لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 06 مئی ۔2025 )بھارت کی جانب سے بگلیہار ڈیم پر بنائے گئے سپل ویز بند ہونے کے باعث دریائے چناب میں تین روز کے دوران پانی کا بہاﺅ 90 ہزار کیوسک سے دس ہزار کیوسک تک آگیا ہے رپورٹ میںپریس ٹرسٹ آف انڈیا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو مطلع کیے بغیر بگلیہار ڈیم کے سپل ویز بند کر دیے ہیں ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جموں کے علاقے رام بن میں دریائے چناب پر بنے بگلیہار ڈیم کے سپل ویز بند نظر آ رہے ہیں صرف ایک سپل وے سے پانی خارج کیا جارہا ہے بھارت نے اپریل میں پہلگام حملے کو جوازبناتے ہوئے یکطرفہ اقدام کے طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرکے پہلی بار پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کے حوالے سے کام شروع کر دیا ہے اور یہ عمل دریائے چناب پر واقع بگلیہار ڈیم سمیت پانی سے بجلی بنانے والے دو منصوبوں پر جاری ہے.
برطانوی ادارے روئٹرز کے مطابق بھارت کی سرکاری ہائیڈرو پاور کمپنی نے پچھلے ہفتے کے اختتام پر ان ڈیمز کی نکاسی کا کام شروع کیا ہے تاکہ ان کی مکمل صفائی کی جا سکے بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ ڈیم کی صفائی یعنی اس سے گاد نکالنے کا عمل تین دن تک جاری رہا دوسری جانب بی بی سی بے ”ہندوستان ٹائمز“ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ بھارت کی نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن کے مطابق بگلیہار ڈیم کے سپل ویز آبی ذخیرے کی صفائی کی غرض سے بند کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی طرف پانی کے بہاﺅ میں کمی ہوئی ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بگلیہار ہائیڈل پاور پراجیکٹ کے دروازے بند کر کے ڈیم کی صفائی مکمل کر لی گئی ہے اور اب اسے بھرنا ہے ڈیم میں پانی بھرنے کا عمل ہفتے کے روز سے شروع ہوا تھا.
بھارتی جریدے کا کہنا ہے کہ پانی کا بہاﺅ روک کر آبی ذخائر کی صفائی اور ان میں دوبارہ پانی بھرنے کا عمل اگرچہ غیرمعمولی نہیں تاہم شمالی انڈیا میں واقع ڈیمز پر یہ کام اگست کے مہینے میں کیا جاتا ہے اور اس مرتبہ معاہدے کے تحت بھارت نے پاکستان کو پیشگی اطلاع بھی نہیں دی. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوںکے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ انڈیا کے لیے فوری طور پر پاکستان کے حصے کا دریائی پانی بند کرنا ممکن نہیں اور اسے یہ صلاحیت حاصل کرنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں پنجاب کے وزیر آبپاشی محمد کاظم پیرزادہ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انڈیا گذشتہ تین دن سے چناب کے پانی کے بہاﺅ سے چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے اور بظاہر اس کا مقصد پاکستان کو زچ کرنا ہے صوبائی وزیر نے کہاکہ انڈیا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے.
ماہرین کے مطابق اگست میں ڈیم کی صفائی اور اس کے دوبارہ بھرنے کا عمل اس وجہ سے کیا جاتا ہے کیونکہ مون سون کی بارشوں اور پہاڑوں پر برف پگھنے میں تیزی کے باعث اس مہینے میں پانی کا بہاﺅ زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ڈیم جلدی بھر جاتا ہے تاہم اس بار انڈیا نے یہ عمل مئی کے مہینے میں شروع کر دیا ہے جب عمومی طور پر خطے میں پانی کی کمی ہوتی ہے ماہرین کے مطابق مئی میں پانی کی کمی کے باعث یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب بگلیہار ڈیم کو بھرنے میں زیادہ وقت لگے گا اور تب تک پاکستان کو پانی کی فراہمی معطل رہے گی کیونکہ انڈیا بگلیہار ڈیم میں پانی بھرنے کے بعد ہی اضافی پانی پاکستان کی طرف چھوڑتا ہے.
بگلیہار ڈیم ایک طویل عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان متنازع رہا ہے پاکستان نے پہلے بھی اس معاملے میں سندھ طاس معاہدے کے ثالث ورلڈ بنک سے مداخلت کی درخواست کی تھی اس کے علاوہ پاکستان نے کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے بھی اعتراضات اٹھائے ہیں اور اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے یہ دونوںڈیم بجلی پیدا کرنے کے لیے تعمیرکیئے گئے ہیں بگلیہار ڈیم کے ذخائر میں 475 ملین کیوبک میٹر پانی رکھنے کی گنجائش ہے اور یہ ڈیم 900 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے یہ منصوبہ1999 میں شروع کیا گیا اور2008 میں مکمل ہوا.
