انصاف خطرے میں،اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی اور ایران پر جارحیت عالمی قانونی اقدامات کی متقاضی ہے
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
انصاف خطرے میں،اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی اور ایران پر جارحیت عالمی قانونی اقدامات کی متقاضی ہے WhatsAppFacebookTwitter 0 15 June, 2025 سب نیوز
تحریر: حافظ احسان احمد کھوکھر
دنیا ایک بار پھر بین الاقوامی قانونی نظام کے عملی انہدام کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ غزہ میں اسرائیلی افواج کی سفاکانہ فوجی کارروائی اور 13 جون 2025 کو ایران پر اس کے حالیہ سرحد پار فضائی حملے الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں؛ بلکہ یہ بین الاقوامی قانون کی ان خلاف ورزیوں کا تسلسل ہیں جو کھلے عام اور مکمل استثنی کے ساتھ کی جا رہی ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف نشانہ بننے والی ریاستوں کی خودمختاری کو پامال کرتے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشنز اور بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں کو بھی زائل کرتے ہیں۔اکتوبر 2023 کے واقعات کے بعد اسرائیل کی فوجی جارحیت نے غزہ کو مکمل انسانی بحران میں تبدیل کر دیا ہے۔ جون 2025 تک، غزہ کی صحت حکام کے مطابق 54321 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 70 فیصد سے زائد خواتین اور بچے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 123000 سے تجاوز کر چکی ہے، اور 10000 سے زائد افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اسپتالوں، اسکولوں، مساجد اور اقوام متحدہ کے پناہ گزین مراکز سمیت وسیع پیمانے پر شہری انفراسٹرکچر تباہ کر دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امدادکے مطابق غزہ کے صرف 38 فیصد طبی مراکز جزوی طور پر کام کر رہے ہیں، اور اہم انسانی امداد مسلسل روکی جا رہی ہے۔
پانچ سال سے کم عمر کے 2700 سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، اور پورے محصور علاقے میں قحط پھیل چکا ہے۔عام شہریوں پر شدید طاقت کا استعمال، شہری آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنانا، طبی و انسانی امدادی ڈھانچے کی تباہی، اور ضروری امداد کی ناکہ بندی نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل دفاع ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کھلی خلاف ورزیاں ہیں۔ اسرائیل کے یہ اقدامات چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 147 کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جو محفوظ افراد کے قتل اور غیر انسانی سلوک پر پابندی عائد کرتا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے روم اسٹیچوٹ کے تحت شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں شامل ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین، بشمول ہیومن رائٹس واچ اور ڈاکٹرز وِدآٹ بارڈرز کی رپورٹس کے مطابق، اسرائیل کی جانب سے سفید فاسفورس کا استعمال اور اندھا دھند بمباری اجتماعی سزا کے ایک منظم عمل کی عکاسی کرتے ہیں، جو عرفی بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ صورتحال کو مزید سنگین بناتے ہوئے، جون 2025 میں اسرائیل نے ایران کے اندر متعدد فوجی اور جوہری تنصیبات پر جارحانہ فضائی حملے کیے۔ یہ کارروائی، جو مبینہ طور پر “رائزنگ لائن” کے نام سے کی گئی، میں کم از کم 80 ایرانی فوجی اور سائنسدان شہید اور 320 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ حملے کسی فوری حملے کے ردعمل میں نہیں کیے گئے بلکہ پیشگی نوعیت کے تھے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت “خود دفاع” کے قانونی معیار پر پورا نہیں اترتے۔ کسی اقوام متحدہ کے رکن ملک کی خودمختار سرزمین پر یہ براہ راست حملہ عالمی امن و سلامتی کے خلاف ایک سنگین خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4) کی خلاف ورزی بھی ہے۔