اسلام آباد ہائی کورٹ: ہائی پاور سلیکشن بورڈ کے فیصلوں کی قانونی حیثیت چیلنج، حکومتی جواب غیر تسلی بخش قرار
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ: ہائی پاور سلیکشن بورڈ کے فیصلوں کی قانونی حیثیت چیلنج، حکومتی جواب غیر تسلی بخش قرار WhatsAppFacebookTwitter 0 6 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد : ہائی پاور سلیکشن بورڈ میں گریڈ 22 میں ترقی سے متعلق فیصلوں کی آئینی اور قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ کیس کی سماعت جسٹس راجہ انعام امین منھاس نے کی۔
یہ درخواست سابق سیکریٹری اطلاعات سہیل علی خان، شاہ بانو غزنوی، سابق آئی جی عامر ذوالفقار سمیت دیگر سینئر افسران نے دائر کی، جن کی جانب سے وکیل بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالتی حکم پر وفاقی حکومت نے اپنا جواب جمع کروایا، تاہم عدالت نے حکومتی جواب کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت سے قبل اسٹیبلشمنٹ رولز میں تبدیلی و ترمیم سے متعلق مکمل ریکارڈ طلب کر لیا۔
درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومتی جواب میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ وزیر اعظم کے علاوہ ہائی پاور بورڈ اجلاس کی صدارت کون کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر اعظم کسی اور کو اجلاس کی صدارت سونپ سکتے ہیں تو اس حوالے سے قواعد کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔ مزید کہا گیا کہ جن قواعد میں تبدیلی کا حوالہ دیا جا رہا ہے، ان کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری نہیں ہوا۔
عدالت نے آئندہ سماعت سے قبل رولز میں تبدیلی و ترمیم سے متعلق مکمل سرکاری ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 22 مئی تک ملتوی کر دی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین اور یورپی پارلیمنٹ کا بیک وقت باہمی تبادلوں پر پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ، چینی وزارت خارجہ افغانستان میں خود کش حملہ آوروں کو تربیت دے کر مختلف دہشت گرد تنظیموں کو بیچے جانے کا انکشاف مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے پر نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے منظور، 2 ججوں کا اختلاف سینئر صحافی جان محمد مہر کے قتل میں مطلوب ملزم بیٹے سمیت ڈرون حملے میں ہلاک وزیر داخلہ کی قطر کے وزیراعظم سے ملاقات، پاک بھارت کشیدگی پر پاکستان کا مؤقف پیش ایف بی آر کے غیرمنصفانہ ایس آر او اور پوائنٹ آف سیل انضمام کے خلاف نجی تعلیمی اداروں کی اپیل منظور مسلم لیگ ق کے انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم کر لیے گئےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: حکومتی جواب اسلام آباد ہائی پاور
پڑھیں:
مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستیں باضابطہ سماعت کیلئے منظور
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں کو باضابطہ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔
نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے جاری فیصلے کے مطابق، 13 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی اور بینچ کے 11 اراکین نے اکثریتی رائے سے نظرثانی درخواستوں پر سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے درخواستوں کو ناقابلِ سماعت قرار دیا۔ عدالت نے تمام متعلقہ فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کل کی تاریخ مقرر کی ہے۔
لیسکو میں بدعنوان اہلکاروں کیخلاف ایکشن ، ہر وہ کام کریں گے جو ادارے کیلیے بہتر ہے : سی ای او رمضان بٹ
بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق، جسٹس باقر نجفی اور دیگر شامل ہیں۔
اختلافی نوٹ میں دونوں معزز جج صاحبان نے مؤقف اختیار کیا کہ نظرثانی کی بنیاد پر فیصلہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اور معاملے میں قانونی طور پر کوئی نئی بات پیش نہیں کی گئی۔
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 13 رکنی لارجر بینچ نے کی۔
خیبرپختونخوا میں 49 لاکھ سے زائد بچوں کے سکولوں سے باہر ہونے کا انکشاف
مسلم لیگ (ن) کے وکیل حارث عظمت نے روسٹرم سنبھالا اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق ہی نہیں تھی۔ جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے آر او کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا۔
وکیل حارث عظمت نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وکلا کی فوج تھی لیکن انہوں نے ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا، کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا پوری قوم کو دیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسے جانے دیتے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سارے نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیا گیا تھا، جبکہ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ نظرثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں، آپ نظرثانی کے گراؤنڈز نہیں بتا رہے۔
