Express News:
2025-11-04@05:05:52 GMT

مختصرخلائی مشن جو غیرمعمولی طوالت اختیار کرگیا

اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT

ان دونوں خلابازوں کی ماہروسیع اور تجربہ کار جوڑی کے خلاء میں روانگی کے وقت کسی کو بھی قطعی اندازہ نہ تھا کہ ہفتے کے لیے مشن پر جانے والے ان خلابازوں کو وہاں 10ماہ کے قریب رکنا پڑسکتا ہے۔

ناسا کے اس خلائی سفر میں خلاباز بوچ ولمور اور بہادر خاتون سنیتا لِن ولیمز (سُونی) سفر میں شامل تھیں جو کہ جون 2024 ء کو شروع ہوا تھا اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن(ISS) پہنچا اور اب 18مارچ 2025 ء میں ایک طویل اور نہایت مشکل ترین اور اعصاب کو تھکادینے والے سفر سے اس کی واپسی ہوگئی ہے۔

اس مشن کے مسافر خلائی اسٹیشن میں گویا پھنسے ہوئے تھے۔ ان کی واپسی کو ایلون مسک کی خلائی کمپنی اسپیس۔ ایکس کے خلائی جہاز ڈریگن سے ممکن بنایا۔ وہ اب لمبے عرصے تک کشش ثقل میں رہنے کے بعد واپسی پر اپنی صحت کے حوالے سے نئے چیلینجوں کا سامنا کررہے ہیں۔

13مارچ 2025 ء کو دونوں خلابازوں کی گھر واپسی کے لیے اسپیس ایکس نے اعلان کردیا تھا، ایلون مسک کا کہنا ہے کہ میں نے ایک ماہ قبل ہی سابق صدر بائیڈن کے سامنے واپسی کی تجویز پیش کی تھی جسے نظرانداز کردیا گیا تھا اگر اس پر عمل کیا جاتا تو خلاء میں پھنسے خلابازوں کو پہلے ہی واپس لایا جاسکتا تھا۔

اسپیس ایکس کے ڈریگن کیپسول ان کی واپسی فلوریڈ ا کے قریبی خلیجی ساحلی علاقے تلہاسی (Tallahassee ) پر ہوئی جہاں وہ بحراوقیانوس پر بحفاظت اتر گیا اور طویل ذہنی اعصابی تھکان والے سفر اختتام پذیر ہوا۔ اس طرح ایک طویل ترین اور صبرآزما خلائی مشن کو جو محض 8 روز کے لیے رکھا گیا تھا حادثاتی طور پر طول پکڑتا چلا گیا جب دونوں خلابازوں کی جانیں بچانے اور باحفاظت زمین پر لانا ایک بہت بڑا چیلینج بن چکا تھا، کا اختتام بخیروخوبی ہوا۔

سنیتا اور ولمور اب خلاء میں طویل مدتی رہائش کے بعد زمین پر واپس بے وزنی کے اثرات سے نمٹنے میں مصروف ہیں جب کہ ناسا کے جانسن خلائی مرکز، ہوسٹن میں ان کے تفصیلی طبعی ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں۔ طویل عرصے کے خلائی مشن پر انسانی جسم پر سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں اب جب کہ دونوں خلابازوں نے زمینی ماحول سے بہت حد تک مطابقت پیدا کرلی ہے۔

غیرمعمولی عزم وہمت کا نشان بھارتی نژاد امریکی خاتون سنیتا ولیمز ناسا کی دوسری اہم ترین خاتون ہیں جن کا تعلق انڈیا سے ہے، یاد رہے کہ ان کی سنیئرخلاباز کلپنا چاؤلہ تھیں جو 41 سال کی عمر میں کولمبیا شٹل کے حادثے میں جاں بحق ہوگئی تھیں۔ سنیتا 19 ستمبر 1965 ء میں امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کو یو کِلڈمیں پیدا ہوئی ان کے والد دیپک پانڈیا انڈین گجراتی فزیشن تھے اور ان کی والدہ بونی پانڈیا کا تعلق سلووا کیا سے ہے اور وہ تین بہن بھائی ہیں، جے تھامن ان کے بڑے بھائی اور دینا آنند ان کی بڑی بہن ہیں جب کہ ان کے شوہر کا نام مائیکل جے ولیمز ہے۔

بحریہ کی سابق آفیسر سونی کا ناسا میں چناؤ 1998 میں خلاباز کے طور پر گروپ 17 میں ہوا تھا اور ان کی پہلی پرواز دسمبر 2006 ء میں انجام پائی۔ سنیتا امریکا کی طرف سے پیگی ویٹسن (675 دن) کے بعد خلا میں سب سے زیادہ وقت بتانے والی دوسری خاتون خلاباز قرار پائی ہیں۔ انہوں نے خلاء میں 608 دن، انیس منٹس گزارے ہیں جب کہ سب سے زیادہ خلائی چہل قدمیاں کی ہیں، نوخلائی چہل قدمیوں میں سنی نے 62 گھنٹے، چھے منٹ خلائی اسٹیشن کے باہر رہ کر صرف کیے۔

 مہمات: مشن: STS116 اور STS11۔ (ایکسپیڈیشنز:14 اور15) مشن: سوئیزTMA.