ایران نے ان حملوں کے ردعمل میں میزائل اور ڈرون حملے کیے، جن سے اسرائیل میں جانی نقصان ہوا اور فلسطینی علاقوں میں بھی کچھ ضمنی نقصان پہنچا۔ اس ردعمل نے پورے خطے کو ایک بڑی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جس کے نتائج نہ صرف مشرق وسطی بلکہ عالمی امن و معیشت کے لیے بھی تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور خطے کے فضائی راستوں میں ہائی الرٹ کی صورتحال اس بات کی عکاس ہے۔ان تمام واضح اور دستاویزی خلاف ورزیوں کے باوجود اسرائیل کو کوئی حقیقی قانونی جوابدہی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی معطلی، جو بالخصوص مستقل اراکین، خاص طور پر امریکہ کی سیاسی حمایت کے باعث ہے، اسرائیل کو مکمل استثنی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دے رہی ہے۔ یہ ناکامی محض ایک ادارہ جاتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اور قانونی انہدام ہے جو بین الاقوامی قانون کی ساکھ کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔تاہم یہ استثنی اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتی۔ بین الاقوامی قانونی نظام میں اب بھی احتساب کے لیے مثر راستے موجود ہیں، اگر سیاسی عزم ہو۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کو محض علامتی مقدمات کے لیے نہیں بلکہ سنجیدہ عدالتی کارروائی کے لیے متحرک کیا جانا چاہیے۔ مسلم اکثریتی ممالک، خاص طور پر وہ جو روم اسٹیچوٹ کے فریق ہیں، انہیں فلسطین کے مقدمے کے تحت اسرائیلی قیادت کے خلاف فوری مقدمات کے لیے دبا ڈالنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی، وہ ممالک جن کے ہاں عالمی دائرہ اختیار کے قوانین موجود ہیںجیسے جنوبی افریقہ، اسپین یا ملائیشیاوہ اسرائیلی حکام کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات حتی کہ ان کی غیر موجودگی میں بھی دائر کر سکتے ہیں۔بین الاقوامی عدالت انصاف کو محض مشاورتی آرا تک محدود نہ رکھا جائے۔ متعدد ریاستیں متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف نسل کشی کنونشن کے تحت مقدمہ دائر کریں اور مزید مظالم کو روکنے کے لیے فوری عبوری اقدامات کی درخواست کریں۔ ریاستی ذمہ داری کے تناظر میں کا دائرہ اختیار ایک موثر راستہ فراہم کرتا ہے۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو “یونائٹنگ فار پیس” قرارداد کو فعال کرنا چاہیے تاکہ سلامتی کونسل کی ناکامی کی صورت میں اجتماعی پابندیوں اور سفارتی اقدامات کی سفارش کی جا سکے۔مسلم دنیا، جو 1 اعشاریہ9 ارب سے زائد افراد اور 57 ممالک پر مشتمل ہے، کے لیے اب محض ردعمل کی سطح سے آگے بڑھنے کا وقت آ گیا ہے۔ ایک مربوط، متحرک، اور جامع قانونی، سفارتی، اور معاشی حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کو ایک “خصوصی قانونی سربراہی اجلاس” منعقد کر کے ایک “مستقل احتساب کونسل” قائم کرنی چاہیے۔ یہ ادارہ بین الاقوامی قانونی کارروائیوں میں ہم آہنگی پیدا کرے، فلسطین اور ایران کی نمائندگی کے لیے قانونی ٹیموں کی مالی معاونت کرے، اور مستقبل کے عدالتی عمل کے لیے شواہد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔معاشی دبا بھی ایک اہم ذریعہ ہونا چاہیے۔ مسلم ممالک کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات منجمد کرنے، تجارتی معاہدے معطل کرنے، اور اسلحہ کی فراہمی پر پابندی عائد کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی BRICS+، افریقی یونین اور لاطینی امریکی بلاکس کے ساتھ تعاون بڑھا کر عالمی حمایت کو وسعت دی جائے۔
