پروفیسرخورشید احمد ..اہل کشمیر کے پشتیبان وامت کے پاسباں
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
پروفیسر صاحب کے تعزیتی ریفرنس کے موقع پر ڈاکٹر شیری مزاری نے بچا طور پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ آئی پی ایس نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جس قدر کام کیا ہے اتنا پاکستان کے سارے ادارے اور سکالرز بھی مل کر نہ کر سکے جہاں ایک طرف اس مسئلے سے وابستہ جماعت کی اکائیاں اور ادارے ان سے رہنمائی لیتے تھے وہیں تمام سٹیک ہولڈرز ال پارٹیز حریت کانفرنس ہو مجاہدین کونسل ہو یا کشمیر کے دیگر قائدین ہوں کشمیر کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے والے سکالرز ہوں یا حکومت کے پالیسی ساز ادارے ہوں پارلیمنٹ ہو یا وزارت خارجہ ہو ہر محاذ پر ان کی رہنمائی سے استفادہ کا عمل بلا تعطل جاری رہا علاوہ ازیں سینٹ اور پارلیمنٹ میں دو دہائیاں بھرپور نمائندگی کی پاکستان کے ہر مسئلے پر جہاں سینٹ میں انہوں نے قائدانہ کردار ادا کیا وہیں مسئلہ کشمیر پر بھی انہیں اتھارٹی سمجھا جاتا تھا اور ان سے رہنمائی لی جاتی تھی
90 کی دہائی کے آغاز میں جب یہ تحریک ایک انقلاب کے طور پر اٹھی اور بھارتی مظالم سے ستائے ہوئے ہزاروں نوجوان سیز فائر لائن کراس کرتے ہوئے بیس کیمپ میں وارد ہوئے تو ان کی اہل پاکستان اور ریاست پاکستان سے بڑی توقعات تھیں لیکن بدقسمتی سے اس وقت بھی پاکستان میں سیاسی محاذ ارائی عروج پر تھی اور مختلف جماعتوں اور اداروں میں ایک بے اعتمادی کی کیفیت تھی ضیاء الحق شہید اور ان سے وابستہ سینیئر ٹیم ممبران جو اس تحریک کے خدوخال سے آگاہ تھے ایک حادثے کی نظر ہو گئے جس کے نتیجے میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا اور پالیسی سازی میں بھی تعطل پیدا ہوا ان حالات میں اس امر کی اشد ضرورت محسوس ہوئی کہ ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ایک بڑی مہم کا اہتمام کیا جائے چنانچہ قاضی حسین احمد صاحب مرحوم رحمت اللہ علیہ اور پروفیسر خورشید صاحب مرحوم رحمت اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ہماری بھرپور سرپرستی کی اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی تحریکوں کو اس کاز کا پشتیبان بنانے میں اہم کردار ادا کیا پروفیسر صاحب مرحوم مولانا مودودی مرحوم ؒ کے دور ہی سے عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں سے روابط استوار کرنے کے ذمہ دار تھے چنانچہ اس مرحلے پر بین الاقوامی اسلامی تحریکوں اور اداروں جن کے ساتھ ان کے ذاتی مراسم اور تعلقات تھے کو متحرک کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا ان کی تجویز پر طے پایا کہ قاضی حسین احمد مرحوم کی قیادت میں ایک کل جماعتی پارلیمانی وفد مسلم دنیا کا دورہ کر ے اور وہاں کے حکمرانوں اور اہل دانش کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی جدوجہد کو اجاگر کرے چنانچہ ایک کل جماعتی وفد(جس کے ایک ممبر کے طور مجھے بھی شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا) نے کئی ہفتوں کا ترکی اور تمام خلیجی ممالک کا دورہ کیا گیا جس میں حزب اقتدار وحزب اختلاف سمیت ممبران پارلیمنٹ ذرائع ابلاغ اہل دانش اور علماء کرام سے تفصیلی نشستیں ہوئیں جن میں مسئلہ کشمیر کے پس منظر اہل کشمیر کی جدوجہد اوران پر روارکھے جانے والے بھارتی مظالم اور اس اہم مسئلہ کے حل کے حوالے سے