مودی بیٹا تم نے بھارت کے منہ سے سیکولرازم کا نقاب اٹھا کر اچھا کیا، فاروق ستار
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا؟ جس پر جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ توہین عدالت کی درخواست آج لگی ہوئی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ کیس بہت تفصیل سے سنا گیا تھا، اور پھر سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا یا نہیں؟ وکیل حارث عظمت نے کہا کہ مجھے کنفرم نہیں ہے۔ جس پر جسٹس عائشہ ملک نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے کھڑے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کو کنفرم نہیں؟
وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کو بجلی کی فراہمی میں اضافے کا فیصلہ
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بھی بتانا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ہمارے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کا پابند نہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد کے بغیر نظرثانی کیسے فائل کی جا سکتی ہے؟
جسٹس عقیل عباسی نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں، اسے چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا، اب آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے؟
جسٹس عقیل عباسی نے مزید کہا کہ جو باتیں آپ بتا رہے ہیں ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں، کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے؟ انہوں نے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دینے کی ہدایت کی۔
بھارت دہشتگرد ملک ہے، ڈائیلاگ یا تباہی میں سے ایک راستہ چن لے؛ بلاول بھٹو
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ریلیف لینے کے لیے عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہاں پر سوال پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ اس شخص کا ہے جو اپنے حلقے کی نمائندگی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حلقے کا مینڈیٹ کہتا ہے کہ میں فلاں پارٹی میں جانا چاہتا ہوں تو اسے کیسے روکا جا سکتا ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ بنچ کا ایک ہی سوال ہے کہ فیصلے میں خامی کی نشاندہی کریں، اور عدالت سے پانچ منٹ کا وقت مانگا کہ وہ تمام نکات واضح کر دیں گے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے؟ اور کہا کہ ہاں یا نہ میں جواب دیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے ایک پیراگراف کی حد تک عمل کیا ہے۔ جس پر جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کیا یہ آپ کی منشا اور مرضی کی بات ہے کہ کس پیراگراف پر عمل کریں گے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیس کو چھوڑیں، آپ سپریم کورٹ کو لے کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اگر کل کسی کو پھانسی کی سزا دیں تو کیا وہ کہے گا کہ بس سر تک پھندا ڈال کر چھوڑ دیا؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ میں نے آپ کی پٹیشن پڑھی ہے اور اس کے قابل سماعت ہونے پر میرا سوال ہے۔ جسٹس عقیل عباسی نے وکیل سے سوال کیا کہ اگر آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست ہٹا لی جائے تو کیا آپ اس کیس میں دلائل دے سکیں گے؟
بعد ازاں، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے نظرثانی درخواستوں کو باضابطہ طور پر سماعت کے لیے منظور کر لیا اور فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔ تاہم جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے تینوں درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ کے مطابق گیارہ ججز نے نوٹسز جاری کرنے کی حمایت کی اور آج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ بھی لکھوا دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں بتایا کہ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا جبکہ گیارہ ججز نے اکثریتی فیصلے سے فریقین کو نوٹسز جاری کیے۔ کیس کی سماعت کل دوبارہ ہوگی اور توہین عدالت کی درخواست بھی اسی کیس کے ساتھ سنی جائے گی۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں میں سپریم کورٹ نے کل دن ساڑھے گیارہ بجے کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔
یاد رہے کہ 12 جولائی 2023 کو سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ان نشستوں پر نمائندگی دینے کا حکم دیا تھا۔ یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا، تاہم وہ نظرثانی کیس سننے والے موجودہ بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