نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے دنیا پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کسی بھی صورتحال میں پہلا قدم نہیں اٹھائے گا لیکن اگر بھارت کی جانب سے جارحیت ہوئی تو پوری طاقت سے جواب دیں گے۔اسحاق ڈار کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا دنیا اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے، خصوصاً ہمارے خطے کو اس وقت سنگین صورتحال کا سامنا ہے، امن و خوشحالی ہم سب کا مشترکہ ہدف ہونا چاہیے۔نائب وزیر اعظم کا کہنا تھا پاکستان ہمیشہ خطے میں امن کا داعی رہا ہے، ہم نے ہمیشہ جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی ہے، پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کیا گیا، پہلگام فالس فلیگ آپریشن کا مقصد بھارت میں جاری آزادی کی تحریکوں سے توجہ ہٹانا ہے، کئی بھارت ریاستوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، بھارت خطے میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرات میں ڈال رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ چند دنوں کے دوران مختلف ممالک کی قیادت سے خطے کی صورتحال پر گفتگو کی ہے، وزارت خارجہ میں مختلف ممالک کے سفیروں اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کو بریفنگ دی گئی۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا بھارتی پابندیوں کے بعد قومی سلامتی کمیٹی نے اہم فیصلے کیے، قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں پر فوری عمل درآمد کیا گیا، سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل یا ختم کرنے کا مجاذ نہیں، بھارت خطے کو جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے، بھارت کے اقدامات کا اسی زبان میں جواب دیا، پاکستان خطے میں امن کے لیے پرعزم ہے۔وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا پہلگام فالس فلیگ آپریشن بھارت کا رچایا ہوا ڈراما ہے، عالمی رہنماؤں نے پاکستان کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی، ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرنا ہماری پالیسی ہے، تاہم پہلگام فالس فلیگ کے دس منٹ کے اندر مقدمے کا اندراج سوالیہ نشان ہے۔انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں جارحیت کا بھر پور جواب دینے کا فیصلہ ہوا، خطے میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے لیکن پاکستان کسی بھی صورتحال میں پہلا قدم نہیں اٹھائےگا، اگر جارحیت مسلط کی گئی تو پورے قومی عزم اور طاقت کے ساتھ بھرپور جواب دیں گے۔ان کا کہنا تھا بھارتی فضائیہ کی مہم جوئی کے عزائم کو ہم نے لمحوں میں ناکام بنایا، پاکستان کبھی بھی کسی کے خلاف اپنی سرزمین استعمال ہونے دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عالمی برادری خطے کی صورتحال پر فوری نوٹس لے۔نائب وزیراعظم کا کہنا تھا اقوام متحدہ مقبوضہ علاقوں پر حق خودارادیت کے بارے میں واضح قرار دادیں منظور کر چکی، مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں، مسئلہ کشمیر کو کسی صورت بھی پس پشت نہیں ڈالا جائےگا، کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

دو تنازعات، ایک ایجنڈا، مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت

دنیا طاقت، سازشوں اور مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ انہی عوامل کی روشنی میں مئی اور جون 2025 ء کے مہینے دو بظاہر الگ لیکن حیرت انگیز طور پر مماثل تنازعات کی وجہ سے عالمی سیاسی تاریخ میں نقش ہو چکے ہیں۔ایک تنازع پاکستان اور بھارت کے درمیان، جبکہ دوسرا اسرائیل اور ایران کے مابین پیش آیا۔ اگرچہ ان دونوں محاذوں کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا، لیکن ان کی نوعیت، طریقہ کار، اور پس پردہ کارفرما اتحاد ایک جیسے تھے۔ یہ محض اتفاقیہ جھڑپیں نہ تھیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دو مسلم ممالک کو نشانہ بنانے والی مربوط جارحیت تھی۔ ان دونوں میدانوں میں اسرائیل اور بھارت کے درمیان ایک مشترکہ اسٹریٹیجک فریم ورک نمایاں نظر آیا—طاقت کا ایک محور جو خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اشتعال انگیزی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
