مشہور کورین گوکار کو جنسی زیادتی کے کیس میں سزا سُنا دی گئی
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
مشہور کورین گوکار کو جنسی زیادتی کے کیس میں سزا سُنا دی گئی WhatsAppFacebookTwitter 0 12 July, 2025 سب نیوز
سابق کورین گلوکاری ٹیئل کو جنسی زیادتی کیس میں ساڑھے تین سال قید کی سزا سُنا دی گئی۔
کوریا کی نیوز ایجنسی کے مطابق سیول کی ایک عدالت نے کے- پاپ بوائے بینڈ این سی ٹی کے سابق رکن ٹیئل کو اجتماعی جنسی زیادتی کے مقدمے میں ساڑھے تین سال قید کی سزا سنائی ہے۔
31 سالہ ٹیئل کو جمعرات کے روز سزا سنائے جانے کے بعد فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا۔ عدالت نے ان کے ساتھ شریک جرم دو دیگر افراد کو بھی سزا دیتے ہوئے انہیں بھی گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
یہ تینوں افراد اس الزام میں گرفتار کیے گئے تھے کہ انہوں نے گزشتہ سال جون میں سیول میں ایک غیر ملکی خاتون کو نشے کی حالت میں اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
عدالت نے ملزمان کو 40 گھنٹوں پر مشتمل جنسی جرائم سے متعلق اصلاحی پروگرام مکمل کرنے کا بھی حکم دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ جرم نہایت سنگین نوعیت کا ہے کیونکہ متاثرہ خاتون نشے میں تھی اور مزاحمت کے قابل نہ تھی۔
یاد رہے کہ ٹیئل کو گزشتہ سال اگست میں پولیس کی تحقیقات کے بعد مشہور کورین کے پاپ بینڈ این سی ٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ پراسیکیوٹرز نے اس مقدمے میں سات سال قید کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت کو بڑا دھچکا، برازیل نے آکاش میزائل سسٹم کی خریداری سے انکار کردیا حمیرا اصغر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ منظر عام پر، مزید چونکا دینے والے انکشافات سیف علی خان کی وراثتی جائیداد دشمن کی پراپرٹی قرار، 15ہزارکروڑ کی جائیداد سے محرومی کا امکان چینی صدر کا معروف چینی اداکار یوؤ بن چھانگ کے لئے حوصلہ افزائی اور نیک خواہشات کا اظہار جاویدمیانداد کے چھکے سے عامر خان کی شادی کیسے خراب ہوئی؟ بھارتی سپر اسٹار کا انکشاف معروف بھارتی اداکارہ شیفالی کی موت کی وجہ سامنے آگئی ‘فلسطین کو آزاد کرو’ برطانیہ میں کنسرٹ کے دوران گلوکاروں نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل مخالف نعرے لگادیےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جنسی زیادتی
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