اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اظہار تشویش، پاکستان و بھارت پر سفارتی حل اپنانے پر زور
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوجی تصادم سے گریز کریں اور مسئلے کے حل کے لیے سفارتی راستہ اپنائیں ترجمان کے مطابق پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرہ اجلاس منعقد ہوا جس میں خطے کی بگڑتی سکیورٹی صورتحال بھارتی اشتعال انگیزی اور 23 اپریل کی بھارتی کارروائیوں پر غور کیا گیا اجلاس میں کئی ارکان نے مسئلہ کشمیر کو جنوبی ایشیا میں کشیدگی کی بنیادی وجہ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے پاکستانی مندوب نے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بھارت کی یکطرفہ اور اشتعال انگیز کارروائیوں کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کیا اور انٹیلیجنس اطلاعات کی روشنی میں بھارت کی ممکنہ عسکری کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ اجلاس میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگز کا بھی ذکر کیا گیا ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھارت کی خطرناک چال ہے دریاؤں کا بہاؤ روکنا یا موڑنا کھلی جارحیت کے مترادف ہوگا، جس پر اقوام متحدہ کے ارکان نے بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ ترجمان کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل سے ثالثی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر مؤثر کردار ادا کرے دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور جارحیت کی صورت میں اقوام متحدہ چارٹر کے تحت ہر ممکن اقدام کا حق رکھتا ہے ترجمان نے بھارت کی جانب سے پہلگام حملے سے متعلق الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے الزام تراشی ناقابل قبول ہے اور ایسے الزامات کا مقصد کشمیری عوام کی جدوجہد کو بدنام کرنا ہے
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
غزہ: اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے 62 فلسطینی شہید، زیادہ تر امداد کے متلاشی تھے
اسرائیلی فوج کی تازہ کارروائیوں میں ہفتے کی صبح سے اب تک کم از کم 62 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت اُن افراد کی ہے جو امدادی سامان کے حصول کے لیے متنازعہ مراکز پر جمع ہوئے تھے۔
اسپتال ذرائع کے مطابق، 38 فلسطینی ان مقامات پر شہید ہوئے جہاں امریکا اور اسرائیل کی حمایت یافتہ تنظیم ’غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن‘ (GHF) امداد تقسیم کر رہی ہے۔
یہ ہلاکتیں ایسے وقت میں ہوئیں جب اسرائیل نے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ وہ بعض علاقوں میں ’فوجی کارروائیوں میں عارضی وقفے‘ دے گا تاکہ شہریوں کو امداد حاصل کرنے میں آسانی ہو۔ تاہم، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے جمعے کو بتایا کہ بدھ اور جمعرات کو ہی خوراک حاصل کرنے کے لیے آنے والے 105 فلسطینی مارے گئے۔
یہ بھی پڑھیے غزہ میں نسل کشی کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں، ٹرمپ کی قریبی اتحادی بھی اسرائیل کیخلاف بول پڑیں
اقوام متحدہ کے مطابق، اکتوبر 2023 سے جاری جنگ کے دوران اب تک کم از کم 1,373 فلسطینی امداد کے حصول کے دوران شہید کیے جا چکے ہیں، جبکہ 169 افراد، جن میں 93 بچے شامل ہیں، بھوک اور غذائی قلت سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
امریکی سیکیورٹی اہلکار بھی فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہے ہیںفلسطینی شہریوں نے الزام لگایا ہے کہ امدادی مراکز کے قریب اسرائیلی فوج اور امریکی سیکیورٹی اہلکار جان بوجھ کر امداد کے متلاشیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید کے بعد اسرائیل نے اردن، متحدہ عرب امارات، مصر، اسپین، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک کو فضائی امداد کی اجازت دی ہے، مگر اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ ناکافی ہے اور زمینی راستوں سے آزادانہ امداد کی فراہمی ناگزیر ہے۔
غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق، ہفتے کو صرف 36 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے، جب کہ روزانہ کم از کم 600 ٹرکوں کی ضرورت ہے۔
فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی کے صدر دفتر پر اسرائیلی حملہدوسری طرف خان یونس میں فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی کے صدر دفتر پر اسرائیلی حملے میں ایک ملازم شہید اور 3 زخمی ہو گئے۔ سوسائٹی کے مطابق، یہ حملہ دفتر کی عمارت میں آگ لگنے کا باعث بھی بنا۔
عرب ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘ کی نامہ نگار ہند خضری نے دیئر البلح سے بتایا کہ امداد کی موجودہ صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ میں نسل کشی پر خاموش رہنے والا شریکِ جرم ہے، ترک صدر رجب طیب ایردوان
’بازاروں میں خوراک نایاب ہے، جو کچھ بھی دستیاب ہے وہ بے حد مہنگا ہے، اور لوگ اب بھی اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر کچھ بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
اسرائیل اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی کو کیوں کمزور کرنا چاہتا ہے؟اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی UNRWA کے سربراہ فلیپ لازارینی نے کہا کہ غزہ میں قحط کی صورتحال سیاسی وجوہات پر مبنی امدادی نظام کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا:
’اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی کو کمزور کرنے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ امداد مسلح گروہوں تک نہ پہنچے، بلکہ یہ اجتماعی دباؤ اور سزا دینے کی ایک کوشش ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے: فلسطینیوں کی نسل کشی میں کونسی کمپنیاں ملوث ہیں؟ اقوام متحدہ نے فہرست جاری کردی
علاوہ ازیں یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت قحط کی حد پار کر چکی ہے، اور 3 لاکھ 20 ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
یونیسف کے نائب ایگزیکٹو ڈائریکٹر ٹیڈ چیبان نے کہا ’ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں کیے گئے فیصلے یہ طے کریں گے کہ ہزاروں بچے زندہ رہیں گے یا مر جائیں گے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیلی جارحیت غزہ