05 (ایکسپیڈیشنز:32 اور33 ) مشن بوئنگ ٹیسٹ فلائیٹ/ اسپیس ایکس ٹیسٹ فلائیٹ: (ایکسپیڈیشنز: 71 اور 72 )۔ سونی فلائیٹ انجنیئر کے طور پر دو بار آئی ایس ایس (خلائی اسٹیشن) کی کمانڈر بھی رہ چکی ہیں۔ سنیتا ولیمز کے ساتھی امریکی خلاباز بوچ ولمور ہیں جو امریکی بحریہ کے ٹیسٹ پائیلٹ رہے ہیں۔ 64 سالہ ولمور کی یہ دوسری خلائی پرواز تھی۔

ولمور خلائی اسٹیشن پر نومبر2009 ء میں اپنے پہلے مشن شٹل اٹلانٹسSTS-129 ، کے ذریعے گئے اور Soyuz-TMA-14M سے واپس پہنچے وہ گیارہ دن اسٹیشن پر خلاء میں رہے اور ایکسپیڈیشنز 41 اور 42 کے لیے تجربات کرتے رہے۔ وہ خلائی اسٹیشن پر اپنے دیگر پانچ خلابازوں کے ہمراہ پہنچے تھے۔ دوسری خلائی پرواز بوئنگ کی ٹیسٹ پرواز کے طور پر سنیتا کے ساتھ کی گئی تھی۔ سونی ولیمز، بوچ ولمور کے ساتھ نک ہیگ اور روسی خلاباز الیگزینڈر گوربونوف واپس آئے ہیں ان تمام نے خلائی اسٹیشن پر رہتے ہوئے دس ماہ کے قریب 1952 ملین کلومیٹرز کا فاصلہ طے کیا اور زمین کے اطراف تقریباً 4577 چکر مکمل کیے۔

آخر کار وہ کیا عوامل ہیں جن کے باعث ایک عام خلائی مشن ایک ایمرجینسی نوعیت کا مشن بن گیا تھا؟ دراصل دونوں خلاباز جس نئے آزمودہ خلائی جہاز کی آزمائشی پرواز کے لیے روانہ ہوئے تھے وہ بوئنگ ایرو اسپیس کمپنی کا ’’اسٹارلائنر‘‘ (CST-100)ہے۔ بدقسمتی سے اپنی ابتدا ہی سے جہاز میں تیکنیکی خرابیاں اور پیچیدہ مسائل پیدا ہوگئے، جس سے خلابازوں کے قیام کی طوالت میں اضافہ ہوتا گیا۔ بوئنگ کمپنی جو کہ ایک انتہائی تجربہ کار ایرواسپیس کمپنی ہے جو 15 جولائی 1916 ء میں سیٹل میں قائم کی گئی اس کے بانی ولیم ای بوئنگ تھے جو کہ امریکی ہوابازی کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔

پہلے اس کمپنی کا نام ’’پیسفک ایئرپلین ‘‘ تھا۔ اپنی حالیہ ناکامی پر بوئنگ ایرو کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے جب کہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ اسپیس ایکس خلائی فرم کو سخت ٹکر دینے جارہی ہے۔ متعدد بار اس کی ٹیسٹ فلائیٹ میں تاخیر ہوئی۔ اسپیس ایکس اور ایمزون کے جیف بیزوز کی کمپنی ’’بلیو اورجن‘‘ کے بعد بوئنگ ایک تیسری بڑی نجی خلائی قوت بننے جارہی ہے۔ خلائی شٹلز کے اختتام کے بعد عرصے تک امریکی خلابازوں کو خلاء میں پہنچانے کے انتظام روسی خلاباز سیویوز انجام دیتے رہے ہیں، تب ناسا نے پرائیویٹ کمپنیوں کو آزمانا شروع کردیا۔

یہ نجی خلائی کمپنیاں اپنے جہازوں کی مالک ہوتی ہیں۔ انہیں ناسا ایک صارف کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ پانچ سال پہلے ایلون مسک کی اسپیس ایکس نے خلاء میں امریکی ٹرانسپورٹ سروس کو پھر سے بحال کردیا ہے اور تب سے وہ متواتر خلائی اسٹیشن پر خلابازوں کی آمدورفت کام یاب اور قابل اعتماد ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ بوئنگ کے راکٹ میں ایندھن کے اخراج کے سبب خلانووردوں کی واپسی کا عمل کئی بار ملتوی کرنا پڑا۔ بوئنگ ایئراسپیس کمپنی ایک صدی کے تجرے کی حامل کمپنی ہے جس نے ہوابازی اور خلائی تحقیق میں بے پناہ تعاون دکھا یا ہے وہ خلائی گاڑیاں بنانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے اور امریکی مداواری حصے کے اہم پارٹنر رہے ہیں جنہیں اپنے کام میں بہت مہارت حاصل ہے لیکن حالیہ خلائی تحقیق کے حوالے ایسا لگتا ہے بوئنگ کہ راستے میں جابجا رکاوٹیں حائل ہیں جب کہ اسپیس ایکس نہایت درستی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