عوامی سفارتکاریبین الاقوامی میڈیا، قانونی تھنک ٹینکس، اور عالمی تعلیمی اداروں کے ذریعیکو متحرک کیا جائے تاکہ غلط معلومات کا مقابلہ کیا جا سکے اور انصاف کے لیے عالمی رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔اسرائیلی ریاست کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی بار بار اور سنگین خلاف ورزیاںخواہ وہ غزہ میں نسل کشی کی شکل میں ہوں یا ایران پر غیر قانونی جارحیت کی صرف مذمت سے نمٹائی نہیں جا سکتیں۔ ان خلاف ورزیوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے، جو قانون، اخلاقیات اور عالمی ضمیر پر مبنی ہوں۔ اگر دنیا اب خاموش رہی تو یہ پیغام جائے گا کہ بین الاقوامی قانون قابلِ سودا ہے، اور طاقت ہی قانون ہے۔انصاف کی راہ مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ یہ سفر اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہم ان کے لیے کھڑے ہوں جو خود کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے۔ مسلم ممالکاور وہ تمام اقوام جو قانون کی حکمرانی کا دعوی کرتی ہیں کو اب عمل کی قیادت کرنی ہو گی۔ غزہ اور ایران میں انصاف کی تاخیر صرف متاثرین کے ساتھ ناانصافی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ ناانصافی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایران اسرائیل جنگ؛ 450 پاکستانی زائرین کا انخلا مکمل کر لیا گیا، نائب وزیراعظم ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے مسلم دنیا پر مربوط جارحیت عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ غزہ اور فلسطین: مسلم دنیا کا امتحان بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟ مُودی کا ”نیو نارمل” اور راکھ ہوتا سیندور!Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: میں اسرائیل اسرائیل کی اقدامات کی اور ایران ایران پر
پڑھیں:
اسرائیلی جارحیت اور جنگل کا قانون
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں شدت آگئی ہے اور دونوں ممالک نے رات بھر ایک دوسرے پر حملے جاری رکھے۔ اسرائیلی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پر حملے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ ’’ایران پر اسرائیل کے حملے امریکی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھے۔‘‘
درحقیقت اس پوری صورتحال نے عالمی اداروں کی حیثیت کو ایک بار پھر بے نقاب کردیا ہے۔ اقوام متحدہ، IAEA، OIC یا دیگر عالمی ادارے اس سطح کے تنازعے کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر طاقتور ممالک چاہیں تو عالمی قوانین کو نظر انداز کر کے کمزور پر حملہ کر سکتے ہیں، یعنی ایک طرح سے جنگل کا قانون نافذ ہو چکا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری فضائی حملے اور اہم فوجی و بنیادی ڈھانچے پر حملوں کے نتیجے میں عالمی معیشت کو ایک بڑے جھٹکے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ برینٹ خام تیل کی قیمت میں اچانک اضافہ ہوا ہے اور یہ 83 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کرگئی ہے، جب کہ ٹوکیو سے لندن تک اسٹاک مارکیٹس میں نمایاں گراؤٹ دیکھی گئی ہے۔
امریکا میں بھی اسٹاک مارکیٹ کے بڑے انڈیکس، جیسے ڈاؤ جونز اور نیسڈیک، مندی کا شکار ہو گئے ہیں۔ سونے کی قیمت، جو مشکل وقت میں محفوظ سرمایہ سمجھا جاتا ہے، ریکارڈ سطح کے قریب پہنچ گئی ہے۔ دوسری جانب ہوائی کمپنیوں کے شیئرز میں بھی زبردست کمی آئی ہے اور مشرق وسطیٰ کی کئی پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ اگر یہ بحران جاری رہا، تو عالمی مہنگائی میں اضافہ، ترقی کی رفتار میں کمی اور خاص طور پر یورپ و ایشیا میں معاشی جمود کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ایران عالمی معیشت میں 1.2 فیصد حصہ رکھتا ہے، لیکن مشرق وسطیٰ کی معیشتی اور توانائی کی منڈی میں اس کا کردار بہت اہم ہے، اگر یہ لڑائی جاری رہی، تو توانائی کی فراہمی اور عالمی سپلائی چین پر اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اسرائیلی حملہ بظاہر emptive strike preکی پالیسی کے تحت کیا گیا، یعنی ایران کو اس سے پہلے روکا جائے کہ وہ جوہری ریاست بن جائے۔ اب اسرائیل نے حالیہ بیانات میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک ایران کی عسکری طاقت مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتی۔
