مختصرخلائی مشن جو غیرمعمولی طوالت اختیار کرگیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
ان دونوں خلابازوں کی ماہروسیع اور تجربہ کار جوڑی کے خلاء میں روانگی کے وقت کسی کو بھی قطعی اندازہ نہ تھا کہ ہفتے کے لیے مشن پر جانے والے ان خلابازوں کو وہاں 10ماہ کے قریب رکنا پڑسکتا ہے۔
ناسا کے اس خلائی سفر میں خلاباز بوچ ولمور اور بہادر خاتون سنیتا لِن ولیمز (سُونی) سفر میں شامل تھیں جو کہ جون 2024 ء کو شروع ہوا تھا اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن(ISS) پہنچا اور اب 18مارچ 2025 ء میں ایک طویل اور نہایت مشکل ترین اور اعصاب کو تھکادینے والے سفر سے اس کی واپسی ہوگئی ہے۔
اس مشن کے مسافر خلائی اسٹیشن میں گویا پھنسے ہوئے تھے۔ ان کی واپسی کو ایلون مسک کی خلائی کمپنی اسپیس۔ ایکس کے خلائی جہاز ڈریگن سے ممکن بنایا۔ وہ اب لمبے عرصے تک کشش ثقل میں رہنے کے بعد واپسی پر اپنی صحت کے حوالے سے نئے چیلینجوں کا سامنا کررہے ہیں۔
13مارچ 2025 ء کو دونوں خلابازوں کی گھر واپسی کے لیے اسپیس ایکس نے اعلان کردیا تھا، ایلون مسک کا کہنا ہے کہ میں نے ایک ماہ قبل ہی سابق صدر بائیڈن کے سامنے واپسی کی تجویز پیش کی تھی جسے نظرانداز کردیا گیا تھا اگر اس پر عمل کیا جاتا تو خلاء میں پھنسے خلابازوں کو پہلے ہی واپس لایا جاسکتا تھا۔
اسپیس ایکس کے ڈریگن کیپسول ان کی واپسی فلوریڈ ا کے قریبی خلیجی ساحلی علاقے تلہاسی (Tallahassee ) پر ہوئی جہاں وہ بحراوقیانوس پر بحفاظت اتر گیا اور طویل ذہنی اعصابی تھکان والے سفر اختتام پذیر ہوا۔ اس طرح ایک طویل ترین اور صبرآزما خلائی مشن کو جو محض 8 روز کے لیے رکھا گیا تھا حادثاتی طور پر طول پکڑتا چلا گیا جب دونوں خلابازوں کی جانیں بچانے اور باحفاظت زمین پر لانا ایک بہت بڑا چیلینج بن چکا تھا، کا اختتام بخیروخوبی ہوا۔
سنیتا اور ولمور اب خلاء میں طویل مدتی رہائش کے بعد زمین پر واپس بے وزنی کے اثرات سے نمٹنے میں مصروف ہیں جب کہ ناسا کے جانسن خلائی مرکز، ہوسٹن میں ان کے تفصیلی طبعی ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں۔ طویل عرصے کے خلائی مشن پر انسانی جسم پر سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں اب جب کہ دونوں خلابازوں نے زمینی ماحول سے بہت حد تک مطابقت پیدا کرلی ہے۔
غیرمعمولی عزم وہمت کا نشان بھارتی نژاد امریکی خاتون سنیتا ولیمز ناسا کی دوسری اہم ترین خاتون ہیں جن کا تعلق انڈیا سے ہے، یاد رہے کہ ان کی سنیئرخلاباز کلپنا چاؤلہ تھیں جو 41 سال کی عمر میں کولمبیا شٹل کے حادثے میں جاں بحق ہوگئی تھیں۔ سنیتا 19 ستمبر 1965 ء میں امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کو یو کِلڈمیں پیدا ہوئی ان کے والد دیپک پانڈیا انڈین گجراتی فزیشن تھے اور ان کی والدہ بونی پانڈیا کا تعلق سلووا کیا سے ہے اور وہ تین بہن بھائی ہیں، جے تھامن ان کے بڑے بھائی اور دینا آنند ان کی بڑی بہن ہیں جب کہ ان کے شوہر کا نام مائیکل جے ولیمز ہے۔
بحریہ کی سابق آفیسر سونی کا ناسا میں چناؤ 1998 میں خلاباز کے طور پر گروپ 17 میں ہوا تھا اور ان کی پہلی پرواز دسمبر 2006 ء میں انجام پائی۔ سنیتا امریکا کی طرف سے پیگی ویٹسن (675 دن) کے بعد خلا میں سب سے زیادہ وقت بتانے والی دوسری خاتون خلاباز قرار پائی ہیں۔ انہوں نے خلاء میں 608 دن، انیس منٹس گزارے ہیں جب کہ سب سے زیادہ خلائی چہل قدمیاں کی ہیں، نوخلائی چہل قدمیوں میں سنی نے 62 گھنٹے، چھے منٹ خلائی اسٹیشن کے باہر رہ کر صرف کیے۔
مہمات: مشن: STS116 اور STS11۔ (ایکسپیڈیشنز:14 اور15) مشن: سوئیزTMA.
