اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق جنگ، تشدد اور ظلم و ستم سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد گزشتہ دہائی میں تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ اپریل 2025 کے آخر تک دنیا بھر میں زبردستی بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 122.1 ملین تھی۔ یہ اعداد و شمار پچھلے سال کے اسی وقت کے مقابلے میں 2.

1 ملین زیادہ ہے۔

تارکین وطن کے لیے سن 2023 سب سے خطرناک سال رہا، اقوام متحدہ

ایجنسی نے جمعرات کو اس تعداد کو ’’ناقابل یقین حد تک زیادہ‘‘ قرار دیا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امدادی رقوم میں بہت زیادہ کمی کی جا رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، وسائل کی قلت کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کے لیے مسائل بڑھ گئے ہیں اور علاقائی امن کو پہلے سے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز

ادارے کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال ناقابل قبول ہے کیونکہ اس طرح پناہ گزینوں اور مسلح تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور معاشی بحرانوں سے تنگ آ کر نقل مکانی کرنے والوں کے لیے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

جبراﹰ نقل مکانی کی ایک اہم وجہ جنگ

یو این ایچ سی آر کی سالانہ عالمی رجحانات کی رپورٹ کے مطابق، 2024 کے آخر میں دنیا بھر میں ریکارڈ 123.2 ملین افراد کو زبردستی اپنے گھروں سے بے گھر کیا گیا۔

یعنی عالمی آبادی میں ہر 67 میں سے ایک شخص بے گھر ہو گیا۔

ماحولیاتی بحران کے سبب مہاجرین کی حالت مزید ابتر، اقوام متحدہ

تاہم، اس تعداد میں سال کے پہلے تہائی حصے میں تقریباً ایک ملین کی کمی واقع ہوئی ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت سے شامی دسمبر میں آمر بشار اسد کی معزولی کے بعد اپنے جنگ زدہ ملک کے بہتر مستقبل کی امیدوں کے درمیان وطن واپس جا رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقل مکانی کے اصل محرک جیسے سوڈان، میانمار اور یوکرین میں بڑے تنازعات رہے ہیں۔

اندرون ملک بے گھر افراد میں تیزی سے اضافہ

رپورٹ مہں کہا گیا ہے کہ شام میں 13 سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران 13.5 ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہوئے یا بیرون ملک پناہ لی۔ یہ دنیا میں نقل مکانی کا سب سے بڑا بحران تھا۔

لیکن اب سوڈان کے بحران نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے جہاں دو سال سے جاری خانہ جنگی میں 14.3 ملین لوگوں نے نقل مکانی کی ہے جو کہ ملک کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی ہے۔ ان میں 11.6 ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہیں۔

دنیا بھر میں گیارہ کروڑ افراد بے گھر ہیں، اقوام متحدہ

شام میں بھی 13.5 ملین جبری طور پر بے گھر ہوئے، اس کے بعد افغانستان میں 10.3 ملین اور یوکرین میں 8.8 ملین لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔

اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 6.3 ملین سے بڑھ کر 2024 کے آخر تک 73.5 ملین تک پہنچ گئی، مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہونے والوں میں سے 60 فیصد کبھی اپنا ملک نہیں چھوڑتے۔

رپورٹ میں پتا چلا ہے کہ 67 فیصد پناہ گزین پڑوسی ممالک میں مقیم ہیں، جن میں سے تین چوتھائی مہاجرین کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں پناہ لے رہے ہیں۔

ایجنسی نے کہا کہ یہ بہت سے امیر ممالک میں وسیع پیمانے پر پائے جانے والے اس تاثر کے خلاف ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی اہم منزلیں ہیں۔

مہاجرین کی سب سے بڑی آبادی اس وقت ایران (3.5 ملین)، ترکی (2.9 ملین)، کولمبیا (2.8 ملین)، جرمنی (2.7 ملین) اور یوگنڈا (1.8 ملین) میں ہے۔

بہت سے لوگ اپنے گھر واپس بھی آ رہے ہیں

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین فلیپو گرینڈی کا کہنا ہے، ’’دور حاضر میں بین الاقوامی تعلقات میں شدید کھنچاؤ پایا جاتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے لڑی جانے والی جنگوں نے انسانی تکالیف میں بڑے پیمانے پر اضافہ کر دیا ہے۔

ہمیں امن کی تلاش اور پناہ گزینوں کے لیے دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کرنا چاہیے۔‘‘

اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے کہ کئی ممالک ان کی ایجنسی کو اپنی فنڈنگ ​​کم کر رہے ہیں، گرینڈی نے کہا کہ حال ہی میں کچھ مثبت رجحانات بھی سامنے آئے ہیں۔

گرینڈی نے مزید کہا، ’’تباہ کن کٹوتیوں کے درمیان بھی، ہم نے پچھلے چھ مہینوں میں امید کی کچھ کرنیں دیکھی ہیں۔

‘‘ تقریباً 20 لاکھ شامی ایک دہائی سے زائد کشیدگی کے بعد اپنے گھروں کو لوٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ملک بدستور نازک ہے، اور لوگوں کو اپنی زندگیوں کی دوبارہ تعمیر کے لیے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔

رواں سال شام سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں سمیت 188,800 افراد اپنے میزبان ممالک میں مستقل طور پر آباد ہوئے جو گزشتہ چار دہائیوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔

علاوہ ازیں گزشتہ سال 98 لاکھ پناہ گزین اپنے ممالک اور گھروں کو واپس آئے جن میں 16 لاکھ پناہ گزین اور اندرون ملک بے گھر ہونے والے 82 لاکھ لوگ بھی شامل تھے۔ ان کی بیشتر تعداد نے افغانستان اور شام میں واپسی اختیار کی۔

تاہم، واپس آنے والوں میں سے بہت سے ایسے ممالک میں واپس چلے گئے ہیں جو اب بھی سیاسی طور پر غیر مستحکم یا انتہائی غیر محفوظ ہیں، جیسے کہ افغان جنہیں 2024 میں وطن واپس جانے پر مجبور کیا گیا تھا۔

مسئلے کا پائیدار حل

ایک سال میں 82 لاکھ پناہ گزینوں کی اپنے علاقوں اور ممالک کو واپسی نیا ریکارڈ ہے تاہم ان میں بہت سے لوگ اپنی مرضی سے واپس نہیں آئے۔ مثال کے طور پر افغانستان اور ہیٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے پناہ گزینوں کو ان کے میزبان ممالک سے جبراً واپس بھیجا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کی واپسی رضاکارانہ، باوقار اور محفوظ ہونی چاہیے۔

اس مقصد کے لیے قیام امن کی طویل مدتی کوششوں اور وسیع پیمانے پر پائیدار ترقی کی ضرورت ہے۔

فلیپو گرینڈی نے کہا ہے کہ پناہ گزینوں اور نقل مکانی پر مجبور ہونے والے دیگر لوگوں کے مسائل کو طویل مدتی طور پر حل کرنے کی کوششوں میں قیام امن کو مرکزی اہمیت دی جانی چاہیے۔

امدادی وسائل کی قلت

یو این ایچ سی آر نے کہا ہے کہ گزشتہ دہائی میں نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کی تعداد دو گنا بڑھ گئی ہے لیکن ادارے کو فراہم کیے جانے والے امدادی مالی وسائل میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

یو این ایچ سی آر دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود، جاری بحران سے نمٹنے کے لیے درکار فنڈز جمع کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

اگرچہ ایجنسی نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ کن عطیہ دہندگان نے فنڈنگ ​​میں کمی کی ہے، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ غیر ملکی انسانی امداد میں کٹوتیاں کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جس سے ادارے کی سرگرمیاں کافی متاثر ہوں گی۔

برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک بھی اپنے فوجی اخراجات میں اضافے کے مدنظر ایجنسی کے حق میں امداد پر کم خرچ کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ یو این ایچ سی آر کے پروگراموں کی فنڈنگ ​​جاری رکھے، اور کہا کہ اس طرح کی امداد علاقائی اور عالمی سلامتی میں ایک ضروری سرمایہ کاری ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اندرون ملک بے گھر یو این ایچ سی آر پناہ گزینوں کی دنیا بھر میں اقوام متحدہ بے گھر ہونے پناہ گزین ممالک میں رپورٹ میں ہونے والے نقل مکانی گیا ہے کہ کی تعداد ملین لوگ اپنے گھر رہے ہیں کے لیے بہت سے نے کہا

پڑھیں:

