Islam Times:
2025-11-05@03:21:31 GMT

سفید جھنڈا لہرانے کا مطلب شکست کیوں ہوتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

ہسٹری نامی ویب سائٹ کے مطابق جدید تاریخ میں پہلی بار ہیگ کنونشن میں عالمی قوانین میں حالت جنگ کے دوران سفید پرچم کے لہرانے کو شکست کے طور پر درج کیا گیا۔ ہیگ کنونشن میں عالمی قوانین بن جانے کے بعد جنگ عظیم اول 1911 سے 1914 کے درمیان بھی متعدد افواج نے سفید پرچم لہرا کر شکست تسلیم کی اور مخالف حریف کی جنگی کارروائیوں سے محفوظ رہی۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے خلاف افواج پاکستان کی دلیرانہ کارروائی پر بھارت نے جنگ کے مقامات پر سفید جھنڈے لہرا کر شکست تسلیم کرنے کے بعد بہت سارے ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ سفید پرچم لہرانے کا مطلب شکست کیوں ہوتا ہے؟ بھارت کی جانب سے 6 مئی کو رات گئے پاکستان کے 6 مختلف مقامات پر حملے کیے گئے تھے، جس پرپاکستانی فوج نے کارروائی کرتے ہوئے بھارتی فوج کے پانچ طیارے تباہ کرنے سمیت برگیڈ ہیڈ کوارٹر بھی تباہ کردیا تھا۔

افواج پاکستان کی بہادرانہ کارروائیوں کے بعد بھارت نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے متعدد مقامات پر سفید جھنڈے لہرا کر شکست تسلیم کی تھی۔ پاک فوج کے سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ایل او سی کے چورا کمپلیکس، چکوٹھی سیکٹر، لیپہ سیکٹر میں پوسٹ وانجل فارورڈ اور چری کوٹ سیکٹر پر بھارتی فوج نے سفید جھنڈے لہرائے تھے۔ بھارتی فوج کی جانب سے سفید جھنڈے لہرائے جانے کے بعد پاکستانی فوج نے وہاں پر کوئی کارروائی نہیں کی، کیوں کہ بھارت نے پرچم لہرا کر شکست تسلیم کی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح سفید پرچم کے لہرانے کو شکست تسلیم کیا جاتا ہے؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ عالمی جنگی قوانین کے مطابق حالت جنگ کے دوران دشمن کی جانب سے سفید پرچم لہرانے کو ان کی جانب سے شکست تسلیم کرنا سمجھا جائے گا، ایسی صورت میں دوسرے فریق کو حملہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ حالت جنگ میں سفید پرچم کے لہرانے کو شکست تسلیم کرنے کی تاریخ 200 قبل مسیح سے بھی پرانی ہے، تاہم جدید تاریخ میں اسے پہلی بار 1899 میں عالمی جنگی قوانین کا حصہ بنایا گیا۔

ہسٹری نامی ویب سائٹ کے مطابق جدید تاریخ میں پہلی بار ہیگ کنونشن میں عالمی قوانین میں حالت جنگ کے دوران سفید پرچم کے لہرانے کو شکست کے طور پر درج کیا گیا۔ ہیگ کنونشن میں عالمی قوانین بن جانے کے بعد جنگ عظیم اول 1911 سے 1914 کے درمیان بھی متعدد افواج نے سفید پرچم لہرا کر شکست تسلیم کی اور مخالف حریف کی جنگی کارروائیوں سے محفوظ رہی۔ اسی طرح جنگ عظیم دوئم کے دوران بھی متعدد ممالک کی افواج نے حالت جنگ میں سفید پرچم لہرا کر اپنی شکست تسلیم کی۔

اس سے قبل 15ویں اور سولہویں صدی میں امریکی خانہ جنگی سمیت دیگر ممالک اور ریاستوں کے درمیان ہونے والی جنگوں میں بھی جنگ کے دوران سفید پرچم لہرا کر شکست ماننے کی تاریخ ملتی ہے۔ پہلی بار رومن سلطنت میں 200 قبل مسیح میں جنگوں کے دوران سفید پرچم لہرا کر شکست تسلیم کرنے کی تاریخ ملتی ہے۔ جنگی ماہرین کے مطابق سفید پرچم لہرانا صرف شکست کو تسلیم کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ پرچم لہرانے والے فریق حریف سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی سفید پرچم لہراتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سفید پرچم کے لہرانے کو شکست پرچم لہرا کر شکست تسلیم سفید پرچم لہرا کر شکست لہرا کر شکست تسلیم کی کے دوران سفید پرچم سفید جھنڈے لہرا جنگ کے دوران کی جانب سے حالت جنگ کے مطابق پہلی بار ہوتا ہے کے بعد

پڑھیں:

محسوس ہوتا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر کام شروع ہو چکا، ملک محمد احمد خان

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک محمد احمد خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر کام شروع ہو چکا ہے اور اس میں مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دلانے کے امور زیرِ بحث ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر بلدیاتی نظام، وفاقی و صوبائی مالیاتی امور اور امن و امان کے بعض سوالات پر واضح مؤقف پیش کیا۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ بلدیاتی نظام ایک ایسا موضوع ہے جس پر صوبے خود قانون سازی کریں گے۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ پنجاب اسمبلی کی طرف سے بھی ایسی قرارداد بھیجی گئی تھی جس میں تمام جماعتوں نے مشترکہ موقف اپنایا تھا کہ بلدیاتی حکومت کو آئینی تحفظ ملنا چاہیے۔ ان کے الفاظ میں،

’جیسے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے، ویسے ہی مقامی حکومتوں کو بھی آئینی تحفظ ہونا چاہیے۔‘

یہ بھی پڑھیے کیا 27ویں ترمیم کے ذریعے 18ویں ترمیم واپس ہونے جا رہی ہے؟

ملک محمد احمد خان نے کہا کہ وہ صدرِ پاکستان اور وزیرِ اعظم تک اس پیغام کو پہنچائیں گے اور اس معاملے پر کسی قسم کی اختلاف رائے کو مناسب نہ سمجھا جانا چاہیے۔ اگر ستائیسویں آئینی ترمیم میں مقامی حکومتوں کو براہِ راست شق شامل نہ بھی کی گئی تو بعد میں اس کی شق شامل کرانے کے مواقع موجود ہوں گے۔

مالیاتی امور پر اسپیکر نے سوال اٹھایا کہ این ایف سی کے فنڈز صوبوں کو دینے کے بعد کیا وفاق کے پاس اتنی گنجائش رہ جاتی ہے کہ وہ اپنا کام چلا سکے؟ انہوں نے زور دیا کہ جن قرضوں کی ادائیگیاں وفاق کر رہا ہے، اُن میں صوبوں کو بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جو جرائم کی بنیاد پر تحریکِ انصاف کے بانی جیل میں ہیں، ان جرائم کی جانچ ہونی چاہیے لیکن وہ کسی کو طویل عرصے قید میں رکھنے کے حق میں نہیں۔ انہوں نے اظہارِ خیال میں سنگین مثالیں دیتے ہوئے کہا:

’اگر کسی کی خواہش ہے کہ میرا گھر جلا دے تو اس کی بھی آزادی ملنی چاہیے؟ پوری تاریخ کے ورثے کو جلا کر رکھ دینا چاہیے، کیا اس کی آزادی ملنی چاہیے؟ کیا آپ کو یہ آزادی بھی چاہیے کہ شہیدوں کے مجسمے اڑا دیے جائیں؟‘

یہ بھی پڑھیے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

علاوہ ازیں، اسپیکر نے ٹریفک اور قانون نافذ کرنے والے محکموں سے متعلق بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ڈمپر مافیا کے خلاف خبروں کو ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ڈمپر مافیا کی بے ہنگم ٹریفک پر قابو پانا چاہیے تاکہ شہریوں کو آسانی اور حفاظت میسر ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان ستائیسویں آئینی ترمیم

متعلقہ مضامین

  • پہلا ون ڈے: پاکستان نے جنوبی افریقا کو 2وکٹوں سے شکست دے دی
  • 27ویں ترمیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سب کو پتا ہے کون کروارہا ہے، حامد خان
  • محسوس ہوتا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر کام شروع ہو چکا، ملک محمد احمد خان
  • پی ایس ایل ٹیم مالکان کا مطالبہ تسلیم، بورڈ کا ہنگامی اجلاس آج ہوگا
  • ہر ڈس آنر چیک فوجداری جرم نہیں ہوتا جب تک بدنیتی ثابت نہ ہو، لاہور ہائیکورٹ
  • پاکستان کی سفارتی کامیابیاں دنیا تسلیم کرتی ہے، عطاء اللہ تارڑ
  • یو اے ای میں پرچم کی توہین پر 25 سال قید اور بھاری جرمانے کی وارننگ
  • یو اے ای میں پرچم کی توہین پر سخت سزا اور جرمانے کا اعلان
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ: جنوبی افریقہ اور انڈیا کا فائنل میں مقابلہ تاریخ ساز کیوں قرار دیا جارہا ہے؟