یوم مئی کی چھٹی اور غیر رسمی شعبے کے مزدور
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
یہ جو بچہ اینٹوں کے بھٹے پرکام کر رہا ہے،کوئی ہوٹل میں پیالیاں دھو رہا ہے۔ ایک معمر مزدور جس نے ساری زندگی سیمنٹ، بجری، بلاک، اینٹوں سے دوستی رکھی۔ بڑھاپا اس کا کیسا گزرتا ہے؟ عورت مزدور ہوگھر میں کام کرے یا کھیتوں میں، پہلے صبح ناشتہ تیار کرے گی، پھر کھیتوں میں کام کرے گی۔ شام کو شوہر کے طعنے سنے گی، بس اسی میں اس کی زندگی گزر جاتی ہے۔
کتنے ہی یوم مئی گزر جائیں چھٹی اس کے مقدر میں نہیں۔ چھوٹی بچیاں جو گھروں میں کام کرتی ہیں مالک کی مار بھی برداشت کرتی ہیں انھیں اپنے حقوق کا پتا ہی نہیں۔ ان کو کیا اجرت ملتی ہے، کھانا اور چند ہزار ماہانہ۔ وہ بچے مزدور جو کہتے ہیں ہم کام سیکھ رہے ہیں، انھیں ایک وقت کی روٹی اور بیس تیس روپے دیہاڑی ملتی ہے لیکن یوم مزدور پر چھٹی پھر بھی نہیں۔
یہ مزدور چھوٹا ہو یا بڑا نوجوان ہو یا بوڑھا، چھوٹی بچی ہو یا عورت، سب ایک ہی چکی میں پس رہے ہیں۔ بچوں کو تنخواہ ملتی نہیں، عورتوں کو مردوں کی نسبت آدھی تنخواہ، چھوٹی بچیاں دن رات بنگلے پرکام کرتی ہیں، بچا کچھا جھوٹا کھا لیا کرتی ہیں اور مہینے بعد بوڑھے والدین ملنے آئیں تو ان کے ہاتھ پر مالکن کچھ روپے رکھ دیتی ہیں۔ وہ خوشامدانہ لہجے میں کہتے ہیں آپ کی بڑی مہربانی بیگم صاحبہ !
یوم مئی کے موقع پر دنیا بھر کے مزدور چھٹی کرتے ہیں، ہر ادارہ اس دن کی تنخواہ ان کو دیتا ہے، لیکن پاکستان میں اس طرح کے افراد کے لیے چھٹی کا مطلب ایک دو وقت کی روٹی بھی گئی۔ اس دن فاقہ ہی فاقہ، پھر بھلا ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ننھا مزدور،گھروں میں کام کرنے والی بچی، یہ سب یوم مئی کی چھٹی کا نام بھی نہیں لیں گے۔ اکثریت ایسی ہے جو اس دن کے بارے میں تو نہیں جانتے لیکن چھٹی کا مطلب خوب جانتے ہیں کہ دیہاڑی جو ملتی ہے تو اس سے گئے۔ کھانا ملتا ہے تو اس سے بھی گئے۔ چھٹی کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ مار پیٹ کے سوا کچھ نہیں ملتا تو آخر چھٹی کا عذاب کیوں جھیلیں۔
پاکستان میں 40 فی صد مزدور غیر رسمی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ جہاں نہ کوئی سوشل سیکیورٹی نہ کوئی انشورنس نہ ہی دن بھر کی چھٹی یا آدھی چھٹی۔ اگر ایسا کسی نے کیا تو اس کی پوری چھٹی۔ نیا بندہ فوراً مل جاتا ہے کیونکہ ملک میں غیر ہنرمند چھوٹے بڑے مرد و زن مزدوروں کی کمی نہیں۔
چند ہفتوں کے بعد بجٹ نے آنا ہے خوب دھوم مچا کر حکومت ان غریب مزدوروں کے غم میں ہلکان ہونے کا بیانیہ داغ دے گی۔ پچھلے سال 37,000 روپے کم ازکم اجرت مقررکی گئی، اس مرتبہ اسے بڑھا کر 40 ہزار روپے کر دیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے مزدوروں کی تنخواہ 12 سے16 ہزار روپے تک ہی عموماً ملتے دیکھا گیا ہے اور یوم مئی کا مطلب کہیں جلوس، ریلی، نغمے بس اسی میں یوم مزدور گزر جاتا ہے اور کام کرنے والے مزدور کام ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔
ہمارا ملک افرادی قوت کے لحاظ سے دنیا کی نویں بڑی افرادی قوت والا ملک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زراعت میں 43 فی صد طبقہ مزدوری کرتا ہے جو موسمی ہوتا ہے۔ وقت کی قید سے آزاد، صبح سے رات تک کام ہی کام، نہ کہیں چھاؤں، نہ کہیں آرام، بس کام اور کام۔ صنعتی شعبے میں 20 فی صد مزدور کام کرتے ہیں، ان میں چھوٹی بڑی گھریلو صنعتیں سب شامل ہیں۔ خدمات کے شعبے میں 36 فی صد افرادی قوت کام کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر مزدور غیر رسمی شعبے میں کام کرتے ہیں۔ 2017-18 کے اعداد و شمار کے مطابق 36 لاکھ خواتین گھریلو کاموں میں کام یا نوکری کرتی ہیں۔
ملک میں اکثریت ایسے مزدوروں کی ہے جو ان پڑھ ہے یا انتہائی معمولی پڑھی لکھی خواتین یا مرد ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے حقوق کی بالکل خبر نہیں ہوتی۔ چونکہ ان کے والدین یا شوہر انتہائی غریب ہوتے ہیں لہٰذا غربت انھیں محنت مزدوری پر مجبور کردیتی ہے۔
