Express News:
2025-06-16@01:40:11 GMT

جنگی ماحول اور نیا بجٹ

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

نیا بجٹ عوام کو مبارک ہو۔ اس بجٹ میں بھی حکومت نے اپنے تئیں غریبوں کو نوازنے کی پوری کوشش تو کی ہے مگر یہ کوشش لاحاصل ہی رہی، اس لیے کہ جب تک ملک میں مہنگائی اورکرپشن کا راج ہے، حکومت کی طرف سے عوام کو دی جانے والی ریلیف اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہوگی۔

جس ملک کے چوالیس فی صد عوام خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہوں وہاں جلد خوشحالی کیسے آ سکتی ہے اور ملک میں معاشی استحکام کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ ملک کو غربت کی دلدل سے نکالنا کوئی آسان کام نہیں ہے، بہرحال ہمارے حکمران آئے دن عوام کو مہنگائی کے ختم ہونے کی تو نہیں، البتہ کم ہونے کی بشارت سناتے رہتے ہیں مگر یہ بس بیانات کی حد تک ہی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس سال کا بجٹ بھی آئی ایم ایف کے زیر سایہ تیارکیا گیا ہے۔ انھوں نے اسے ہمارے حساب سے نہیں، اپنے حساب سے ہم سے بنوایا ہے تاکہ ان کا دیا ہوا قرض پھنس نہ جائے اس کی ریکوری آسان رہے اور انھیں ان کا پورا قرض بمعہ سود واپس مل سکے۔

نیا بجٹ برائے سال 2025-26 کل 17,573 ارب روپے کا ہے، اس کا نصف قرض کی نذر ہو جائے گا۔ اس وقت ملک میں مہنگائی سے عوام سخت پریشان ہیں مگر آئی ایم ایف کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ عوام کا کیا بنے گا، وہ مہنگائی اور اضافی ٹیکس برداشت کر بھی سکیں گے کہ نہیں وہ ہر قیمت پر اپنے قرض کی واپسی چاہتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں ہوا، ہاں یہ ضرور ہے کہ چند سال قبل ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا مگر پاکستان اس آفت سے محفوظ رہا۔ اب اس وقت ایک جمہوری حکومت نے آئی ایم ایف سے طویل مشکل مذاکرات کرکے مطلوبہ قرض حاصل کر لیا ہے گوکہ اس کو رکوانے میں خود اپنوں نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا مگر موجودہ حکومت نے تمام مشکلات پر قابو پا کر ملکی معیشت کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا تھا۔ نیا بجٹ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق بنایا گیا ہے، چنانچہ اس کی شدت تپش کا عوام کی جانب سے حکومت کو الزام دینا مناسب نہیں ہے۔

ان مشکل حالات میں معیشت کی بہتری کے لیے آئی ایم ایف کے بغیرگزارا نہیں ہے، پھر بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف نے اپنی ہی حکمت عملی اختیارکی ہے حکومت کی بعض تجاویز کو بھی رد کر دیا گیا ہے چنانچہ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کے زیر سایہ بننے والے بجٹ سے انحراف ممکن نہیں ہے۔

اس بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد اور پنشنرز کی پنشن میں سات فی صد اضافہ کیا گیا ہے ادھر انکم ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے جس سے حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ اس نے ملازمین کو کافی راحت دے دی ہے مگر اس مہنگائی کے طوفان میں حکومتی ریلیف کسی طرح بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ ملکی معیشت جب تک اپنے پیروں پرکھڑی نہیں ہوتی ہے ہماری معیشت آئی ایم ایف کی ہی مرہون منت رہے گی۔

وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کئی مرتبہ عوام کو یہ خوشخبری سنا چکے ہیں کہ یہ ملک کا آخری آئی ایم ایف والا بجٹ ہوگا، اس کے بعد جو بجٹ بنیں گے وہ عوامی امنگوں کے مطابق ہوں گے۔ یعنی ان میں مناسب ٹیکس لگائے جائیں گے، مہنگائی کو کم سے کم کیا جائے گا اور زراعت سمیت تمام شعبوں کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ترقی پر خاص توجہ مرکوز کی جائے گی۔ ملک کی معاشی پسماندگی کی اصل وجہ ملک کی آمدنی کم اور اخراجات بے تحاشا ہیں۔ غیر ترقیاتی اخراجات کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے مگر اس پر نہ ماضی میں قابو پایا جا سکا اور نہ اب ایسا ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔

گزشتہ سال حکومت کو ملکی کاروبار چلانے کے لیے 760 کھرب روپے کے قرضے لینا پڑے، ان قرضوں میں 515 کھرب ملکی اور 245 کھرب روپے کا بیرونی قرض شامل تھا۔ اس قرض کے سود کی مد میں کل قرض کا 66 فی صد ادا کیا گیا۔ ملک کے مختلف شعبوں کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں رہی، البتہ ایک خوشخبری ضرور ملی کہ فی کس آمدنی 1662 ڈالر سے بڑھ کر 1824 ڈالر ہو گئی مگر یہ امر قابل تعریف نہیں ہے، اس لیے کہ ہمارے پڑوسی کئی ممالک میں فی کس آمدنی کم سے کہیں زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملکی معیشت کا اصل سہارا بیرونی ممالک سے آنے والا زرمبادلہ ہے جو مختلف ممالک میں آباد پاکستانی بھیجتے رہے ہیں۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ ملکی برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہیں کاش کہ برآمدات کو بڑھانے پر بھرپور توجہ دی جائے۔ پاکستانی سفارتی مشنز برآمدات بڑھانے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں، اس کا ضرور جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستانی چاول، روئی اور کپڑا کئی ممالک میں بہت مقبول ہیں اور ان کی برآمدات سے ملک کو کافی زرمبادلہ حاصل ہوتا رہتا ہے۔ آج کل دنیا میں ٹرانسپورٹیشن اور آئی ٹی مصنوعات کی بہت مانگ ہے مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں گاڑیوں کی صرف اسمبلنگ کی سہولت موجود ہے مکمل طور پر نہ تو کوئی موٹرسائیکل ہی تیار کی جا رہی ہے اور نہ کاریں، ٹرک اور رکشے تیار ہو رہے ہیں۔ ان سب کے لیے ہم چین اور جاپان کے محتاج ہیں۔

ان آئٹمز کی خرید سے کافی زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے کاش کہ ہم اس جانب خصوصی توجہ مرکوز کریں اور انھیں خود ہی اپنے ملک میں مکمل طور پر تیار کریں تو ہمارا کافی زرمبادلہ بچ بھی سکتا ہے اور ہم کافی زرمبادلہ حاصل بھی کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک حالت جنگ میں ہے، بھارت بغیر کسی عذر کے وطن عزیز پر ایک بڑا حملہ کر چکا ہے جس سے پنجاب اور آزاد کشمیر میں کافی جانی نقصان ہوا ہے اس کے جواب میں بلاشبہ پاکستانی افواج نے منہ توڑ جواب دیا ہے۔ پاک فضائیہ نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے ہیں، اس کے 6 طیارے مارگرائے ہیں جن میں رفال جیسے مہنگے طیارے بھی شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان کے تمام طیارے محفوظ رہے ہیں اس پر دشمن بہت غصے میں ہے اور لگتا ہے وہ اپنی ہار کا بدلہ لینے کے لیے پھر حملہ کرنے کی غلطی کرے، اس لیے ملک کو دفاعی طور پر مکمل تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