7 مئی 2025 ء کی صبح، پاکستان کو بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور خودمختاری پر حملے کے جواب میں فوجی کارروائی پر مجبور ہونا پڑا۔ معتبر عسکری رپورٹس کے مطابق، بھارتی ڈرونز نے آزاد جموں و کشمیر اور پاکستانی حدود میں گہرائی تک فضائی نگرانی کی کوشش کی، جسے انسداد دہشت گردی کی مشق کا نام دیا گیا۔ جواباً، پاکستان نے ان ڈرونز کو مار گرایا اور لائن آف کنٹرول کے قریب بھارتی فوجی چوکیوں پر محدود اور درست نشانہ بناتی کارروائیاں کیں۔
اس واقعے کو منفرد بنانے والی بات یہ تھی کہ گرائے گئے ڈرونز بھارتی نہیں بلکہ اسرائیلی ساختہ تھے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں اور الیکٹرانک فرانزک ٹیموں نے ان ڈرونز کا سراغ اسرائیلی ادارے ’’ایل بٹ سسٹمز‘‘سے لگایا، جن میں ’’ہرمیس‘‘ 900 اور ’’ہاروپ‘‘ جیسے جدید جنگی ڈرون شامل تھے جو پہلے غزہ اور لبنان میں استعمال ہو چکے ہیں۔ مزید حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان ڈرونز کو اسرائیل سے نہیں بلکہ بھارتی ریاست راجستھان کے علاقے جیسلمیر میں قائم ایک کنٹرول سینٹر سے چلایا جا رہا تھا، جہاں اسرائیلی دفاعی تکنیکی ماہرین بھارت اور اسرائیل کے درمیان 2023 ء میں دستخط شدہ دفاعی تعاون کے معاہدے کے تحت تعینات تھے۔ یہ اب قیاس آرائی نہیں بلکہ براہ راست اشتراک تھا۔
اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ 1 سے 7 مئی کے درمیان اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان کم از کم چار بار رابطے ہوئے۔ یورپی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک کیبل کے مطابق، نیتن یاہو نے بھارت کو ”حکمتِ عملی کی معلومات، تکنیکی مدد، اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی تحفظ” کی یقین دہانی کروائی۔ یہ پوری کارروائی نہ صرف پاکستان کو اکسانے کے لیے بلکہ مستقبل میں کسی بڑی جنگ کی صورت میں پاکستانی ردعمل کا اندازہ لگانے کے لیے کی گئی تھی۔
اس خفیہ ایجنڈے کی تصدیق نیتن یاہو کے ایک مبینہ انٹرویو میں بھی ہو چکی ہے جس میں انہوں نے گفتگو کے دوران واضح طور پاکستان اور ایران دونوں کو ’’ایسے بنیاد پرست اسلامی ریاستیں قرار دیا جو جوہری طاقت رکھتی ہیں یا اس کے قریب ہیں‘‘ اور مزید یہ بھی کہا کہ ’’عالمی برادری کو ان نظریاتی جوہری خطرات کے خلاف چوکنا رہنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگرچہ ہم ایران پر توجہ دے رہے ہیں، ہمیں پاکستان کے اسٹریٹیجک مقام اور عسکری صلاحیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔خصوصاً جب وہ تہران کے ساتھ نظریاتی طور پر ہم آہنگ ہو۔‘‘ یہ بیانات اس نام نہاد ’’پیشگی دفاع‘‘ کے پردے میں خطے میں جارحیت کو جواز دینے کی کوشش تھے، جو مسلم دنیا کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 7 مئی کی کشیدگی سے پہلے امریکی نائب صدر نے عوامی سطح پر اعلان کیا کہ ’’امریکہ کا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کوئی کردار نہیں۔‘‘ لیکن جب صورت حال بگڑنے لگی اور عالمی منڈیوں میں بے چینی پھیل گئی، تو امریکی صدر نے مداخلت کی اور دونوں فریقوں پر دباؤ ڈال کر پس پردہ مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کروا دی۔ یہ امریکی رویہ،پہلے لاتعلقی، پھر مداخلت، یہ ظاہر کرتا ہے کہ مغرب کا فیصلہ کن کردار اصولی بنیاد پر نہیں بلکہ جغرافیائی سیاسی حساب کتاب پر مبنی ہوتا ہے۔ایک بار پھر بھارت سے ہم آہنگی واضح نظر آئی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حملے سے چند گھنٹے قبل نیتن یاہو اور مودی کے درمیان ایک اور رابطہ ہوا، جس کی تصدیق بین الاقوامی میڈیا نے تل ابیب اور نئی دہلی کے درمیان خفیہ پیغامات کی ترسیل سے کی۔ اس کے ساتھ ہی ایک سائبر حملہ بھی کیا گیا، جس سے ایران کے 40 فیصد فضائی ٹریفک کنٹرول نظام اور تیل کی برآمدات کی مواصلاتی تنصیبات متاثر ہوئیں۔ تہران میں سائبر سیکورٹی ماہرین نے اس میلویئر کا سراغ ’’ٹاٹا ایڈوانسڈ سسٹمز‘‘ اور ’’اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز‘‘ کے اشتراک سے تیار کیے گئے سافٹ ویئر سے لگایا۔ یہ ’’سٹکس نیٹ‘‘ اور’’فلیم‘‘ وائرسز کا امتزاج تھا، جو SCADA سسٹمز کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا،یہ بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ سائبر جنگی حکمت عملی کا ثبوت تھا۔
