تعلیم اور صحت کے شعبے میں حکومتی اقدامات
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تعلیم اور صحت وہ شعبے ہیں جن پر نہ صرف عوام کی فلاح کا دارومدار ہوتا ہے بلکہ قومی ترقی کا راستہ بھی انہی ستونوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ ماضی میں بدقسمتی سے ان دونوں شعبوں کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے، لیکن موجودہ حکومت نے ان شعبوں کی بہتری کے لئے جو اصلاحات متعارف کروائیں، وہ قابلِ تحسین ہیں۔ ان اصلاحات نے نہ صرف اداروں کی ساخت کو بہتر بنایا بلکہ عوام کو بھی براہِ راست سہولتیں پہنچانے کا آغاز کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ چیلنجز اب بھی موجود ہیں، لیکن جس سنجیدگی سے ان مسائل کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے، وہ ایک امید کی کرن ہے۔تعلیم کے میدان میں حکومت نے متعدد مثبت اقدامات کیے ہیں۔ سب سے پہلے، تعلیمی بجٹ میں تاریخی اضافہ کیا گیا۔حکومت نے مالی سال 2024-25ء کے ترقیاتی بجٹ میں 140 فیصد تک اضافہ کر کے حکومت نے یہ واضح پیغام دیا کہ وہ تعلیم کو ترجیحی بنیاد پر اہمیت دے رہی ہے۔ وفاقی سطح پر تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے 20 ارب25کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا، جس کا مقصد سکولوں کی بہتری، اساتذہ کی تربیت، نصاب کی ترقی اور ڈیجیٹل تعلیم کو فروغ دینا ہے۔حکومت نے پہلی مرتبہ طلبہ کے لیے اسکالرشپ اسکیم میں اضافہ کرتے ہوئے ماہانہ وظیفہ 30ہزار روپے سے بڑھا کر50 ہزار روپے کر دیا ہے تاکہ قابل طلبہ کو وسائل کی کمی تعلیم سے دور نہ کر سکے۔ اس کے علاوہ،تعلیمی بورڈ کے پوزیشن ہولڈرز کے لئے لاکھوں روپے کے انعامات اور تعلیمی اخراجات کی ادائیگی کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب میں اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو فعال بنایا گیا اورپہلی مرتبہ ڈویژن، ڈسٹرکٹ اور تحصیل سطح پر میرٹ پر افسران کی تعیناتی کا عمل مکمل کیا گیا۔
نئی بھرتیوں میں شفافیت اور قابلیت کو اولین حیثیت دی گئی تاکہ نظامِ تعلیم میں بہتری لائی جا سکے۔ اساتذہ کی تربیت ایک ایسا پہلو ہے جسے اکثر نظرانداز کیا گیا، لیکن موجودہ حکومت نے اس پر بھی بھرپور توجہ دی۔ ٹیچرز ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا اور نصاب سازی، تعلیمی مواد، اور تدریسی تکنیکوں کو اپ ڈیٹ کیا گیا تاکہ طلبہ کو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کی جا سکے۔ مزید یہ کہ، پنجاب میں ابتدائی جماعتوں میں مصنوعی ذہانت (AI) کی تعلیم متعارف کروانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس کا مقصد طلبہ کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ بنانا ہے۔سکولوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے 5 ہزار نئے کلاس رومز کی تعمیر، سمارٹ بورڈز، لیبارٹریز، اور لائبریریوں کے قیام پر کام جاری ہے۔ حکومت نے جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع جن میں ڈیرہ غازی خان ، راجن پور اور مظفر گڑھ کے سکولوں میں4لاکھ سے زائد غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کے لیے ’’دودھ اسکیم‘‘ شروع کی، جس کے تحت بچوں کو اسکولوں میں دودھ فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما بہتر ہو۔ڈیجیٹل تعلیم کے فروغ کے لیے سکولوں میں انٹرنیٹ، سمارت اسکرینز ، کروم بکس اور ٹیبلٹس فراہم کئے جا رہے ہیں تاکہ دور دراز علاقوں میں موجود طلبہ بھی آن لائن تعلیمی مواد تک رسائی حاصل کر سکیں۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ ملک بھر میں تعلیم کے لیے یکساں نصاب رائج کیا جائے تاکہ طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو۔جہاں تک صحت کے شعبے کا تعلق ہے، موجودہ حکومت نے اس محاذ پر بھی کئی انقلابی اقدامات کئے ہیں۔ صحت کارڈ اسکیم ان میں سب سے نمایاں ہے، جس کے تحت غریب اور متوسط طبقے کے افراد کو نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