امت مسلمہ کی ذمہ داریوں پر تفصیلی بریفننگ دی گئی جس کے بے پناہ مثبت اثرات مرتب ہوئے اس دورے کے موقع پر اندازہ ہوا کہ پروفیسر صاحب مرحوم کے علمی مقام اور رتبے کا مسلم دنیا میں بے پناہ احترام موجود ہے ملاقات کے موقع پر ترکی کے صدر جناب ترکت اوزل نے فرمایا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ پروفیسر خورشید صاحب جن کی کتابوں سے ہم مستفید ہوتے تھے آج ملاقات کی سعادت حاصل کر رہے ہیں جناب قاضی حسین احمد صاحب مرحوم اور پروفیسر صاحب مرحوم کا مسلم دنیا میں بے پناہ احترام تھا اور علمی حلقوں میں تمام مسلم دنیا میں پروفیسر صاحب ایک جانی پہچانی شخصیت تھے ۔
اسلامی معیشت اور بلا سود بینکاری کے معمار کی حیثیت سے پوری دنیا میں وہ اپنی ایک پہچان رکھتے تھے اور ان خدمات کے نتیجے میں وہ شاہ فیصل ایوارڈسمیت کئی بین الاقوامی سطح کے اعزازات بھی حاصل کر چکے تھے اس پس منظر میں مسلم دنیا کے اہل دانش اور تھنک ٹینکس ان سے ملنا اور ان سے مستفید ہونا اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے اسی دورے کے موقع پر ترکی ہی میں اہل دانش کی ایک مجلس میں انہوں نے ے مسئلہ کشمیر اور امت کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے امت کی وحدت اور اہل دانش کی ذمہ داریوں کا احاطہ کیانیز ترکی کو مغرب کی دم بننے کی بجاے تاریخی پس منظر میں مسلم دنیا کی قیادت کا فریضہ سر انجام دینے پر متوجہ کیا جس پر شرکا نے ان کی تحسین کرتے ہوئے ان کابے پناہ شکریہ ادا کیا یہ مجلس ڈاکٹر پروفیسر نجم الدین اربکان کی صدارت میں منعقد ہوئی جس کے میزبان موجودہ صدر طیب اردگان تھے جو اس وقت رفاہ پارٹی استنبول کے سربراہ تھے اس دورے میں جو رائے عامہ منظم ہوئی اسی کے نتیجے میں طویل عرصے کے بعد پہلی مرتبہ 1990 ء میں قائرہ میں منعقد ہونے والے او ائی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ایک جامع قرارداد منظور ہوئی یوں بین الاقوامی محاذسمیت تمام محازوں پر ریاست پاکستان اور اس کے ادارے اس تحریک کے پشتیبان اور ترجمان بنے جس کے نتیجے میں بھارت مزاحمت کے جملہِ محاذوں پر سخت دباؤ کا شکار اور مجاہدین سے جنگ بندی کی پیشکش کرنے اور حز ب المجاہدین سے مذاکرات پر مجبور ہوا بدقسمتی سے اس سارے عرصے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا عمل جاری رہا جس کے نتیجے میں مسئلہ کے حل کے حوالے سے دستیاب مواقع سے استفادہ نہ کیا جاسکا اسی عرصے میں جمہوریت کا نظام پٹڑی سے اتر گیا اور فوجی حکومت قائم ہوئی جس نے دہشت گردی کے نام پر ایک جنگ اپنے ذمہ لے لی جس کے بے پناہ مضر اثرات مرتب ہوئے اور ریاست پاکستان جس انداز سے اس تحریک کی پشت بانی کر رہی تھی حالات کے دباؤ کی وجہ سے پسپا ہو گئی اور اپنے بنیادی موقف سے انحراف کرتے ہوئے مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی شکل میں مبہم اور گنجلک حل پیش کیے گئے۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین الاقوامی پروفیسر صاحب کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کے موقع پر کرتے ہوئے مسلم دنیا دنیا میں اہل دانش کشمیر کے کے حل کے ادا کیا بے پناہ اور ان
پڑھیں:
ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔ادب کی ہمہ گیر شخصیت
انورسدید
(اردو کے معروف ادیب اور ممتاز نقاد کی تاریخ وفات(3 ؍اگست 2013ء) کی مناسبت سے)