دشمن پہلے ہی کافی جنگی ساز و سامان اکٹھا کر چکا ہے اور وہ روس و مغربی ممالک سے ابھی بھی مہنگے طیارے اور میزائل وغیرہ خرید رہا ہے۔ ایسے جنگی ماحول میں پاکستان کو بھی اپنا دفاعی بجٹ بڑھانا ہوگا۔ اخباری خبروں کے مطابق پاکستان نے بھی جدید طیاروں اور دیگر اسلحہ خریدنے کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔ بدقسمتی سے دشمن نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اچانک حملہ کرکے ملک کو ایک نئی مصیبت میں پھنسا دیا ہے۔ اس نے ساٹھ سال پرانے سندھ طاس معاہدے کو بھی یک طرفہ طور پر ختم کردیا ہے جوکہ سراسر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بہرحال اب پاکستان کو پانی کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے نئے انتظامات بھی کرنا ہوں گے۔

اب دیامر بھاشا ڈیم اور دیگر زیر تعمیر ڈیمز کی تعمیر کا کام بھی تیز کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ مزید ڈیمز کی تعمیر بھی شروع کرنا ہوگی، بلاشبہ نئے بجٹ کو انتہائی مشکل حالات میں کسی طرح مکمل کیا گیا ہے۔ اس میں دفاع اور پانی کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے جس سے دوسرے شعبے متاثر ہوئے ہیں جہاں دفاع کا تعلق ہے۔ اس سے ملکی سلامتی منسلک ہے چنانچہ ملکی سلامتی کو قائم رکھنے کے لیے زیادہ رقم مختص کرنا ضروری ہے۔ پاکستانی عوام پہلے بھی دو بڑی جنگیں جھیل چکے ہیں اور ملکی دفاع کے لیے بڑھ چڑھ کر قربانیاں دے چکے ہیں اب اس دفعہ بھی ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کافی زرمبادلہ آئی ایم ایف عوام کو نہیں ہے ملک میں کیا گیا نیا بجٹ رہے ہیں گیا ہے کے لیے ہے مگر ملک کو ہے اور

پڑھیں:

وزیرِ اعظم سے خواجہ سعد رفیق کی ملاقات، ملکی سیاسی صورتحال پر گفتگو

سٹی 42 : وزیرِ اعظم شہباز شریف سے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کی ملاقات ہوئی ۔ 

 ملاقات میں خواجہ سعد رفیق نے عوام دوست بجٹ پیش کرنے پر وزیر اعظم کو مبارک باد دی اور اس بجٹ کو معاشی استحکام اور عوامی ریلیف کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا۔

ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ 

قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف سے چیئرمین پرائم منسٹر یوتھ پروگرام رانا مشہود احمد خان کی ملاقات ہوئی، جس کے دوران رانا مشہود احمد خان نے پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے تحت نوجوانوں کی فلاح و بہبود اور انہیں بااختیار بنانے سے متعلق مختلف جاری اقدامات پر وزیرِاعظم کو تفصیلی بریفنگ دی۔ 

تہران: رہائشی کمپلیکس پر اسرائیلی حملے میں شہداء کی تعداد 60 ہوگئی,20 بچے بھی شامل   

متعلقہ مضامین

  • ایران اسرائیل کشیدگی، غیر ملکی ائر لائنز کا پاکستانی فضائی حدود کا استعمال
  • علاقائی کشیدگی: پاکستانی فضائی حدود غیر ملکی ایئرلائنز کا متبادل راستہ بن گئی
  • وزیرِ اعظم سے خواجہ سعد رفیق کی ملاقات، ملکی سیاسی صورتحال پر گفتگو
  • بلوچستان: گڈانی سے ایک لاکھ ڈالر مالیت کی غیر ملکی شراب برآمد
  • ملکی بحران کا حل موجودہ حکومت کی رخصتی میں ہے‘ محمود اچکزئی
  • امریکا ، گرین کارڈ پالیسی تبدیل، غیر ملکی طبی معاینہ دوبارہ کرانے کے پابند
  • ایران کا اسرائیل کے 2 جنگی طیاروں کو مار گرانے، خاتون پائلٹ کو حراست میں لینے کا دعویٰ
  • ملکی بحران کا حل حکومت کی رخصتی میں ہے، محمود خان اچکزئی
  • ملکی معیشت کا حجم تاریخ میں پہلی بار 400 ارب ڈالر کی حدعبور کرگیا‘ وزیر خزانہ