رپورٹ کے مطابق بگلیہار کے علاوہ دریائے چناب پر کئی دیگر ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر کام جاری ہے چناب اور اس کے معاون دریاﺅں پر چار منصوبے جاری ہیں جو 2027-28 تک کام شروع کر دیں گے جن میںپاکل دول کا1000 میگاواٹ، کیرو کا624 میگاواٹ، کوارکا 540 میگاواٹ اور رتلے کا850 میگاواٹ کا منصوبہ شامل ہے یہ منصوبے بھارت کی نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن اور جموں و کشمیر سٹیٹ پاور ڈیویلپمنٹ کارپوریشن مشترکہ طور پر تیار کر رہی ہیں.
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2018 میں پاکل ڈل پراجیکٹ، 2019 میں کیرو اور 2022 میں کوار ہائیڈل پاور پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھا ”ہندوستان ٹائمز“ کے مطابق پاکل ڈل میں 66 فیصد، کیرو میں 55 فیصد، کوار میں 19 فیصد اور رتلے پر 21 فیصد تعمیراتی کام مکمل ہو چکا ہے پاکستان نے ان منصوبوں کی مخالفت کرتا آرہا ہے پاکستان کا موقف ہے کہ ان ڈیموں کے ڈیزائن سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے.
رپورٹ کے مطابق پاکل ڈل، کیرو، کوار اور رتلے ڈیم میںمجموعی طور پر 3,014 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے بھارتی حکومت کے اندازے کے مطابق ان منصوبوں سے ہر سال 10,541 ملین یونٹ بجلی پیدا کی جائے گی بتایا گیا ہے کہ صرف جموں و کشمیر کے ڈیموں میں 18,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جس میں سے 11,823 میگاواٹ صرف چناب بیسن میں ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
سندھ طاس معاہدے
دریائے چناب
کے حوالے سے
پاکستان کو
بجلی پیدا
اس معاہدے
گیا ہے کہ
کے مطابق
کہ انڈیا
کی صفائی
میں پانی
بھارت کی
سپل ویز
اور اس
کا عمل
ہے اور
پڑھیں:
ائیرکرافٹ انجینئرز کا احتجاج، ملک بھر میں قومی ائیرلائن کا فلائٹ آپریشن رک گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قومی ایئرلائن کی انتظامیہ اور ایئرکرافٹ انجینئرز کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے، جس کے باعث انجینئرز نے طیاروں کی کلیئرنس روک دی ہے اور ملک بھر میں قومی ایئرلائن کا فلائٹ آپریشن معطل ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایئرکرافٹ انجینئرز کے احتجاج کے باعث قومی ایئرلائن کی پروازیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ پیر کی رات 8 بجے کے بعد سے کوئی بین الاقوامی پرواز روانہ نہیں ہو سکی، جبکہ 12 بین الاقوامی پروازوں کی منسوخی سے مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ متاثرہ مسافروں میں بڑی تعداد عمرہ زائرین کی ہے۔
سوسائٹی آف ایئرکرافٹ انجینئرز (سیپ) کے مطابق وہ سی ای او قومی ایئرلائن کے رویے میں بہتری آنے تک کام نہیں کریں گے اور طیاروں کو اڑان کے لیے کلیئرنس دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انجینئرز گزشتہ ڈھائی ماہ سے اپنے مطالبات کے حق میں بازو پر سیاہ پٹیاں باندھ کر پُرامن احتجاج کر رہے تھے، مگر اس کے باوجود انتظامیہ مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوئی۔
ذرائع کے مطابق ایئرکرافٹ انجینئرز کی تنخواہیں گزشتہ آٹھ برسوں سے نہیں بڑھائی گئیں، جبکہ ایئرلائن کو طیاروں کے فاضل پرزہ جات کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ انجینئرز کا دعویٰ ہے کہ ان پر ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طیاروں کو پرواز کے لیے کلیئر کرنے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
سوسائٹی آف ایئرکرافٹ انجینئرز کا کہنا ہے کہ وہ انتظامیہ کے دباؤ پر مسافروں کی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔
دوسری جانب قومی ایئرلائن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) نے طیاروں کے آپریشن میں رکاوٹ ڈالنے پر ملوث انجینئرز کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ سی ای او کے مطابق، آپریشن متاثر ہونے کے ذمہ دار افراد کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
ادھر قومی ایئرلائن کے ترجمان نے موقف اختیار کیا ہے کہ سوسائٹی آف ایئرکرافٹ انجینئرز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور ان کا احتجاج قومی ایئرلائن کی نجکاری کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ترجمان کے مطابق سیفٹی کے نام پر بیک وقت کام چھوڑ دینا ایک منظم سازش ہے جس کا مقصد مسافروں کو مشکلات میں ڈالنا اور انتظامیہ پر ناجائز دباؤ ڈالنا ہے۔

ویب ڈیسک

مقصود بھٹی