UrduPoint:
2025-08-04@16:19:47 GMT

شہروں میں بڑھتے ہوئے رہائشی مسائل اور غیر محفوظ تعمیرات

اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT

شہروں میں بڑھتے ہوئے رہائشی مسائل اور غیر محفوظ تعمیرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اگست 2025ء) حال ہی میں کراچی کے علاقے لیاری میں ایک عمارت منہدم ہونے کی وجہ سے 27 انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور کئی زخمی بھی ہوئے۔ لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی بھی ملبے تلے دب گئی۔ پاکستان میں کسی عمارت کے گرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ملک کی نو کروڑ سے زیادہ غریب آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسے ہی کچی آبادیوں میں رہتا ہے، جہاں نہ صاف پانی کی دستیابی ہے، نہ نکاسی آب کا موثر انتظام ہے۔

گلیاں اتنی تنگ و تاریک ہیں کہ ایمرجنسی کی صورت میں نہ کوئی ایمبولنس وہاں داخل ہو سکتی ہے اور عمارتوں کے گرنے جیسے حادثات کی صورت میں کسی بھاری مشینری کو بھی وہاں نہیں پہنچایا جا سکتا۔

(جاری ہے)

لوگوں کو روزگار، تعلیم، علاج ومعالجے، پینے کا صاف پانی اور رہائش فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ملک میں صورت حال مختلف ہے، جہاں حکومت عوام پر دھڑا دھڑ ٹیکس نافذ کر رہی ہے لیکن جب شہریوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی ذمہ داری کی بات آتی ہے، تو ریاست اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے۔

لیاری کراچی کی پہلی بستی نہیں ہے، جہاں بڑے پیمانے پر اس طرح کی عمارتیں قائم ہیں۔ حکام کے مطابق شہر کے اس قدیم علاقے میں ہی 51 کے قریب ایسی اور عمارتیں ہیں، جن کے گرنے کے خطرات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کھارادر، میٹھا در، آگرہ تاج کالونی، ہزارہ کالونی، کورنگی کا بنگالی پاڑا، مچھر کالونی، اورنگی ٹاؤن، گلبہار، گولیمار اور نیو کراچی سمیت کئی علاقوں میں ایسی کچی آبادیاں ہیں، جہاں پر غیر قانونی طور پر 120 گز، 80 گز اور 200 گز کے رقبے پر اچھی خاصی اونچی عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔

اسی طرح لاہور، پشاور اور ملک کے کچھ دیگر علاقوں میں بھی کچی آبادیوں میں اجازت کے بغیر دوسری یا تیسری منزلیں بنا دی گئی ہیں لیکن کراچی میں تو اس حوالے سے حد ہی کر دی گئی ہے، جہاں نہ صرف یہ کہ شہر کے پوش علاقوں میں کئی بلند و بالا عمارات ہیں بلکہ ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد جیسے مڈل کلاس علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پہ بلند و بالا عمارات کھڑی کر دی گئی ہیں۔

ایسے میں خدانخواستہ اگر شہر میں زلزلہ آتا ہے تو کسی کو کوئی اندازہ نہیں کیا حشر ہوگا کیونکہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ عمارتیں کھڑی کرنے سے پہلے حکام نے اس بات کا سروے بھی کیا تھا کہ یہ زمین تعمیر کے لیے موزوں ہے بھی یا نہیں۔ حکام کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ آج بھی اگر آپ کسی پائپ لائن کی مرمت کے لیے کوئی گڑھا کھو دیں یا اپنا گھر تعمیر کرنے کے لیے کھڑے ہوں، آنا فانا وہاں پولیس کی موبائل نمودار ہو کر آپ سے بھتہ طلب کرنا شروع کر دیتی ہے۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان عمارتوں کے تعمیر کے وقت حکام نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔

ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں زمین کی تقسیم انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ ایک طرف بڑے جاگیرداروں کے پاس لاکھوں ایکڑز زمین ہے جبکہ 35 فیصد کسانوں کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں۔ شہری علاقوں میں ایک طرف اشرافیہ کے لوگوں کے پاس کئی فارم ہاؤسز، بنگلے اور محلات نما گھر ہیں، تو دوسری طرف عوام کی اکثریت کو تین مرلے کا اپنا گھر میسر نہیں۔

