سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے لیے نیا 11 رکنی بینچ تشکیل دیدیا گیا۔ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے نظر ثانی درخواستوں کو مسترد کردیا تھا۔

جسٹس امین الدین گیارہ رکنی بینچ کے سربراہ ہوں گے۔ جبکہ بینچ میں شامل دیگر ججز میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افگان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل

یاد رہے کہ مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس کی سماعت سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اہم فیصلہ جاری کیا ہے، جس کے مطابق محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں ہوسکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی کے اسکوپ پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نظرثانی آرٹیکل 188 اور رولز کے تحت ہی ہو سکتی ہے، نظرثانی کے لیے فیصلے میں کسی واضح غلطی کی نشاندہی لازم ہے۔

فیصلہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور خیبرپختونخوا حکومت محکمہ تعلیم کی نظر ثانی درخواستوں پرجسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ ون نے جاری کیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں ہوسکتا، نظرثانی کیس میں فریق پہلے سے مسترد ہوچکا نکتہ دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا، نظرثانی کی بنیاد یہ بھی نہیں بن سکتی کہ فیصلے میں دوسرا نکتہ نظربھی شامل ہوسکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: آئینی بینچ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس مقرر

فیصلے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 22 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں، ان زیر التواکیسز میں بڑا حصہ نظرثانی درخواستوں کا بھی ہے، من گھڑت قسم کی نظرثانی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

مذکورہ فیصلہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور خیبرپختونخوا حکومت محکمہ تعلیم کی نظر ثانی درخواستوں پر جاری کیا گیا ہے، 29 فروری 2022 کو پرائمری اسکول ٹیچرز کے تقرری کے حوالے سےسپریم کورٹ کے جاری کردہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ڈومیسائل رہائش کا اصلی ثبوت جبکہ صرف شناختی کارڈ اِس سلسلے میں ناکافی ثبوت ہے۔

مزید پڑھیں:مخصوص نشستوں سے متعلق وضاحت، رجسٹرار کی جانب سے جواب چیف جسٹس کو ارسال

اس سے قبل پشاور ہائیکورٹ نے بھی یہی فیصلہ صادر کیا تھا جس کو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (فیمیل) اور خیبرپختونخوا حکومت محکمہ تعلیم نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا جس پر مذکورہ درخواست دہندگان نے نظرِثانی اپیلیں دائر کی تھیں۔

خیبر پختونخواہ محکمہ تعلیم نے سونیا بیگم، شکیلہ چمن، سائرہ امین، سید امجد رؤوف شاہ، راز محمد، مہک سجاول اور دیگر کو اِس بنیاد پر پرائمری ٹیچر بھرتی کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اُن کے شناختی کارڈ اور ڈومیسائل میں درج رہائشی پتے میں فرق ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: میں مخصوص نشستوں ثانی درخواستوں سپریم کورٹ میں محکمہ تعلیم نظرثانی کی فیصلے میں اور جسٹس کورٹ کے کے لیے

پڑھیں:

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اقدامات 5ججز نے چیلنج کر دیے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250920-08-21

 

 

اسلام آباد (صباح نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5ججوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے اختیارات اور اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت اور جسٹس اعجاز اسحق خان  نے علیحدہ علیحدہ درخواستیں عدالت عظمیٰ میں دائر کیں۔  درخواستوں میں ججوں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ انتظامی اختیارات کو ہائی کورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ مزید کہا گیا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس وقت جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو، نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمات منتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے دستیاب ججوں کو فہرست سے خارج نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس اختیار کو ججوں کو عدالتی ذمہ داریوں سے ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ سے یہ بھی کہا گیا کہ بینچوں کی تشکیل، مقدمات کی منتقلی اور فہرست جاری کرنا صرف ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی منظوری سے بنائے گئے قواعد کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 202 اور 192(1) کے تحت اختیار کیے گئے ہیں۔ درخواست گزاروں نے مزید استدعا کی کہ بینچوں کی تشکیل، روسٹر ہائی کورٹ رولز اور مقدمات کی منتقلی سے متعلق فیصلہ سازی صرف چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں ہو سکتی اور ماسٹر آف دی روسٹر کے اصول کو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ختم کر دیا گیا ہے۔ درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشنز کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں اور ان کے اقدامات قانونی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان نوٹی فکیشنز اور کمیٹیوں کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ججوں نے دعا کی کہ سپریم کورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کو ہدایت دے کہ وہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری پر مؤثر نگرانی اور نگران عمل کرے، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 203 میں درج ہے، تاکہ ہر ہائی کورٹ اپنے ماتحت عدالتوں کی نگرانی اور کنٹرول کر سکے۔ درخواست گزاروں نے اپنا بیان کا اختتام کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ اس کیس کے حالات کے مطابق کوئی اور ریلیف بھی دے جو مناسب سمجھا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • سنگل بینچ نے فیصلے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے، ہائیکورٹ
  • پشاور ہائیکورٹ، فوجداری نظام عدل میں خامیوں کیخلاف درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل
  • پشاور ہائیکورٹ، فوجداری نظام عدل میں خامیوں کے خلاف درخواستوں پر لارجر نینچ تشکیل
  • جسٹس طارق جہانگیری کی سپریم کورٹ میں دائردرخواست کو نمبرالاٹ کردیا گیا
  • اسلام آباد: بینچ کی تشکیل اور کیس کی منتقلی کیلیے درخواستیں دائر کرنے کیلیے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5ججز سپریم کورٹ جارہے ہیں
  • چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اقدامات 5ججز نے چیلنج کر دیے
  • عدلیہ میں تناؤ: ہائیکورٹ کے 5 ججز چیف جسٹس کے اقدامات سپریم کورٹ لے گئے
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس کے اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا
  • سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی انفرادی اپیلیں دائر
  • اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلے کیخلا ف اپیل، جسٹس طارق محمود جہانگیر ی دیگر وکلا کے ہمراہ سپریم کورٹ پہنچ گئے