ـ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں احمد زین الدین مدیر روشنائی کو فون کیا تو دوسری طرف سے لرزتی ہوئی غم زدہ آواز آئی انور سدید! ہم سب کے دوست ڈاکٹر فرمان فتح پوری وفات پا گئے ۔۔یہ خبر بڑی المناک تھی۔ سن کر دل زور سے دھڑکا اور پھر یوں محسوس ہوا کہ میرا دل آہ و زاری کر رہا ہے ۔ خون کے آنسو بہارہا ہے میں فون پر زین سے سے بات نہ کرسکا۔ آنکھوں کے سامنے کسی ادبی تقریب کی وہ تصویر پھرنے لگی جس میں فرمان فتح پوری اگلی نشست پر بیٹھے تھے لیکن نحیف و نزار نظر آرہے تھے ۔ ضعیفِ عمر ان کے چہرے سے عیاں تھا۔ میں نے اسی روز شام کو فون پر ان سے ملاقات کی تو آواز بڑی توانا محسوس ہوئی، ذہنی طور پر بھی کسی قسم کی کمزوری کا احساس نہ ہوا۔ میں نے مسرت کا اظہار کیا تو افسردہ لہجے میں بولے ….ع
دوا اور دعا پر زندہ ہوں
لیکن آج دوائیں غیر موثر اور دعائیں قبولیت سے محروم ہوگئی تھیں۔ اردو ادب کی محفل سے وہ شخص اٹھ کر چلا گیا جو ممتاز نقاد تھا،اعلیٰ محقق تھا، لسانیات کا ماہر اور لفاظ کے لغوی معانی کے علاوہ مجازی مفاہیم کا بھی شناسا تھا ۔ انہوں نے ادب کے مختلف موضوعات پر منفرد انداز میں کتابیں تالیف کی۔ رسالہ نگار کی ادارت کے علاوہ ہر سال نیاز فتح پوری یادگاری لیکچروں کا سلسلہ جاری رکھا اور کراچی یونیورسٹی میں سینکڑوں طالب علموں کو اردو ادب کی تعلیم دی ان کے ذوق و شوق کو سنوارا۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات نویسی میں راہنمائی کی اور معاشرے کے ہزاروں لوگوں کو اپنے بے پایاں خلوص اور ایثار سے نوازا۔ بلاشبہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو ادب کے رشتوں کو خون کے رشتوں پر فوقیت دیتے ہیں اور نسبتیں قائم رکھتے ہیں۔3اگست2013 کو ان کی وفات اردو ادب اور معاشرے کیلئے ایک عظیم سانحہ تھا۔ انہوں نے اس جہان میں 87برس سے زائد عرصہ گزارا لیکن وہ سچے ادیب تھے اور ادیب کی عمر دنو ں اور برسوں کے پیمانے سے ماپی نہیں جاسکتی۔مجھے یوں محسوس ہوا جیسے فرمان فتح پوری کم عمری میں فوت ہوگئے ہیں۔ موت نے انہیں جلدی شکار کرلیا ہے ۔ ہائے ، ہائے !
فرمان صاحب کا خاندانی نام سید دلدار علی تھا۔ وہ 26جنوری1926 کو فتح پور(سہوہ) کے ایک حنفی سید خاندان میں پیدا ہوئے ۔ ان کے بچپن میں سہوہ میں ہیضہ پھیلا تو ان کے بڑے بھائی اس مرض میں انتقال کرگئے ان کے والد یہ صدمہ برداشت نہ کرسکے اور اسی غم میں فوت ہوگئے ۔اس وقت ان کی عمر سات سال تھی ابتدائی تعلیم نواحی گاں کے ایک مدرسے میں حاصل کی جہاں پڑھنے کیلئے سائیکل پر جاتے تو ان کا چچا زاد بھائی فرمان علی ان کے ساتھ ہوتا۔ ایک دن فرمان علی کو بخار نے دبوچ لیا تو سید دلدار علی اکیلے اسکول گئے وہیں خبر ملی کہ فرمان علی جن سے انہیں گہری انسیت تھی تھی فوت ہوگئے ہیں۔ ان کی موت کا صدمہ اتنا گہرا تھا کہ دلدار علی نے فرمان کو اپنے نام کا حصہ بنالیا۔ مڈل کے درجے میں ہی انہیں کتابیں پڑھنے کی لگن لگ گئی اور لکھنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا چنانچہ انہوں نے اپنا پورا قلمی نام سید دلدار علی فرمان فتح پوری اختیار کیا جو بعد میں صرف فتح پوری رہ گیا ۔ گویا اصل نام دفتری کاغذوں میں دفن ہوگیا نسبتی نام زندہ رہا اسی کو قبولِ عام حاصل ہوا۔