بوئنگ کا جہاز اسٹارلائنر ناسا کے کمرشل خلائی عملے کے پروگرام (CCP) کا حصہ ہے جسے اوربیٹل وہکل (OTV) بھی کہا جاتا ہے۔ بوئنگ کا اسٹارلائنر اپالو خلائی جہاز کے ماڈیول یا اسپیس ایکس کے ڈریگن سے ذرا بڑا ہے جس میں سات خلاباز سماسکتے ہیں اسے کیپ کنارول خلائی لاؤنچ مرکز، کمپلیکس۔41 سے بھیجا گیا جب اٹلاس VN22 راکٹ کی مدد سے فائر کیا گیا تھا۔ مئی 2022 ء میں اس کی دوسری مدار کی ٹیسٹ فلائیٹ کی گئی۔ یہ چار عملے کے ارکان کے ساتھ 100 کلوگرام تک وزن مدار میں پہنچا سکتا ہے۔ اس کی لمبائی 503 میٹرز یا 16.5 فٹ اور قطر 4.56 میٹر یا 15 فٹ رکھا گیا ہے۔

2014 ء میں ناسا نے بوئنگ سے 4.2 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا تھا جب کہ اسی کام کے اسپیس ایکس کو ڈریگن بنانے اور اسے ترقی دینے کے لیے 2.6 بلین ڈالر ملے۔ فروری2025 ء تک بوئنگ کی کاوشیں اس کے بجٹ سے کم از کم دو بلین ڈالر تجاوز کرچکی ہے۔ بوئنگ اسٹارلائنر دوبارہ قابل استعمال خلائی جہاز کیپسول اور قابل خرچ سروس ماڈیول پر مشتمل ہے۔ 2017 ء میں اس کے آپریشنل ہونے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

اسٹارلائنر انتظامیہ اور انجنیئرنگ کے مسائل آڑے آتے رہے جس سے پروازویں تاخیر کا شکار ہوئیں۔ 20 دسمبر2019 ء کو پہلے عملے کے بنا مداروی خلائی ٹیسٹ کو جزوی ناکامی سے تعبیر کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں دوسرا آربیٹل فلائیٹ ٹیسٹ ہوا۔ جون 2024 ء میں پھر سے شروع کیے گئے انسانی عملے ٹیسٹ کے دوران خلائی اسٹیشن ISS تک ناسا کے خلابازوں کے پہنچنے پر اسٹار لائنر کے تھرسٹر نے خرابی دکھادی جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ زمینی جہاز کو اپنی واپسی پر انسانی جانوں کا خطرہ مول لینا ہوگا تو یہ بنا عملے کے زمین پر واپس اتارا گیا۔

خلاء میں طویل رہائش کے دوران رہنے کی وجہ سے زمین پر واپسی کے وقت خلابازوں کے پٹھے کم زور ہوجاتے اور ہڈیوں کے وزن میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے فریکچرز کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ دل اور خون کے گردشی نظام پر بھی تبدیلیاں اثرانداز ہوتی ہیں، جب کہ صحت کے دوسرے گمبھیر مسائل میں سرفہرست ’’چکن پاؤں‘‘ ہے، یہ اس تبدیلی کا نام ہے جس میں جگہ کی تنگی کے سبب ٹانگوں کے پٹھے سکڑ جاتے ہیں۔

اس کی اہم وجہ مہینوں تک پیدل نہ چلنا ہے، جس کے باعث خلابازوں کے پاؤں بچوں کے پیروں جیسے نرم ہوجاتے ہیں۔ دوسرے دیر تک بے وزنی کی حالت میں رہنے کی وجہ سے تاب کاری سے نمٹنا ہوتا ہے تو کینسر کے خطرات سر اٹھاتے ہیں۔ زمین پر واپسی کے بعد دونوں خلابازوں کو جانسن خلائی مرکز، ہیوسٹن لے جایا گیا، جہاں ان کے متعدد اہم طبی ٹیسٹ کیے گئے۔ دوبارہ زمین پر واپسی کے وقت بحالی صحت اور مطابقت کے لیے مختلف مراحل سے گزارا جاچکا ہے۔ اس طرح صحت کی مکمل بحالی اور صفر کشش ثقل میں عادی ہونے کے بعد زمین کے ماحول سے ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے۔ کشش ثقل کی کمی کے وجہ سے خلابازوں کی ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ بڑھتا ہے اور وہ متاثر ہوتی ہے، جس کی وجہ وہ زمین پر اترتے وقت قدرے لمبے محسوس کرتے ہیں۔ یہ دباؤ کمر میں درد، ریڑھ کی ہڈی میں تکالیف کا موجب بنتا ہے۔

نو ماہ سے زائد اس طویل اور تھکادینے والے سفر کے بعد بیری بوچ ولمور اور سنیتا ولیمز کو بڑی تشویش لاحق ہے، کیوں کہ ان کی بینائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ لمبے عرصے کے مشن میں خلابازوں پر صفر کشش ثقل آنکھوں کے گولے (Eyeballs) شکل میں تبدیلیاں پید ا کرسکتی ہے جو بینائی کے طویل المدتی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ زمینی ماحول میں واپسی پر اس ماحول سے مطابقت شروع ہوتی ہے اور چکر آتے، متلی ہوتی اور تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔ پٹھوں اور ہڈیوں کو پھر سے دوبارہ مضبوطی پانے کے لیے کئی ماہ تک فزیوتھراپی سے بھی گرنا پڑتا ہے۔

