Express News:
2025-07-23@03:05:31 GMT

سینیٹ انتخابات اور عوام کی امیدیں

اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT

خیبر پختونخوا میں ایوان بالا کے انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے، حکومت اور اپوزیشن نے انتخابی فارمولے کے مطابق 6 اور 5 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ سینیٹ کی 11نشستوں میں تحریک انصاف نے 6، جمعیت علمائے اسلام2، پیپلز پارٹی2 اور پاکستان مسلم لیگ ن 1نشست پر کامیاب ہوئی، سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے درمیان معاہدہ کامیاب رہا۔پنجاب کی ایک نشت پر مسلم لیگ ن کے حافظ عبدالکریم کامیاب ہوئے ہیں۔

 ملک میں سینیٹ کے حالیہ انتخابات مکمل ہو چکے ہیں، جس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر بھی اراکین کی تقرری عمل میں آ چکی ہے۔ یوں پاکستان کی پارلیمان کے دونوں ایوان سینیٹ اور قومی اسمبلی مکمل ہو چکے ہیں۔ ایک طویل غیر یقینی اور خلاؤں سے بھرپور ڈیڑھ برس کے بعد، بالآخر دونوں ایوانوں کی تکمیل عمل میں آ چکی ہے۔

یہ مرحلہ صرف آئینی ضرورت کی تکمیل نہیں، بلکہ جمہور کی ان گہری تمناؤں کا مظہر ہے جو برسوں سے ایک مضبوط، مربوط اور مؤثر جمہوری نظام کے خواب دیکھتے آئے ہیں۔ یہ امر بظاہر جمہوریت کے تسلسل اور پارلیمانی نظام کی مضبوطی کی علامت ہے، لیکن اگر اس منظر نامے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو کئی تلخ حقیقتیں اور سوالات جنم لیتی ہیں، جو جمہوریت کی روح اور عوامی نمایندگی کے اصولوں سے انحراف کا پتا دیتے ہیں۔

اس تمام عمل کو پریشان کن اس پہلو نے بنایا کہ عام انتخابات کے بعد تقریباً سال سوا سال تک عدالتی پیچیدگیوں اور قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے پارلیمان مکمل نہ ہو سکا۔ یہ صورتِ حال نہ صرف جمہوری عمل کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ نئے نئے سیاسی اور آئینی مناقشوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے ۔

سینیٹ انتخابات سے پہلے جس ’’طے شدہ فارمولے‘‘ کے تحت حکومت اور اپوزیشن کے مابین نشستوں کی تقیسم ہوئی، وہ بذاتِ خود اس امر کا غماز ہے کہ جب بات سیاسی مفادات کی ہو، تو بظاہر ایک دوسرے کے شدید مخالف نظر آنے والے سیاسی فریقین کس طرح خوش اسلوبی سے ایک صفحے پر آ جاتے ہیں۔ وہی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت، جو عوامی جلسوں میں ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرتی ہیں، پس پردہ مفاہمت کی میز پر باآسانی اکٹھا ہو جاتی ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف سیاسی دوعملی کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ پارٹی ورکرز اور ووٹرز کے اعتماد کو بھی مجروح کرتا ہے، جنھیں تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کے رہنما اور سیاسی جماعت اپنے بیانئے اور اصولوں پر قائم رہیں گے۔

خیبر پختونخوا میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کے بعد ایوان بالا میں پیپلزپارٹی نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے، اس کے سینیٹرز کی تعداد 26ہوگئی، یوں حکمراں اتحاد سینیٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے، ایوان بالا میں حکمراں اتحاد کے سینیٹرز کی تعداد 61جب کہ اپوزیشن کے سینیٹر کی تعداد 34 ہوگئی، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نئی ارکان کی آمد کے بعد اب حکومتی اتحاد کو دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔

بلاشبہ یہ اکثریت کسی بھی حکومت کے لیے قانون سازی کو مؤثر بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ عددی طاقت عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوگی یا سیاسی جوڑ توڑ اور اتحادیوں کے تقاضے پورے کرنے تک محدود رہے گی؟ ماضی کی مثالیں دیکھ کر یہ اندیشہ بجا ہے کہ اکثریت کے بل پر کی جانے والی قانون سازی عموماً عوامی مفادات سے زیادہ طاقتور طبقات کے مفادات کی ترجمان ہوتی ہے۔