فرمان صاحب کے والد نوجوانی میں پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوئے اور سب انسپکٹر کی حیثیت میں ریٹائر ہوگئے ۔ حنفی نے سادات خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے دیانتداری اور فرض شناسی کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔ عام لوگوں کی نظر میں امیر تھے لیکن اپنی متوسط الحالی میں اس بھر کو ٹوٹنے نہ دیا۔ والد کی وفات کے بعد حالات دگرگو ں ہوگئے ۔ ماں نے گھر کو خوبصورتی سے سنبھالا اور بچو ں کی پرورش اعلیٰ قدروں پر کی۔ فرمان نے لکھا ہے :
لوگ سمجھتے تھے کہ ہمارے والد پولیس میں تھے لہٰذا بہت مال ہوگا۔ لیکن ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔اماں ہمیں سمجھاتی تھیں کہ کسی کو نہ بتایا کہ ہم غریب ہیں۔ لوگ مذاق اڑائیں گے کوئی روپیہ مانگنے آئے تو وہ دے دیتی تھیں ہم کہتے اماں ہماری تو خود بری حالت ہے آپ روپیہ کیوں دیتی ہیں۔ وہ جواب دیتیں نہ دو گے تو لوگوں میں عزت ختم ہوجائے گی بھرم رکھا ہوا تھا ۔
اپنے کنبے کی کفالت کیلئے فرمان صاحب نے میٹرک اوّل درجے میں پاس کرنے کے بعد مسلم ہائی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت اختیار کرلی۔ اپنے ادبی مزاج کی وجہ سے انہوں نے سکول میں مشاعرے اور تقریری مقابلے کرائے ۔ ادبی میگزین جاری کیا اور تحریکِ پاکستان پر نظمیں لکھیں جو دہلی کے اخبارات وحدت اور الامان میں چھپتیں اور مسلم لیگ کے جلسوں میں پڑھی جاتی تھیں۔ شاعری کا یہ ذوق عمر بھر ان کے ساتھ رہا لیکن جب تحقیق و تنقید کی طرف آئے تو شاعری پس منظر میں چلی گئی۔
فرمان صاحب نے ایف اے کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت میں الہ آباد بورڈ سے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرلیا۔ نائب تحصیل داری کے امتحان میں کامیاب ہوگئے لیکن سی آئی ڈی کی خفیہ رپورٹ ان کے خلاف تھی۔ اس لیے یہ ملازمت نہ ملی ۔1950میں بی اے کرلیا۔ اس دوران شادی ہوگئی ۔ ایک سال قبل ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ فرمان صاحب نے ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات دگرگوں دیکھے تو پاکستان آگئے ۔ کراچی میں انہیں لوئر گریڈ کلرک کی ملازمت ملی اور نا آسودگی محسوس کی تو اکاونٹنٹ کا امتحان پاس کرکے اے جی پی آر میں ایک بہتر پوسٹ پر تقرری ہوگئی ،اس دور کا اہم واقعہ یہ ہے کہ فرمان صاحب نے کراچی میں ایک بڑا مشاعرہ کرایا جس کی صدارت کیلئے نیاز فتح پوری کو مدعو کیا۔ ہندوستان سے جوش ملیح آبادی، فراق گورکھ پوری، نواب جعفر علی اثر اور جگر مراد آبادی نے شرکت کی۔اس مشاعرے نے فرمان صاحب کو ادبی، سماجی اور تہذیبی حلقوں میں متعارف کرادیا اور ان کے اس مضمون کو بھی بہت شہرت ملی جو انہوں نے رسالہ نگار میں سیداحتشام حسین کے اس مقالے کے جواب میں لکھا تھا جس میں انہوں نے اردو کا رسم الخط تبدیل کرکے دیوناگری رسم الخط اختیار کرنے کی تجویز دی تھی۔ احتشام حسین کی رائے میں ہندوستان میں اردو کو زندہ رکھنے کیلئے دیو نگری رسم الخط قبول کرنا ضروری تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرمان صاحب کے جوابی مضمون کی احتشام صاحب نے بھی تعریف کی ۔فرمان صاحب نے ڈاکٹر طاہر مسعود کو ایک انٹرویو میں بتایا۔
