اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے غزہ میں انسانی صورتحال کو "تصور سے بھی بدتر" قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل نے تقریباً دو ماہ سے خوراک، ایندھن اور ادویات تک رسائی کو بند کر رکھا ہے۔ بین الاقوامی طبی امداد کے ادارے ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) نے کہا ہے کہ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں اور انسانی امداد پر پابندی نے غزہ کو فلسطینیوں اور انکی مدد کرنیوالوں کیلئے ایک قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ تحریر: اتوسا دیناریان
غزہ اس وقت انسانی تباہی کے دہانے پر ہے، اس علاقے پر اسرائیلی ناکہ بندی اور پے در پے حملوں سے لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، لیکن عالمی برادری اس بحران کے سامنے خطرناک حد تک خاموش ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے کہا ہے کہ غزہ اب قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے، جہاں موت سے فرار کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی جبکہ دنیا نے اس صورتحال پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے اسی انتباہ کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں لوگوں کو بڑے پیمانے پر غذائی قلت کا سامنا ہے۔ 96 فیصد خواتین اور بچوں کو بنیادی ضرورت کی غذائیت میسر نہیں ہے۔
غزہ میں انسانی صورتحال ایک نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے، جس سے نہ صرف غزہ کے باشندوں کی صحت اور تندرستی کو خطرہ لاحق ہے، بلکہ اسے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ بحران خطے کے استحکام اور بین الاقوامی اداروں کی ساکھ کے لیے دور رس نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ غزہ کو اس وقت ایک بے مثال انسانی اور صحت کے بحران کا سامنا ہے۔ خطے پر اسرائیلی ناکہ بندی اور فوجی حملوں نے اہم انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے اور صحت کی خدمات تک رسائی کو شدید طور پر محدود کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے غزہ میں سنگین انسانی صورتحال سے خبردار کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے اور 150,000 سے زائد خواتین کی صحت کی حالت تشویشناک ہے۔ بہت سے ممالک ان جرائم کے سامنے خاموش ہیں اور اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی نمائندوں مشتمل Agnes Callamard اور Zine Danger نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے بارے میں واضح موقف اختیار کرنے کی بات کی ہے۔
بین الاقوامی برادری کیلئے امتحان:
اس بحران کو "قانون کی حکمرانی" کا دعویٰ کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں اور ممالک کی ساکھ کے امتحان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے غزہ میں انسانی صورتحال کو "تصور سے بھی بدتر" قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل نے تقریباً دو ماہ سے خوراک، ایندھن اور ادویات تک رسائی کو بند کر رکھا ہے۔ بین الاقوامی طبی امداد کے ادارے ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) نے کہا ہے کہ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں اور انسانی امداد پر پابندی نے غزہ کو فلسطینیوں اور ان کی مدد کرنے والوں کے لیے ایک قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقابلہ کرنا نہ صرف انسانی ذمہ داری ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک امتحان ہے۔ ایسے وقت جب اسرائیل محاصرے اور قتل عام کی اپنی پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے، دنیا کو ہتھیاروں کی پابندی اور فلسطین کو تسلیم کرنے جیسے سنجیدہ اقدامات پر غور کرنے چاہئیں، کیونکہ ان اقدام سے خطے میں جرائم کو روکنے اور انسانی حقوق کے تحفظ میں مدد مل سکتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انسانی صورتحال اقوام متحدہ کے ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی کر دیا ہے کہا ہے کہ ہے اور
پڑھیں:
اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے دلیرانہ اقدامات ضروری، گوتیرش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع نازک موڑ پر پہنچ گیا ہے جس کا دو ریاستی حل نکالنے کے لیے دلیرانہ سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے اور امن کوششوں کو منظم طور سے سبوتاژ کرنے کا سلسلہ روکنا ہو گا۔
اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں فلسطینی مسئلے کے پرامن حل سے متعلق اعلیٰ سطحی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اس تنازع میں لوگوں کی زندگیاں ختم ہو رہی ہیں، ان کے مستقبل تباہ ہو رہے ہیں اور ناصرف خطہ بلکہ پوری دنیا عدم استحکام کا شکار ہو رہی ہے۔
Tweet URLیہ تنازع کئی نسلوں سے چلا آ رہا ہے جس میں امیدوں نے دم توڑا، سفارت کاری ناکام رہی، بے شمار قراردادیں اکارت گئیں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی۔
(جاری ہے)
لیکن یہ ہمیشہ جاری نہیں رہے گا، اس کا حل ممکن ہے جو سیاسی عزم، دلیرانہ قیادت اور سچائی کا تقاضا کرتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ اس مسئلے کا دو ریاستی حل پہلے سے کہیں مشکل دکھائی دیتا ہے۔سیکرٹری جنرل نے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ متواتر کہتے آئے ہیں کہ بے گناہ شہریوں کو قتل اور اغوا کرنے کا کوئی جواز نہیں اور ان واقعات کے بعد غزہ میں جو کچھ ہوا اس کا بھی کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں شہری بدترین بھوک کا شکار ہیں، ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، علاقے میں بہت بڑے پیمانے پر مسلسل نقل مکانی ہو رہی ہیں اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو آباد کاروں کے تشدد اور اسرائیل کی جانب سے اپنے علاقوں پر ناجائز قبضے کا سامنا ہے۔
یکطرفہ اقدامات ناقابل قبولانتونیو گوتیرش نے کہا کہ یکطرفہ اقدامات فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کے امکانات کو ہمیشہ کے لیے کمزور کر دیں گے۔
ایسے اقدامات ناقابل قبول ہیں اور انہیں روکا جانا چاہیے۔ یہ اکا دکا واقعات نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں امن کی بنیاد کو ختم کرنے کی منظم کوشش کا حصہ ہیں۔مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے موضوع پر تین روزہ کانفرنس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں ای ایس۔24/10 اور 81/79 کے تحت ہو رہی ہے جس کے میزبان فرانس اور سعودی عرب ہیں۔ اس میں فلسطینی علاقوں میں سلامتی کے انتظام، امدادی ضروریات، تعمیرنو اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کے معاشی طور پر قابل عمل ہونے کے موضوعات پر بات چیت ہو گی۔
انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اس اجلاس کو محض بات چیت تک ہی محدود نہ رہنے دیں بلکہ اسے ایک ایسا فیصلہ کن موڑ ہونا چاہیے جو فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی جانب ناقابل واپسی پیش رفت اور مسئلے کے قابل عمل دو ریاستی حل میں مدد دے۔
انہوں نے اس مسئلے پر اقوام متحدہ کے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل ہی امن کی جانب واحد راستہ ہے جس کے تحت اسرائیل اور فلسطین 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیا پر ایک دوسرے کے ساتھ امن و سلامتی سے رہیں اور یروشلم دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت ہو۔
یہی پورے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کا ناگزیر اور ضروری طریقہ ہے۔اجلاس کے پہلے روز فرانس کے وزیر برائے یورپ و خارجہ امور ژاں نوئل بارو، سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان اور فلسطینی ریاست کے وزیراعظم محمد مصطفیٰ نے بھی خطاب کیا۔