ولمور خلائی اسٹیشن پر نومبر2009 ء میں اپنے پہلے مشن شٹل اٹلانٹسSTS-129 ، کے ذریعے گئے اور Soyuz-TMA-14M سے واپس پہنچے وہ گیارہ دن اسٹیشن پر خلاء میں رہے اور ایکسپیڈیشنز 41 اور 42 کے لیے تجربات کرتے رہے۔ وہ خلائی اسٹیشن پر اپنے دیگر پانچ خلابازوں کے ہمراہ پہنچے تھے۔ دوسری خلائی پرواز بوئنگ کی ٹیسٹ پرواز کے طور پر سنیتا کے ساتھ کی گئی تھی۔ سونی ولیمز، بوچ ولمور کے ساتھ نک ہیگ اور روسی خلاباز الیگزینڈر گوربونوف واپس آئے ہیں ان تمام نے خلائی اسٹیشن پر رہتے ہوئے دس ماہ کے قریب 1952 ملین کلومیٹرز کا فاصلہ طے کیا اور زمین کے اطراف تقریباً 4577 چکر مکمل کیے۔
آخر کار وہ کیا عوامل ہیں جن کے باعث ایک عام خلائی مشن ایک ایمرجینسی نوعیت کا مشن بن گیا تھا؟ دراصل دونوں خلاباز جس نئے آزمودہ خلائی جہاز کی آزمائشی پرواز کے لیے روانہ ہوئے تھے وہ بوئنگ ایرو اسپیس کمپنی کا ’’اسٹارلائنر‘‘ (CST-100)ہے۔ بدقسمتی سے اپنی ابتدا ہی سے جہاز میں تیکنیکی خرابیاں اور پیچیدہ مسائل پیدا ہوگئے، جس سے خلابازوں کے قیام کی طوالت میں اضافہ ہوتا گیا۔ بوئنگ کمپنی جو کہ ایک انتہائی تجربہ کار ایرواسپیس کمپنی ہے جو 15 جولائی 1916 ء میں سیٹل میں قائم کی گئی اس کے بانی ولیم ای بوئنگ تھے جو کہ امریکی ہوابازی کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔
پہلے اس کمپنی کا نام ’’پیسفک ایئرپلین ‘‘ تھا۔ اپنی حالیہ ناکامی پر بوئنگ ایرو کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے جب کہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ اسپیس ایکس خلائی فرم کو سخت ٹکر دینے جارہی ہے۔ متعدد بار اس کی ٹیسٹ فلائیٹ میں تاخیر ہوئی۔ اسپیس ایکس اور ایمزون کے جیف بیزوز کی کمپنی ’’بلیو اورجن‘‘ کے بعد بوئنگ ایک تیسری بڑی نجی خلائی قوت بننے جارہی ہے۔ خلائی شٹلز کے اختتام کے بعد عرصے تک امریکی خلابازوں کو خلاء میں پہنچانے کے انتظام روسی خلاباز سیویوز انجام دیتے رہے ہیں، تب ناسا نے پرائیویٹ کمپنیوں کو آزمانا شروع کردیا۔
یہ نجی خلائی کمپنیاں اپنے جہازوں کی مالک ہوتی ہیں۔ انہیں ناسا ایک صارف کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ پانچ سال پہلے ایلون مسک کی اسپیس ایکس نے خلاء میں امریکی ٹرانسپورٹ سروس کو پھر سے بحال کردیا ہے اور تب سے وہ متواتر خلائی اسٹیشن پر خلابازوں کی آمدورفت کام یاب اور قابل اعتماد ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ بوئنگ کے راکٹ میں ایندھن کے اخراج کے سبب خلانووردوں کی واپسی کا عمل کئی بار ملتوی کرنا پڑا۔ بوئنگ ایئراسپیس کمپنی ایک صدی کے تجرے کی حامل کمپنی ہے جس نے ہوابازی اور خلائی تحقیق میں بے پناہ تعاون دکھا یا ہے وہ خلائی گاڑیاں بنانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے اور امریکی مداواری حصے کے اہم پارٹنر رہے ہیں جنہیں اپنے کام میں بہت مہارت حاصل ہے لیکن حالیہ خلائی تحقیق کے حوالے ایسا لگتا ہے بوئنگ کہ راستے میں جابجا رکاوٹیں حائل ہیں جب کہ اسپیس ایکس نہایت درستی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