حکومت کا کروڑوں کمانے والوں پر سپر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے والی حکومت نے سالانہ 20کروڑ سے 50 کروڑ آمدنی پر سپر ٹیکس میں 0۔5 فیصد کمی کردی
پیٹرولیم مصنوعات ڈیجیٹل ادائیگی سے خریدی جا سکیں گی، نقد پیٹرولیم مصنوعات خریدنے پر 2 روپے فی لیٹر اضافی ادا کرنے ہوں گے

حکومت کا کروڑوں روپے کمانے والوں پر سپر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے والی حکومت کی جانب سے سالانہ 20کروڑ سے 50 کروڑ روپے آمدنی پر سپر ٹیکس میں 0۔5 فیصد کمی کا فیصلہ۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2025؍26ء کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔تفصیلات کے مطابق سپیکر ایاز سادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جہاں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اگلے مالی سال کے لیے 17 ہزار 600 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا، جس میں تقریباً 2 ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کیا گیا، گریڈ 1 تا 16 کے ملازمین کو 30 فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس دینے کی تجویز ہے، حکومت نے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ پیٹرولیم لیوی 78 روپے فی لٹر سے بڑھا کر 100 روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز ہے، پیٹرولیم مصنوعات صرف ڈیجیٹل ادائیگی سے خریدی جا سکیں گی، نقد پیٹرولیم مصنوعات خریدنے پر 2 روپے فی لیٹر اضافی ادا کرنے ہوں گے، بجٹ میں نان فائلرز کے لیے بینک سے 50 ہزار روپے سے زیادہ کیش نکلوانے پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر 1 اعشاریہ 2 فیصد کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا، یوٹیوبرز، فری لانسرز اور نان فائلرز کے خلاف نئے ٹیکس اقدامات اٹھائے جائیں گے۔معلوم ہوا ہے کہ بجٹ میں قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 8 ہزار 207 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، دفاع کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، صوبوں اور سپیشل ایریاز کے لیے 253 ارب 23 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، صوبائی نوعیت کے منصوبوں پر 105 ارب 78 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے جائیں گے، ضم شدہ اضلاع کے لیے 65 ارب 44 کروڑ روپے سے زیادہ جب کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے 82 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔بتایا جارہا ہے کہ فیڈرل ایجوکیشن اور پروفیشنل ٹریننگ کے لیے 18 ارب 58 کروڑ سے زائد، ڈیفنس ڈویژن کے لیے 11 ارب 55 کروڑ روپے اور پاور ڈویژن کو آئندہ مالی سال 90 ارب 22 کروڑ روپے دینے کی تجویز ہے، آبی وسائل ڈویژن کو آئندہ مالی سال 133 ارب 42 کروڑ روپے، ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی سکیموں کے لیے 70 ارب 38 کروڑ روپے اور صوبوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 2869 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔علاوہ ازیں وفاقی وزارتوں اور ڈویژن کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 682 ارب سے زیادہ، حکومتی ملکیتی اداروں کے لیے 35 کروڑ روپے سے زیادہ، این ایچ اے کو آئندہ مالی سال 226 ارب 98 کروڑ روپے اور آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 1ہزار ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، نیشنل ہیلتھ کو 14 ارب 34 کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں دیٔے جائیں گے، وزارت داخلہ کو 12 ارب 90 کروڑ اور وزارت اطلاعات کو 6 ارب روپے سے زیادہ ملیں گے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 39 ارب 48 کروڑ روپے سے زیادہ اور ریلوے ڈویژن کو 22 ارب 41 کروڑ روپے، پلاننگ ڈیولپمنٹ کے لیے بجٹ میں 21 ارب روپے سے زائد رکھے گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کئی ممالک جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کے بحران میں مبتلا
  • اسرائیلی جارحیت ناقابل قبول، ایران کو دفاع کا پورا حق حاصل ہے، پاکستان
  • کراچی میں موسم کا شدید ترین دن ریکارڈ: گرمی ناقابل برداشت ہوگئی
  • اسرائیل اور ایران تحمل کا مظاہرہ کریں: انتونیو گوتریس
  • اقوامِ متحدہ، جنرل اسمبلی میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور
  • دنیا میں 7 کروڑ سے زائد افراد جان بچانے کے لیے نقل مکانی پر مجبور
  • نقل مکانی میں دوگنا اضافہ جبکہ امدادی وسائل میں کمی، رپورٹ
  • دنیا میں اب بھی 138 ملین بچے مزدوری کرنے پر مجبور، اقوام متحدہ
  • حکومت کا کروڑوں کمانے والوں پر سپر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