کسی زمانے میں ہاؤس بلڈنگ فنائنس کارپوریشن نے کم آمدنی والے افراد کو اپنا گھر بنانے میں بڑا اہم کردارادا کیا تھا۔ یہ کارپوریشن پیشگی ادائیگی کا ایک بڑا حصہ گھر بنانے والے کو ادا کرتی تھی۔ تاہم اب یہ ادائیگی انتہائی محدود کر دی گئی ہے، جو تقریبا نجی بینکوں کے ہی برابر ہے۔ ماضی میں کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف اسلام آباد نے بھی کئی ایسی رہائشی اسکیمیں شروع کیں جو متوسط طبقے اور کم آمدنی والے افراد کے لیے انتہائی مناسب تھی۔

لیکن 1980 کی دہائی میں جہاں معیشت کے مختلف شعبوں میں ڈی ریگولیشن کی گئی وہیں، ہاؤسنگ سیکٹر میں بھی یہ ڈی ریگولیشن دیکھنے میں آئی۔ افغان جنگ کے دوران کالے دھن کا ایک بڑا حصہ ریئل اسٹیٹ میں سرایت کر گیا اور کچھ ہی عشروں میں ایک بڑی تعداد میں نجی ہاؤسنگ اسکیموں نے کام شروع کر دیا، جن میں سے ایک بڑی تعداد نے لوگوں کے ساتھ فراڈ بھی کیا۔

اس فراڈ کے پیش نظر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ جس کچے پکے علاقے میں وہ رہ رہے ہیں وہیں پر وہ کسی غیر محفوظ عمارت میں سکونت اختیار کر لیں۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف اکنامک ڈیویلپمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں 287 پلاٹس کے لیے دوہزار سے زائد فائلیں فروخت کی گئیں۔ ملک کی کئی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز اسی طرح فائلیں بیچ کر اربوں روپیہ کماتی رہیں اور آخر میں لوگوں کا پیسہ لے کر بھاگ گئیں۔

آج بھی ہزاروں کی تعداد میں ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیز ہیں، جنہوں نے لوگوں سے پورا پیسہ وصول کرنے کے باوجود دس، پندرہ یا بیس سال یا کچھ معاملات میں 30 سال گزرنے کے باوجود ان کو ان کے پلاٹس پر قبضہ نہیں دیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فائل کلچر پر موثر پابندی لگائے، جن ہاؤسنگ سوسائٹیز نے عوام سے پوری رقم لے لی ہے ان کو مجبور کیا جائے کہ انہیں وہ فوری طور پر گھر تعمیر کرنے کے لیے قبضہ دیں۔

سرکار خود کم آمدنی والی ہاؤسنگ اسکیمیں متعارف کرائے۔ زمین کی ملکیت کی حد مقرر کرے اور اس بات کی اجازت بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ ایک شخص کے پاس 200 پلاٹس یا پانچ سو پلاٹس ہوں اور دوسری طرف لاکھوں لوگوں کے پاس زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو۔ تمام بلند و بالا عمارات کا نہ صرف سلامتی کے حوالے سے سروے کرایا جائے بلکہ اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ کسی زلزلے یا قدرتی آفت کی صورت میں وہ انسانی جان و مال کے لیے خطرہ تو ثابت نہیں ہوں گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے علاقوں میں نہیں ہے کا ایک کے لیے کے پاس

پڑھیں:

حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب، جماعت اسلامی کا مارچ ختم کرنے کا اعلان

حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب، جماعت اسلامی کا مارچ ختم کرنے کا اعلان WhatsAppFacebookTwitter 0 1 August, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)جماعت اسلامی اور وفاقی حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے پرحق دو تحریک کے لانگ مارچ کو ختم کرنے، بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوگیا۔
وفاقی دارالحکومت میں مسلم لیگی رہنماوں کے ہمراہ جماعت اسلامی کے اراکین نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران لانگ مارچ کو لاہور میں ہی ختم کرنے کر دیا ، لیگی رہنما رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ بلوچستان کے عوام کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے ایک کمیٹی بنائی جا رہی ہے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جماعت اسلامی کی وفد سے ملاقات میں 8 مطالبات پر بات ہوئی ہے، دونوں فریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے، جس کے مطابق وزیر اعظم سے مشاورت کے بعد ایک کمیٹی تشلیل دیں گے، کمیٹی میں وفاقی و بلوچستان حکومت، صوبائی اپوزیشن جماعتیں، حق دو تحریک کے اراکین اور صوبے میں امن و امان کے لیے قربانیاں دینے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ کمیٹی بلوچستان کے عوام کے ان تمام مسائل اور مشکلات کی نہ صرف نشاندہی کرے گی بلکہ اس پر قابل عمل تجاویز بھی مرتب کرے جس پر عمل کر کے صوبے کے مسائل کو حل ممکن ہو سکے گا، حکومت پاکستان بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے، وزیر اعظم شہباز شریف چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کے مسائل کا حل نکالا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا دل ہے، وہاں کے عوام محب وطن ہیں، پاکستان کا مستقبل بلوچستان سے ہے، کسی صورت بھی صوبے میں حالات کو خراب نہیں ہونے دیا جائے گا، بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے، تاہم بلوچستان کی ترقی صوبے میں امن سے مشروط ہے۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا امن، عوام اور وہاں کے نمائندوں کی شراکت کے بغیر ممکن نہیں، وہ شرپسند عناصر جو معصوم شہریوں کو شہید کرتے ہیں اور لوگوں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ چیک کر کے شہید کرتے ہیں، ان عناصر کے لیے بلوچستان کے عوام پاکستان کے عوام اور حکومت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔وزیر اعظم کے مشیر نے مزید کہا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو دشمن کی ایما پر پاکستان کیخلاف برسر پیکار ہیں، ان بیرونی دشمنوں کا مقابلہ بلوچستان کیعوام کو ساتھ ملا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ 25 جولائی کو اپنے 8 نکاتی مطالبات کے ساتھ گوادر سے روانہ ہوئے، ہم اپنی بات، دکھ اور درد کو یہاں پہنچانے آئے ہیں، بلوچستان کے عوام کو درپیش مسائل، حکومت کے سامنے پیش کرنا چاہ رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے مطالبات وفاقی حکومت کے سامنے رکھے ہیں، ہماری حکومت کے ساتھ مفاہمت ہوئی ہے، ہم امن چاہتے ہیں، فساد نہیں چاہتے، ریاست کے قانون کے تحت جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنان ہیں اور ان قوتوں کے ساتھ نہیں ہیں جو غیر جمہوری رویہ اختیار کرتے ہیں۔سربراہ حق دو تحریک نے مزید کہا کہ امید ہے جو کمیٹی بنائی جا رہی ہے اس حوالے سے اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا اور صوبے کے مسائل کو حل کیا جائے گا،لاہور میں جاری دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم اسلام آباد نہیں آرہے ہیں۔
دوسری جانب جماعت اسلامی کے سینئر رہنما لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ ہر چیز کا اختتام مذاکرات پر ہوتا ہے، اس لانگ مارچ نے پوری قوم کو پیغام دیا ہیکہ بلوچستان کے عوام محب وطن، ریاست کی حفاظت، اپنے صوبے میں آئین، قانون، جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت چاہتے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرالتجا کرتے ہیں فیصلہ ساز ہمارے ساتھ بیٹھیں، ہم ملک کے خیر خواہ ہیں: جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی التجا کرتے ہیں فیصلہ ساز ہمارے ساتھ بیٹھیں، ہم ملک کے خیر خواہ ہیں: جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی عمران خان کے بیٹوں نے ویزا کیلئے درخواست نہیں دی: پاکستانی ہائی کمیشن اپوزیشن کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، آل پارٹیز کانفرنس اختتام پذیررہنمائوں کی پریس کانفرنس عمران خان کے دونوں بیٹے کب پاکستان آئیں گے؟ علیمہ خان نے بتا دیا نواز شریف وفاق اور پنجاب کے بعض وزرا اور مشیروں کی کارکردگی سے ناخوش، تبدیلیوں کا امکان صدر مملکت کی وزیراعلی بلوچستان کو امن و امان بہتر بنانے کی ہدایت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • ایوان میں نعرے لگانے سے نہیں بات چیت سے مسائل حل ہوں گے، وزیر قانون کی اپوزیشن کو پیش کش
  • پی ٹی آئی کے 5 اگست احتجاج پر پیپلز پارٹی کا ردعمل سامنے آگیا
  • کراچی کے مسائل کا حل کیسے ممکن ہے؟ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے نسخہ بتادیا
  • بھارت بھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم پر حکومت کی خاموشی ناقابل قبول ہے، الکا لامبا
  • عمران خان کے بیٹوں کو پاکستان میں گرفتار نہیں کیا جائے گا: طلال چودھری
  • گھر جب غیر محفوظ ہوجائے
  • علی امین گورننس کے مسائل حل کرنے اور امن قائم کرنے میں ناکام ہیں تو استعفیٰ دے دیں، عمران خان
  • مسائل کو جنگ، تشدد اور طاقت سے ہرگز حل نہیں کیا جا سکتا، میر واعظ
  • حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب، جماعت اسلامی کا مارچ ختم کرنے کا اعلان