بوئنگ کا جہاز اسٹارلائنر ناسا کے کمرشل خلائی عملے کے پروگرام (CCP) کا حصہ ہے جسے اوربیٹل وہکل (OTV) بھی کہا جاتا ہے۔ بوئنگ کا اسٹارلائنر اپالو خلائی جہاز کے ماڈیول یا اسپیس ایکس کے ڈریگن سے ذرا بڑا ہے جس میں سات خلاباز سماسکتے ہیں اسے کیپ کنارول خلائی لاؤنچ مرکز، کمپلیکس۔41 سے بھیجا گیا جب اٹلاس VN22 راکٹ کی مدد سے فائر کیا گیا تھا۔ مئی 2022 ء میں اس کی دوسری مدار کی ٹیسٹ فلائیٹ کی گئی۔ یہ چار عملے کے ارکان کے ساتھ 100 کلوگرام تک وزن مدار میں پہنچا سکتا ہے۔ اس کی لمبائی 503 میٹرز یا 16.5 فٹ اور قطر 4.56 میٹر یا 15 فٹ رکھا گیا ہے۔
2014 ء میں ناسا نے بوئنگ سے 4.2 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا تھا جب کہ اسی کام کے اسپیس ایکس کو ڈریگن بنانے اور اسے ترقی دینے کے لیے 2.6 بلین ڈالر ملے۔ فروری2025 ء تک بوئنگ کی کاوشیں اس کے بجٹ سے کم از کم دو بلین ڈالر تجاوز کرچکی ہے۔ بوئنگ اسٹارلائنر دوبارہ قابل استعمال خلائی جہاز کیپسول اور قابل خرچ سروس ماڈیول پر مشتمل ہے۔ 2017 ء میں اس کے آپریشنل ہونے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
اسٹارلائنر انتظامیہ اور انجنیئرنگ کے مسائل آڑے آتے رہے جس سے پروازویں تاخیر کا شکار ہوئیں۔ 20 دسمبر2019 ء کو پہلے عملے کے بنا مداروی خلائی ٹیسٹ کو جزوی ناکامی سے تعبیر کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں دوسرا آربیٹل فلائیٹ ٹیسٹ ہوا۔ جون 2024 ء میں پھر سے شروع کیے گئے انسانی عملے ٹیسٹ کے دوران خلائی اسٹیشن ISS تک ناسا کے خلابازوں کے پہنچنے پر اسٹار لائنر کے تھرسٹر نے خرابی دکھادی جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ زمینی جہاز کو اپنی واپسی پر انسانی جانوں کا خطرہ مول لینا ہوگا تو یہ بنا عملے کے زمین پر واپس اتارا گیا۔
خلاء میں طویل رہائش کے دوران رہنے کی وجہ سے زمین پر واپسی کے وقت خلابازوں کے پٹھے کم زور ہوجاتے اور ہڈیوں کے وزن میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے فریکچرز کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ دل اور خون کے گردشی نظام پر بھی تبدیلیاں اثرانداز ہوتی ہیں، جب کہ صحت کے دوسرے گمبھیر مسائل میں سرفہرست ’’چکن پاؤں‘‘ ہے، یہ اس تبدیلی کا نام ہے جس میں جگہ کی تنگی کے سبب ٹانگوں کے پٹھے سکڑ جاتے ہیں۔
اس کی اہم وجہ مہینوں تک پیدل نہ چلنا ہے، جس کے باعث خلابازوں کے پاؤں بچوں کے پیروں جیسے نرم ہوجاتے ہیں۔ دوسرے دیر تک بے وزنی کی حالت میں رہنے کی وجہ سے تاب کاری سے نمٹنا ہوتا ہے تو کینسر کے خطرات سر اٹھاتے ہیں۔ زمین پر واپسی کے بعد دونوں خلابازوں کو جانسن خلائی مرکز، ہیوسٹن لے جایا گیا، جہاں ان کے متعدد اہم طبی ٹیسٹ کیے گئے۔ دوبارہ زمین پر واپسی کے وقت بحالی صحت اور مطابقت کے لیے مختلف مراحل سے گزارا جاچکا ہے۔ اس طرح صحت کی مکمل بحالی اور صفر کشش ثقل میں عادی ہونے کے بعد زمین کے ماحول سے ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے۔ کشش ثقل کی کمی کے وجہ سے خلابازوں کی ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ بڑھتا ہے اور وہ متاثر ہوتی ہے، جس کی وجہ وہ زمین پر اترتے وقت قدرے لمبے محسوس کرتے ہیں۔ یہ دباؤ کمر میں درد، ریڑھ کی ہڈی میں تکالیف کا موجب بنتا ہے۔