ان جسمانی مسائل کے ساتھ ہی خلاباز نفسیاتی مسائل سے بھی نمٹتے ہیں، کیوں کہ انہیں زمینی زندگی میں پھر سے زمینی ماحول کے مطابق خود کو تیار کرنا ہوتا ہے۔ اس مشن کی سب سے مشکل بات بقول خلابازوں کے یہ تھی کہ زمین پر موجود لوگوں کو بھی اس کے بارے میں درست آگاہی نہ تھی کہ ہم کب واپس آرہے ہیں؟ اس تجربے کو ایک ناقابل یقین سفر کہا جاسکتا ہے جو کہ ٹیم ورک ، باہمی پیار اور دوستی سے بھرپور ہے۔

سال بھر یا اس کے قریب دوری اور الگ تھلگ رہنے، خاندان، دوستوں اور دوسرے لوگوں سے بالکل لاتعلق رہنے سے ذہنی صحت متاثر ہوچکی ہوتی ہے۔ ناسا کے ماہرِنفسیات خلابازوں سے مل کر ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تاکہ انہیں جلد معمول کی زندگی میں واپس لایا جائے۔ اس طرح کے خلابازوں کے تجربات لمبے خلائی مشنز میں دیر تک قیام کرنے، جیسے کہ مریخ کے لیے منصوبہ بندی کے لیے نہایت مفیدو معاون ہوں گے۔ یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ صفر کشش ثقل میں توسیع سے انسانی جسم کس طرح کا ردعمل ظاہر کرے گا جو کہ دور بعید گہرے خلاء کی تلاش میں نہایت ضروری ہے۔

سونی ولمیز نے اپنے تحقیقی کام کی بدولت خلاء میں انسانی عزم اور سائنسی ترقی کی نئی سرحدوں کی راہیں ہموار کی ہیں، جنہوں نے نو ماہ سے زائد کے طویل آزمائشی مشن میں سبزیاں اور پودے اگانے کے متعدد تجربات کیے ہیں اور نئی جہتوں کو متعارف کروایا ہے۔ انہوں نے سلاد کے پتے اُگانے کے کام یاب تجربات کیے، ٹماٹر اور دیگر سبزیاں بھی اگا ڈالیں، جس سے کہ طویل سفر میں سہولیات فراہم ہوسکیں گی۔

ناسا کے ویجیٹبل پروڈکشن سسٹم (Veggie) پروجیکٹ کے تحت خلابازوں نے پودوں کی افزائش نسل کے لیے خاص روشنیوں اور محدود پانی کو مصنوعی کشش میں کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے، تجربات سے سیکھا ہے۔ ان تجربات کا حاصل ہے کہ خلائی ماحول میں بھی پودے نہ صرف افزائش پاتے ہیں بلکہ ان کی غذائیت اور ذائقہ بھی زمین جیسا ہوتا ہے اور اسے برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ بائیونیٹریشن خلاء میں خوراک کی تیاری اور پیداوار کو موثر بنانے کی ضرورت ہے جو چاند اور مریخ کی مہمات کے لیے اہمیت کے حامل ہوں گے۔

سنیتا اور ولمور کا خیال تھا کہ وہ محض 8 روزہ مشن پر خلائی اسٹیشن میں رہنے جارہے ہیں جب کہ بالکل غیرمتوقع طور پر انہیں 286 دن رہنا پڑا۔ یہ تمام خلابازوں کے لیے مضبوط اعصاب کا امتحان تھا۔ ایک معمر خاتون ہوتے ہوئے سونی نے نہ صرف اپنے جذبات قابومیں رکھے بلکہ ساتھی خلاباز بوچ کی بھی ہمت بندھاتی رہیں۔

صبرو برداشت اور خوداعتمادی کے صلے میں ان لیجنڈ خلابازوں نے اپنی زندگیاںمحفوظ رکھتے ہوئے خلاء میں ایک نئی تاریخ قائم کردی ہے جس کے لیے دونوں خلابازوں کو سلام! یہ مشن نہ صرف سائنسی سنگ میل ہے بلکہ یہ انسانی عزم، صبرواستقامت اور آج کی ٹیکنالوجی کی طاقت کو سامنے لاتا پیش کرتا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خلائی اسٹیشن پر دونوں خلابازوں دونوں خلاباز زمین پر واپس خلابازوں کے خلابازوں کی خلابازوں کو خلائی جہاز اسپیس ایکس بوچ ولمور خلائی مشن کے طور پر ہیں جب کہ واپسی کے کی واپسی خلاء میں ناسا کے عملے کے ہوتی ہے کے ساتھ گیا تھا ہوتا ہے رہے ہیں کے بعد پھر سے طویل ا کے لیے

پڑھیں:

کشمیر:بے اختیار عوامی حکومت کے ایک سال

افتخار گیلانی

لگتا ہے کہ کشمیر میں تاریخ کا پہیہ گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتا ہے ۔ اقتدار کی کرسی پر کوئی بھی بیٹھے ، اختیارات ہمیشہ کہیں اور سمٹ جاتے ہیں۔کبھی بندوق برداروں کا خوف تھا، آج لیفٹیننٹ گورنر کی انتظامیہ، خفیہ ایجنسیاں اور ہندو قوم پرستوں کے نیٹ ورک نے وہی کردار سنبھال لیا ہے ۔عام لوگوں کے لیے جینے ، بولنے اور سوچنے کی جگہ تنگ تر ہوتی جا رہی ہے ۔ایسے میں جب گزشتہ سال اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوا تو عوام میں ایک نئی امید جاگی۔لوگوں کو لگا کہ شاید اب ایک عوامی حکومت قائم ہوگی جو کم از کم سانس لینے کی گنجائش فراہم کرے گی۔ان انتخابات میں، بالکل 1996 کی طرح، نیشنل کانفرنس کو سبقت حاصل ہوئی۔ نوے رکنی اسمبلی میں اس نے 42 نشستیں جیتیں۔ اس کی اتحادی کانگریس کو چھ سیٹوں پر کامیابی ملی۔ وادی کشمیر کی 47 میں سے 35 نشستیں نیشنل کانفرنس نے جیتیں جبکہ جموں کی 43 میں سے سات نشستیں حاصل کیں۔ بی جے پی جموں خطے میں 29 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بنی۔ان نتائج نے ایک طرف دہلی کو راحت دی کہ کوئی علیحدگی پسند یا مزاحمتی جماعت اقتدار میں نہیں آئی، مگر دوسری طرف کشمیری عوام کے لیے یہ ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھی گئی جہاں وہ اپنی انفرادیت، آبادیاتی شناخت اور کھوئی ہوئی خودمختاری کے احساس کو دوبارہ بحال کر سکتے تھے ۔مگر ایک سال گزرنے کے بعد وہ تمام امیدیں دھندلی پڑ چکی ہیں۔ عمر عبداللہ کی قیادت میں بننے والی حکومت کے پاس اقتدار تو ہے ، مگر اختیار نہیں۔ 16 اکتوبر 2024 کو جب انہوں نے وزیراعلیٰ کے طور پر حلف لیا تو یہ تصور تھا کہ دہائی بھر کی نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی کے بعد اب ایک جمہوری دور کا آغاز ہوگا۔ بہت سے لوگ اسے نئی صبح کہہ رہے تھے ۔لیکن آج، ایک سال بعد، وہی لوگ اعتراف کر رہے ہیں کہ شاید کشمیر کی تاریخ میں یہ سب سے بے اختیار حکومت ہے ۔ خود سرینگر سے نیشنل کانفرنس کے ممبر پارلیامنٹ آغا سید روح اللہ مہدی اس کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔
سینئر صحافی مسعود حسین لکھتے ہیں کہ عمر عبداللہ نے ہچکچاتے ہوئے انتخابی دوڑ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان پر طنز بھی کیا گیا؛’نہ نہ کرتے ہاں کر دی’۔ اب جب ایک سال گزر گیا ہے تو وہ جموں و کشمیر کے سب سے کمزور وزرائے اعلیٰ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ ایک ‘آئینی مجسمہ’ ہیں، جن کے اردگرد طاقت کے سارے بٹن کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔اصل مسئلہ ڈھانچے کا ہے ۔ یونین ٹیریٹری کے نظام میں لیفٹیننٹ گورنر اعلیٰ ترین انتظامی اتھارٹی ہے ۔ وہ افسران کی سالانہ خفیہ رپورٹیں لکھتا ہے ۔ تمام بڑے فیصلوں کے لیے اس کی منظوری ضروری ہے ۔ بیوروکریسی عملاً اس کے سامنے جوابدہ ہے ، نہ کہ منتخب وزیراعلیٰ کے سامنے ۔ افسران جانتے ہیں کہ ان کے تبادلے ، ترقی اور مراعات کا دارومدار راج بھوان پر ہے ، اس لیے وہ سیاسی قیادت کے احکامات کو ترجیح نہیں دیتے ۔ کئی بار وزیراعلیٰ دفتر سے جاری احکامات بھی محض فائلوں میں دب جاتے ہیں۔عبداللہ کی مشکلات دہلی کی عام آدمی پارٹی کے ان برسوں کی یاد دلاتی ہیں جب وہ خدمات پر کنٹرول کے لیے لڑ رہی تھی۔ اروند کیجریوال کے ایک معاون نے راقم کو بتایا کہ وہ اکثر میٹنگز بلانے سے ‘ڈرتے ‘ تھے کیونکہ انہیں یقین نہیں تھا کہ افسران آئیں گے ۔’لہٰذا، شرمندگی سے بچنے کے لیے ، ہم نے میٹنگز بلانا بند کر دیا۔’ اگرچہ 2023 میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے دہلی میں اختیارات کو واضح کیا، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
