نیا بجٹ عوام کو مبارک ہو۔ اس بجٹ میں بھی حکومت نے اپنے تئیں غریبوں کو نوازنے کی پوری کوشش تو کی ہے مگر یہ کوشش لاحاصل ہی رہی، اس لیے کہ جب تک ملک میں مہنگائی اورکرپشن کا راج ہے، حکومت کی طرف سے عوام کو دی جانے والی ریلیف اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہوگی۔
جس ملک کے چوالیس فی صد عوام خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہوں وہاں جلد خوشحالی کیسے آ سکتی ہے اور ملک میں معاشی استحکام کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ ملک کو غربت کی دلدل سے نکالنا کوئی آسان کام نہیں ہے، بہرحال ہمارے حکمران آئے دن عوام کو مہنگائی کے ختم ہونے کی تو نہیں، البتہ کم ہونے کی بشارت سناتے رہتے ہیں مگر یہ بس بیانات کی حد تک ہی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس سال کا بجٹ بھی آئی ایم ایف کے زیر سایہ تیارکیا گیا ہے۔ انھوں نے اسے ہمارے حساب سے نہیں، اپنے حساب سے ہم سے بنوایا ہے تاکہ ان کا دیا ہوا قرض پھنس نہ جائے اس کی ریکوری آسان رہے اور انھیں ان کا پورا قرض بمعہ سود واپس مل سکے۔
نیا بجٹ برائے سال 2025-26 کل 17,573 ارب روپے کا ہے، اس کا نصف قرض کی نذر ہو جائے گا۔ اس وقت ملک میں مہنگائی سے عوام سخت پریشان ہیں مگر آئی ایم ایف کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ عوام کا کیا بنے گا، وہ مہنگائی اور اضافی ٹیکس برداشت کر بھی سکیں گے کہ نہیں وہ ہر قیمت پر اپنے قرض کی واپسی چاہتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں ہوا، ہاں یہ ضرور ہے کہ چند سال قبل ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا مگر پاکستان اس آفت سے محفوظ رہا۔ اب اس وقت ایک جمہوری حکومت نے آئی ایم ایف سے طویل مشکل مذاکرات کرکے مطلوبہ قرض حاصل کر لیا ہے گوکہ اس کو رکوانے میں خود اپنوں نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا مگر موجودہ حکومت نے تمام مشکلات پر قابو پا کر ملکی معیشت کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا تھا۔ نیا بجٹ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق بنایا گیا ہے، چنانچہ اس کی شدت تپش کا عوام کی جانب سے حکومت کو الزام دینا مناسب نہیں ہے۔
ان مشکل حالات میں معیشت کی بہتری کے لیے آئی ایم ایف کے بغیرگزارا نہیں ہے، پھر بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف نے اپنی ہی حکمت عملی اختیارکی ہے حکومت کی بعض تجاویز کو بھی رد کر دیا گیا ہے چنانچہ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کے زیر سایہ بننے والے بجٹ سے انحراف ممکن نہیں ہے۔
اس بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد اور پنشنرز کی پنشن میں سات فی صد اضافہ کیا گیا ہے ادھر انکم ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے جس سے حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ اس نے ملازمین کو کافی راحت دے دی ہے مگر اس مہنگائی کے طوفان میں حکومتی ریلیف کسی طرح بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ ملکی معیشت جب تک اپنے پیروں پرکھڑی نہیں ہوتی ہے ہماری معیشت آئی ایم ایف کی ہی مرہون منت رہے گی۔
وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کئی مرتبہ عوام کو یہ خوشخبری سنا چکے ہیں کہ یہ ملک کا آخری آئی ایم ایف والا بجٹ ہوگا، اس کے بعد جو بجٹ بنیں گے وہ عوامی امنگوں کے مطابق ہوں گے۔ یعنی ان میں مناسب ٹیکس لگائے جائیں گے، مہنگائی کو کم سے کم کیا جائے گا اور زراعت سمیت تمام شعبوں کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ترقی پر خاص توجہ مرکوز کی جائے گی۔ ملک کی معاشی پسماندگی کی اصل وجہ ملک کی آمدنی کم اور اخراجات بے تحاشا ہیں۔ غیر ترقیاتی اخراجات کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے مگر اس پر نہ ماضی میں قابو پایا جا سکا اور نہ اب ایسا ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔
گزشتہ سال حکومت کو ملکی کاروبار چلانے کے لیے 760 کھرب روپے کے قرضے لینا پڑے، ان قرضوں میں 515 کھرب ملکی اور 245 کھرب روپے کا بیرونی قرض شامل تھا۔ اس قرض کے سود کی مد میں کل قرض کا 66 فی صد ادا کیا گیا۔ ملک کے مختلف شعبوں کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں رہی، البتہ ایک خوشخبری ضرور ملی کہ فی کس آمدنی 1662 ڈالر سے بڑھ کر 1824 ڈالر ہو گئی مگر یہ امر قابل تعریف نہیں ہے، اس لیے کہ ہمارے پڑوسی کئی ممالک میں فی کس آمدنی کم سے کہیں زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملکی معیشت کا اصل سہارا بیرونی ممالک سے آنے والا زرمبادلہ ہے جو مختلف ممالک میں آباد پاکستانی بھیجتے رہے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ملکی برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہیں کاش کہ برآمدات کو بڑھانے پر بھرپور توجہ دی جائے۔ پاکستانی سفارتی مشنز برآمدات بڑھانے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں، اس کا ضرور جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستانی چاول، روئی اور کپڑا کئی ممالک میں بہت مقبول ہیں اور ان کی برآمدات سے ملک کو کافی زرمبادلہ حاصل ہوتا رہتا ہے۔ آج کل دنیا میں ٹرانسپورٹیشن اور آئی ٹی مصنوعات کی بہت مانگ ہے مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں گاڑیوں کی صرف اسمبلنگ کی سہولت موجود ہے مکمل طور پر نہ تو کوئی موٹرسائیکل ہی تیار کی جا رہی ہے اور نہ کاریں، ٹرک اور رکشے تیار ہو رہے ہیں۔ ان سب کے لیے ہم چین اور جاپان کے محتاج ہیں۔
ان آئٹمز کی خرید سے کافی زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے کاش کہ ہم اس جانب خصوصی توجہ مرکوز کریں اور انھیں خود ہی اپنے ملک میں مکمل طور پر تیار کریں تو ہمارا کافی زرمبادلہ بچ بھی سکتا ہے اور ہم کافی زرمبادلہ حاصل بھی کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک حالت جنگ میں ہے، بھارت بغیر کسی عذر کے وطن عزیز پر ایک بڑا حملہ کر چکا ہے جس سے پنجاب اور آزاد کشمیر میں کافی جانی نقصان ہوا ہے اس کے جواب میں بلاشبہ پاکستانی افواج نے منہ توڑ جواب دیا ہے۔ پاک فضائیہ نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے ہیں، اس کے 6 طیارے مارگرائے ہیں جن میں رفال جیسے مہنگے طیارے بھی شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان کے تمام طیارے محفوظ رہے ہیں اس پر دشمن بہت غصے میں ہے اور لگتا ہے وہ اپنی ہار کا بدلہ لینے کے لیے پھر حملہ کرنے کی غلطی کرے، اس لیے ملک کو دفاعی طور پر مکمل تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
دشمن پہلے ہی کافی جنگی ساز و سامان اکٹھا کر چکا ہے اور وہ روس و مغربی ممالک سے ابھی بھی مہنگے طیارے اور میزائل وغیرہ خرید رہا ہے۔ ایسے جنگی ماحول میں پاکستان کو بھی اپنا دفاعی بجٹ بڑھانا ہوگا۔ اخباری خبروں کے مطابق پاکستان نے بھی جدید طیاروں اور دیگر اسلحہ خریدنے کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔ بدقسمتی سے دشمن نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اچانک حملہ کرکے ملک کو ایک نئی مصیبت میں پھنسا دیا ہے۔ اس نے ساٹھ سال پرانے سندھ طاس معاہدے کو بھی یک طرفہ طور پر ختم کردیا ہے جوکہ سراسر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بہرحال اب پاکستان کو پانی کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے نئے انتظامات بھی کرنا ہوں گے۔