ایران نے، بالکل پاکستان کی طرح، اپنی خودمختاری کا بھرپور دفاع کیا۔ ’’باور-373‘‘ اور ’’خورداد 15‘‘ دفاعی نظاموں نے 19 میزائل فضا میں ہی ناکارہ بنا دیے۔ جواباً، ایران نے مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں میں موجود اسرائیلی انٹیلی جنس مراکز پر ’’فاتح-110‘‘ میزائلوں سے محدود جوابی حملہ کیا۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے قوم سے ایک نادر خطاب میں ’’صہیونی-ہندو گٹھ جوڑ‘‘ کی مذمت کی اور عالمِ اسلام سے اتحاد کی اپیل کی۔
دونوں تنازعات میں ایک واضح قدر مشترک تھی؛ اسرائیل اور بھارت کا اشتراک، جس میں عسکری، تکنیکی اور سائبر مہارت کو یکجا کر کے مسلم طاقتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایران اور پاکستان ان کے نزدیک نظریاتی، اسٹریٹیجک اور جغرافیائی سیاسی رکاوٹیں ہیں۔ اسرائیل ایران کو جوہری میدان میں حریف سمجھتا ہے جبکہ بھارت پاکستان کو جنوبی ایشیا میں اپنی چودھراہٹ کی راہ میں رکاوٹ۔
لیکن اصل تشویش عالمی برادری کی خاموشی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کسی ہنگامی اجلاس کی زحمت تک نہ کی۔ مغربی میڈیا نے پاکستان-بھارت تنازعے کو محض ’’سرحدی کشیدگی‘‘ اور اسرائیل-ایران جنگ کو ’’روک تھام کا حملہ‘‘ قرار دیا۔ ایک بھی مذمتی قرارداد منظور نہ ہوئی۔ یہ منافقانہ رویہ اس عالمی انصاف کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے جو صرف تب جاگتا ہے جب غیر مسلم مفادات خطرے میں ہوں۔
ایسے پیچیدہ حملوں کے مقابلے میں، پاکستان اور ایران کو محض ردعمل سے آگے بڑھ کر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ انٹیلی جنس کا تبادلہ، سائبر دفاع میں اشتراک، مشترکہ فوجی مشقیں، اور سفارتی ہم آہنگی مستقبل میں ایک مضبوط اتحاد کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ تنہا ریاستیں گرتی ہیں، لیکن متحد قومیں قائم رہتی ہیں۔ دونوں ملکوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب ان کی بقا اور عزت صرف مذہب یا ثقافت میں نہیں، بلکہ تقدیر میں بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔
مئی اور جون 2025 ء کی یہ جنگیں صرف ڈرونز اور میزائلوں کی قوت کی وجہ سے یاد نہیں رکھی جائیں گی، بلکہ اس شعور کے باعث بھی یاد رکھی جائیں گی جو انہوں نے مستقبل کی جنگوں کی نوعیت پر ڈالا۔ یہ ہائبرڈ جنگوں کا دور ہے، جہاں گولیاں اور بائٹس ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مگر اس دور میں بھی ایک سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے: جب ایک قوم متحد ہو، تو اسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ ایران اور پاکستان نے ان حملوں سے صرف زندہ رہنا ہی نہیں سیکھا بلکہ مضبوط ہو کر ابھرے، ان کی عوام پُرعزم ہوئیں، اور ان کے دشمنوں کو انتباہ ملا۔ بالآخر، ظلم فولاد کے ساتھ چل سکتا ہے، مگر تاریخ ہمیشہ عدل کے ساتھ چلتی ہے اور عدل، اگرچہ تاخیر سے، کبھی مرتا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جوہری ہتھیاروں پر یقین نہیں رکھتے، امریکا جنگ میں شامل ہوا تو بھرپور جواب دیں گے،ایران
  • پوری قوم اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایران اور فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے، مولانا طاہر اشرفی
  • عالمی برداری ایران اسرائیل جنگ بندی کیلئے اقدامات کرے)وزیراعظم(
  • نائب وزیراعظم کا ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کا عزم
  • یقین ہے پاکستان ہمارے مفادات کیخلاف کوئی قدم نہیں اٹھائےگا، ایران
  • مسئلہ کشمیر پر  بھارت نے کبھی ثالثی قبول نہیں کی، نہ آئندہ کرے گا، مودی کا ٹرمپ کو جواب
  • ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ 2026 کے شیڈول کا اعلان، پاکستان کا پہلا میچ بھارت سے ہوگا
  • اسرائیل نے ایران کے خلاف کھلی جارحیت کی ہے، شہباز شریف
  • دو تنازعات، ایک ایجنڈا، مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت
  • ایران کے خلاف جارحیت ناقابل قبول، حکومت کا مؤقف حق پر مبنی ہے، نواز شریف