پروفیسرخورشید احمد ..اہل کشمیر کے پشتیبان وامت کے پاسباں
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
پروفیسر صاحب کے تعزیتی ریفرنس کے موقع پر ڈاکٹر شیری مزاری نے بچا طور پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ آئی پی ایس نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جس قدر کام کیا ہے اتنا پاکستان کے سارے ادارے اور سکالرز بھی مل کر نہ کر سکے جہاں ایک طرف اس مسئلے سے وابستہ جماعت کی اکائیاں اور ادارے ان سے رہنمائی لیتے تھے وہیں تمام سٹیک ہولڈرز ال پارٹیز حریت کانفرنس ہو مجاہدین کونسل ہو یا کشمیر کے دیگر قائدین ہوں کشمیر کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے والے سکالرز ہوں یا حکومت کے پالیسی ساز ادارے ہوں پارلیمنٹ ہو یا وزارت خارجہ ہو ہر محاذ پر ان کی رہنمائی سے استفادہ کا عمل بلا تعطل جاری رہا علاوہ ازیں سینٹ اور پارلیمنٹ میں دو دہائیاں بھرپور نمائندگی کی پاکستان کے ہر مسئلے پر جہاں سینٹ میں انہوں نے قائدانہ کردار ادا کیا وہیں مسئلہ کشمیر پر بھی انہیں اتھارٹی سمجھا جاتا تھا اور ان سے رہنمائی لی جاتی تھی
90 کی دہائی کے آغاز میں جب یہ تحریک ایک انقلاب کے طور پر اٹھی اور بھارتی مظالم سے ستائے ہوئے ہزاروں نوجوان سیز فائر لائن کراس کرتے ہوئے بیس کیمپ میں وارد ہوئے تو ان کی اہل پاکستان اور ریاست پاکستان سے بڑی توقعات تھیں لیکن بدقسمتی سے اس وقت بھی پاکستان میں سیاسی محاذ ارائی عروج پر تھی اور مختلف جماعتوں اور اداروں میں ایک بے اعتمادی کی کیفیت تھی ضیاء الحق شہید اور ان سے وابستہ سینیئر ٹیم ممبران جو اس تحریک کے خدوخال سے آگاہ تھے ایک حادثے کی نظر ہو گئے جس کے نتیجے میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا اور پالیسی سازی میں بھی تعطل پیدا ہوا ان حالات میں اس امر کی اشد ضرورت محسوس ہوئی کہ ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ایک بڑی مہم کا اہتمام کیا جائے چنانچہ قاضی حسین احمد صاحب مرحوم رحمت اللہ علیہ اور پروفیسر خورشید صاحب مرحوم رحمت اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ہماری بھرپور سرپرستی کی اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی تحریکوں کو اس کاز کا پشتیبان بنانے میں اہم کردار ادا کیا پروفیسر صاحب مرحوم مولانا مودودی مرحوم ؒ کے دور ہی سے عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں سے روابط استوار کرنے کے ذمہ دار تھے چنانچہ اس مرحلے پر بین الاقوامی اسلامی تحریکوں اور اداروں جن کے ساتھ ان کے ذاتی مراسم اور تعلقات تھے کو متحرک کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا ان کی تجویز پر طے پایا کہ قاضی حسین احمد مرحوم کی قیادت میں ایک کل جماعتی پارلیمانی وفد مسلم دنیا کا دورہ کر ے اور وہاں کے حکمرانوں اور اہل دانش کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی جدوجہد کو اجاگر کرے چنانچہ ایک کل جماعتی وفد(جس کے ایک ممبر کے طور مجھے بھی شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا) نے کئی ہفتوں کا ترکی اور تمام خلیجی ممالک کا دورہ کیا گیا جس میں حزب اقتدار وحزب اختلاف سمیت ممبران پارلیمنٹ ذرائع ابلاغ اہل دانش اور علماء کرام سے تفصیلی نشستیں ہوئیں جن میں مسئلہ کشمیر کے پس منظر اہل کشمیر کی جدوجہد اوران پر روارکھے جانے والے بھارتی مظالم اور اس اہم مسئلہ کے حل کے حوالے سے امت مسلمہ کی ذمہ داریوں پر تفصیلی بریفننگ دی گئی جس کے بے پناہ مثبت اثرات مرتب ہوئے اس دورے کے موقع پر اندازہ ہوا کہ پروفیسر صاحب مرحوم کے علمی مقام اور رتبے کا مسلم دنیا میں بے پناہ احترام موجود ہے ملاقات کے موقع پر ترکی کے صدر جناب ترکت اوزل نے فرمایا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ پروفیسر خورشید صاحب جن کی کتابوں سے ہم مستفید ہوتے تھے آج ملاقات کی سعادت حاصل کر رہے ہیں جناب قاضی حسین احمد صاحب مرحوم اور پروفیسر صاحب مرحوم کا مسلم دنیا میں بے پناہ احترام تھا اور علمی حلقوں میں تمام مسلم دنیا میں پروفیسر صاحب ایک جانی پہچانی شخصیت تھے ۔