ان کی حالت زار کو بہتر بنانے خاص طور پر ننھے بچوں یا اٹھارہ سال سے کم عمر بچے یا بچیوں کے لیے غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والوں کی بہتری کے لیے جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ قانونی اصلاحات کی جائیں، سماجی تحفظ اور دیگر تمام ایسے اقدامات اٹھائے جائیں، ملکی قانون کو مضبوط بنایا جائے، انھیں شعور دیا جائے، ان کی تنخواہیں اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے قوانین بنائے جائیں، پھر کہیں جا کر صنعتی ممالک کی طرح یہ بھی یکم مئی کو یوم مزدور کے موقع پر چھٹی کریں گے۔ لیبر ڈے منائیں گے، ورنہ یوم مئی ان کے لیے چھٹی کا دن، مزدوروں کے حقوق کا دن ہے یہ تصور پوشیدہ ہی رہے گا۔ اسلام آباد کی لیبر کانفرنس کے نکات پر بھی عملدرآمد کیا جائے تاکہ مزدوروں کے حالات کار بہتر ہو سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتی ہیں کرتے ہیں میں کام یوم مئی چھٹی کا جاتا ہے کے لیے
پڑھیں:
ایس ائی ایف سی کے اقدامات سے کان کنی شعبے کی ترقی اورسرمایہ کاری میں اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)اسپیشل انوسمنٹ فسلیٹیشن کونسل کے قیام کے بعد کانکنی کے شعبے میں تیزی سے سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ پاکستان کی اس شعبے میں آمدنی 2030 تک 8 ارب ڈالر سے بڑھ سکتی یے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ سے خطاب میں کیا۔
نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ 2025 سے خطاب میں ماہرہن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں کانکنی کے شعبے کا حصہ صرف دو سے تین فیصد ہے جبکہ پاکستان میں ان معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن کی دنیا کو اس وقت طلب ہے۔ سمٹ سے لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین محمد سہیل تبہ، نیشنل ریسورس این آر ایل کے چیف ایگزیکٹو شمس احمد شیخ، انشورنس بروکریج فیبیلٹی کے بانی حسن آر محمد سمیت ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے خطاب کیا۔ سمٹ میں پاکستان میں کانکنی اور توانائی کے شعبے کی ترقی، معاشی ترقی اہمیت، رسک مینجمنٹ کے لئے خصوصی انشورنس، اور ٹیکنالوجی خصوصا مصنوعی ذہانت کے استعمال پر کلیدی خطاب کئے گئے
پاکستان میں کتنی معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع کے حوالے نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ سے خطاب میں لکی سیمنٹ اور لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین سہیل تبہ کا کہنا تھا کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد اب پاکستان میں کانکنی کا شعبے اب توجہ دی جارہی ہے۔ کانکنی کے شعبے کو ترقی دینے سے ملک کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں خوشحالی لانے کے علاؤہ تیز رفتار معاشی ترقی اور زرمبادلہ کے حصول میں معاون ہوگا۔ پاکستان میں معدنی ذخائر کا حجم بہت زیادہ ہے۔ صرف چاغی میں ہی سونے اور تانبے کے 1.3 ٹریلین ڈالر کے ذخائر ہیں۔ کانکنی کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے ملک اور خطے میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ اس موقع پر خطاب میں فیڈیںلیٹی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو حسن آر محمد کا کہنا تھا کہ کانکنی کو ترقی دینے کے لئے اس سے متعلق انشورنس اور مالیاتی کے شعبے کو متحرک کرنا ہوگا۔ پاکستان کی مالیاتی صنعت کو بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے اپنی افرادی قوت اور وسائل کو مختص کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
نیچرل ریسورس این آر ایل کے چیف ایگزیکٹو شمس الدین شیخ کا کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ملک کے ہر صوبے میں معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ مگر کانکنی کا شعبے کے معیشت میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایس آئی ایف سی نے اس شعبے کی ترقی کے لئے کام کررہی ہے امید ہے کہ آئندہ چند سال میں ملکی کانکنی کی صنعت 8 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ ریکوڈک سمیت کی اور غیر کی کمپنیاں آرہی ہیں۔