Express News:
2025-05-03@10:55:57 GMT

یوم مئی کی چھٹی اور غیر رسمی شعبے کے مزدور

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

یہ جو بچہ اینٹوں کے بھٹے پرکام کر رہا ہے،کوئی ہوٹل میں پیالیاں دھو رہا ہے۔ ایک معمر مزدور جس نے ساری زندگی سیمنٹ، بجری، بلاک، اینٹوں سے دوستی رکھی۔ بڑھاپا اس کا کیسا گزرتا ہے؟ عورت مزدور ہوگھر میں کام کرے یا کھیتوں میں، پہلے صبح ناشتہ تیار کرے گی، پھر کھیتوں میں کام کرے گی۔ شام کو شوہر کے طعنے سنے گی، بس اسی میں اس کی زندگی گزر جاتی ہے۔

کتنے ہی یوم مئی گزر جائیں چھٹی اس کے مقدر میں نہیں۔ چھوٹی بچیاں جو گھروں میں کام کرتی ہیں مالک کی مار بھی برداشت کرتی ہیں انھیں اپنے حقوق کا پتا ہی نہیں۔ ان کو کیا اجرت ملتی ہے، کھانا اور چند ہزار ماہانہ۔ وہ بچے مزدور جو کہتے ہیں ہم کام سیکھ رہے ہیں، انھیں ایک وقت کی روٹی اور بیس تیس روپے دیہاڑی ملتی ہے لیکن یوم مزدور پر چھٹی پھر بھی نہیں۔

یہ مزدور چھوٹا ہو یا بڑا نوجوان ہو یا بوڑھا، چھوٹی بچی ہو یا عورت، سب ایک ہی چکی میں پس رہے ہیں۔ بچوں کو تنخواہ ملتی نہیں، عورتوں کو مردوں کی نسبت آدھی تنخواہ، چھوٹی بچیاں دن رات بنگلے پرکام کرتی ہیں، بچا کچھا جھوٹا کھا لیا کرتی ہیں اور مہینے بعد بوڑھے والدین ملنے آئیں تو ان کے ہاتھ پر مالکن کچھ روپے رکھ دیتی ہیں۔ وہ خوشامدانہ لہجے میں کہتے ہیں آپ کی بڑی مہربانی بیگم صاحبہ !

یوم مئی کے موقع پر دنیا بھر کے مزدور چھٹی کرتے ہیں، ہر ادارہ اس دن کی تنخواہ ان کو دیتا ہے، لیکن پاکستان میں اس طرح کے افراد کے لیے چھٹی کا مطلب ایک دو وقت کی روٹی بھی گئی۔ اس دن فاقہ ہی فاقہ، پھر بھلا ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ننھا مزدور،گھروں میں کام کرنے والی بچی، یہ سب یوم مئی کی چھٹی کا نام بھی نہیں لیں گے۔ اکثریت ایسی ہے جو اس دن کے بارے میں تو نہیں جانتے لیکن چھٹی کا مطلب خوب جانتے ہیں کہ دیہاڑی جو ملتی ہے تو اس سے گئے۔ کھانا ملتا ہے تو اس سے بھی گئے۔ چھٹی کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ مار پیٹ کے سوا کچھ نہیں ملتا تو آخر چھٹی کا عذاب کیوں جھیلیں۔

پاکستان میں 40 فی صد مزدور غیر رسمی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ جہاں نہ کوئی سوشل سیکیورٹی نہ کوئی انشورنس نہ ہی دن بھر کی چھٹی یا آدھی چھٹی۔ اگر ایسا کسی نے کیا تو اس کی پوری چھٹی۔ نیا بندہ فوراً مل جاتا ہے کیونکہ ملک میں غیر ہنرمند چھوٹے بڑے مرد و زن مزدوروں کی کمی نہیں۔