نو ماہ سے زائد اس طویل اور تھکادینے والے سفر کے بعد بیری بوچ ولمور اور سنیتا ولیمز کو بڑی تشویش لاحق ہے، کیوں کہ ان کی بینائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ لمبے عرصے کے مشن میں خلابازوں پر صفر کشش ثقل آنکھوں کے گولے (Eyeballs) شکل میں تبدیلیاں پید ا کرسکتی ہے جو بینائی کے طویل المدتی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ زمینی ماحول میں واپسی پر اس ماحول سے مطابقت شروع ہوتی ہے اور چکر آتے، متلی ہوتی اور تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔ پٹھوں اور ہڈیوں کو پھر سے دوبارہ مضبوطی پانے کے لیے کئی ماہ تک فزیوتھراپی سے بھی گرنا پڑتا ہے۔
ان جسمانی مسائل کے ساتھ ہی خلاباز نفسیاتی مسائل سے بھی نمٹتے ہیں، کیوں کہ انہیں زمینی زندگی میں پھر سے زمینی ماحول کے مطابق خود کو تیار کرنا ہوتا ہے۔ اس مشن کی سب سے مشکل بات بقول خلابازوں کے یہ تھی کہ زمین پر موجود لوگوں کو بھی اس کے بارے میں درست آگاہی نہ تھی کہ ہم کب واپس آرہے ہیں؟ اس تجربے کو ایک ناقابل یقین سفر کہا جاسکتا ہے جو کہ ٹیم ورک ، باہمی پیار اور دوستی سے بھرپور ہے۔
سال بھر یا اس کے قریب دوری اور الگ تھلگ رہنے، خاندان، دوستوں اور دوسرے لوگوں سے بالکل لاتعلق رہنے سے ذہنی صحت متاثر ہوچکی ہوتی ہے۔ ناسا کے ماہرِنفسیات خلابازوں سے مل کر ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تاکہ انہیں جلد معمول کی زندگی میں واپس لایا جائے۔ اس طرح کے خلابازوں کے تجربات لمبے خلائی مشنز میں دیر تک قیام کرنے، جیسے کہ مریخ کے لیے منصوبہ بندی کے لیے نہایت مفیدو معاون ہوں گے۔ یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ صفر کشش ثقل میں توسیع سے انسانی جسم کس طرح کا ردعمل ظاہر کرے گا جو کہ دور بعید گہرے خلاء کی تلاش میں نہایت ضروری ہے۔
سونی ولمیز نے اپنے تحقیقی کام کی بدولت خلاء میں انسانی عزم اور سائنسی ترقی کی نئی سرحدوں کی راہیں ہموار کی ہیں، جنہوں نے نو ماہ سے زائد کے طویل آزمائشی مشن میں سبزیاں اور پودے اگانے کے متعدد تجربات کیے ہیں اور نئی جہتوں کو متعارف کروایا ہے۔ انہوں نے سلاد کے پتے اُگانے کے کام یاب تجربات کیے، ٹماٹر اور دیگر سبزیاں بھی اگا ڈالیں، جس سے کہ طویل سفر میں سہولیات فراہم ہوسکیں گی۔
ناسا کے ویجیٹبل پروڈکشن سسٹم (Veggie) پروجیکٹ کے تحت خلابازوں نے پودوں کی افزائش نسل کے لیے خاص روشنیوں اور محدود پانی کو مصنوعی کشش میں کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے، تجربات سے سیکھا ہے۔ ان تجربات کا حاصل ہے کہ خلائی ماحول میں بھی پودے نہ صرف افزائش پاتے ہیں بلکہ ان کی غذائیت اور ذائقہ بھی زمین جیسا ہوتا ہے اور اسے برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ بائیونیٹریشن خلاء میں خوراک کی تیاری اور پیداوار کو موثر بنانے کی ضرورت ہے جو چاند اور مریخ کی مہمات کے لیے اہمیت کے حامل ہوں گے۔
سنیتا اور ولمور کا خیال تھا کہ وہ محض 8 روزہ مشن پر خلائی اسٹیشن میں رہنے جارہے ہیں جب کہ بالکل غیرمتوقع طور پر انہیں 286 دن رہنا پڑا۔ یہ تمام خلابازوں کے لیے مضبوط اعصاب کا امتحان تھا۔ ایک معمر خاتون ہوتے ہوئے سونی نے نہ صرف اپنے جذبات قابومیں رکھے بلکہ ساتھی خلاباز بوچ کی بھی ہمت بندھاتی رہیں۔
