اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 اپریل 2025ء) افغانستان میں مارچ سے تعلیمی سال کے آغاز کے بعد افغان طالب علموں کو پگڑیوں اور لمبے کرتوں پر مشتمل ایسی نئی یونیفارم پہننے کا حکم دیا گیا ہے، جو ملک میں طالبان کی حکمرانی سے میل کھاتا ہوا۔ طالبان کی وزارت تعلیم نے اس اقدام کو نظم و ضبط کی مضبوطی، سماجی عدم مساوات کی حوصلہ شکنی اور حقیقی اسلامی لباس کے ضوابط کے تحت قرار دیا ہے۔

تاہم یہ ایک ایسا اقدام ہے، جس نے افغان معاشرے میں تقسیم کو جنم دیا۔ وزارت تعلیم کی جانب سے جاری کردہ ہدایات میں کہا گیا ہے، ''اسلام نے لباس پر توجہ دے کر حیا اور وقار کے معیار کو محفوظ اور مضبوط کیا ہے۔ شرعی لباس ایک مسلمان مرد اور عورت کی شناخت کا تعین کرتا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

اس وزارت کی جانب سے مزید کہا گیا ہے،''شرعی لباس فرد کے وقار کو محفوظ رکھنے اور معاشرے کو اخلاقی گراوٹ سے بچانے کا ذریعہ ہے۔

‘‘

2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے پہلے، شلوار قمیض اور پگڑی، اس خطے میں روایتی لباس تو تھا لیکن تعلیمی یا پیشہ ورانہ ماحول میں ان کے پہننے کا معمول نہیں تھا۔ تاہم طالبان کی واپسی کے بعد سے کابل اور دیگر علاقوں میں بہت سے مردوں نے ڈھیلی ڈھالی شلواریں اور لمبے کرتے پہننے کا انتخاب کیا ہے۔

یہ لباس کسی زمانے میں زیادہ تر مذہبی اسکولوں تک محدود تھا لیکن اب پگڑی یا ٹوپی کے ساتھ شلوار قمیض تمام طلبہ کے لیے لازمی ہے، خواہ وہ سرکاری یا نجی اسکولوں میں زیر تعلیم ہوں۔

لڑکیوں کے لیے پہلے ہی چھوٹی عمر سے ہی یونیفارم پہننا لازمی ہے، جو اکثر سفید ہیڈ اسکارف کے ساتھ مماثل شلوار کے اوپر لمبا سیاہ لباس ہوتا ہے، لیکن اب وہ روایتی تعلیمی اداروں میں پرائمری اسکول سے آگے نہیں پڑھ سکتی ہیں۔

مرد طلباء کے لیے 15 سال کی عمر تک ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض کے ساتھ ٹوپی پہننی لازمی قرار دی گئی ہے اور اس عمر کے بعد ان کے لیے سفید رنگ کی شلوار قمیض اور پگڑی پہننا لازمی ہے۔

طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی طرف سے جاری کیے گئے اس حکم کے نافذ ہونے میں وقت لگا ہے اور اب بھی پورے ملک میں اس کا یکساں طور پر نفاذ نہیں ہو سکا ہے۔

افغان مغربی صوبے ہرات میں ایک طالب علم ناصر احمدکا کہنا تھا کہ تعلیمی سال کے آغاز پر صرف چند طلبا نے ہی نیا یونیفارم پہنا تھا لیکن اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس نوجوان طالبعلم نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہمارے اساتذہ نے ہمیں کہا کہ اس کے (نئے یونیفارم) بغیر نہ آئیں۔

اگر ہمارے پاس یونیفارم اور ٹوپی نہیں ہے تو ہم کلاس روم میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایک اور طالبعلم قاسم کا کہنا تھا، ''میں نے اپنے کئی دوستوں کو اس لیے (سکول سے) منہ موڑتے دیکھا کہ ان کے پاس پگڑی نہیں تھی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ طالبان کی اخلاقیات کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام سے متعلق وزارت کے اہلکار اس لیے اسکولوں میں آتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ نئے یونیفارم سے متعلق قواعد کی پابندی کی جا رہی ہے۔

طالبان کے گڑھ جنوبی قندھار میں البتہ کئی طالب علموں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنے نئے لباس سے خوش ہیں۔ ایک طالب علم محمد ولی نے کہا کہ وہ ''پیغمبر کا لباس‘‘ پہن کر ''بہت خوش‘‘ ہیں۔ اس طالب علم کا مزید کہنا تھا، ''یہ طالب علموں کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ممتاز کرتا ہے۔‘‘دارالحکومت کابل میں، کچھ طالب علم پگڑی کو اسکول کے دوران پہنتے ہیں اور اسکول سے نکلتے ہی وہ اسے اپنے بیگ میں رکھ لیتے ہیں۔

طالبان حکام نے سکولوں میں اساتذہ اور پرنسپلوں کو بھی اپنے سوٹ اور ٹائیوں یا آرام دہ کپڑوں کو شلوار قمیض اور کالی پگڑی سے تبدیل کرنے کا کہا ہے۔