اسلامی معیشت اور بلا سود بینکاری کے معمار کی حیثیت سے پوری دنیا میں وہ اپنی ایک پہچان رکھتے تھے اور ان خدمات کے نتیجے میں وہ شاہ فیصل ایوارڈسمیت کئی بین الاقوامی سطح کے اعزازات بھی حاصل کر چکے تھے اس پس منظر میں مسلم دنیا کے اہل دانش اور تھنک ٹینکس ان سے ملنا اور ان سے مستفید ہونا اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے اسی دورے کے موقع پر ترکی ہی میں اہل دانش کی ایک مجلس میں انہوں نے ے مسئلہ کشمیر اور امت کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے امت کی وحدت اور اہل دانش کی ذمہ داریوں کا احاطہ کیانیز ترکی کو مغرب کی دم بننے کی بجاے تاریخی پس منظر میں مسلم دنیا کی قیادت کا فریضہ سر انجام دینے پر متوجہ کیا جس پر شرکا نے ان کی تحسین کرتے ہوئے ان کابے پناہ شکریہ ادا کیا یہ مجلس ڈاکٹر پروفیسر نجم الدین اربکان کی صدارت میں منعقد ہوئی جس کے میزبان موجودہ صدر طیب اردگان تھے جو اس وقت رفاہ پارٹی استنبول کے سربراہ تھے اس دورے میں جو رائے عامہ منظم ہوئی اسی کے نتیجے میں طویل عرصے کے بعد پہلی مرتبہ 1990 ء میں قائرہ میں منعقد ہونے والے او ائی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ایک جامع قرارداد منظور ہوئی یوں بین الاقوامی محاذسمیت تمام محازوں پر ریاست پاکستان اور اس کے ادارے اس تحریک کے پشتیبان اور ترجمان بنے جس کے نتیجے میں بھارت مزاحمت کے جملہِ محاذوں پر سخت دباؤ کا شکار اور مجاہدین سے جنگ بندی کی پیشکش کرنے اور حز ب المجاہدین سے مذاکرات پر مجبور ہوا بدقسمتی سے اس سارے عرصے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا عمل جاری رہا جس کے نتیجے میں مسئلہ کے حل کے حوالے سے دستیاب مواقع سے استفادہ نہ کیا جاسکا اسی عرصے میں جمہوریت کا نظام پٹڑی سے اتر گیا اور فوجی حکومت قائم ہوئی جس نے دہشت گردی کے نام پر ایک جنگ اپنے ذمہ لے لی جس کے بے پناہ مضر اثرات مرتب ہوئے اور ریاست پاکستان جس انداز سے اس تحریک کی پشت بانی کر رہی تھی حالات کے دباؤ کی وجہ سے پسپا ہو گئی اور اپنے بنیادی موقف سے انحراف کرتے ہوئے مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی شکل میں مبہم اور گنجلک حل پیش کیے گئے۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین الاقوامی پروفیسر صاحب کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کے موقع پر کرتے ہوئے مسلم دنیا دنیا میں اہل دانش کشمیر کے کے حل کے ادا کیا بے پناہ اور ان
پڑھیں:
علامہ حافظ ریاض حسین نجفی کا سینیٹر ساجد میر کے انتقال پر افسوس کا اظہار
صدر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کا کہنا ہے کہ مرحوم تمام مکاتب فکر کے ہاں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، پروفیسر ساجد میر نے مدارس دینیہ کے اتحاد، ملی یکجہتی کونسل کی تشکیل اور متحدہ مجلس عمل کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کیا، ان کے انتقال سے یقینی طور پر مسلک اہل حدیث کا بہت نقصان ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ ریاض حسین نجفی نے مرکزی جمعیت اہلحدیث اور وفاق المدارس السلفیہ کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین اور تنظیمی ساتھیوں سے اظہار تعزیت کیا ہے۔ اپنے تعزیتی مراسلے میں انہوں نے کہا کہ پروفیسر ساجد میر کی ملی تعلیمی سماجی اور سیاسی خدمات عیاں ہیں۔ انہوں نے مدارس دینیہ کے اتحاد، ملی یکجہتی کونسل کی تشکیل اور متحدہ مجلس عمل کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کے انتقال سے یقینی طور پرمسلک اہلحدیث کا بہت نقصان ہوا اور دینی طبقے خاص طور پر مسلک اہل حدیث میں ایک خلا پیدا ہوا ہے۔ وہ تمام مکاتب فکر کے ہاں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ سیاست اور تعلیم و تربیت کے میدان میں بھی پروفیسر ساجد میر کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہم ان کی مغفرت کیلئے دعا گو ہیں، وہ ایک تاریخ تھے۔ ہم مسلک اہلحدیث کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