صبرو برداشت اور خوداعتمادی کے صلے میں ان لیجنڈ خلابازوں نے اپنی زندگیاںمحفوظ رکھتے ہوئے خلاء میں ایک نئی تاریخ قائم کردی ہے جس کے لیے دونوں خلابازوں کو سلام! یہ مشن نہ صرف سائنسی سنگ میل ہے بلکہ یہ انسانی عزم، صبرواستقامت اور آج کی ٹیکنالوجی کی طاقت کو سامنے لاتا پیش کرتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خلائی اسٹیشن پر دونوں خلابازوں دونوں خلاباز زمین پر واپس خلابازوں کے خلابازوں کی خلابازوں کو خلائی جہاز اسپیس ایکس بوچ ولمور خلائی مشن کے طور پر ہیں جب کہ واپسی کے کی واپسی خلاء میں ناسا کے عملے کے ہوتی ہے کے ساتھ گیا تھا ہوتا ہے رہے ہیں کے بعد پھر سے طویل ا کے لیے
پڑھیں:
ایف بی آر کو بغیر اجازت و پیشگی اطلاع بینک اکاؤنٹس سے رقم ضبط کرنے کا اختیار دیدیا گیا
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 مئی 2025ء ) حکومت کی جانب سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بغیر اجازت و پیشگی اطلاع بینک اکاؤنٹس سے رقم ضبط کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایف بی آر نے ٹیکس دہندگان کوبغیر کسی پیشگی نوٹس کے ٹیکس کی رقم ریکور کرنے کیلئے بینک اکاؤنٹس سے رقوم نکالنے اور جائیداد ضبط کرنے کے اختیارات حاصل کرلیے ہیں، اس حوالے سے ٹیکس قوانین میں نئی ترامیم پر قانونی اور ٹیکس ماہرین نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ٹیکس دہندگان کے حقوق کیلئے خطرناک قرار دیدیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے جاری کردہ ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2025ء کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو عدالتوں سے فیصلے کے بعد کسی بھی ٹیکس دہندہ کے بینک اکاؤنٹس یا منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے ٹیکس کی فوری وصولی کا اختیار حاصل ہو گیا ہے اس کے لیے مزید کسی نوٹس کی ضرورت نہیں ہوگی، نئے آرڈیننس کے نفاذ کے بعد انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی دفعہ 138 کے تحت نوٹس جاری کیے بغیر ہی ایف بی آر ٹیکس کی ریکوری کرسکے گا، اس ترمیم کے ذریعے ایف بی آر کو کاروباری اداروں اور فیکٹریوں میں اپنے افسران تعینات کرنے، پیداوار، مال کی ترسیل اور غیر فروخت شدہ اسٹاک کی نگرانی کا بھی مکمل اختیار دے دیا گیا۔(جاری ہے)
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آرڈیننس کے اجراء کے فوری بعد ہی ایف بی آر نے عدالتوں سے منظور شدہ فیصلوں کی روشنی میں کمپنیوں کے خلاف ریکوری اور عملدرآمد کی کارروائیاں شروع کر دی ہیں، سب سے پہلے اس آرڈیننس کی زد میں ٹیلی کام سیکٹر کی ایک بڑی کمپنی کے آنے کا امکان ہے جس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اربوں روپے کا واجب الادا ٹیکس ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی، دوسری کمپنی جو اس کارروائی کی زد میں آسکتی ہے وہ ایک مشترکہ منصوبے پر مبنی ٹیلی کام کمپنی ہے جس نے عدالت کے حکم کے مطابق واجب الادا ٹیکس ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ بتایا جارہا ہے کہ ٹیکس قوانین ترمیمی آرڈیننس 2025ء میں متعارف کردہ ترامیم سے قانونی اور ٹیکس ماہرین شدید تشویش کا شکار ہیں کیوں کہ نئے آرڈیننس کے تحت ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ روایتی قانونی طریقہ کار کو نظرانداز کرتے ہوئے فوری طور پر ٹیکس وصولی کی کارروائیاں شروع کرسکے جسے ناقدین کی جانب سے ٹیکس دہندگان کے قانونی تحفظات اور شفافیت کے اصولوں کے منافی قرار دیا گیا۔