چند ہفتوں کے بعد بجٹ نے آنا ہے خوب دھوم مچا کر حکومت ان غریب مزدوروں کے غم میں ہلکان ہونے کا بیانیہ داغ دے گی۔ پچھلے سال 37,000 روپے کم ازکم اجرت مقررکی گئی، اس مرتبہ اسے بڑھا کر 40 ہزار روپے کر دیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے مزدوروں کی تنخواہ 12 سے16 ہزار روپے تک ہی عموماً ملتے دیکھا گیا ہے اور یوم مئی کا مطلب کہیں جلوس، ریلی، نغمے بس اسی میں یوم مزدور گزر جاتا ہے اور کام کرنے والے مزدور کام ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔

ہمارا ملک افرادی قوت کے لحاظ سے دنیا کی نویں بڑی افرادی قوت والا ملک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زراعت میں 43 فی صد طبقہ مزدوری کرتا ہے جو موسمی ہوتا ہے۔ وقت کی قید سے آزاد، صبح سے رات تک کام ہی کام، نہ کہیں چھاؤں، نہ کہیں آرام، بس کام اور کام۔ صنعتی شعبے میں 20 فی صد مزدور کام کرتے ہیں، ان میں چھوٹی بڑی گھریلو صنعتیں سب شامل ہیں۔ خدمات کے شعبے میں 36 فی صد افرادی قوت کام کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر مزدور غیر رسمی شعبے میں کام کرتے ہیں۔ 2017-18 کے اعداد و شمار کے مطابق 36 لاکھ خواتین گھریلو کاموں میں کام یا نوکری کرتی ہیں۔

ملک میں اکثریت ایسے مزدوروں کی ہے جو ان پڑھ ہے یا انتہائی معمولی پڑھی لکھی خواتین یا مرد ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے حقوق کی بالکل خبر نہیں ہوتی۔ چونکہ ان کے والدین یا شوہر انتہائی غریب ہوتے ہیں لہٰذا غربت انھیں محنت مزدوری پر مجبور کردیتی ہے۔

ان کی حالت زار کو بہتر بنانے خاص طور پر ننھے بچوں یا اٹھارہ سال سے کم عمر بچے یا بچیوں کے لیے غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والوں کی بہتری کے لیے جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ قانونی اصلاحات کی جائیں، سماجی تحفظ اور دیگر تمام ایسے اقدامات اٹھائے جائیں، ملکی قانون کو مضبوط بنایا جائے، انھیں شعور دیا جائے، ان کی تنخواہیں اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے قوانین بنائے جائیں، پھر کہیں جا کر صنعتی ممالک کی طرح یہ بھی یکم مئی کو یوم مزدور کے موقع پر چھٹی کریں گے۔ لیبر ڈے منائیں گے، ورنہ یوم مئی ان کے لیے چھٹی کا دن، مزدوروں کے حقوق کا دن ہے یہ تصور پوشیدہ ہی رہے گا۔ اسلام آباد کی لیبر کانفرنس کے نکات پر بھی عملدرآمد کیا جائے تاکہ مزدوروں کے حالات کار بہتر ہو سکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرتی ہیں کرتے ہیں میں کام یوم مئی چھٹی کا جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

مزدوروں کا عالمی دن: اسلامی تعلیمات اورعصرِ حاضر

محنت انسان کی فطرت اور بقا کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ دنیا کی تمام تہذیبوں اور ترقی یافتہ معاشروں کی بنیاد محنت کش افراد کے خونِ جگر سے استوار ہوئی ہے۔ یکم مئی کو دنیا بھر میں ’مزدوروں کا عالمی دن‘ منایا جاتا ہے تاکہ ان افراد کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے جو خاموشی سے معاشروں کو حرکت میں رکھتے ہیں۔ یہ دن محض ایک تاریخی واقعہ کی یادگار نہیں، بلکہ ایک عہد ہے کہ مزدوروں کے حقوق، عزت اور فلاح کو یقینی بنایا جائے۔

