ایسا جاندار جس کا سر کاٹ دیا جائے تو بھی ایک ہفتے زندہ رہ سکتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
اگرچہ یہ بات ناقابلِ یقین لگتی ہے لیکن یہ سچ ہے۔ اس دنیا میں ایک جاندار ایسا بھی ہے جو سر کے بغیر 1 ہفتے تک زندہ رہ سکتا ہے۔
وہ جاندار ہے کاکروچ۔ جی ہاں! کاکروچ اپنے سر کے بغیر کئی دن یہاں تک کہ ایک ہفتے تک زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ بات سننے میں حیرت انگیز لگتی ہے لیکن اس کی سائنسی وجوہات بہت دلچسپ ہیں۔
کاکروچ سر کے بغیر زندہ کیسے رہتا ہے؟
کاکروچ میں خون کا دباؤ (Blood Pressure) نہیں ہوتا۔ انسانوں کی طرح کاکروچ کا خون سرکولیٹری نظام (circulatory system) پر مبنی نہیں ہوتا۔ ان کے جسم میں کھلا ہوا نظام (open system) ہوتا ہے یعنی خون بہنے سے وہ فوراً نہیں مرتے۔
دوسرا ان میں سانس لینے کا نظام مختلف ہوتا ہے۔ کاکروچ ناک یا منہ سے سانس نہیں لیتے۔ وہ اپنے جسم کے اطراف موجود چھوٹے سوراخوں (spiracles) سے سانس لیتے ہیں۔ سر کے بغیر بھی کاکروچ کا جسم آکسیجن حاصل کر سکتا ہے۔
علاوہ زیں کاکروچ کو دماغ کی ضرورت کم ہوتی ہے: کاکروچ کا اعصابی نظام (nervous system) کافی سادہ ہوتا ہے۔ وہ گردن کے نیچے موجود گینگزیا (nerve clusters) کے ذریعے کچھ افعال جاری رکھ سکتے ہیں۔
لیکن پھر کاکروچ مرتے کیوں ہیں؟
جب کاکروچ کا سر کٹتا ہے تو وہ کھانے یا پانی نہیں لے سکتا۔ نتیجتاً وہ ڈی ہائیڈریشن یا بھوک سے کچھ دنوں (اکثر 7 دن) بعد مر جاتا ہے، نہ کہ فوری طور پر۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سر کے بغیر سکتا ہے
پڑھیں:
نوآبادیاتی نظام اور مظلوم عوام کا مستقبل
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جب بہت سے مسلم ممالک یورپی استعمار کے شکنجے سے آزاد ہوئے، ایشیا اور افریقہ کے ممالک پر برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال وغیرہ کی گرفت ڈھیلی پڑنا شروع ہوئی تو ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ ہم واقعی آزادی سے ہمکنار ہو رہے ہیں، اور اب ہم استعماری قوتوں کے دائرہ اثر و نفوذ سے نجات حاصل کر کے اپنی مرضی کے مطابق اپنا مستقبل طے کر سکیں گے۔ لیکن ہماری یہ غلط فہمی بہت جلد دور ہونا شروع ہوگئی اور کم و بیش نصف صدی کے عرصہ میں ہم پر یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے ساتھ آزادی کے نام پر دھوکہ ہوا ہے اور ہم آج بھی اسی طرح غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جیسا کہ پون صدی قبل ہمارا حال تھا۔ صرف طریق کار تبدیل ہوا ہے کہ غلامی کی ظاہری زنجیروں کی بجائے ریموٹ کنٹرول سسٹم نے ہمارے گرد حصار قائم کر لیا ہے۔ اور بوڑھے برطانیہ کی جگہ اس استعمار اور نوآبادیاتی سسٹم کی قیادت جواں سال امریکہ نے سنبھال لی ہے۔ اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالہ سے ذرا معروضی صورتحال پر ایک نظر ڈال لی جائے تو مناسب ہوگا۔
سیاست و حکومت کے دائرہ میں صدر محمد ایوب خان کے دور میں انہی کے بھائی سردار محمد بہادر خان نے، جو ۱۹۶۲ء میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد تھے، ایک بات کہی تھی جو اس وقت بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ پاکستان میں کوئی حکومت بھی امریکہ کی مرضی کے بغیر نہ تشکیل پاتی ہے اور نہ ختم ہوتی ہے۔ لیکن آج ۳۰ سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہ بات ایک حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے ہے کہ ہماری سیاست و حکومت کے تمام معاملات اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں طے ہوتے ہیں اور ہمارا رول ان میں احکام کی بجا آوری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سردار بہادر خان ایک باخبر سیاست دان تھے، اسی لیے انہوں نے بالآخر قومی اسمبلی میں اپنا آخری خطاب اس شعر پر ختم کر کے قومی اسمبلی بلکہ قومی سیاست کا فلور ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا تھا کہ
