یہ ایک دلچسپ اور سائنسی طور پر سنجیدہ خیال ہے کہ زمین پر زندگی کی شروعات کا راز مریخ پر چھپا ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ اب تک مکمل طور پر ثابت نہیں ہوا، مگر مختلف سائنسی مشاہدات، تجربات اور نظریات اس خیال کو تقویت دیتے ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق، زمین پر زندگی تقریباً 3.5 سے 4 ارب سال پہلے شروع ہوئی، جب زمین پر ماحول انتہائی گرم، آتش فشانی اور کیمیکل سے بھرپور تھا۔

زمین پر کیمیکل (میتھین، امونیا، پانی، ہائیڈروجن) کے امتزاج سے زندگی کی بنیادی اکائیاں (amino acids) بنیں۔ گہرے سمندری وینٹس سے نکلنے والی توانائی اور معدنیات نے زندگی کی ابتدا میں کردار ادا کیا اور زندگی کے خلیات زمین پر کسی بیرونی ذریعے سے آئے، جیسے شہاب ثاقب یا دم دار ستارے۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ابتدائی نظامِ شمسی میں مریخ نسبتاً زیادہ مستحکم اور ٹھنڈا تھا۔ مریخ پر پانی، آتش فشاں، اور مناسب کیمیکل موجود تھے جو زندگی کے لیے بنیادی شرائط ہیں۔ زمین پر ایسے شہاب ثاقب ملے ہیں جن کے کیمیائی اجزا مریخ جیسے ہیں (مثلاً ALH84001)۔

ان میں زندگی جیسے امائنو ایسڈز اور magnetite crystals پائے گئے ہیں۔ اسی طرح آر این اے کو وجود دینے والے کیمیکل بھی مریخ پر زیادہ تھے۔ ایک تحقیق کے مطابق، RNA کے لیے ضروری بوریٹس اور مولیبیڈنم مریخ پر زمین سے زیادہ تھے۔

ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی کے مشاہدات کے مطابق مریخ پر تقریباً 4.

3 ارب سال پہلے تک پانی موجود تھا جب کہ زمین اس وقت آتش فشاں کی لپیٹ میں تھی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زندگی کی

پڑھیں:

انسانی دماغ کے ایک حیرت انگیز راز کا انکشاف

 

 

کیا آپ یقین کریں گے کہ ہمارا دماغ کسی بلب کی طرح روشنی خارج کرتا ہے جو ہماری آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہوتی ہیں۔

جرنل آئی سائنس میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ انسانی دماغ ایسے مدھم روشنی کے سگنلز خارج کرتا ہے جو کھوپڑی سے گزرتے ہیں اور دماغی سرگرمیوں کے ردعمل میں تبدیل ہوتے ہیں۔

اس تحقیق میں پہلی بار ایسے شواہد پیش کیے گئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ الٹرا ویک فوٹون ایمیشن (یو پی ای) ممکنہ طور پر دماغی افعال کو مانیٹر کرنے کا ایک ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔

یو پی ای قدرتی روشنی کے ایسے اخراج کو کہا جاتا ہے جو خلیاتی میٹابولزم کے نتیجے میں ہوتا ہے، جگنو جیسے جانداروں کے جسم سے خارج ہونے والی روشنی کے برعکس یو پی ای میں کسی مخصوص کیمیکلز پر انحصار نہیں کیا جاتا جبکہ روشنی بھی نظر آنے والی روشنی کے مقابلے میں لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ مدھم ہوتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ دماغ سے خارج ہونے والی روشنی کے سگنلز زندہ ٹشوز کی جانب سے خارج کیے جاتے ہیں جن سے دماغی صحت اور سرگرمیوں کے بارے میں جاننے میں ممکنہ مدد مل سکتی ہے۔

اس تحقیق میں 20 صحت مند بالغ افراد کو شامل کیا گیا اور انہیں مکمل تاریکی میں رکھا گیا۔

اس کے بعد روشنی سے متعلق حساس سنسرز کو ان کی سر میں لگا کر ای ای جی کیپس سے دماغی لہروں کو ٹریک کیا گیا۔

محققین نے دماغی روشنی کو ریکارڈ کیا جس دوران رضا کار سادہ ٹاسک جیسے آنکھیں بند کرنے یا آوازیں سن رہے تھے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ دماغی روشنی پس منظر کی روشنی سے مختلف ہوتی ہے اور ایک مخصوص انداز سے جلتی بجھتی ہے، خاص طور پر ان خطوں میں جو بینائی اور سننے کے عمل سے جڑے ہوتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی دریافت کیا گیا کہ روشنی کے ان سگنلز میں دماغی حالت جیسے آنکھوں یا بند کرنے کے دوران تبدیلیاں آتی ہیں۔

محققین نے بتایا کہ اگرچہ ابھی ہمارے نتائج ابتدائی ہیں مگر ان سے مستقبل کی ایسی ٹیکنالوجیز کی تیاری کا راستہ کھل جائے گا جن کے ذریعے اس دماغی عمل پر زیادہ تفصیلی کام کیا جاسکے گا جبکہ مختلف دماغی امراض کی تشخیص یا ٹریکنگ میں مدد مل سکے گی۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی؛ غیرت کے نام پر قتل لڑکی پر شدید تشدد کا انکشاف، گردن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں
  • ’ ڈیجیٹل گرفتاری‘، دوا خریدنے کے چکر میں خاتون 77 لاکھ سے کیسے محروم ہوئی؟
  • انسانی دماغ کے ایک حیرت انگیز راز کا انکشاف
  • ملک میں پولیو کے تین نئے کیسز سامنے آ گئے
  • بھارت میں تعلیم، روزگار اور صحت جیسے بنیادی شعبے بدترین زوال کا شکار
  • زمین پر ملنے والی مریخ کی سب سے بڑی چٹان اربوں روپے میں نیلام
  • قصور: کھیت سے گلا کٹی ہوئی ملنے والی لڑکی دم توڑ گئی، مقدمہ درج
  • جنگ بندی کیسے ہوئی؟ کس نے پہل کی؟مودی سرکار کی پارلیمنٹ میں آئیں بائیں شائیں
  • سائنسدانوں کا رواں سال زمین کے نسبتاً تیز گھومنے کا انکشاف، رفتار میں تبدیلی کی وجہ کیا بنی؟