جہاں مغرب میں یہ دن شکاگو کے واقعے کی بنیاد پر منایا جاتا ہے۔ قرآن و سنت میں مزدور کے حقوق کو نہ صرف واضح طور پر بیان کیا گیا بلکہ ان کی ادائیگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مزدوروں کے عالمی دن کی تاریخی بنیاد، مغرب میں حقوق کی تحریک اور سب سے بڑھ کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں محنت کشوں کے مقام اور حقوق پر تفصیلی گفتگو کی جائے گی، تاکہ ایک باوقار اور منصف معاشرے کی تعمیر میں رہنمائی حاصل کی جاسکے۔


1۔ تاریخ:

دنیا بھر میں ہر سال یکم مئی کو ’مزدوروں کا عالمی دن‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کی ابتدا انیسویں صدی کے اختتام پر ہوئی جب مزدوروں نے اپنے کام کے اوقات کار کو آٹھ گھنٹے تک محدود کرنے کےلیے پُرزور تحریکیں چلائیں۔ 1886 میں شکاگو کے مقام پر مزدوروں کا ایک پرامن مظاہرہ پولیس کے جبر کا شکار ہوا، جس کے نتیجے میں کئی مزدور شہید ہوگئے۔ اس واقعے کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد مزدوروں کے مسائل کو اجاگر کرنا، ان کے حقوق کو تسلیم کرنا اور انھیں معاشرے میں عزت دینا ہے۔


2۔ انسانی تہذیب کا ستون: ’مزدور‘

تاریخ انسانی میں محنت کش طبقے کی حیثیت ہمیشہ کلیدی رہی ہے۔ انسان جب سے زمین پر آیا ہے، تب سے وہ اپنی بقا اور ترقی کےلیے محنت کرتا آرہا ہے۔ زراعت ہو یا صنعت، تجارت ہو یا تعمیرات، ہر شعبہ زندگی میں مزدور کی محنت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ تہذیبوں کے عروج و زوال میں محنت کشوں کا کردار ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے۔ بڑے بڑے محلات، سڑکیں، پل، اور فیکٹریاں مزدوروں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ قدیم عمارات کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں یہ آتا ہے کہ ’فلاں بادشاہ‘، ’فلاں حکمران‘ کی یادگار ہے، لیکن کبھی ہمارے ذہن میں یہ نہیں آتا کہ اسے ابتدا سے اختتام تک لانے والے تہذیب کے اہم ترین ستون ’مزدور‘ ہیں۔

دنیا میں جتنی بھی تاریخی باقیات ہیں، ہم نے انھیں بادشاہوں اور حکمرانوں سے تو منسوب کیا ہی ہے، لیکن کبھی ان کے بنانے والوں کے بارے میں نہیں سوچا۔ یہی بدقسمتی ہے کہ ہم نے کبھی ان معماروں کو نہیں سراہا، اسی وجہ سے یہ محنت کش طبقہ ہمیشہ سے معاشرتی اور معاشی استحصال کا شکار رہا ہے۔


3۔ مزدوروں کے حقوق کی تحریک: ’مغرب کا سفر‘

مغرب میں صنعتی انقلاب (اٹھارویں اور انیسویں صدی) کے بعد مزدوروں کی حالت بدترین ہوگئی تھی۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد کو طویل اوقات کار، کم اُجرت، اور صحت کے غیر محفوظ حالات میں کام کرنا پڑتا تھا۔ خواتین اور بچوں کو بھی سخت کاموں میں لگادیا جاتا تھا۔ ان غیر انسانی حالات کے خلاف مزدوروں نے مختلف تنظیمیں بنائیں، ہڑتالیں کیں، اور آخرکار کئی ملکوں میں محنت کشوں کے حقوق کےلیے قانون سازی ہوئی۔

تحریک کا نتیجہ: اس تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے ذاتی زندگی کا اصول۔ آج کئی مغربی ممالک میں مزدوروں کے لیے بہترین سہولیات اور حقوق موجود ہیں، تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے کا بنیادی ستون یعنی مزدور اب بھی پستی کی جانب گامزن ہے۔