یہ راز بھی اب کوئی راز نہیں سب اہل گلستاں جان گئے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام بہاراں کیا ہوگا؟
معیشت و تجارت میں ہمارا حال کیا ہے اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ورلڈ بینک، اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں فری مارکیٹ عالمی تجارت اور گلوبلائزیشن کے خوشنما عنوانات کے تحت کیا ہونے والا ہے؟ میں اس وقت صرف دو حوالوں سے اس صورتحال کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ چند سال قبل ایک ذمہ دار اور مقتدر شخصیت نے، جو بعد میں وفاقی وزیر کے منصب پر بھی فائز رہے، مجھے بتایا کہ ہم نے اپنی ضرورت کے لیے ملائیشیا سے پام آئل خریدنے کا پروگرام بنایا، یہ سوچ کر کہ ملائیشیا کا پام آئل معیار کے لحاظ سے بہتر اور سستا ہے۔ اگر ہم ملائیشیا سے پام آئل خریدیں گے تو ان فوائد کے ساتھ ساتھ دو برادر مسلم ملکوں کے تعلقات میں بھی اضافہ ہوگا۔ چنانچہ ہم نے ملائیشیا کی حکومت سے اس سلسلہ میں گفت و شنید کی لیکن بعض مراحل طے ہونے کے بعد ہمیں یہ گفتگو اچانک معطل کر دینا پڑی۔ اس لیے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے ہمیں واضح طور پر وارننگ دی گئی کہ اگر ہم نے ملائیشیا کے ساتھ پام آئل کی خریداری کا معاہدہ کر لیا تو ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے حاصل ہونے والی بہت سی سہولتوں اور مفادات سے محروم ہونا پڑے گا۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ایک آزاد ملک اور خودمختار حکومت کے لیبل کے باوجود ہم اپنی تجارت میں یہ حق نہیں رکھتے کہ اپنی ضرورت کا ایک تیل اپنی آزاد مرضی کے ساتھ کہیں سے خرید سکیں۔
دوسرے نمبر پر میں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی کتاب ’’ایشیا کا مقدمہ‘‘ کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں انہوں نے ملائیشیا کی معاشی ترقی، صنعتی عروج اور پھر اس کے اچانک زوال کی داستان بیان کی ہے۔ یہ کتاب عالمی مالیاتی استعمار کے طریقۂ واردات اور استحصال کے طور طریقوں کو بے نقاب کرتی ہے اور میرے خیال میں پاکستان کے ہر عالم دین، ہر سیاسی کارکن، اور ہر دانشور کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ملائیشیا میں جب سرمایہ کار آئے اور مشرق بعید کے اس مسلم ملک نے صنعتی ترقی کی طرف قدم بڑھانا شروع کیا تو میرے جیسے کارکن بہت خوش ہوئے کہ ایک مسلمان صنعتی ملک کا نام بھی سامنے آنے لگا ہے۔ لیکن کرنسی کے بین الاقوامی تاجروں نے اپنی اجارہ داری کا جس بری طرح استعمال کیا اور ملائیشیا کی معاشی اور صنعتی ترقی پر کرنسی کے خود ساختہ اتار چڑھاؤ اور اس کے نتیجے میں سرمایہ کے انخلاء کا اس سفاکانہ اور بے رحمانہ طریقہ سے وار کیا کہ ’’ایشیا کا ٹائیگر‘‘ کہلانے والے اس مسلم ملک کی معیشت اور تجارت کا پورا ڈھانچہ دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوگیا۔ اور یہ خوفناک معروضی صورت حال ایک بار پھر ہمارا منہ چڑانے لگی کہ جسے ہم نے آزادی سمجھ کر اس پر بیسیوں سالانہ جشن منا ڈالے ہیں وہ آزادی نہیں بلکہ غلامی سے بھی بدتر چیز ہے اور ہم سیاست و حکومت کی طرح معیشت، صنعت، اور تجارت میں بھی اپنی مرضی سے کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
(جاری ہے)