تعوُّذات: تعارف، اہمیت، فوائد
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ذخیزۂ احادیث کو دیکھا جائے تو ہر موقع و محل کے مناسب تعوذ پر رسولؐ کے عملی اہتمام کو دیکھ پڑھ کر قاری، حیرانگی اور تعجب میں پڑجاتا ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ تعوُّذات‘ اس قدر اہمیت کے حامل رہے ہیں کہ جنہیں صبح وشام کے وقت، سونے جاگنے، برا خواب دیکھنے، بیمار کی بیمارپرسی، غیض وغضب سے دو چار ہونے، وساوس کی بندش کو توڑنے، سفر کی روانگی، کسی جگہ پڑاؤ، گھر سے خروج، بازار جانے، کوئی چیز خریدنے، بیماری یا بخار میں مبتلا ہونے، سخت آندھی چلنے کے مواقع کے علاوہ نماز کے دوران اور نماز کے بعد پڑھنے کا خاص حکم ہے۔ اور اسی طرح مصائبِ دنیویہ جیسے: برص، جنون، جذام، ذلت، پریشانی، غم، لاچارگی، قرض، فقر وفاقہ، بڑھاپے اور ہر قسم کی ناگہانی آفات کے ساتھ ساتھ اُخروی مصائب، مثلاً: نفاق، کفر، شرک، گمراہی، برے اعمال، برے ساتھی اور برے پڑوسی سے مخصوص استعاذہ کا وارد ہونا بھی آدمی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ تعوُّذ کے معنی میں ذرا سا غور کیا جائے اور اس کی حکمتوں کو سوچا جائے، تو ساری حیرانگی، اللہ کی قدرتِ کاملہ کا استحضارکرتے ہوئے اپنی بے بسی، لاچارگی اور کمزوری سے بدل جاتی ہے کہ انسان کسی بھی آفت، حادثے یا دشمن کے مقابلے کی سکت نہیں رکھتا ہے، بلکہ وہ ہرآن، ہرگھڑی، ہر لمحہ اور ہر مصیبت، آفت کے وقت اللہ تعالیٰ کی کامل احتیاج رکھتا ہے، چنانچہ علامہ راغب اصفہانیؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’المفردات‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:
’’العَوْذ‘‘ دوسرے کی پناہ میں رہنے اور اس کے ساتھ لگے رہنے کو کہتے ہیں اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان لیا گیا ہے: ’’اَعُوْذُ بِاللہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجَاہِلِیْن‘‘۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعوُّذ کی وضع، اللہ کی طرف التجاء ہے، مگر حافظ ابنِ کثیرؒ نے ایک اور نکتہ تحریر فرمایا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعوُّذات کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع، اِنابت اور متوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی لاچارگی، بے بسی اور کمزوری کا اظہار بھی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ: کلام عرب میں پناہ کے لیے دو قسم کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں: 1۔الْعَوْذُ، 2۔اللَّوْذُ، مگر ان دونوں کے درمیان ایک باریک فرق ہے، جس سے استعاذہ کا مقصد مزید واضح ہوجاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ لفظ ’’لوذ‘‘ کسی کی پناہ میں اپنے فائدہ کے تحت آنے کو کہتے ہیں، جبکہ ’’عوذ‘‘ اپنے آپ کو شر سے بچانے کے لیے کسی کی پناہ پکڑنے کو کہتے ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ نے استعاذہ کے لطائف بیان کرتے ہوئے مقصد کو مزید واضح کردیا:
’’استعاذہ میں مشغول رہنے سے زبان ہر قسم کے بیہودہ اور بیکار مشاغل سے دور ہوکر پاکیزہ رہتی ہے اور کلام اللہ کی تلاوت کے لیے تیار رہتی ہے، بلکہ استعاذہ میں اللہ کی مدد مانگنے اور ان کی قدرت ِ کاملہ کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی لاچارگی اور اپنے اُس کھلم کھلا، آنکھوں سے اوجھل دشمن کے مقابلے سے ناتوانی کا اظہار بھی ہے، جس کے پچھاڑنے کی طاقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جس نے اسے پیدا کیا، جس کے یہاں نہ تصنع کا اعتبار ہے اور نہ کاسا لیسی کا‘‘۔ (تفسیر الاستعاذۃ واحکامہا)
البتہ اگر کسی کے ذہن میں یہ آجائے کہ ہر ’’مستعاذ مِنہ‘‘ یعنی ہر وہ چیز جس سے آپؐ نے اپنے رب کی پناہ مانگی ہے، وہ ہر حال میں مصیبت اور وبال ہی ہے، تو اس حوالے سے جان لینا چاہیے کہ ہر مستعاذ منہ مصیبت یا وبال نہیں ہے، بلکہ یہ خیال حقیقت سے کوسوں دور ہے؛ کیونکہ ایک جانب اگر غیرطبعی یا ناگہانی موت سے پناہ مانگی گئی ہے، تو دوسری طرف اسے شہادت بھی کہا گیا ہے، چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے مذکورہ مسئلے کو اپنے اَمالی (العرف الشذی) میں سوال و جواب کی شکل میں بیان کیا:
’’اگر کوئی کہے کہ ابو داؤد شریف میں ناگہانی موت سے پناہ مانگی گئی ہے، جبکہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت شہادت ہے، تو ہم کہیں گے کہ شریعت پناہ مانگنے کا حکم دیتی ہے، تاکہ وصیت یا معاملاتِ شرعیہ فوت نہ ہوں، باقی ناگہانی طور پر انتقال کر جائے، تو وہ شہید شمار ہوگا‘‘۔ (ابواب الجنائز)
انسان کے خمیر میں چونکہ یہ بات ہے کہ عموماً مطلب اور فائدے کے بغیر وہ کسی کام کا اقدام نہیں کرتا، اسی لیے ہم اپنے مضمون کے آخر میں استعاذہ کے چند فوائد ذکر کرتے ہیں:
1۔ علامہ ابن قیمؒ نے تعوُّذات اور دیگر اذکار کے فوائد تحریر کرتے ہوئے ایک عمدہ فائدہ بیان کیا ہے کہ دوائیاں تب ہی فائدہ اور سود مند ہیں، جب پہلے سے بیماری نے آکر نقصان سے دوچار کیا ہو، جبکہ تعوُّذ کا کمال اور فائدہ یہ ہے کہ یہ بیماری کے اسباب اور انسان کے درمیان سدِسکندری کی طرح حائل بن جاتی ہے، بہرحال علامہ موصوف کا مطلب یہ ہے کہ تعوُّذات مرض کے خاتمہ، مرض سے پیشگی حفاظت اور صحت کے برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔
2۔علامہ ابن قیمؒ ہی نے اپنی مشہور شہرہ آفاق کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ میں تعوُّذات کی اہمیت و وقعت کو فوائد کی شکل میں تحریر فرمایا کہ اس آدمی پر لازم ہے جو دنیوی اور اُخروی مصائب سے اپنی حفاظت کا خواہاں ہے کہ وہ ہمہ وقت قلعہ بند اور زرہ زیبِ تن رکھے، یعنی وہ تعوُّذات نبویہ کی پاپندی کرے۔
3۔نضرۃ النعیم میں استعاذہ کی مسلسل پابندی کے چودہ فوائد بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے چند ہم قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں:
٭استعاذہ نفس کی راحت وسکون کا سبب ہے۔ ٭استعاذہ سے اللہ پر توکل کی صفت پیدا ہوتی ہے۔٭استعاذہ کی دعاؤں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ ٭استعاذہ شیطان سے بچنے کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔ ٭استعاذہ سے انسان اپنے اعضا کے شرور سے محفوظ رہتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اللہ تعالی ہوتا ہے کہ ہے کہ تعو کے ساتھ اللہ کی کی پناہ اپنے ا اور اس
پڑھیں:
قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔
دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔
جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔
آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔
آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔
اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔
ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور 'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔
ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