وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی دبئی میں پاکستان بزنس کونسل سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
دبئی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 2 مئی 2025ء) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے دبئی میں پاکستان بزنس کونسل (PBC) کے وفد سے ملاقات کی۔ ملاقات میں متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی، قونصل جنرل حسین محمد اور دیگر اعلیٰ سفارتی حکام بھی شریک ہوئے۔ چیئرمین پی بی سی دبئی شبیر مرچنٹ نے وفاقی وزیر کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسلام آباد میں حالیہ اوورسیز کنونشن کے انعقاد پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔
سفیر ترمذی نے وزیر کے ابوظہبی اور دبئی میں اعلیٰ سطحی ملاقاتوں اور کمیونٹی اسکول کے دورے سے بھی آگاہ کیا۔ احسن اقبال نے پاکستان بزنس کونسل کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلق کا ذکر کرتے ہوئے بزنس کمیونٹی پر زور دیا کہ وہ ملکی برآمدات اور سرمایہ کاری کے فروغ میں فعال کردار ادا کریں۔(جاری ہے)
انہوں نے "اُڑان پاکستان" وژن کا بھی ذکر کیا جس کا ہدف 2025 تک ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت حاصل کرنا ہے۔ وزیر نے اوورسیز پاکستانیوں کے کردار کو سراہتے ہوئے دبئی میں قونصل خانے کی توسیع اور کمیونٹی اسکولوں کی بہتری کے لیے اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔ ملاقات ایک کھلے مکالمے پر اختتام پذیر ہوئی، جہاں بزنس کمیونٹی سے تجاویز لی گئیں تاکہ پاک-امارات تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
خواجہ آصف صاحب! آپ پاکستان کے وفاقی وزیر ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران پر اسرائیل کے حملوں کے بعد پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ سمیت بیش تر بڑے اسلامی ملکوں نے ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ امریکا، جرمنی، فرانس سمیت غیر اسلامی ملکوں نے اسرائیل کی حمایت کی ہے یا خاموشی اختیار کی ہے، بھارت واحد ملک ہے جہاں اسرائیل کے حق میں ریلی نکالی گئی ہے۔ اسی طرح شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام ارکان نے ایران اسرائیل جنگ میں ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن صرف بھارت واحد رکن ہے جس نے ایران کی حمایت نہیں کی؛ ایس سی او کے مشترکہ اعلامیے میں اسرائیل کے حملے کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی اور علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے، بھارت نے ایس سی او کی یکجہتی کو توڑ دیا اور ایک علٰیحدہ بیان جاری کیا جس میں اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی گئی۔
وہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ یہود و ہنود آپس میں دوست ہیں یہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اس کا عملی مظاہرہ آج ہم عالمی سطح پر دیکھ رہے ہیں جس دن سے اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہے حسب روایت پاکستانی سیاست دانوں، مذہبی رہنماؤں، سماجی لیڈروں نے بیانات دینے شروع کر دیے ہیں کہ امت مسلمہ متحد ہو جائے، مسلم ممالک نے اتحاد نہ کیا تو سب کی باری آئے گی، عالمی برادری اسرائیل کو جارحیت سے باز رکھے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ مطالبے کس سے کیے جاتے ہیں، عالمی برادری کہاں رہتی ہے، اس میں کون کون شامل ہے، ان لایعنی مطالبوں کا کیا کبھی کوئی اثر ہوا ہے جو آج ہو جائے گا یا یہ بیانات دے کر ہم اپنی ذمے داری سے سبک دوش ہو جاتے ہیں، پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ مسلم دنیا متحد نہ ہوئی تو سب کی باری آئے گی، اس وقت لازم ہے
کہ کچھ اقدامات کیے جائیں، اسرائیل نے یمن، ایران، فلسطین کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے۔ اسلامی دنیا میں اس کے خلاف اس طرح آواز نہیں اُٹھ رہی جس طرح باقی دنیا میں اُٹھ رہی ہے، غیر مسلموں کے ضمیر جاگ رہے ہیں لیکن مسلمانوں کے ضمیر نہیں جاگے، خواجہ آصف صاحب سب سے مضبوط اسلامی ملک پاکستان کے وزیر دفاع ہیں انہیں بتانا چاہیے کہ اسلامی ملکوں کے اتحاد کے لیے پاکستانی حکومت نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں یہ ممالک خود بخود تو متحد نہیں ہوں گے۔ کسی نہ کسی کو تو اس کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی، ہر اسلامی ملک سے رابطہ کرنا ہوگا، انتشار کے نقصانات اور اتحاد کے فوائد سے آگاہ کرنا ہوگا، افسوس ہے کہ پاکستانی وزیر اس طرح بیانات دیتے ہیں کہ گویا بھول گئے ہوں کہ وہی حکومت ہیں اور جو مطالبہ وہ کر رہے ہیں ان پر عمل کرنا انہی کی ذمہ داری ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز نے خبر جاری کی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو ویٹو کر دیا اور اسرائیل کو قتل کے اقدام سے روک دیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے امریکی صدر کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ انہیں ایرانی سپریم لیڈر کو قتل کرنے کا موقع ملا ہے، اسرائیل اپنے حملوں میں علی خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی، فوج کے سربراہ میجر جنرل باقری، پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی، میجر جنرل غلام علی، کمانڈر ایرو اسپیس فورس بریگیڈیئر جنرل عامر علی ایرانی انٹیلی جنس کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل غلام رضا محرابی، سربراہ آپریشنز بریگیڈیئر جنرل مہدی ربانی اور 9 سے زائد ایٹمی سائنس دانوں کو شہید کر چکا ہے اس لیے رائٹرز کی مذکورہ خبر پر بھی یقین کیا جا سکتا ہے۔ اس تمام صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد ایران میں کس سطح تک سرایت کر چکی ہے، اسرائیلی جاسوس یقینا اسرائیلی شہری تو نہیں ہوں گے ایرانی شہریوں کو ہی جاسوس بنایا گیا ہوگا ایرانی شہری اتنے بڑے پیمانے پر اسرائیلی جاسوس بننے کے لیے کیسے راضی ہوئے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں اس خطے کے ممالک کا جائزہ لینا ہوگا۔ انتہائی بدقسمتی ہے کہ پورے خطے میں صرف ایک جمہوری ملک ہے اور وہ اسرائیل ہے باقی تمام ملکوں میں یا تو بادشاہت ہے یا بدترین آمریت قائم ہے، ایران میں انتخابات ہوتے ہیں لیکن وہاں بھی سخت جابرانہ نظام ہے، گزشتہ برسوں میں اس جبر کے خلاف کئی تحریکیں (صحیح یا غلط) اُٹھیں ان سب کو ریاستی طاقت کے ذریعے کچل دیا گیا۔ جمہوری ملکوں میں عوام یا کسی خاص طبقے کو کچھ شکایات ہوتی ہیں تو وہ آواز اُٹھا سکتے ہیں، حکومتیں ان کی شکایات پر غور کرتی ہیں ان کے مسائل حل کرتی ہیں لیکن پھر بھی ان کے مسائل حل نہ ہوں تو وہ چار پانچ سال بعد انتخابات میں اس حکومت کو بدل سکتے ہیں لیکن غیر جمہوری ممالک میں ہر مسئلے کو بے رحمانہ طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لوگوں کو ڈرا دھمکا کر، جیلوں میں ڈال کر یا قتل کر کے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا حالانکہ مسئلہ حل نہیں ہوتا زیر زمین چلا جاتا ہے جو پہلے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے جن لوگوں کی شکایات نہ حکومت سننے کو تیار ہو نہ انہیں عدالتوں سے انصاف مل رہا ہو پھر وہ دشمن ایجنسیوں کا آسان شکار ہوتے ہیں ایرانی حکومت اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کہ ’’سب کی باری آئے گی‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ بات طے شدہ ہے کہ ایران اسرائیل جنگ میں اسرائیل ایران کو ملیا میٹ کر دے گا اور پھر کسی دوسرے اسلامی ملک پر چڑھ دوڑے گا، خواجہ آصف کو یاد رکھنا چاہیے قدرت نے کچھ نہ کچھ آپشنز سب کے لیے رکھے ہوتے ہیں، اسرائیل کے پاس دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی، ہتھیار اور ساز و سامان ہے لیکن اس کی آبادی بہت کم ہے جو اس کے لیے بہت ہی قیمتی ہے، چند لوگ بھی مرجائیں تو وہاں صف ماتم بچھ جاتی ہے، ایران میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ایرانی طویل عرصے سے بین الاقوامی پابندیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اس لیے ان کے پاس جو کچھ ٹیکنالوجی ہے وہ ان کی اپنی ہے امریکا یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کی جدید ترین ٹیکنالوجی اس کے پاس نہیں ہے لیکن اس کی آبادی اسرائیل کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور یہ وہ آبادی ہے جو عراق (جسے امریکی آشیرباد بھی حاصل تھی) سے آٹھ سال تک جنگ لڑ چکی ہے یقینا اس وقت انقلاب نیا نیا تھا، لوگوں میں بہت جوش و خروش اور اتحاد تھا لیکن اس وقت ایرانی فوج کے تتر بتر ہو چکی تھی اس صورتحال میں بھی ایران آٹھ سال تک جنگ لڑتا رہا اور اگر جیتا نہیں تو ہارا بھی نہیں تھا، اب انقلاب پرانا ہو گیا ہے وہ جوش و خروش بھی نہیں لیکن اب ایران کی منظم فوج ہے، تمام ادارے مضبوط و متحرک ہیں اس لیے ایران اسرائیل کے لیے تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا۔
ایران پر اسرائیلی حملے یقینا قابل مذمت ہیں لیکن اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے، عوامی سطح پر یہ اتحاد ہمیشہ رہتا ہے لیکن اوپر کی سطح پر کچھ لوگ انتشار و افتراق کی بات کرتے رہتے ہیں اس وقت پورے ملک میں مسلمانوں کے اتحاد کی باتیں ہو رہی ہیں اللہ کرے یہ اتحاد و اتفاق مستقل بنیادوں پر قائم ہو جائے۔