4۔ اسلامی تعلیمات میں محنت کی فضیلت

اسلام ایک مکمل دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں محنت کی حقیقت اور اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا: ترجمہ ’’اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘ (النجم: 39)۔

اسلام میں محنت صرف روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک نیکی اور عبادت ہے۔

اسلام میں مزدور کو ایک باعزت مقام دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ترجمہ ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔‘‘ (ابن ماجہ)

قرآن و سنت میں دیے گئے حقوق سے جو مفاہیم نکلتے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں:

•    اجرت کی بروقت ادائیگی: تاخیر گناہ ہے۔
•    کام کی نوعیت واضح ہونی چاہیے: تاکہ کوئی دھوکا یا ظلم نہ ہو۔
•    اوقات کار کی زیادتی سے اجتناب: اسلام اعتدال کا حکم دیتا ہے۔
•    جسمانی و ذہنی صحت کا خیال رکھنا: مزدور پر ایسا بوجھ نہ ڈالا جائے جو اس کی استطاعت سے باہر ہو۔
•    عزت و احترام: مزدور کو ذلیل کرنا یا کمتر سمجھنا حرام ہے۔

اسلامی تعلیمات میں انسان کی عزت و وقار کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔ اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین نے مزدوروں کے ساتھ جو حسنِ سلوک کیا وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ حضرت عمرفاروقؓ کے دورِ خلافت میں جب بیت المال کے نظام کو منظم کیا گیا، تو وہاں باقاعدہ اُجرتیں مقرر کی گئیں، ساتھ ہی مزدوروں کی صحت، آرام اور حقوق کا خیال رکھا گیا۔


5۔ اسلامی معیشت اور تقسیمِ دولت

اسلامی معیشت کا تصور محض دولت کی پیداوار پر نہیں بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم پر مبنی ہے۔ قرآنِ مجید میں آتا ہے، ترجمہ ’’تاکہ وہ دولت تمہارے مالداروں کے درمیان (ہی) گردش کرنے والی نہ ہوجائے‘‘ (الحشر، 07)۔ یعنی دولت جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، امیر، امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب، غریب تر، لیکن اسلام نے اس کے بالکل برعکس بات کہی یعنی دولت کی منصفانہ تقسیم، صرف امیروں کےلیے ہی نہیں سب کچھ، بلکہ تمام افراد کےلیے دولت ہے۔

اگر دولت کی منصفانہ تقسیم ہو، تو مزدور کو جو فوائد حاصل ہوں گے، وہ کچھ اس طرح کے ہوں گے:

•    زکوٰۃ، صدقات، فدیہ، کفارہ جیسے ذرائع سے دولت کا بہاؤ نیچے تک یعنی مزدور تک پہنچے گا۔
•    سود کی ممانعت مزدوروں کا استحصال نہیں ہوگا۔
•    حکومت۔ تعلیم، صحت، اور رہائش جیسی سہولیات مہیا کرنے پر پابند ہوگی۔

اسلامی معیشت میں محنت کش طبقے کو ترقی کے مواقع، فنی تربیت، اور مالی تحفظ دینا حکمرانوں کی ذمے داری ہے۔ اگر اسلامی معاشی اصولوں کو صحیح معنوں میں نافذ کیا جائے تو معاشی ناہمواری کا خاتمہ ممکن ہے۔


6۔ موجودہ دور میں اسلامی دنیا کا کردار

اگرچہ اسلامی تعلیمات واضح اور جامع ہیں، مگر بدقسمتی سے آج مسلم دنیا میں مزدوروں کے ساتھ وہ حسنِ سلوک نہیں کیا جاتا جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ کئی ممالک بطورِ خاص پاکستان میں:

•    مزدور طویل گھنٹوں تک کام کرتے ہیں، مگر اُجرت ناکافی ہوتی ہے۔
•    صحت اور تحفظ کے انتظامات ناقص ہوتے ہیں۔
•    خواتین مزدوروں کو مزید مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
•    بچوں سے مشقت لی جاتی ہے جو سراسر ظلم ہے۔


7۔ عالمی یومِ مزدور: جشن یا ’سوچنے کا دن‘!