اس مضمون نے مجھے عاملوں کی بڑی محفلوں میں داخل کردیا۔ مجھے اس سے شہرت ملی یوں تنقیدی اور ادبی مضامین لکھنے لکھانے کا سلسلہ چل نکلا۔ان کے یہ مضامین نگار اور ادب لطیف میں شائع ہوتے تھے جن کے مدیران نیاز فتح پوری اور مرزا ادیب تھے ۔ فرمان فتح پوری نے اپنے ادبی ذوق کی پرورش کا سلسلہ نوجوانی کے دور میں جاری رکھا تو انہوں نے اپنے سماجی ارتقائکو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ کراچی میں ہی انہوں نے قانون کا امتحان پاس کیا لیکن وکالت کے عملی پیشے کی طرف نہیں آئے اور ادب نے ان کی توجہ زیادہ حاصل کی۔ تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو بھی جاری رکھا اور 1958میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کا امتحان اوّل بدرجہ اول پاس کیا۔اس سے قبل انہوں نے ایل ایل بی اور جی ٹی میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کی تھی لیکن فرمان صاحب نے کراچی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ لیکچرار کی ملازمت کو ترجیح دی اور پھر یہیں سے اردو میں منظوم داستانیں کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری 1958 میں حاصل کی۔ کراچی یونیورسٹی سے ڈی بٹ کی پہلی ڈگری حاصل کرنے کااعزاز بھی انہیں کو حاصل ہے ۔ ان کی عالمانہ تحقیقی کتاب کا عنوان تھا اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے جامعہ کراچی میں تقریباً تیس برس تک خدمات انجام دیں اور شعبہ اردو کے صدر کے عہدے تک پہنچے ۔1958 میں انہیں اردو ڈکشنری بورڈ کا چیف ایڈیٹر اور سیکرٹری مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے اعلیٰ خدمات انجام دیں۔
علمی،ادبی،تحقیقی،تنقیدی،تدریسی اور تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا ایک اور کارنامہ برصغیر کے ممتاز ادبی جریدہ نگار کی ادارت ہے جو ان کے زمانہ وفات تک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی۔ رسالہ نگار نیاز فتح پوری نے آگرہ سے 1922 میں جاری کیا تھا تھا۔ روشن خیالی اور فرد افروزی کی تحریک کا نقیب یہ رسالہ پورے ملک میں بڑی دلچسپی سے پڑھاجاتاتھا۔ 1927سے 1962 تک اس کی اشاعت لکھنو سے ہوتی رہی۔1950میں نیاز فتح پوری نے ہندوستان میں اردو رسم الخط کی بحث پر فرمان فتح پوری کا ایک مضمون شائع کیا تو یہ دونوں کا پہلا رابطہ تھا جسے سرور ایّام کے ساتھ ترقی ملتی گئی۔ حتیٰ کہ فرمان صاحب نے نگار کراچی سے شائع کرنے کی اجازت چاہی تو نیاز صاحب نے اس تجویز کو بخوشی قبول کرلیا۔ کراچی سے نگار نام کا ایک فلمی رسالہ پہلے بھی شائع ہوتا تھا۔قانونی ضابطے کے مطابق ایک ہی نام کے دو پرچے جاری کیے جاسکتے تھے ۔اس لئے فرمان صاحب نے پاکستان کا سابقہ نگار کے ساتھ منسلک کردیا۔ نگار پاکستان کا پہلا پرچہ کراچی سے جنوری 1962 میں چھپا اور یہ نگار لکھن کا چربہ تھا۔ یعنی لکھن سے نیاز صاحب نگار کی کاپیاں بھجوا دیتے تھے اور یہ پاکستان میں فرمان صاحب چھاپ کر شائع کردیتے تھے ۔1964میں نیاز صاحب کراچی آگئے تو نگار بند ہوگیا۔ نیاز فتح پوری 1966میں انتقال کرگئے تو اپنے وصیت نامے میں نگار کے علاوہ اپنے تمام معاملات کا ذمہ دار فرمان صاحب کو بنا گئے ۔ انہوں نے لکھا: مجھے اس وصیت نامے کا علم ہوا تو میں بہت رویا۔۔۔کیسے عجیب لوگ تھے کہ اپنی زندگی میں انہوں نے اپنی بے پناہ محبت کا ذرہ بھر احساس نہیں ہونے دیا تھا۔۔۔۔مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ بڈھا مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے۔۔۔۔میں نے ان کی وصیت کے بعد ان کے بچو ں کی تعلیم و تربیت سے لیکر شادی بیاہ تک کے تمام معاملات خود ہی طے کرائے ۔ ان کے بچے بھی نہایت لائق ثابت ہوئے اورآج وہ نہایت اعلیٰ مقام پر ہیں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی علمی،ادبی اور تصنیفی فتوحات کا دائرہ وسیع ہے ۔ ان کی کتابیں اب ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا کیلئے مستندحوالے کا کام دیتی ہیں چند مشہور کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں:
