امیشا پٹیل سلمان خان کو شادی شدہ کیوں نہیں دیکھنا چاہتیں؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
بالی ووڈ اداکارہ امیشا پٹیل نے حالیہ انٹرویو میں سلمان خان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انہیں ’شادی شدہ‘ نہیں دیکھنا چاہتیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق امیشا پٹیل کا کہنا تھا کہ سلمان خان ایک شاندار، پرسکون اور دوسروں کا خیال رکھنے والے انسان ہیں، اور ان کی یہی خصوصیات انہیں خاص بناتی ہیں۔
49 سالہ امیشا، جو اب تک خود بھی غیر شادی شدہ ہیں، نے کہا کہ انہوں نے زندگی میں مختلف لوگوں کے رشتے دیکھے ہیں، جیسے سنجے دت اور ہریتھک روشن، جن کی شادیاں ناکام ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کی ذاتی زندگی پر فیصلہ نہیں سناتیں، لیکن ان کے نزدیک سلمان خان جیسے ہیں، ویسے ہی اچھے لگتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سلمان خان سے شادی کرنا چاہیں گی؟ تو امیشا نے ہنستے ہوئے کہا کہ پہلے وہ خان صاحب سے پوچھیں گی کہ ’آپ سدھر رہے ہو یا نہیں؟‘۔ امیشا نے واضح کیا کہ انہوں نے کبھی سلمان کو شادی کے نکتہ نظر سے نہیں دیکھا، بلکہ وہ ان کے لیے ایک شرارتی، مزاحیہ دوست کی حیثیت رکھتے ہیں، جو انہیں ہنسانے کے ساتھ ساتھ رُلا بھی دیتے ہیں۔
امیشا نے مزید بتایا کہ سلمان انہیں مذاق میں ’مینا کماری‘ کہتے ہیں، کیونکہ وہ جب بھی ان کے ساتھ ہوتی ہیں تو جذباتی ہو کر رونے لگتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کا رشتہ ایک خاص دوستی پر مبنی ہے، جس میں بے تکلفی اور جذبات کی گہرائی شامل ہے۔
یاد رہے کہ امیشا پٹیل اور سلمان خان نے فلم ’یہ ہے جلوا‘ میں ایک ساتھ کام کیا تھا، جسے ڈیوڈ دھون نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اس فلم میں سنجے دت، شمی کپور، قادر خان اور انوپم کھیر جیسے اداکار بھی شامل تھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امیشا پٹیل
پڑھیں:
بے زبانوں کی اذیت: پاکستان میں جانور بے یارو مددگار کیوں ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جون 2025ء) بنیادی نگہداشت کی کمی اور عوامی آگاہی کے فقدان نے اس بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ ایسے حالات میں 'شیرو‘ جیسے جانور خاموشی سے اذیت اُٹھاتے ہوئے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
شیرو: تماشے سے تنہائی تک کا سفرعمر رسیدہ، بینائی اور دانتوں سے محروم ہمالیائی بھورا ریچھ 'شیرو‘ نے اپنی زندگی کے قیمتی سال مختلف سرکسوں اور چڑیا گھروں میں گزارے، جہاں سہولیات کا فقدان اور مالکان کی مبینہ بدسلوکی اس کی موجودہ حالت کی عکاسی کرتی ہے۔
سرکس سے آزادی پانے کے بعد شیرو کو لاہور کے چڑیا گھر منتقل کیا گیا، جہاں سے جنوری 2024 ء میں چڑیا گھر کی تعمیرِ نو کے دوران اسے جلو جنگلیحیات افزائش فارم بھیج دیا گیا۔(جاری ہے)
نامناسب حالات اور سخت موسم کی وجہ سے شیرو کی صحت خراب ہوگئی، جس کی بگڑتی ہوئی حالت کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کے بعد حکام نے اسے فوری طور پر مری منتقل کیا۔
مری یا اسلام آباد، فیصلہ ابھی باقی'شیرو'کے مقدمے میں درخواست گزار التَمش سعید نے ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست دائر کی،جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شیرو کو مری سے اسلام آباد منتقل کیا جائے تاکہ اس کی مناسب دیکھ بھال کی جا سکے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ بھورا ریچھ ایک تنگ اور کنکریٹ سے بنے احاطے میں تنہا ہے، جو اس کے حساس وجود اور بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایسی مخلوقات اس طرز کی رہائش کی حق دار ہیں جو ان کی جسمانی اور ذہنی ضروریات کو پورا کرسکے۔ عدالت نے اس پر حکام کو حکم دیا کہ شیرو کو اسلام آباد منتقل کیا جائے، تاہم محکمہ جنگلات کی جانب سے تاحال اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