ایک ایسی ہی صورتحال اب سرینگر کو پریشان کر رہی ہے ۔ یونین ٹیریٹری کے نظام میں، لیفٹیننٹ گورنر افسران کے سالانہ خفیہ رپورٹس لکھتا ہے ۔ منتخب ایگزیکٹو کی بات ماننے کی ترغیب کمزور ہے ، اور لاپرواہی عیاں ہے ۔جب نیشنل کانفرنس نے گزشتہ سال کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، تو بہت سے لوگوں نے اسے ایک جیت کی صورتحال سمجھا۔کشمیر کے لوگوں کے لیے ، اس کا مطلب تھا کچھ جوابدہی اور سانس لینے کی جگہ بحال کرنے کا موقع۔ مرکز کے لیے ، اس سے ایک ایسی پارٹی کی واپسی یقینی ہوئی جو تحمل اور ریڈ لاینز کراس کرنے سے گریز کرتی ہے۔’عبداللہ خاندان سے کبھی توقع نہیں کی گئی کہ وہ دہلی کے کیجریوال کی طرح یا محبوبہ مفتی کی طرح سرخ لکیروں کو پار کریں گے ،’ ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار نے کہا۔پھر بھی، اس خیر سگالی سے کچھ خاص حاصل نہیں ہوا۔ مرکزی قیادت کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے کے باوجود، عبداللہ کی انتظامیہ کو کوئی خاص رعایت نہیں ملینہ ریاستی حیثیت کی بحالی میں اور نہ ہی بیوروکریٹک سختی کو کم کرنے میں۔یہاں تک کہ علامتی اقدامات، جیسے کہ وزیراعلیٰ کو سرکاری سکیورٹی جائزوں کی صدارت کرنے یا سینئر تقرریاں کرنے کی اجازت دینا، اب بھی رکے ہوئے ہیں۔ نجی گفتگوؤں اور عبداللہ کے حالیہ ریمارکس میں، جن میں ‘ایک ایسی حکومت جو بغیر اختیار کے حکمرانی کرتی ہے ‘ کا اشارہ دیا گیا، مایوسی اب واضح ہے ۔کوئی روایتی کابینہ نہیں ہے ۔ عبداللہ اور ان کے وزراء ایک مشاورتی کونسل کے طور پر کام کرتے ہیں، جس کے فیصلوں کو راج بھوان سے باضابطہ منظوری درکار ہوتی ہے ۔ عبداللہ نے تسلیم کیا کہ مارچ 2025 تک لیے گئے بہت سے ‘کابینہ’ فیصلے ابھی تک منظوری کے منتظر ہیں۔
ایک سینئر بیوروکریٹ نے نجی گفتگو میں کہا،’یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں وزیراعلیٰ کے دستخط کا وزن کم اور نئی دہلی کے نمائندے لیفٹنٹ گورنر کی خاموشی کا اثر زیادہ ہے’ ۔عمر عبداللہ کے اقتدار کا پہلا سال اسی توازن کی تلاش میں گزرا ہے ، مگر نتیجہ وہی صفر رہا۔ کئی بار اجلاس بلانے کے بعد افسران شریک نہیں ہوئے ۔ وزیراعلیٰ دفتر کو خود خط لکھنے پڑے کہ متعلقہ سکریٹری کیوں غیر حاضر ہیں۔مارچ 2025 تک کابینہ نے جو فیصلے کیے ، ان میں سے متعدد آج تک راج بھوان کی منظوری کے منتظر ہیں۔ حکومت کی مشاورتی کونسل کو ایک طرح سے ‘عارضی کابینہ’ بنا کر رکھا گیا ہے ، جس کے فیصلے نافذ نہیں ہو سکتے جب تک لیفٹیننٹ گورنر مہر نہ لگائے ۔ یہ وہی تاثر ہے جسے عمر عبداللہ خود بھی کئی بار اشاروں کنایوں میں ظاہر کر چکے ہیں۔ انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا، ‘ہم فیصلہ کرتے ہیں مگر عملدرآمد کا اختیار نہیں’۔یہی نہیں، عبداللہ اپنے قریبی مشیر ناصر اسلم وانی کو باضابطہ تعینات نہیں کر سکے ۔ ایڈووکیٹ جنرل، جسے وزیراعلیٰ نے رہنے کے لیے قائل کیا تھا، راج بھوان کی زبانی ہدایت پر واپس نہیں آیا۔ حتیٰ کہ عبداللہ کو پیرس کے ایک سرکاری دورے کو مختصر کرنا پڑا کیونکہ کلیئرنس نہیں ملی۔ دہلی کے ایک عہدیدار نے بعد میں تبصرہ کیا کہ ‘جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ کی حیثیت اب کسی ریاستی وزیر سے زیادہ نہیں رہی۔’
اقتدار کے دھارے کہاں ہیں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امن و امان، پولیس، اینٹی کرپشن بیورو، آئی اے ایس افسران کی تقرریاں، حتیٰ کہ معمول کی انتظامی تبدیلیاں بھی راج بھون کے کنٹرول میں ہیں۔ وزارت داخلہ نے پولیس فورس کا پورا مالی بوجھ اپنے بجٹ میں منتقل کر دیا ہے ۔ بیوروکریٹس کے لیے راج بھون حکم ہے اور وزیراعلیٰ محض مشورہ۔
جموں و کشمیر اسٹیٹ پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن، جو ایک منافع بخش ادارہ ہے ، اب بھی بیوروکریٹس کے زیر کنٹرول ہے ۔ آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز اکیڈمی، جو کبھی کشمیری شناخت کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب وزارت سے باہر ہے ۔ ایس کے آئی ایم ایس جیسے اہم ادارے میں بھی ڈائریکٹر وزیراعلیٰ کو نہیں بلکہ براہ راست ایل جی کو رپورٹ کرتا ہے ۔اردو، جو کبھی واحد سرکاری زبان تھی، انگریزی کے دباؤ میں آچکی ہے۔ عبداللہ نے وعدہ کیا تھا کہ سو دن میں کلچر پالیسی لاگو کریں گے ، مگر وہ فائل اب بھی راج بھون کے پاس پڑی ہے ۔یہ وہی تصویر ہے جسے کئی لوگ ‘جمہوری فریب’ کہتے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جو موجود ہے ، مگر فیصلہ سازی کے قابل نہیں۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی بیان دیا کہ نیشنل کانفرنس ایک رسمی حکومت بننے کے خطرے میں ہے جو علامت تو ہے مگر جوہر نہیں۔ مرکز کے ساتھ نرمی اور تعلقات کی سیاست نے بھی کوئی فائدہ نہیں دیا۔ عمر عبداللہ نے ہمیشہ ٹکراؤ سے بچنے کی پالیسی اپنائی۔ انہوں نے نہ محبوبہ مفتی کی طرح احتجاج کیا، نہ کیجریوال کی طرح عدالتی لڑائیاں لڑیں۔ مگر دہلی نے اس شائستگی کو کمزوری سمجھا۔ ریاستی درجہ کی بحالی پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔کئی مواقع پر عمر عبداللہ کو سرکاری تقریبات میں نظرانداز کیا گیا۔ 13 جولائی کو انہیں شہداء کے قبرستان جانے کی اجازت نہیں دی گئی، وہ اگلے دن اکیلے گئے ۔ مرکزی وزراء کے ساتھ دوروں میں وہ پیچھے کھڑے دکھائی دیے ۔
ایک ویڈیو میں بی جے پی کے لیڈر اور اپوزیشن لیڈر سنیل شرما افسران کو بریفنگ دیتے دکھائی دیے ، جو عام طور پر وزیراعلیٰ کا کام ہوتا ہے ۔ نائب وزیراعلیٰ کو بھی سکیورٹی اور سفر کے مسائل کا سامنا رہا۔ یہ سب مظاہر اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ عمر عبداللہ حکومت محض برائے نام ہے ۔پہاڑی بولنے والے طبقے کو شیڈولڈ ٹرائب میں شامل کرنے سے ریزرویشن کا توازن بگڑ گیا ہے ۔ اب تقریباً 70 فیصد سرکاری نوکریاں مخصوص کیٹیگریز کے لیے مختص ہیں۔ اوپن میرٹ سکڑ گیا ہے اور نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے ۔جون 2025 میں پیش کی گئی وزارتی سب کمیٹی کی رپورٹ پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ حکومت کے اہداف میں 1120 جے کے پی ایس سی تقرریاں، 5853 ایس ایس بی سلیکشنز اور 75 ہمدردی کی بنیاد پر ملازمتیں شامل تھیں، مگر ان میں پیش رفت معمولی ہے ۔
سیب کی فصل کے دوران جب قومی شاہراہ تین ہفتے بند رہی، ہزاروں ٹرک پھنس گئے ۔ سیب سڑ گئے اور معیشت کو ہزاروں کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ عبداللہ نے کہا کہ اگر اختیار ان کے پاس ہوتا تو وہ ایک دن میں سڑک کھول دیتے ۔ مگر یہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔پھر بھی کچھ مثبت اقدامات ہوئے ۔ حکومت نے نجی اسکولوں سے مشاورت کے بعد 2019 سے پہلے کا تعلیمی کیلنڈر بحال کیا۔ سرکاری بسوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئیں۔ غریب لڑکیوں کی شادی امداد بڑھا کر 70 ہزار روپے کر دی گئی۔ خاندان کے اندر زمین کی منتقلی پر اسٹامپ ڈیوٹی ختم کر دی گئی۔ اس سے رجسٹریشن کی آمدنی بڑھی۔اسی طرح مقامی چھوٹے کاروباروں کے لیے 30 فیصد سرکاری خریداری مختص کرنے کی پالیسی زیر غور ہے ، جس میں خواتین اور پسماندہ طبقے کے اداروں کو ترجیح دی جا رہی ہے ۔ لیکن یہ سب اقدامات اسی احساس کے سائے میں ہیں کہ وزیراعلیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ریاستی درجہ کی بحالی پر عمر عبداللہ کا موقف واضح ہے ، مگر عملی پیش رفت نہیں۔ وہ بارہا کہتے رہے کہ یہ ان کا مین انتخابی وعدہ تھا، مگر دہلی نے اب تک کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا۔
سابق مالیاتی افسران کے مطابق، حکومت نے ری آرگنائزیشن ایکٹ کی شق 83(1) استعمال کرنے کا موقع گنوا دیا جس کے تحت مرکز سے ٹیکسوں میں حصہ مانگا جا سکتا تھا۔ یہ سیاسی طور پر ایک مضبوط اشارہ ہوتا مگر حکومت نے خاموشی اختیار کی۔جی ایس ٹی کے نظام نے ریاستی مالی آزادی مزید محدود کر دی ہے ۔ اب زیادہ تر ترقیاتی اسکیمیں مرکزی فنڈز سے چلتی ہیں۔ بجٹ دراصل دہلی کی توسیع بن گیا ہے ۔ عبدﷲ حکومت کا مالی دائرہ اختیار اتنا محدود ہے کہ وہ اپنے منصوبے آزادانہ طور پر طے نہیں کر سکتی۔یہ سب حالات مل کر اس احساس کو جنم دیتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں جمہوریت محض ایک چہرہ ہے ، جس کے پیچھے مکمل انتظامی کنٹرول مرکز کے ہاتھ میں ہے ۔ اس نئے نظام میں وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ مشورہ دے سکتی ہے ، مگر فیصلہ نہیں۔ راج بھون حکم دیتا ہے ، مگر جوابدہی سے آزاد ہے ۔عمر عبداللہ کا سیاسی طرز ہمیشہ شائستگی اور دلیل پر مبنی رہا ہے ۔ مگر یہ طرزِ سیاست ایک ایسے سخت بیوروکریٹک نظام کے سامنے ناکام دکھائی دیتا ہے جہاں نرم لہجہ کمزوری سمجھا جاتا ہے ۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ انہیں زیادہ جارحانہ رویہ اپنانا چاہیے تھا، ورنہ دہلی انہیں محض نمائشی چہرے کے طور پر استعمال کرتی رہے گی۔پچھلے ایک سال میں عوامی سطح پر مایوسی بڑھ گئی ہے ۔ جو لوگ ووٹ ڈالنے نکلے تھے وہ اب کہہ رہے ہیں کہ شاید مرکز نے انتخابات کروا کر دنیا کو صرف یہ دکھانا چاہا کہ کشمیر میں جمہوریت بحال ہو گئی ہے ، حالانکہ عملی طور پر کچھ نہیں بدلا۔نیشنل کانفرنس کے کارکن خود اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے لیڈر کے پاس فیصلے کرنے کی طاقت نہیں۔ ‘ہم نے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے مستقبل کے فیصلے خود لیں گے ، مگر اب فیصلے وہی لوگ کر رہے ہیں جنہیں ووٹ نہیں ملا’۔جموں و کشمیر کی سیاست ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے ۔ نیشنل کانفرنس، جو دہلی اور سرینگر کے درمیان پل سمجھی جاتی تھی، اب دونوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے ۔ دہلی کے لیے وہ قابلِ قبول ہے مگر مفید نہیں، اور وادی کے عوام کے لیے افادیت کھو رہی ہے ۔عمر عبداللہ حکومت کا پہلا سال ایک ایسی مثال بن چکا ہے جو 2019 کے بعد کے انتظامی نظام کی تمام خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے ۔ حکومت کے پاس آئینی جواز تو ہے ، مگر اثر و رسوخ نہیں۔ گورنر کا دفتر کمانڈ رکھتا ہے مگر جوابدہی نہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جس نے عوامی اعتماد کو مزید کمزور کر دیا ہے ۔عبداللہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ‘کئی ایسے شعبے ہیں جہاں منتخب نمائندوں کو فیصلہ کرنا چاہیے ، لیکن ہم ابھی تک اس اختیار کے منتظر ہیں’۔ان کا یہ جملہ دراصل پورے سال کی داستان ہے ۔
کشمیر کے عوام، جنہوں نے گھٹن بھرے پانچ سالوں کے بعد ووٹ ڈالا، آج ایک بار پھر اسی سوال کے ساتھ کھڑے ہیں کہ جمہوریت آخر کہاں ہے ؟ اگر منتخب وزیراعلیٰ بھی محض دستخط کرنے والا رہ گیا ہے تو اس نظام کو جمہوری کہنے کا مطلب کیا ہے ؟عمر عبداللہ کی حکومت ایک امید کے طور پر شروع ہوئی تھی مگر اب وہ ایک علامت بن گئی ہے ایسی علامت جو بتاتی ہے کہ جموں و کشمیر میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ مرکز کی بیوروکریسی کے شکنجے میں ہے ۔ جمہوریت کا چہرہ زندہ ہے مگر روح خالی ہے ۔ اور یہی اس حکومت کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔یہ وہ کشمیر ہے جہاں عوام کو وعدے تو بار بار ملتے ہیں، مگر اختیار کبھی نہیں۔ جہاں ووٹ ڈالنے کے بعد بھی فیصلہ وہی کرتا ہے جو سرینگر میں نہیں،
دہلی میں بیٹھا ہے ۔ اور یوں لگتا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر وہیں لوٹ آئی ہے جہاں اقتدار تھا مگر اختیار نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • پی آئی اے انتظامیہ اور ایئرکرافٹ انجینئرز کے درمیان تنازع شدت اختیار کرگیا، پروازیں متاثر
  • روس، چین تعلقات میں پیش رفت: توانائی، ٹیکنالوجی اور خلائی تعاون کے متعدد معاہدے
  • بین السیاراتی پراسرار دمدار ستارہ اٹلس تھری آئی ’غیر ارضی خلائی جہاز‘ ہوسکتا ہے، ایلون مسک
  • بھارتی تاریخ کا سب سے وزنی ترین مواصلاتی سیٹلائٹ خلا کیلئے روانہ
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع
  • کشمیر:بے اختیار عوامی حکومت کے ایک سال
  • چین، شینزو 21 کا خلاءبازعملہ کامیابی کے ساتھ تھیان گونگ خلائی اسٹیشن میں داخل ہو گیا
  • تنزانیہ میں الیکشن تنازع شدت اختیار کرگیا، مظاہروں میں 700 افراد ہلاک
  • چین کا نیا خلائی مشن شین ژو 21 روانہ
  • چین نے اپنا سب سے کم عمر خلا باز چینی خلائی اسٹیشن پر بھیج دیا