 حالیہ سینیٹ الیکشن کے جائزے میں یہ واضع ہے، حسب روایت دولت مند افراد کو پارٹی ٹکٹ دیے گئے اور وہ منتخب ہوکر سینٹر بن گئے ہیں ۔سیاسی جماعتوں نے تعلیم یافتہ مڈل کلاس کو لفٹ نہیں کرائی ، یوں متوسط طبقے کے پڑھے لکھینوجوان سیاسی کارکن، خواتین، اقلیتوں اور محنت کش طبقے کی نمایندگی برائے نام رہی۔ سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ ترین قیادت کے اس قسم کے فیصلے اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ ہماری پارلیمان طاقتور اور دولت مند طبقات کا کلب ہے، جہاں عوامی مسائل کی گونج کم اور مفاداتی سیاست کا شور زیادہ سنائی دیتا ہے۔

جمہوری نظام کی اصل روح اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب پارلیمان میں ہر طبقے کی نمایندگی ہو، جب عوام کے حقیقی مسائل پر قانون سازی ہو، اور جب حکومتی فیصلے ریاست اور عوام کے اجتماعی مفادات کی ترجمانی کریں۔ ورنہ جمہوریت صرف انتخابی عملکا نام بن جاتی ہے، جس میں عوامی شمولیت کا عنصر ختم ہو جاتا ہے۔ عوام کو صرف ووٹ دینے کی مشین سمجھا جاتا ہے، اور انتخابات کے بعد ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل نظام حکومت ہے، ایک مسلسل عمل، جو عوام کی شمولیت، شفاف احتساب، مؤثر ادارہ جاتی کردار اور میرٹ پر مبنی نمایندگی کا تقاضا کرتا ہے۔ جب یہ اجزا موجود نہ ہوں تو پھر انتخابات نمائشی عمل بن جاتے ہیں، اور پارلیمان چند مراعات یافتہ افراد کا حلقہ بن جاتی ہے۔

اس سینیٹ الیکشن کے نتائج نے یہ بات ایک بار پھر واضح کر دی کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں اب بھی اپنے منشورو پروگرام پر عمل کرنے کے بجائے مفاداتی اتحادوں کو ترجیح دیتی ہیں۔ عوامی نمایندوں کے چناؤ میں عوامی مقبولیت، خدمات یا اصولی موقف کے بجائے صرف مالی حیثیت، خاندانی پس منظر اور اندرونی تعلقات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جمہوریت کی آڑ میں ایک محدود طبقے کی بالادستی کو دوام بخشا جا تا ہے۔

عوام کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جب حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو جلسوں میں غدار، کرپٹ اور نااہل قرار دیتی ہیں، تو وہی جماعتیں پسِ پردہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر اقتدار کی تقسیم پر راضی ہو جاتی ہیں۔ عوامی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والے رہنما جب اپنی جماعتی مصلحتوں اور ذاتی مفادات کو اجتماعی عوامیمفاد پر ترجیح دیتے ہیں تو سیاسی کارکن مایوس ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما عوام کے لیے نہیں، بلکہ طبقاتی سیاست کرتے ہیں۔

 وقت آ گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی اپنے رویوں اور پالیسی میں تبدیلی لائے ، عوام کو نمائشی نعروں کے بجائے عملی اقدامات سے مطمئن کریں، اگر جمہوریت کو واقعی مستحکم کرنا ہے تو مڈل کلاس کے سیاسی کارکنوں،پروفیشنلز،درمیانے کاروباری لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیں۔چند دولت مند اور طاقتورخاندانوں اور مفاد پرست، موقع پرست ٹولوں کے گرد گھومتی سیاست پارلیمانی جمہوری نظام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ عوام میں بڑھتی ہوئی بیزاری اور مایوسی کو غیر اہم نہ سمجھا جائے۔عدلیہ، الیکشن کمیشن، اور دیگر ریاستی اداروں پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی غیر جانبداری، شفافیت اور مؤثریت کو یقینی بنائیں۔