اسسٹنٹ چیف وائلڈ لائف رینجرز مری، محمد ابرار کے مطابق، شیرو کو بانسرا گلی پارک میں چار کمروں پر مشتمل ایک الگ تھلگ عارضی پناہ گاہ میں منتقل کیا گیا ہے تاکہ اسے پرسکون ماحول فراہم کیا جا سکے۔ محمد ابرار کا یہ بھی کہنا تھا کہ مری میں جانوروں کے لیے مستقل مسکن موجود نہیں، لیکن اس حوالے سے بات چیت جاری ہے تاکہ مستقبل میں ان کے لیے باقاعدہ مستقل مسکن قائم کیا جا سکے۔
شیرو کے اگلے ٹھکانے کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ جانوروں سے متعلق موجودہ قوانین کتنے مؤثر ہیں؟جانوروں کے حقوق کے وکیل التمش سعید کے مطابق، پاکستان میں جانوروں کے تحفظ سے متعلق قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر مؤثر عملدرآمد میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ پنجاب حکومت نے حال ہی میں پنجاب وائلڈ لائف (تحفظ اور انتظام) ایکٹ 1974 ء میں ترمیم کرتے ہوئے نئی شقیں شامل کی ہیں جو جانوروں پر ظلم کی ۔
ان ترامیم کے تحت جنگلی جانوروں کو مناسب خوراک، دیکھ بھال اور پناہ فراہم نہ کرنا ظلم تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم ملک میں جانوروں سے متعلق قانون کے ماہرین کی کمی، چاہے وہ سرکاری ہو یا نجی شعبہ، ان قوانین کے مؤثر نفاذ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کمی قانون کی درست تشریح اور جانوروں کے مفادات کے تحفظ کو بھی متاثر کرتی ہے۔
وکیل التمش سعید کے مطابق، اصل مسئلہ جانوروں کے تحفظ سے متعلق قوانین کی مؤثر اور جانوروں کے مفاد میں تشریح نہ ہونا ہے۔
زیادہ تر بدسلوکی کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے، جس سے جانوروں کو انصاف نہیں ملتا۔ راولپنڈی ایوب پارک میں کالے ریچھ کی بے چینیراولپنڈی کے ایوب نیشنل پارک میں سیاح گلفام احمد نے اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ چڑیا گھر میں موجود کالا ریچھ بے حد بےچین نظر آ رہا تھا۔
وہ کبھی اندر جاتا، کبھی باہر آتا، کبھی پانی میں چھلانگ لگاتا اور فوراً ہی باہر نکل آتا تھا۔ وہ بار بار پانی کے نلکے کی طرف جاتا مگر پانی نہیں پیتا تھا۔ اس اضطراب سے واضح تھا کہ وہ گرمی سے سخت پریشان ہے اور اسے اپنی جسمانی ساخت کے مطابق مخصوص ماحول کی ضرورت ہے،جو یہاں دستیاب نہیں۔ ماہرین کے مطابق جانوروں کی خوراک، صحت اور دیگر ضروریات کو خاص طور پر شدید موسم میں روزانہ کی بنیاد پر مانیٹر کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے چڑیا گھروں کی کہانیماہرین کا کہنا ہے کہ شیرو کی کہانی پاکستان کے ہر چڑیا گھر اور جنگلی حیات کے نظام میں موجود سنگین خامیوں کو اجاگر کرتی ہے۔مناسب دیکھ بھال کا فقدان، کمزور قوانین، اور عمر رسیدہ یا زخمی جانوروں کے لیے ریسکیو سینٹرز کا نہ ہونا اور شیرو کی کہانی اس کی واضح مثال ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ عدالت نے ابتدائی حکم میں شیرو کو چکوال منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی، تاہم وہاں سے معلوم ہوا کہ چکوال میں جانوروں کے لیے مناسب انتظامات موجود نہیں اور نہ ہی وہاں کا درجہ حرارت ریچھ کے لیے موزوں ہے۔
اسی بنیاد پر ریچھ کو اسلام آباد کے وائلڈ لائف ریسکیو سینٹر منتقل کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ عوامی دباؤ کا کیا کردار ہے؟سعید کے مطابق، عوامی دباؤ جانوروں کے تحفظ کی کوششوں میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نہ صرف معاشرتی شعور اجاگر کرتا ہے بلکہ قانونی کارروائی کے لیے بھی راہ ہموار کرتا ہے۔ جانوروں پر ہونے والے ظلم کے متعدد واقعات آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتے ہیں، جو جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کو فوری قانونی کارروائی کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہی عوامی دباؤ ریچھ کو بالکاسر ریچھ پناہ گاہ اور اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی سہولت میں منتقل کرنے کے عدالتی فیصلے میں بھی کارگر ثابت ہوا۔