کیا مزدوروں کا عالمی دن صرف ایک تعطیل کا دن ہے یا ایک سنجیدہ سوچ کا موقع؟ ہمیں اس دن خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ:

•    کیا ہم نے اپنے معاشرے میں مزدور کو عزت دی؟
•    کیا ہم ان کی اجرت بروقت ادا کرتے ہیں؟
•    کیا ہم نے ان کے بچوں کےلیے تعلیم اور ان کےلیے صحت کا بندوبست کیا؟

ان سوالا ت پر حکومتِ وقت کو غور کرنا چاہیے کہ آیا، حکومت نے مزدور طبقے کے لیے کچھ کیا بھی یا صرف اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس بارے میں حکومت کو صرف غور و فکر کرنے کی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر مزدوروں کےلیے کچھ کرنے کے بھی ضرورت ہے۔ 


8۔ تجاویز:

اسلام نے مزدور کو معاشرے کا باعزت رکن قرار دیا ہے۔ موجودہ وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ:

•    اسلامی تعلیمات کو لیبر پالیسیز میں شامل کیا جائے۔
•    علماء، اساتذہ اور میڈیا مزدور کے حقوق پر روشنی ڈالیں۔
•    مزدوروں کی تعلیم، صحت اور سوشل سیکیورٹی پر خاص توجہ دی جائے۔
•    حکومتی اور نجی ادارے مزدور دوست پالیسیز اپنائیں۔

مزدور کسی بھی معاشرے کی بنیاد اور ترقی کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کی محنت کے بغیر کسی بھی قوم کی اقتصادی ترقی اور سماجی استحکام کا تصور ممکن نہیں۔ اسلام نے جہاں محنت کو عبادت کا درجہ دیا، وہیں مزدور کے حقوق کو لازمی، مقدس اور غیر متنازع حیثیت عطا کی۔ نبی کریم ﷺ کے فرامین اور خلفائے راشدین کے طرزِ عمل سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اسلامی معاشرہ مزدور کی عزت، راحت، اور تحفظ کو اولین ترجیح دیتا ہے۔

موجودہ دور میں جب مزدور استحصال، غربت اور ناانصافی کا شکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان سمیت تمام ممالک اپنی پالیسیوں، قوانین اور طرزِ حکمرانی میں مزدوروں کے حقوق کو عملی طور پر نافذ کریں، تاکہ ایک مزدور کو اس کا جائز مقام، بروقت اُجرت، تحفظ اور ترقی کے مساوی مواقع میسر آسکیں۔ صرف تقریریں، سیمینارز اور تعطیلات نہیں بلکہ عملی اقدامات ہی اس دن کا حقیقی حق ادا کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈاکٹر غلام علی کی چھٹی، وزارت فوڈ سیکیورٹی نے نئے چیئرمین پی اے آر سی کی تقرری کا عمل شروع کر دیا
  • چین ، چھٹی کے پہلے روز ہی ریلوے سے  23.119 ملین ٹرپس ہوئے
  • چین، چھٹی کے پہلے روز ہی ریلوے سے  23.119 ملین ٹرپس ہوئے
  • محکمہ خزانہ کے بجٹ ونگ کے ملازمین اور افسران کی ہفتے کی چھٹی ختم
  • تعلیم اور صحت کے شعبے میں حکومتی اقدامات
  • یوم مزدور: فرضی دن اور فرضی باتیں
  • مزدوروں کا عالمی دن: اسلامی تعلیمات اورعصرِ حاضر
  • خوشحالی کے بغیر عظیم انسان
  • ایران 20 سیٹلائٹس تیار کر رہا ہے، سربراہ ایرانی خلائی تنظیم