھیرے کی جنگ ہے، دشمن خوف کے ساتھ آیا اور ہم امید کے ساتھ۔ وہ بم لے کر آئے، ہم پرچم لیکر، وہ ابھی تک نہیں سمجھ پائے کہ یہ لوگ ایمان والے، ہم علی ؑ والے ہیں، علی کے محاذ پہ ہیں، خواہ یہ دنیا لرزتی رہے، پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے راستے رہے تھے کے ساتھ کے لیے کی دعا کر رہے
پڑھیں:
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رکن زکریا یونیورسٹی کے سابق ناظم برادر لطیف خان سرا ایڈووکیٹ عدالت عظمیٰ اپنے ہی گائوں ساہداں مرید کے میں قتل کر دیے گئے۔ جو لوگ نا حق مارے جائیں انہیں شہید کا رتبہ ملتا ہے۔ لطیف خان سرا کو شہید ہی لکھنا اور کہنا ہے، بہت ہی ہنس مکھ انسان تھے۔ زمانہ طالم علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے متحرک کارکن تھے، اور بزم پیغام لاہور کے صدر بھی رہے، اسلامی جمعیت طلبہ بھی اپنے کارکنوں سے ان کی صلاحیتیوں کے مطابق کام لیتی رہی ہے، اب بھی یہی ہے، انہیں جمعیت نے زکریا یونیورسٹی بھیجا کہ وہ اس محاذ پر ان کی ضرورت ہے وہاں خوب ذمے داری نبھائی اور نہایت ذمے داری کے ساتھ یہاں کا موچہ سنبھالا، بہت ہی خوابیوں والے انسان تھے۔ پیار کرنے والے دوست، نہایت متحرک زندگی کے حامل، لاہور بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ لاہور بار پنجاب کی ایک بہت بڑی بار ایسو سی ایشن ہے کم و بیش پچیس ہزار سے زائد اس کے ارکان ہیں کوئی سینئر ہے اور کوئی جونیئر۔ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے بیش تر جج لاہور بار ایسوسی ایشن کے رکن رہے ہیں۔ گویا ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل بار ایسوسی ایشن ہے لیکن اس کے رکن کا پنجاب کے بڑے شہر، بڑے ضلع میں گھر کی دہلیز پر قتل ہوجانا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
بات لطیف خان سرا کی نہیں انہوں نے اپنی جان اللہ کے سپرد کردی وہ انسان جو لوگوں کے لیے عدالتوں سے انصاف مانگتا رہا آج خود خبر بن گیا اور نہ جانے اسے انصاف ملے گا یا نہیں؟ اس کا خون رائیگاں جائے گا یا واقعی جن لوگوں نے قانون ہاتھ میں لے کر ایک انسان کی جان لی ہے قانون قاتلوں پر ہاتھ ڈال کر ان کی جان لے گا یا نہیں۔ اب ہمیں اس وقت اور لمحے کا انتظا ر رہے گا۔ ہمارا آئین کیا کہتا ہے یہی کہتا ہے کہ حکومت اور ریاست شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے دار ہے۔ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ نیند سے بیدار ہو، غنودگی کی کیفیت سے باہر آئے اور دیکھے کہ پنجاب میں کون بدمعاش لوگ اور کتنے ٹولے ہیں جو لاہور میں ہی لوگوں کی جائدادوں پر قبضے کیے بیٹھے ہیں۔ اور ریاست یہ بھی دیکھے کہ ان میں کتنے ہیں جو وفاق میں اور پنجاب میں حکمران رہنے والی ان سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں بلکہ اگلی صفوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ان سیاسی جماعتوں کی اگلی صفوں میں بیٹھے مل جائیں گے۔ یقین مانیے کہ سارا لاہور اس بات سے واقف ہے یہاں قبضہ مافیا بہت طاقت ور ہے۔ اسے پولیس کی سرپرستی ملتی ہے اور ان کے لیے تمام سرکاری اداروں کی بھی چھتری مہیا رہتی ہے۔ جو ادارے لاہوں میں زمینوں کے معاملات سے متعلق ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے پہلے بھی یہاں وزراء اعلیٰ گزرے ہیں۔ یہ سب کے سب سیاسی گھرانوں کا پس منظر رکھنے والے تھے۔ مگر دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ لاہور میں قبضہ مافیا کب سے متحرک ہوا، اسے کس کس سیاسی جماعت اور سیاسی گروہ کی شہ حاصل ہے، یہ بڑے دکھ کے ساتھ بات لکھی جارہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں پولیس، حکومت، میڈیا اور سرکاری اداروں نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ کسی مظلوم کا ساتھ نہیں دے گا۔ وہ ظالموں کے ہاتھ میں کھیلیں گے اور انہی کے مفادات کا تحفظ بھی کریں گے۔
ذرا سروے تو کیا جائے کہ پنجاب میں جائدادوں کے جھگڑوں میں کتنی جانیں نا حق گئی ہیں کوئی این جو او اس پر کام کرے گی؟ کوئی میڈیا ہائوس اس بارے میں متحرک ہوگا؟ کوئی سیاسی جماعت، جو اقدار کے لیے سڑکوں، گلی، کوچوں میں رہتی ہے اس اہم ترین معاملے اور ایشوز پر کام کرے گی؟ یا یہ سب لوگ مظلوموں کو ظالموں کے ہاتھوں پٹتے ہوئے دیکھتی رہیں گی۔ مرید کے کا گاؤں ننگل ساہداں کی مٹی بھی حکمرانوں سے سوال کر رہی ہے کہ وہ کب تک مظلوموں کے خون سے سیراب ہوتی رہے گی! قانون کیوں نہیں جاگ رہا اور قانون کے رکوالے کیوں متحرک نہیں ہورہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ذرا ہمت تو کریں، دیکھیں کہ لاہور شہر میں کہاں کہاں قبضہ مافیا ہے۔ پولیس، ایکسائز اور دیگر سرکاری اداروں کے بدنام زمانہ اہل کار کس کس کی جائداوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور کتنے ہیں جو مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں ہیں؟ اور ہمت کرکے ان سب کا سر کچلیے اور ثابت کیجیے کہ شریفوں کی حکومت میں بدمعاشوں کا سکہ نہیں چلے گا۔ تاکہ اس ملک میں سر اٹھاکر چلنے کی رسم شروع ہوسکے اور ہم بھی کہہ سکیں فیض صاحب اب زمانہ بدل گیا آپ بھی اپنے خیالات بدل لیں ورنہ فیض تو یہ کہہ ہی رہے ہیں اور ہم بھی ان کے ساتھ ہی ہیں۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جو کے لیے
جو چند اہلِ جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں