کیا واقعی پاکستان نے بھارت کے 5 طیارے گرائے ہیں؟ بھارتی حکام کا جواب دینے سے گریز
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
اسلام آباد، نئی دہلی(ویب ڈیسک) بھارت نے 6 اور7 مئی کی درمیانی شب اپنی فضائی حدود میں رہتے ہوئے پاکستان میں چند مقامات کا نشانہ بنایا جس دوران جوابی دفاعی کارروائی میں بھارت کے کم از کم 5 طیارے تباہ ہونے کی خبریں سامنے آئی ہیں تاہم بھارتی حکام نے اس کی تصدیق کرنےسے گریز کیا ۔
بدھ کو بھارتی وقت کے مطابق 10 بجے ہندوستانی سکریٹری خارجہ وکرم مصری نے کرنل صوفیہ قریشی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی جس دوران پاکستان میں اپنے اہداف کے بارے میں بات کی اور ساتھ ہی روایتی طور پر پاکستان پر دہشتگردی کا الزام لگایا ۔
بھارتی حملے پر عدنان سمیع کا پاکستانی ٹی وی اینکرز پر مذاق
بریفنگ میں بات کرنے والے تین ہندوستانی عہدیداروں میں سے کسی نے بھی پاکستان کے اس دعوے کا جواب نہیں دیا کہ اس نے ہندوستان کے حملے کے دوران ہندوستانی فضائیہ کے پانچ طیاروں کو مار گرایا تھا جس کی وجہ سے CNN جیسا امریکی نشریاتی ادارہ بھی تصدیق نہیں کرسکا۔
پریس کانفرنس کے دوران کرنل صوفیہ قریشی نے کہا کہ آپریشن میں کسی فوجی تنصیب کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی پاکستان میں شہری ہلاکتوں کی کوئی اطلاع ہے تاہم پاکستانی فوج کے ایک ترجمان نے کہا کہ بھارتی فوج کی کارروائی میں کم از کم 26 شہری مارے گئے۔
بھارت کے حملے میں پاک فوج کے افسر لیفٹیننٹ کرنل کا 7 سالہ بیٹا شہید ، نجی ٹی وی کا دعویٰ
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
انجینئر محمد علی مرزا کو گستاخی کا مرتکب قرار دینے کے خلاف درخواست پر سماعت
اسلام آباد:انجینئر محمد علی مرزا کو گستاخی کا مرتکب قرار دینے پر عدالت نے اسلامی نظریاتی کونسل کو جواب دینے کے لیے آخری مہلت دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں انجینئر محمد علی مرزا کو گستاخی کا مرتکب قرار دینے کی قرارداد کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں اسلامی نظریاتی کونسل نے تحریری جواب جمع نہیں کرایا، جس پر عدالت نے جواب کے لیے مہلت دینے کی استدعا منظور کرلی۔
عدالت نے اسلامی نظریاتی کونسل کو جواب جمع کرانے کےلیے ایک ہفتے کی آخری مہلت دیدی۔
دورانِ سماعت انجینئر محمد علی مرزا کی جانب سے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت کیس میں فریق بننے کا فیصلہ سامنے آیا، جس کی متفرق درخواست دائر کردی گئی، تاہم رجسٹرار آفس نے اس پر اعتراض عائد کر دیا۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انجینئر محمد علی مرزا نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے۔ درخواست پر اعتراضات ہیں، اِس لیے آج عدالت کے سامنے نہیں ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پہلے اعتراض دور کریں، پھر فریق بننے کی درخواست پر آرڈر پاس کریں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے پر ہی یہ کارروائی ہوئی ہے۔ اِس نئے تصور کے مطابق تو توہین کے تمام کیسز اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجے جانے چاہییں۔
وکیل ڈاکٹر اسلم خاکی نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل صرف صدر یا صوبے کے گورنر کے مانگنے پر رائے دے سکتی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ انہیں انویسٹی گیشن کے اختیارات مل گئے ہوں۔ جس پر وکیل نے استدعا کی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی انجینئر محمد علی مرزا سے متعلق قرارداد معطل کی جائے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ وہ تھوڑا مشکل ہو جائے گا، ابھی دوسری سائیڈ کا جواب نہیں آیا۔ جب تک دوسری سائیڈ کا جواب نہیں دیکھوں گا میں عبوری آرڈر جاری نہیں کر سکتا۔ صرف ایک ہفتے کا وقت دے رہا ہوں، جواب نہ آیا تو آرڈر پاس کر دوں گا۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 12 نومبر تک ملتوی کر دی۔