سچ تو یہ ہے یہ سب کچھ امریکا کی آشیر آباد سے ہوا ہے، جس نے اس بار اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے اسے ہلہ شیری دی ہے کہ وہ ایران پر چڑھ دوڑھے، یعنی طاقتور ممالک جب چاہیں کسی بھی کمزور ملک پر حملہ کردیں ان پرکوئی بھی بین الاقوامی ضابطہ یا اصول لاگو نہیں ہوگا، امریکا پہلے ہی اسی پالیسی کے سلوگن کے تحت عراق کو تباہ و برباد کرچکا ہے کہ وہاں جوہری ہتھیار ہیں لیکن بعد ازاں یہ بات جھوٹ ثبوت ہوئی لیکن امریکا نے کوئی معذرت آج کے دن تک نہیں کی۔
اسی طرح افغانستان پر امریکا نے حملہ کیا اور نیٹو کے ساتھ مل کر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے۔ سیدھی سی بات ہے، دنیا میں جنگل کا قانون نافذکرنے میں امریکا کا انتہائی منفی کردار ہے، امریکا ایک طرف ایران پر اسرائیل کو شہ دے کر جارحیت کرواتا ہے، دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ الٹا ایران کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ ادھر عرب دنیا، خاص طور پر سعودی عرب، اس ساری صورتحال میں غیر معمولی حد تک محتاط رویہ اختیارکیے ہوئے ہے۔
فلسطین، لبنان، شام اور اب ایران جیسے ممالک اسرائیلی حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں اور اب سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا خطے میں کوئی بھی اسلامی ملک اسرائیلی جارحیت سے محفوظ ہے؟ اگر عرب دنیا خاموش تماشائی بنی رہی، تو ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ جیسا نظریہ محض ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت بننے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ علاقائی اتحاد کی شدید کمی نے اسرائیل کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو ایک ایک کر کے نشانہ بنائے۔
چین اس تمام تر معاملے کو بغور دیکھ رہا ہے۔ چین کی ایران میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری ہے، خاص طور پر توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں میں۔ لیکن ساتھ ہی چین امریکا اور اسرائیل سے براہ راست تصادم سے گریزکرنا چاہتا ہے۔ چین نے اسرائیلی حملے پر تشویش کا اظہار ضرورکیا، مگر عملی طور پر ابھی تک کوئی جارحانہ سفارتی قدم نہیں اٹھایا۔ اس تناظر میں اسرائیل اور امریکا کی شراکت داری چین کی خطے میں موجودگی کے لیے بھی چیلنج بنتی جا رہی ہے۔
جنگی ٹیکنالوجی اس تنازعے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ ایران نے حالیہ برسوں میں بیلسٹک میزائلز، ڈرونز اور سائبر ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ ترقی کی ہے، لیکن اسرائیل کی ٹیکنالوجی، خاص طور پر امریکی حمایت یافتہ دفاعی نظام جیسے آئرن ڈوم، F-35 جنگی طیارے اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹارگٹنگ، کہیں زیادہ برتر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید دورکی جنگ میں صرف ہمت یا تعداد نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی برتری فتح کا تعین کرتی ہے۔
کچھ مبصرین کا ماننا ہے کہ ایران کو چین، روس اور شمالی کوریا کی حمایت حاصل ہے اور اگر کشیدگی جاری رہی تو ایک نیا عالمی بلاک سامنے آ سکتا ہے۔ یہ بلاک مغربی طاقتوں کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے، جس سے عالمی سطح پر صف بندی ہو گی، اگر اس صف بندی نے باقاعدہ عسکری صورت اختیار کی تو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے حملے میں ایرانی جنرلز اور نیوکلیئر سائنسدانوں کی بڑی تعداد ماری گئی ہے۔ یہ انٹیلیجنس ناکامی کا ثبوت ہے کہ ایرانی حکام بروقت اپنی حساس شخصیات کو محفوظ نہیں بنا سکے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو حملے کی ٹائمنگ اور طریقہ کار ایرانی انٹیلیجنس کے اندازوں سے مختلف تھا یا ان کے پاس محدود وسائل تھے اپنی قیادت کو انڈر گراؤنڈ کرنے کے لیے۔ اس تنازع کا سب سے فوری اثر تیل کی قیمتوں پر پڑا ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دنیا جو پہلے ہی روس، یوکرین جنگ کے اثرات اور خوراک کی مہنگائی سے نبرد آزما ہے، اب ایران، اسرائیل تنازع کے اثرات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اگر صورتحال مزید بگڑتی ہے، تو عالمی معاشی بحالی ایک بار پھر شدید خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔
امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کا چھٹا دور منعقد ہونے جا رہا تھا، جس سے دو دن قبل اسرائیل کی جانب سے ایران پر بھرپور حملہ بین الاقوامی حلقوں میں شدید سوالات کو جنم دے چکا ہے۔ اس حملے کا وقت انتہائی معنی خیز ہے، کیونکہ اسرائیل نے اس موقع کو چن کر واضح پیغام دیا کہ وہ ایران کے جوہری عزائم کو صرف سفارتی عمل سے روکنے پر مطمئن نہیں بلکہ وہ ان عزائم کے خلاف فوجی کارروائی کو بھی جواز سمجھتا ہے۔ اسرائیل کے بقول، ایران ’’ جوہری بم بنانے کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے‘‘ اور یہی بنیاد ہے جس پر وہ ان حملوں کو دفاعی قدم قرار دیتا ہے۔
بین الاقوامی ایجنسی برائے جوہری توانائی رپورٹ کے مطابق ایران کے پاس 60 فیصد تک افزودہ یورینیم موجود ہے، جب کہ جوہری ہتھیار کے لیے درکار سطح 90 فیصد ہے۔ ماہرین کے مطابق، ایران محض چند ہفتوں میں ایک بم بنانے کے قابل ہو سکتا ہے، اگر اس نے سیاسی فیصلہ کر لیا ہے۔ اسرائیل کے انٹیلیجنس ذرایع کا بھی یہی دعویٰ ہے، کہ ’’اب وقت ختم ہو چکا ہے۔‘‘ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے جہاں مشرق وسطیٰ میں سلامتی کی صورتحال کو خطرے میں ڈال دیا ہے، وہیں عالمی معاشی بحران کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔
ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیلی جارحیت نہ روکی گئی تو وہ آبنائے ہرمز کو ہر قسم کی بحری آمدورفت کے لیے بند کر سکتا ہے۔ ایرانی حکام کے اس اعلان کے بعد عالمی منڈیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، کیونکہ آبنائے ہرمز دنیا کی سب سے اہم اور حساس آبی گزرگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ آبی راستہ خلیج فارس کو خلیج عمان اور بحر ہند سے ملاتا ہے اور ایران و عمان کے درمیان واقع ہے۔ محض انتالیس کلومیٹر چوڑی یہ تنگ آبی پٹی روزانہ سترہ سے بیس ملین بیرل تیل کی ترسیل کا ذریعہ ہے۔ یہ گزرگاہ سعودی عرب، ایران، عراق، کویت، قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات جیسے اہم تیل پیدا کرنے والے ممالک کی عالمی منڈیوں تک رسائی کا واحد اور کلیدی ذریعہ ہے۔
دنیا کے تقریباً 20 فیصد خام تیل کی نقل و حمل اسی راستے سے ہوتی ہے، اگر آبنائے ہرمز بند ہو گئی تو تیل اور گیس کی عالمی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے نہ صرف ایندھن مہنگا ہوگا بلکہ اشیائے خورونوش سے لے کر صنعتی پیداوار تک ہر شعبہ متاثر ہوگا۔ اس کے اثرات دنیا بھر کی معیشتوں پر براہِ راست مرتب ہوں گے۔ ایران ماضی میں بھی متعدد بار خبردار کر چکا ہے کہ اگر اس پر اقتصادی پابندیاں برقرار رہیں یا جنگ کا خطرہ پیدا ہوا تو وہ اس آبی راستے کو بند کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتیں پہلے ہی اس علاقے میں بحری افواج تعینات کیے ہوئے ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کی صورت میں تجارتی نقل و حمل کو محفوظ بنایا جا سکے۔ دراصل آبنائے ہرمز محض ایک آبی گزرگاہ نہیں بلکہ توانائی کی عالمی شہ رَگ ہے، جس کی سلامتی اور کھلا رہنا عالمی معیشت کے لیے ناگزیر ہے۔ بین الاقوامی برادری پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ اور مؤثر اقدامات کرے تاکہ دنیا ایک نئے معاشی بحران سے بچ سکے۔