دریا کی گہرائیوں میں جاچھپنے والی شادی کی انگوٹھی محض 10 منٹ میں کیسے واپس مل گئی؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
ایک شخص کا اپنی شادی کی انگوٹھی دریا میں کھونا بظاہر ناقابل واپسی لمحہ لگ رہا تھا لیکن مقامی اسکوبا ڈائیورز کی مہارت اور جذبے نے اسے ایک ناقابل فراموش کہانی میں بدل دیا۔
یہ بھی پڑھیں: روبوٹس کو کھا کر طاقت بڑھانے والا نیا روبوٹ، کہیں اس کا اگلا شکار انسان تو نہیں؟
اینٹ کرکر برطانیہ میں بیڈفورڈ کے دریا گریٹ اووز کے کنارے پیڈل بورڈنگ کر رہے تھے کہ اچانک اس وقت پریشان ہو گئے جب ان کی قیمتی شادی کی انگوٹھی پانی میں گر گئی۔ انہوں نے خود بھی ڈبکی لگا کر نیچے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن پانی کی گہرائی اور مٹیالے پن نے تلاش کو ناممکن بنا دیا۔
اینٹ نے کہا کہ میں نے نیچے جانے کی کوشش کی لیکن 2 سے 3 میٹر نیچے جاتے ہی سانس کا دباؤ بڑھنے لگا اور کچھ نظر بھی نہیں آ رہا تھا، اس لیے واپس آنا پڑا۔
مزید پڑھیے: نیویارک: آسمان میں پراسرار اشیا کی نقل و حرکت، کیا یہ خلائی مخلوق کی کارستانی ہے؟
مایوسی کے عالم میں انہوں نے مقامی اسکوبا ڈائیونگ ٹیم بیڈفورڈ اسکوبا ڈائیورز سے رابطہ کیا جو ہفتہ کی صبح فوراً ان کی مدد کے لیے تیار ہو گئی۔ ٹیم نے مکمل تیاری کے ساتھ دریا میں تلاش شروع کی، اور صرف 10 منٹ بعد ڈائیور بیکس مارٹن نے پانی کی تہہ سے وہی انگوٹھی نکال لی۔
اس لمحے کی خوشی بیان کرتے ہوئے اینٹ کرکر نے کہا کہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ انگوٹھی واقعی مل گئی ہے۔ میں اتنا خوش ہوا کہ میں نے ان سب کو گیلی حالت میں ہی گلے لگا لیا۔
انہوں نے بعد ازاں سوشل میڈیا پر ٹیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ بیکس، ٹونی اور ٹریسی کا دل سے شکریہ جنہوں نے میری شادی کی انگوٹھی واپس لا کر میری زندگی کا اہم ترین شے مجھے واپس دلوادی۔
مزید پڑھیں: دنیا میں ساحل سے محروم ملک کتنے، ایسے ترقی پذیر ممالک کے لیے اقوام متحدہ کیا کر رہی ہے؟
یہ واقعہ نہ صرف انسانی ہمدردی اور رضاکارانہ جذبے کی مثال ہے بلکہ یہ یاد دہانی بھی ہے کہ کچھ چیزیں خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی اور پانی کی گہرایوں میں ہی کیوں نہ جاچھپی ہوں اگر جذبہ تو انہیں واپس پایا جاسکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسکوبا ڈائیونگ برطانیہ شادی کی انگوٹھی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسکوبا ڈائیونگ برطانیہ شادی کی انگوٹھی شادی کی انگوٹھی
پڑھیں:
ہم پانی، بجلی نہیں، صرف امن لینے کے لیے گھروں سے نکلے ہیں، مولانا ہدایت الرحمن
ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے کہا کہ اگر مودی بلوچستان میں پیسہ لگا سکتا ہے تو پاکستان کے حکمران بلوچ نوجوانوں پر سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ ہم سوال پوچھنے جا رہے ہیں کہ بلوچستان کو میدانِ جنگ کیوں بنا دیا گیا ہے؟ را کو ختم کس نے کرنا ہے؟ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیوں کر رہی ہے؟ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی کے زیراہتمام بلوچستان کے حقوق کے لیے جاری "حق دو بلوچستان لانگ مارچ" مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں ملتان سے خانیوال روانہ، لانگ مارچ کا پرتپاک استقبال مدرسہ جامعہ العلوم میں کیا گیا، جہاں امیر جماعت اسلامی بلوچستان نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کی محرومیوں، بدامنی اور ریاستی جبر پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان کی فریاد لے کر نکلے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو جینے کا حق دیا جائے، تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں اور جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پانی یا بجلی نہیں مانگ رہے، صرف انسانی زندگی کی ضمانت چاہتے ہیں۔ اس موقع پر سید ذیشان اختر امیر جماعت اسلامی جنوبی پنجاب، صہیب عمار صدیقی امیر جماعت اسلامی ملتان، زاہد اختر بلوچ نائب امیر جماعت اسلامی بلوچستان، مولانا عبد الرزاق مہتمم جامع العلوم، حافظ محمد اسلم نائب امیر جماعت اسلامی ملتان، چوہدری اطہر عزیز ایڈوکیٹ نائب امیر ضلع اور حق دو بلوچستان مارچ کے شرکاء سمیت ملتان جماعت کے دیگر ذمہ دران بھی موجود تھے۔
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ بلوچستان میں حکومتی رٹ صرف چند گھنٹے نظر آتی ہے، باقی وقت بدامنی، خوف اور لاقانونیت کا راج ہے۔ 249 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں سے 83 ارب صرف سیکیورٹی پر خرچ ہوتے ہیں جبکہ عوام صحت، تعلیم اور روزگار سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کا آغاز بلوچستان سے ہوا، لیکن آج تک ہمیں ایک منصوبہ بھی نہیں ملا۔ کوئٹہ کراچی ہائی وے پر ہر سال ہزاروں لوگ جان سے جاتے ہیں، لیکن حکومت ایک کلومیٹر سڑک دینے کو تیار نہیں۔ بلوچستان کے ساتھ یہ مسلسل زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوئی غیرآئینی تحریک نہیں چلا رہے، ہم پرامن جدوجہد کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں گوریلا کمانڈر بنا کر پیش کرنا سراسر ظلم ہے۔ ہماری بہنوں پر اسلام آباد میں تشدد کیا جا رہا ہے، ہمارے معدنی وسائل پر قبضہ کیا گیا ہے اور ہمیں اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مودی بلوچستان میں پیسہ لگا سکتا ہے تو پاکستان کے حکمران بلوچ نوجوانوں پر سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ ہم سوال پوچھنے جا رہے ہیں کہ بلوچستان کو میدانِ جنگ کیوں بنا دیا گیا ہے؟ را کو ختم کس نے کرنا ہے؟ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیوں کر رہی ہے؟ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ماہرنگ بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کو فوری رہا کیا جائے۔ ہم اسلام آباد جا کر اپنی بہنوں کے دھرنے میں شامل ہوں گے اور ان مظلوم ماوں، بہنوں، بچوں کی آواز ایوانوں تک پہنچائیں گے۔ بلوچستان کے عوام پروفیسر، ڈاکٹر اور امن چاہتے ہیں، جنگ نہیں۔