مبہم، یکطرفہ اور ذومعنی قانون سازی جمہوریت ہی نہیں بلکہ اداروں کے حق میں بہتر نہیں ہوتی ۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں، اصل طاقت عوام اور ووٹرز کے پاس ہوتی ہے۔ اس لیے پولنگ سے لے کر گنتی تک انتخابی قوانین واضع اور ابہام سے پاک ہونے چاہیں اور الیکشن کو انتخابی کے ساتھ انتظامی اختیارات بھی حاصل ہونے چاہیں۔ جب تک عوام اپنی سیاسی بصیرت کا استعمال نہیں کریں گے، ووٹ دینے کے بعد خاموش تماشائی بنے رہیں گے، تب تک یہ طبقاتی سیاست پر چیک رکھنا ممکن نہیں ہوگا ۔ عوام کو نہ صرف ووٹ دینا ہے، بلکہ منتخب نمایندوں کا احتساب بھی کرنا ہے۔ سوال پوچھنا، کارکردگی کا جائزہ لینا اور خاموشی توڑنا ہی وہ عمل ہے جو جمہوریت کو زندہ رکھ سکتا ہے۔

ہماری تاریخ ایسے مواقع سے بھری پڑی ہے جب قوم کو درست سمت میں موڑنے کا موقع ملا، مگر ہر بار طبقاتی قوتوں نے اسے ناکام بنا دیا۔ اب ایک بار پھر ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے۔ اگر آج بھی ہم نے سیکھنے سے گریز کیا تو آنے والی نسلیں بھی اسی دائرے میں مقید رہیں گی، جہاں جمہوریت صرف ایک لفظ ہوگا، اس کی روح اور اثر ناپید۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کا مکمل ہونا ایک موقع ہے،ایک ایسا نکتہ آغاز جہاں سے ہم قومی مفاد کو ذاتی اور جماعتی مفادات پر ترجیح دینے کا نیا باب رقم کر سکتے ہیں۔ سیاسی بالغ نظری، تحمل، مکالمے کی روایت، اور آئین کی پاسداری اب محض نعرے نہیں رہنے چاہییں، بلکہ وہ اصول بننے چاہییں جن پر ایوان کی ہر آواز اور ہر قانون کی بنیاد ہو۔

عوام نے جس اعتماد کے ساتھ اپنے نمایندے چُنے، وہ کسی معمولی توقع پر مبنی نہیں تھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم، صحت، روزگار، انصاف اور معیشت جیسے بنیادی مسائل پر سنجیدگی سے قانون سازی ہو۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ احتساب کا عمل بلا تفریق ہو، اور ہر فرد، خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو، قانون کے سامنے جواب دہ ہو۔جمہور کی آنکھیں اب ان منتخب نمایندوں پر مرکوز ہیں۔ عوام کی توقعات محض تقریروں، وعدوں یا بیانات تک محدود نہیں رہیں، وہ ٹھوس اقدامات، باوقار قانون سازی، شفاف طرزِ حکمرانی اور عام آدمی کی زندگی میں حقیقی بہتری کے خواہاں ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سینیٹ انتخابات اور اپوزیشن قومی اسمبلی جمہوری نظام ایک دوسرے جاتی ہے عوام کے ہوتی ہے مکمل ہو کے بعد کے لیے

پڑھیں:

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !

آواز
ایم سرور صدیقی

وفاقی حکومت نے جناتی اندازکا نیا بجلی کا سلیب سسٹم جاری کردیاہے جوطلسم ِ ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آتی اشرافیہ عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے؟ شاید عوام کو چکر پہ چکر دینامقصودہے کہ عام آدمی سکھ کا سانس بھی نہ لے پائے ۔کہا یہ جارہاہے کہ بجلی ٹیرف کا پہلے جو 200 یونٹ والا رعایتی نظام تھا وہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب اسے بڑھا کر 300 یونٹ کر دیا گیا ہے لیکن اس میں اصل چالاکی چھپی ہے یعنی مرے کو مارے شاہ مدار۔بجلی ٹیرف کے پرانے نظام میںپہلے 100 یونٹس پر ریٹ 9 روپے فی یونٹ تھا ۔اس کے بعد کے یونٹس (100) پر ریٹ ہوتا تھا 13 روپے فی یونٹ اور اگر آپ کا بل 200 یونٹ سے اوپر چلا جاتا تو صارفین کو 34 روپے فی یونٹ کا اضافی ادا کرناپڑتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط عائد تھی کہ اگر آپ 6 مہینے تک دوبارہ 200 یونٹ سے کم پر آ جائیں تو صارفین کے بجلی کاریٹ واپس 9 روپے فی یونٹ کے ریٹ پر آ جاتا تھا۔ مطلب اگر کوئی صارف کچھ مہینے زیادہ بجلی خرچ کر گیا تو اسے دوبارہ سستے ریٹ پر آنے کا موقع ملتا تھا۔ اب جناتی اندازکے نئے بجلی کے سلیب سسٹم میں 1 یونٹ سے لے کر 300 یونٹس تک کا ریٹ سیدھا 33 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے(ہور چوپو)صاف صاف ظاہرہے اب کوئی سلیب سسٹم نہیں بچا کوئی 6 مہینے کی رعایت یا واپسی کا راستہ نہیں بچا ۔جو صارف پہلے تھوڑا احتیاط کر کے 200 یونٹ سے نیچے رہ کر بچ جاتا تھا۔ اب اس کو بھی وہی مہنگا ریٹ بھرنا پڑے گا ۔اس کا نتیجہ ہے کہ 300 یونٹ کے نام پر عوام کو ایک طرف سے ریلیف کا دھوکا دیا گیا ہے کہ 300 یونٹ تک رعایت ہے لیکن حقیقتاً اب سب صارفین کو یکساں مہنگی بجلی خریدنی پڑے گی پہلے تھوڑی بہت امید بچ جاتی تھی 6 مہینے بعد سستے ریٹ کی اب وہ امید بھی حکومت نے چھین لی ہے یہ تو سراسر عوام کے ساتھ زیادتی ہے، سنگین مذاق ہے، اور معاشی قتل کے مترادف ہے اس لئے حکمرانوںکا مطمح نظرہے کہ بھاری بل آنے والے پرجو کم وسائل، غریب اور مستحقین ہے وہ خودکشی کرتے ہیں تو کرتے پھریں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ۔صارفین کو اب احتیاط بچت یا کم خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔واپڈا کے ” سیانوں” نے عوام کو ہر حال میں لوٹنے کا سسٹم بنا دیا گیا ہے ۔یہ پہلے سے بھی بڑا ظلم ہے ۔اس پر کون آواز اٹھائے گا کوئی نہیں جانتا ۔دوسری طرف بجلی بلوں کی تقسیم کا نیا نظام رائج کرتے ہوئے حکومت نے خسارے میں چلنے والے محکمہ پاکستان پوسٹ کو اہم ذمے داری سونپ دی گئی ملک بھر میں بجلی بلوں کی پرنٹنگ اور تقسیم کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت تمام بجلی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے بل اب پاکستان پوسٹ کے ذریعے تقسیم کیے جائیں گے۔ابتدائی مرحلے میں یہ نظام آزمائشی بنیادوں پر شروع کیا جائے گا۔ ہر ڈسکوز کے ایک سب ڈویژن میں پاکستان پوسٹ کا عملہ بجلی بل تقسیم کرے گا۔ پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کی صورت میں اسے مرحلہ وار پورے ملک تک توسیع دی جائے گی۔ آئندہ چھ ماہ میں بلوں کی مکمل تقسیم کا نظام پاکستان پوسٹ کے حوالے کر دیا جائے گا، جبکہ حتمی مرحلے میں بجلی بلوں کی چھپائی کا عمل بھی پاکستان پوسٹ انجام دے گا۔ اس نئے نظام کے نفاذ کے سلسلے میں تمام ریجنل پوسٹ ماسٹر جنرلز کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، تاکہ عملہ پیشگی تیاری کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں کے الیکٹرک کے ساتھ بھی بجلی بلوں کی تقسیم کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔یہ اقدام بلوں کی بروقت ترسیل، شفافیت اور لاگت میں کمی کے لئے حکومت کی ایک بڑی اصلاحاتی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔بہرحال یہ تو انتظامی ترجیحات ہیں لیکن بجلی کے بلوںکے حوالے سے عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے پوری دنیا میں ایسا ناروا سلوک کوئی حکومت اپنے ہم وطنوں کے ساتھ نہیں کررہی شاید اسی بناء پرایک مہینے کے دوران نیا ریکارڈ قائم ہواہے۔ صرف مئی میں تقریباً 60 ہزار پاکستانی ملک چھوڑ گئے، بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں اپریل کے مقابلے میں 12.7 فیصد اضافہ، سال کے پہلے 5 مہینوں میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد 2 لاکھ 85 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ لاکھوںپاکستانی اپنا وطن چھوڑنے پرمجبور اس لئے ہورہے ہیں کہ بجلی کے بلوںمیں ایک درجن ٹیکسز دینے کے باوجودملک میں ان کا تحفظ، سیکیورٹی نہ ہونے کے برابرہے۔ صفائی کی صورت ِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ گلی کوچوںمیں گندگی، اُبلتے گٹر وں نے الگ جینا عذاب بنارکھاہے ۔عام آدمی کے ساتھ ائیرپورٹ تھانوں اورکچہریوں میں جو سلوک ہوتاہے ،وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ یہی عام آدمی سرکاری دفاتر میں روز ذلیل ہوتاہے۔ سڑکوں پر ٹریفک وارڈن اتنی عزت ِ نفس مجروح کرتے ہیں کہ انسان سوچتاہے اتنا بے عزت ہونے کی بجائے خودکشی کرلے تو بہترہے ۔ یہی عوام (1) انکم ٹیکس (2) جنرل سیلز ٹیکس (3) کیپیٹل ویلیو ٹیکس (4) ویلیو ایڈڈ ٹیکس (5) سینٹرل سیلز ٹیکس (6) سروس ٹیکس (7) فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز (8) پیٹرول لیوی (9) ایکسائز ڈیوٹی (10) کسٹمز ڈیوٹی (11) اوکٹرائے ٹیکس (میونسپل ایریا میں سامان کے داخلے پر عائد ٹیکس) (12) ٹی ڈی ایس ٹیکس (ٹیکس ڈیڈکشن ایٹ سورس) (13) ایمپلائمنٹ اسٹیٹس انڈیکیٹر ٹیکس (ESI ٹیکس) (14) پراپرٹی ٹیکس (15) گورنمنٹ اسٹیمپ ڈیوٹی (16) آبیانہ (زرعی زمین کے پانی پر ٹیکس) (17) عشر (18) زکوٰة (بینکوں میں موجود رقم سے کٹوتی) (19) ڈھال ٹیکس (20) لوکل سیس (21) ہرقسم لائسنس کی فیس (22) دفاتر،ہسپتالوں اور کئی قسمکی پارکنگ فیس (23) کیپیٹل گینز ٹیکس (CGT) (24) واٹر ٹیکس (25) فلڈ ٹیکس (یا اللہ! معاف فرما) (26) پروفیشنل ٹیکس (27) روڈ ٹیکس (28) ٹول گیٹ فیس (29) سیکیورٹیز ٹرانزیکشن ٹیکس (STT) (30) ایجوکیشن سیس (31) ویلتھ ٹیکس (32) ٹرانزیئنٹ اوکیوپینسی ٹیکس (TOT) (33) کنجیشن لیوی لازمی کٹوتی (34) سپر ٹیکس (3 سے 4%) (35) ودہولڈنگ ٹیکسز (36) ایجوکیشن فیس (5%) کے علاوہ (a) بھاری تعلیمی فیسیں (b) اسکولوں میں عطیات (c) ہر چوراہے پر بھکاریوں کی جذباتی بلیک میلنگ کے عوض کیا ملتاہے بے عزتی، رسوائی اورہوکے اور کچیچیاں ۔لگتاہے عوام اشرافیہ کو ٹیکسز دینے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں شاید اقبال تو اس لئے کہا تھا
نہ کہیںجہاںمیں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی؟

متعلقہ مضامین

  • نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !
  • کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟
  • ’’ سیاسی بیانات‘‘
  • بیساکھیوں کی سیاست۔ مفاہمت یا مجبوری؟
  • کے پی سینیٹ انتخابات میں عملے کے نشان لگا بیلٹ پیپر دینے کی خبروں میں حقیقت نہیں: الیکشن کمیشن
  • خیبر پختونخوا سینیٹ انتخابات، پی ٹی آئی سیکرٹری جنرل نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا
  • سینیٹ الیکشن میں ایک نام بھی عمران خان کی مشاورت کے بغیر نہیں ڈالا گیا: بیرسٹر گوہر
  • تین سال کے جبر کے باوجود کوئی عمران خان کی مقبولیت کم نہیں کر سکا، فواد چودھری
  • مجلس عزاء میں رہبر کی تصویر لانا سیاست نہیں، علامہ حسن ظفر نقوی