اب دیامر بھاشا ڈیم اور دیگر زیر تعمیر ڈیمز کی تعمیر کا کام بھی تیز کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ مزید ڈیمز کی تعمیر بھی شروع کرنا ہوگی، بلاشبہ نئے بجٹ کو انتہائی مشکل حالات میں کسی طرح مکمل کیا گیا ہے۔ اس میں دفاع اور پانی کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے جس سے دوسرے شعبے متاثر ہوئے ہیں جہاں دفاع کا تعلق ہے۔ اس سے ملکی سلامتی منسلک ہے چنانچہ ملکی سلامتی کو قائم رکھنے کے لیے زیادہ رقم مختص کرنا ضروری ہے۔ پاکستانی عوام پہلے بھی دو بڑی جنگیں جھیل چکے ہیں اور ملکی دفاع کے لیے بڑھ چڑھ کر قربانیاں دے چکے ہیں اب اس دفعہ بھی ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کافی زرمبادلہ آئی ایم ایف عوام کو نہیں ہے ملک میں کیا گیا نیا بجٹ رہے ہیں گیا ہے کے لیے ہے مگر ملک کو ہے اور
پڑھیں:
امریکا کی امیگریشن پالیسی میں نیا قانون نافذ، ورک پرمٹ کی خودکار توسیع ختم کر دی
امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (ڈی ایچ ایس) نے ایک نیا عارضی قانون جاری کیا ہے، جس کے تحت اب ورک پرمٹ یا ملازمت کا اجازت نامہ (ای اے ڈی) خودبخود نہیں بڑھے گا۔
یہ نیا قانون 30 اکتوبر کے بعد جمع کرائی جانے والی تجدیدی درخواستوں پر لاگو ہوگا اور اس کا اطلاق کئی غیر ملکی شہریوں پر ہوگا، جن میں ایچ-4 ویزا رکھنے والے افراد اور بعض ایچ-1بی ویزا ہولڈرز کے شوہر یا بیویاں بھی شامل ہیں۔
جمعرات کو جاری کیے گئے ایک بیان میں امریکی شہریت اور امیگریشن سروس (یو ایس سی آئی ایس) نے مشورہ دیا کہ غیر ملکی شہری اپنے ورک پرمٹ کی مدت ختم ہونے سے 180 دن پہلے اس کی تجدید کی درخواست وقت پر اور درست طریقے سے جمع کروائیں۔
ادارے نے خبردار کیا کہ اگر کوئی غیر ملکی اپنے ورک پرمٹ (ای اے ڈی) کی تجدید میں تاخیر کرے گا تو اس کے لیے روزگار کی اجازت یا متعلقہ دستاویزات میں عارضی رکاوٹ پیدا ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔
یہ فیصلہ امریکا میں قانونی اور غیر قانونی دونوں اقسام کی امیگریشن کو محدود کرنے کے حالیہ اقدامات کا حصہ ہے، ان اقدامات میں ایک نیا قانون بھی شامل ہے، جس کے تحت ایچ-1بی ویزا کے لیے درخواست دینے والے ہنر مند افراد پر ایک بار کے لیے ایک لاکھ ڈالر فیس عائد کی گئی ہے، جو 21 ستمبر سے نافذ ہو چکی ہے۔
نئے قانون کے مطابق جو غیر ملکی شہری 30 اکتوبر یا اس کے بعد اپنے ورک پرمٹ کی تجدید کی درخواست دیں گے، انہیں اب صرف بروقت درخواست جمع کرانے پر ورک پرمٹ کی خودکار توسیع نہیں ملے گی۔
پچھلی پالیسی کے تحت اہل افراد اپنے ورک پرمٹ ختم ہونے کے بعد بھی 540 دن تک کام جاری رکھ سکتے تھے، بشرطیکہ انہوں نے وقت پر تجدید کی درخواست جمع کروائی ہو۔
لیکن نئے قانون میں یہ سہولت تقریباً تمام کیسز میں ختم کر دی گئی ہے، یعنی اب جیسے ہی موجودہ ورک پرمٹ ختم ہوگا، فرد کو کام روکنا پڑے گا جب تک نیا اجازت نامہ جاری نہ ہو جائے یا کوئی اور قانونی بنیاد موجود نہ ہو۔
تاہم، یہ قانون پچھلی درخواستوں پر لاگو نہیں ہوگا، یعنی 30 اکتوبر سے پہلے جمع کرائی گئی تجدیدی درخواستیں اب بھی پرانے قانون کے مطابق خودکار توسیع حاصل کر سکیں گی۔
ڈی ایچ ایس کے مطابق اس قانون میں کچھ محدود استثنیٰ موجود ہیں، مثلاً وہ توسیعات جو قانون کے تحت یا فیڈرل رجسٹر نوٹس کے ذریعے دی گئی ہوں، وہ اب بھی خودکار توسیع کی اہل رہیں گی۔
سرکاری اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ ڈی ایچ ایس ورک پرمٹ کی مدت بڑھانے سے پہلے غیر ملکی شہریوں کی مکمل جانچ اور تصدیق کو یقینی بنائے۔
ڈی ایچ ایس کے مطابق ورک پرمٹ کی خودکار توسیع ختم کرنے سے غیر ملکی شہریوں کی بار بار جانچ اور نگرانی ممکن ہوگی، جس سے یو ایس سی آئی ایس کو دھوکا دہی روکنے اور ملکی سلامتی کے ممکنہ خطرات کی نشاندہی میں مدد ملے گی، تاکہ مشتبہ افراد کو امریکا سے بے دخلی کے عمل میں شامل کیا جا سکے۔
یو ایس سی آئی ایس کے ڈائریکٹر جوزف ایڈلو نے کہا کہ ادارہ اب غیر ملکی شہریوں کی زیادہ مؤثر جانچ اور نگرانی پر توجہ دے رہا ہے اور ان پالیسیوں کو ختم کر رہا ہے جو پچھلی حکومت نے غیر ملکیوں کی سہولت کو امریکی عوام کی سلامتی پر ترجیح دیتے ہوئے نافذ کی تھیں۔