لاکھوں افراد اس سہولت سے مستفید ہو چکے ہیں اور اس سے نہ صرف عوام کا اعتماد بحال ہوا ہے بلکہ صحت کے شعبے پر مالی دباؤ بھی کم ہوا ہے۔سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے حکومت نے متعدد منصوبے شروع کئے ہیں، جن میں جدید طبی مشینری کی فراہمی، عمارتوں کی مرمت اور طبی عملے کی تربیت شامل ہے۔ حکومت نے بنیادی صحت مراکز (BHU) اور دیہی صحت مراکز (RHC) کو بھی فعال بنانے کی جانب توجہ دی ہے تاکہ دیہاتی عوام کو ان کی دہلیز پر صحت کی سہولتیں دستیاب ہوں۔ایک اہم قدم جو حالیہ برسوں میں اٹھایا گیا وہ ویکسینیشن پروگرامز ہیں، جن کے ذریعے بچوں کو پولیو، خسرہ، کالی کھانسی اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قومی سطح پر مہمات چلائی گئیں۔ کورونا کے دوران حکومت کی جانب سے شروع کیا گیا حفاظتی ٹیکہ جات کا نظام اس وقت بھی جاری ہے اور اس میں مسلسل بہتری لائی جا رہی ہے۔حکومت نے ماں اور بچے کی صحت کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔ زچہ بچہ سینٹرز کی بہتری، حاملہ خواتین کے لیے مفت معائنے اور ادویات کی فراہمی جیسے اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں درجنوں نئے ہسپتالوں کی تعمیر اور موجودہ ہسپتالوں میں بستروں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ہیلتھ ورکرز کو جدید تربیت دی گئی ہے تاکہ وہ دیہی علاقوں میں بھی معیاری طبی خدمات فراہم کر سکیں۔ موبائل ہیلتھ یونٹس کے ذریعے ان علاقوں میں خدمات فراہم کی جا رہی ہیں جہاں مستقل ہسپتال موجود نہیں۔ اس کے علاوہ، ایمرجنسی میڈیکل سروسز جیسے ریسکیو 1122 کی توسیع کی گئی ہے تاکہ فوری طبی امداد یقینی بنائی جا سکے۔حکومت نے ایک اور بڑی پیش رفت میں دیہی علاقوں میں پانی کی صاف فراہمی کے لئے واٹر فلٹریشن پلانٹس کا آغاز کیا ہے، کیونکہ پانی کی آلودگی کئی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف بیماریوں میں کمی آئی بلکہ عوامی صحت پر مجموعی اثر بھی بہتر ہوا۔یہ سب اقدامات اپنی جگہ، مگر یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ کئی چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ دیہی علاقوں میں صحت و تعلیم کی سہولتوں کی کمی، عملے کی قلت اور مالی وسائل کی محدودیت وہ رکاوٹیں ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے مزید سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، شفافیت، کرپشن کے خاتمے اور اداروں کی خودمختاری کو یقینی بنانا ہو گا تاکہ یہ اصلاحات مستقل بنیادوں پر جاری رہ سکیں۔عوام کی فلاح کے لئے حکومت کے یہ اقدامات اگر اسی تسلسل کے ساتھ جاری رہیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان نہ صرف تعلیم اور صحت کے میدان میں خود کفیل ہو گا بلکہ ایک فلاحی ریاست کے خواب کو بھی شرمندہ ٔ تعبیر کیا جا سکے گا۔ ترقی کا سفر طویل ضرور ہے، مگر صحیح سمت میں کیا گیا ایک قدم کئی منزلیں آسان بنا دیتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: علاقوں میں تعلیم اور حکومت نے فراہم کی کیا گیا ہے تاکہ کے لیے کے لئے رہی ہے صحت کے جا سکے کو بھی
پڑھیں:
غزہ میں اب تک 14 ہزار سے زائد طلباء شہید ہو چکے ہیں، فلسطینی وزارت تعلیم
وزارت تعلیم نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ کے آغاز سے اب تک شہید ہونے والے طلباء کی تعداد 14,649 سے زائد اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 23,936 تک پہنچ گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی وزارت تعلیم نے رپورٹ دی ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کو غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے اب تک 14,784 طلباء شہید اور 24,766 زخمی ہو چکے ہیں۔ وزارت تعلیم نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ کے آغاز سے اب تک شہید ہونے والے طلباء کی تعداد 14,649 سے زائد اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 23,936 تک پہنچ گئی ہے۔ دریں اثناء مغربی کنارے میں 135 طلباء شہید چوبیس ہزار سے زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران قابض فوج نے 724 کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں 880 اساتذہ اور منتظمین شہید اور 4,247 زخمی ہوئے۔ مغربی کنارے میں 193 سے زیادہ کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ قابض فوج کی جارحیت کے نتیجے میں 352 سرکاری سکولوں کو شدید نقصان پہنچا، جن میں 111 اسکول مکمل طور پر تباہ ہوئے۔جب کہ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (انروا) سے منسلک 91 سرکاری سکولوں کو تباہ کیا گیا۔ قابض فوج نے 20 اعلیٰ تعلیمی اداروں کو شدید نقصان پہنچایا، یونیورسٹی کی 60 عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ مغربی کنارے میں 146 سکولوں اور آٹھ یونیورسٹیوں پر دھاوا بول دیا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ جنین، طولکرم اور طوباس میں کئی سکولوں کی دیواریں تباہ ہو گئیں۔ وزارت تعلیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قابض حکام نے القدس میں سکولوں کو اگلے ماہ کی 8 تاریخ کو بند کرنے کا نوٹس دیا ہے۔