اردو کی منظوم داستانیں۔۔۔اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری۔۔۔اقبال سب کیلئے ۔۔۔ رباعی کا فنی اور تاریخی ارتقاء۔۔۔اردو کی نعتیہ شاعری۔۔۔ ہندو مسلم متنازع، ہندو مسلم سیاست کی روشنی میں۔۔۔میر انیس۔ حیات و شاعری۔۔۔غالب شاعر امروز رزدا۔۔۔ اردو افسانہ اور افسانہ نگار۔۔ نیا پرانا ادب۔۔۔ نیاز فتح پوری دیدہ دشنیدہ۔۔۔فن تاریخ گوئی اور اس کی روایت۔۔۔قمر زمانی بیگم۔۔۔ نواب مرزا شوقی کی مثنوہاں۔۔۔تحقیق ،تنقید ۔۔۔ زبان اور اردو زبان۔۔۔اردو املا اور رسم الخط۔۔۔تاویل و تعمیر۔۔۔ارمغان لوکل پرشاد وغیرہ۔
ان کتابوں کے علاوہ ان کے بہت سے مقالات مختلف ادبی رسائل و جرائد میں پڑے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی علمی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز عطا کیا۔ ان کے شاگردوں کا دائرہ بہت وسیع تھا اور حد یہ ہے کہ ان کے پڑھائے ہوئے اب خود کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ادب کے اساتذہ ہیں۔ ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ یونیورسٹی میں نئی کلاس آئی توذہین طلباء کو چھانٹ لیتے اور پھر ان کی ادبی تربیت میں خصوصی دلچسپی لینے لگتے اور ان کے باطن سے حقیقی ادیب ہی برآمد نہ کرتے بلکہ انہیں ادب کا معلم بننے کی تربیت بھی دیتے ۔ اس لحاط سے ان کا فیض عام ان کی وفات تک جاری رہا اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا ان سے استفادہ کرتے رہے ۔ انہیں شکوہ تھا کہ آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے لیکن سنجیدہ ادب پڑھنے والوں کی تعداد نسبتاً کم ہوتی جارہی ہے اور تفریحی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ان کی رائے میں تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے ، حکومت کیلئے تعلیم اور صحت دو شعبے ایسے ہیں جو صنعت بخش نہیں لیکن قوم کے شعور کو روشن کرتے اور صحت مندبناتے ہیں لیکن حکومت تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ہی نظرانداز کر رہی ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ تنگ نظری میں اضافہ ہورہا ہے اور قوم ذہنی طورپر بیمار ہوتی جارہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ایم فل اورپی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرنے والوں سے مطمئن نہیں تھے اور کہتے تھے کہ ایم اے کی تعداد محدود ہونی چاہئے دنیا کے کسی ملک میں اعلیٰ تعلیم ضروری نہیں ہوتی۔ اعلیٰ تعلیم صرف اعلیٰ ذہنوں کو دینی چاہئے لیکن اب ڈگریاں تعلقات اور دبا ؤکے تحت دے دی جاتی ہے ۔اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈگری یافتہ لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن علم و ادب اور تحقیق و تنقید کا صحیح ذوق رکھنے والوں کی تعداد کم ہورہی ہے ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمہ گیریت کی روایت کو زندہ رکھنے والے فرمان فتح پوری 3اگست کو اس دنیا سے اٹھ گئے تو اب کراچی کی ادبی رونق میں شدیدکمی پیدا ہوگئی ہے ۔اب شاید نگارجاری نہ رہے اور ہر سال منعقد ہونے والے نیاز یادگاری لیکچر کا سلسلہ بھی بندہوجائے ۔فرمان فتح پوری کی وفات پر غم کا جتنا اظہار کیاجائے کم ہے ۔
٭٭٭