ٹک ٹاکر دانیہ شاہ کے شوہر حکیم شہزاد نے ایک پوڈکاسٹ میں اپنے اور دانیہ کے بارے میں ایسے راز افشا کیے ہیں جنھوں نے انٹرنیٹ صارفین کو شدید برہم کردیا ہے۔

دانیہ شاہ کا نام سب سے پہلے مرحوم عامر لیاقت کی اہلیہ کے طور پر خبروں میں آیا تھا اور اس کے بعد تنازعات کی دلدل میں ایسا پھنسا کہ آج تک نکل نہ سکا۔ مرحوم ٹی وی اینکر عامر لیاقت سے شادی، پھر علیحدگی، اور ان کی موت کے بعد عدالتی جنگوں میں الجھی دانیہ، اب ایک نئے باب میں داخل ہوچکی ہیں، جس میں ان کے شریکِ سفر ٹک ٹاکر حکیم شہزاد شامل ہیں۔

حکیم شہزاد ابتدا میں دانیہ کے وکیل کے طور پر سامنے آئے تھے، بعدازاں ان کے شوہر بن گئے اور اب ان کا ایک بیٹا بھی ہے۔ بظاہر ان کی ازدواجی زندگی معمول کے مطابق لگتی تھی، دونوں ایک دوسرے کے لیے تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے، مگر پس پردہ کہانی کچھ اور ہی نکلی۔

ایک حالیہ پوڈکاسٹ میں حکیم شہزاد نے دانیہ شاہ کے ساتھ اپنے تعلق کی حقیقت کچھ اس انداز میں بیان کی کہ سننے والوں کے ہوش اڑ گئے۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا ’’میں نے دانیہ سے کبھی محبت نہیں کی۔ وہ اور اس کی ماں میرے پاس اپنے کیسز کے سلسلے میں آئیں، وہ خوبصورت ضرور تھی مگر میں اس سے کبھی دل سے نہیں جڑا۔‘‘

حکیم شہزاد نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ ایک مددگار طبیعت کے مالک ہیں اور انہیں خدشہ تھا کہ اگر وہ دانیہ کے قانونی معاملات میں مدد کرتے رہے، تو لوگ افواہیں پھیلائیں گے۔ اسی بدنامی کے خوف سے انہوں نے دانیہ سے شادی کرلی، نہ دل کی آواز پر، نہ کسی جذبے کی بنیاد پر، بلکہ محض ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ کے تحت۔

ان کی اس کھلی بات نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیا۔ لوگوں نے نہ صرف حکیم شہزاد کے الفاظ کو بے رحم اور توہین آمیز قرار دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ جس عورت کے ساتھ نکاح میں بندھے ہیں، کم از کم اس کے بارے میں اتنی سرد مہری سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔

ایک صارف نے لکھا، ’’تم دونوں ایک دوسرے کے لائق ہو۔‘‘ ایک اور نے تبصرہ کیا، ’’اگر وہ کسی شریف گھرانے سے ہوتا، تو یوں بیوی کو نیچا نہ دکھاتا۔‘‘ جب کہ کسی نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ’’آج جو تھوڑی بہت شہرت ہے، وہ دانیہ کی وجہ سے ہے، اور بدلے میں یہ سلوک؟‘‘
 

TagsShowbiz News Urdu.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: حکیم شہزاد نے

پڑھیں:

بھارت بکھرنے کی راہ پر

مودی سرکار 2014 سے عالمی سطح پر ریاستی دہشت گردی کا جال بنتی آ رہی ہے، جو اب بے نقاب ہو گیا ہے ۔برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق امریکہ کے’’ فریمانٹ گوردوارے‘‘ نے ہندو امریکن فائونڈیشن کو مودی سرکار کا غیر ملکی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے امریکی محکمہ انصاف سے تحقیقات کا مطالبہ کیاہے۔ مودی کی دہشت گردی اب الٹی پڑتی دکھائی دے رہی ہے ، نا صرف بیرون ملک اس پر تھو تھو ہو رہی ہے ، بلکہ اندرون ملک بھی عرصے سے سوئی ہوئی ، دبائی گئی علیحدگی کی تحریکیں ،فعال ہو چکی ہیں ۔ دیکھا جائے تو اس وقت وہاں کل علیحدگی کی 20 تحریکیں چل رہی ہیں اگر یہ تحریکیں کامیاب ہوجائیں تو انڈیا 20 ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا، یعنی مغلوں سے پہلے والا ہزاروں راجواڑوں کا خطہ ۔
شمال میں سب سے زیادہ نمایاں اور پُرانا محاذ جموں و کشمیر کا ہے، جہاں سات دہائیوں پر پھیلا فوجی راج اور 2019 میں آئینِ ہند کی شق 370 کی منسوخی نے حریت کی چنگاریوں کو مستقل شعلہ بنا دیا ہے۔ اسی شمالی خم میں مغربی پنجاب کے سکھ حلقوں کی پرانی امنگ ’’خالصتان‘‘ بھی ہے، یہ تحریک 1984میں آپریشن بلیو سٹار کے نام سے سکھوں کی نسل کشی کے بعد اگرچہ دب گئی تھی، مگر مغربی ممالک میں مقیم سکھ ڈائسپورا اور حالیہ کسان تحریکوں نے اسے نئی جان بخشی ہے۔ اس کے واقع ہماچل اور اتراکھنڈ میں بھی مقامی لوگ انڈیا سے علیحدہ ریاستیں چاہتے ہیں ۔مرکزِ ہند میں جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڈیشہ اور مدھیہ پردیش کی معدنی پٹی جسے ’’ریڈ کوریڈور‘‘ کہا جاتا ہے آدی واسی قبائل کی محرومیوں اور ماؤ نواز مسلح جدوجہد کی علامت ہے۔ یہاں ریاستی تحویل میں آنے والی کانوں نے مقامی آبادی کو بےدخل کیا، اور بدلے میں ترقی کے وعدے بدعنوان مقامی اشرافیہ کی جیبوں میں سمٹ گئے۔ نتیجہ یہ کہ نکسل گوریلوں اور نیم فوجی دستوں کے درمیان برسوں سے ایک ایسی آنچ سلگ رہی ہے جس میں سڑکیں، ریل کی پٹریاں اور انسانی زندگیاں پگھلتی رہتی ہیں۔ اسی خطے میں بہار اور اتر پردیش کی گنگا، جمنا تہذیب، غربت اور ذات پات کے گٹھ جوڑ میں پھنسی ہوئی ہے، جہاں کبھی ’’پوروانچل‘‘ اور کبھی ’’بندیل کھنڈ‘‘ کے نام سے چھوٹی ریاستوں کے مطالبے سر اٹھاتے رہتے ہیں۔
بھارت کا شمال مشرق جسے بعض مقامی باشندے طنزیہ انداز میں ’’بالانگما‘‘ یعنی دور افتادہ گھر کہتے ہیں نسلی، مذہبی اور لسانی رنگا رنگی سے بھرپور ہے، اور یہی تنوع شورش کا ایندھن بھی بن گیا ہے۔ ناگا پہاڑیاں ایک علیحدہ ’’ناگالِم‘‘ کا خواب دیکھتی ہیں، آسام میں اولفا کی بندوقیں کبھی تیل کی رائلٹی پر گرجتی ہیں تو کبھی ’آسام صرف آسام والوں کا‘ کے نعرے پر۔ منی پور میں مِیتئی اور قبائلی برادریوں کی کشمکش کو پی ایل اے اور یو این ایل ایف کی متوازی حکومتیں تقویت دیتی ہیں، جبکہ میزورام، تریپورہ اور میگھالیہ میں مقامی قوم پرستی نئے وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم پر سوال اٹھاتی ہے۔ ان ریاستوں میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نے بغاوت کو دبانے کے بجائے فوج اورعوام میں خلیج کو اور گہرا کر دیا ہے۔
اب رخ کرتے ہیں دکن کے میدانی اور ساحلی علاقوں کا۔ تامل ناڈو میں دراوِڑی تحریک بیسویں صدی میں علیحدگی کے مطالبے سے واپس تو ہوئی، مگر اس نے ’’میں پہلے تامل، پھر ہندوستانی‘‘ کا بیانیہ شہری ووٹ بینک کی صورت میں ہمیشہ کے لیے پختہ کر دیا۔ کیرالا کی ملّحت زدہ فضا میں، کرناٹک کے ساحلوں اور آندھرا کے رائل سیما خطے میں کبھی کوڈاگُو، کبھی تولو ناڈو اور کبھی الگ رائل سیما ریاست کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ یہ سرگوشیاں شاید ابھی توپ کا گولہ نہ بنی ہوں، مگر تلنگانہ کی صورتِ حال بتاتی ہے کہ سرگوشی اگر دیر تک گونجے تو بالآخر آئین میں نئی ریاست کا نقشہ کھینچ دیتی ہے۔
انڈین حکومت کے پاس اس تمام اندرونی اُبال کا مقابلہ کرنے کے دو بڑے ہتھیار ہیں ایک ہاتھ میں ترقیاتی پیکج اور مخصوص مالی فنڈز، دوسرے ہاتھ میں سکیورٹی فورسز اور سخت گیر قوانین۔ جہاں میزورام اور ناگا لینڈ جیسے علاقوں میں طویل مذاکرات نے شورش کم کی، وہیں کشمیر یا ریڈ کوریڈور میں فوجی حل نے عارضی سکون کے بدلے محرومی کا احساس دوچند کر دیا۔ اسی کشمکش نے لداخ اور اروناچل میں سرحدی سڑکوں، سرنگوں اور ایئر بیسز کی تعمیر کی رفتار بڑھائی، لیکن ہر نئی سڑک کے ساتھ فوجی جوتوں کی چاپ بھی مقامی آبادی کے کانوں میں گونجتی ہے۔بیرونی محاذ پر حالات یوں ہیں کہ چین اروناچل پردیش کو ’جنوبی تبت‘ کہہ کر نقشوں اور ناموں کا کھیل کھیلتا ہے، پاکستان عالمی فورمز پر کشمیر کی متنازع حیثیت یاد دلاتا ہے، اور خالصتان کا جھنڈا لندن، ٹورنٹو اور میلبورن کی گلیوں میں لہرا کر بھارت کی سفارت کاری کو زچ کرتا رہتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ساہیوال: ہیلمٹ نہ پہننے پر روکی گئی موٹر سائیکل پر بیٹھی خاتون دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق
  • مسلم لیگ ن متحدہ عرب امارات کے میڈیا کوارڈینیٹر محمد شہزاد بٹ دبئی میں انتقال کر گئے
  • ’ہمارا فضائی دفاعی نظام محفوظ نہیں‘، ایرانی میزائلوں نے اسرائیل کا پول کھول دیا
  • رشتے داروں کے تشدد کے خلاف بانو بیوہ پریس کلب پہنچ گئی
  • جوہری تنصیبات کو کبھی نشانہ نہیں بنانا چاہیے، آئی اے ای اے چیف
  • باذن اللہ انتقام کا لمحہ صیہونیوں کی شہ رگ کے قریب ہے، ایرانی صدر
  • گستاخانہ بزنس اور حب رسول ﷺ
  • بھارت بکھرنے کی راہ پر
  • ایران اسرائیل جنگ بتائے گی پاکستان کیوں زندہ باد
  • ’’یادوں کا سفر‘‘ (پہلا حصہ)