ان میں سے کچھ نے اس اقدام کو ناپسند کیا ہے۔ کابل کے ایک اسکول کے پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ''آج، سب ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر اب ڈاکٹر جیسا نہیں لگتا ہے اور باورچی اب باورچی جیسا نہیں لگتا ہے۔

‘‘

اس پرنسپل نے تاہم یہ اعتراف بھی کیا، ’’یونیفارم نظم و ضبط پیدا کرتی ہے۔‘‘ خود انہوں نے کسی قسم کی پریشانی سے بچنے کے لیے تقریباً چار سال قبل اپنے سوٹ اور ٹائی کو ترک کر دیا تھا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں اقوام متحدہ کے مطابق 85 فیصد آبادی یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم پر گزارہ کرتی ہے، وہاں کچھ خاندانوں کے لیے ایک یونیفارم کے لیے اوسطاً 1,000 افغانی (14امریکی ڈالر) ادا کرنا ایک بوجھ ہے۔

اس پرنسپل کا کہنا تھا، ’’اگر ایک خاندان میں پانچ یا چھ بچے ہیں، تو وہ کیسے گزارہ کریں گے؟‘‘ طالب علموں کو اب اپنی یہ نئی یونیفارم پہن کر اکثر کم وسائل والے خستہ حال اسکولوں میں ہی جانا پڑتا ہے۔ کابل کے اس پرنسپل کا کہنا تھا کہ پہلے تو طلبہ پر یونیفارم کی پابندی کی سختی نہیں تھی لیکن اب وزارت تعلیم کے اہلکار ہفتے میں دو سے تین بار ان کے اسکول میں یہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں کہ آیا طلبہ اس نئے یونیفارم سے متعلق حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ''افغانستان میں لوگوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ وہ اطاعت کرتے ہیں اور شکایت نہیں کر سکتے۔‘‘

شکور رحیم اے ایف پی کے ساتھ

ادارت: افسر اعوان

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا تھا شلوار قمیض طالب علموں طالبان کی اے ایف پی طالب علم کے ساتھ لیکن اب کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل کا احتساب ہونا چاہیے، مولانا فضل الرحمان

کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن) جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر سوال کیا کہ امریکہ اور اقوام متحدہ اسرائیل کی مدد کیوں کرتے ہیں اور کہا کہ اسرائیل اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کے کسی فیصلے کو قبول نہیں کرتا،اسرائیل کا احتساب ہونا چاہیے جبکہ اسلامی دنیا ایران کی حمایت کرتی ہے۔جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کراچی کے علاقےڈیفنس میں سینیٹر فیصل واوڈا کی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ ملک کے لیے یقیناً مسائل اور مشکلات ہیں، بھارتی جارحیت پر قوم نے یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے اور وحدت ایک رحمت ہے جبکہ تقسیم ایک عذاب ہے۔

خیبر پختونخوا سے کچھ لوگ اسلام آباد آرہے ہیں، مولانا کے مشورے سے انہیں جواب دیں گے: فیصل واوڈا

فیصل واوڈا سے ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھی بات ہے ایک دوسرے کو مل رہے ہیں، اگر کسی پارٹی اور منشور کو عوام قبول کرتے ہیں،کون سی قوتیں ہیں جو لوگوں کے اقتدار کا راستہ روکتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں کوئی نیا سیاسی اتحاد نہیں بن رہا ہے، جے یو آئی کے بغیر حکومتیں بنتی اور جاتی نہیں ہیں، جب سیاست کرتے ہیں تو اقتدار کے لیے کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اقوام متحدہ اسرائیل کی مدد کیوں کرتے ہیں، اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا ہے، یہ امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے سوالیہ نشان ہے، وہ ناجائز ملک اسرائیل کو کیوں سپورٹ کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا احتساب  بھی ہونا چاہیے، امت مسلمہ ایران کے ساتھ ہے۔

مولانا فضل الرحمان کی سینیٹر فیصل واوڈا کے گھر آمد ، ’’میڈیا پر کو پرندہ نہ بنائے‘‘:سربراہ جمعیت علماء اسلام

مزید :

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کا احتساب ہونا چاہیے، مولانا فضل الرحمان
  • افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا دوسرا جہاز گوادر پہنچ گیا
  • گورنر خیبرپختونخوا نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی، گنڈاپور
  • پاک افغان سرحدی ضلع چمن میں زلزلے کے جھٹکے
  • افغان طالبان کا اسرائیلی جارحیت پر شدید رد عمل
  • بینک سے 5لاکھ یا زائد رقم نکلوانے پر شہری کو پولیس سیکیورٹی لینا لازمی
  • جنوبی افریقہ میں قیامت خیز سیلاب، 49 افراد جاں بحق، متعدد لاپتہ
  • افغان امیرالمومنین ملا ہیبت اللہ کا عید کا پیغام
  • طالبان کے ماتحت افغانستان کتنا ’محفوظ‘ ہے؟
  • افغان طالبان نے بندوقیں رکھ کر جنگ کی کہانیاں لکھنا شروع کر دیں