پاکستان بھارت کے درمیان شپنگ روابط معطل ہونے سے کارگو کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شپنگ کمپنیوں نے پاکستان سے یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقا جانے والے کنٹینرز پر شپنگ چارجز میں 800 ڈالر تک اضافہ کر دیا۔ پاکستان بھارت کے درمیان شپنگ روابط معطل ہونے سے شپنگ کمپنیوں نے شپنگ چارجز بڑھا دیئے ہیں۔ برآمد کنندگان کے مطابق مشرق وسطیٰ، افریقا اور یورپ کے کنٹینر کارگو پر 300 سے 800 ڈالر تک کا اضافہ کیا گیا۔ پاکستان بھارت کے درمیان شپنگ روابط معطل ہونے سے کارگو کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستانی کارگو کی عمان اور سری لنکا کی بندرگاہوں سے ٹرانس شپمنٹ کی جا رہی ہے۔ ذرائع شپنگ انڈسٹری کے مطابق پاک بھارت شپنگ روابط نہ ہونے کی وجہ سے شپنگ کمپنیوں کو خصوصی شپنگ سروسز چلانا پڑ رہی ہیں۔ ایشیائی ملکوں تک پاکستانی کارگو کی شپنگ پر فی کنٹینرز 300 ڈالر، جبکہ افریقہ اور یورپ کیلئے 800 ڈالر تک اضافہ کیا گیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شپنگ روابط کارگو کی ڈالر تک

پڑھیں:

فلسطین کو تسلیم کرنا، سفارتی ڈرامہ یا انصاف کی جانب قدم؟

اسلام ٹائمز: اگر یورپ واقعی اپنے امن پسندی کے دعوے میں سچا ہے تو اسے قبول کر لینا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین کا منطقی اور منصفانہ راہ حل وہی ہے جو بارہا پیش کیا جا چکا ہے: مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور حتی سیکولر حلقوں سمیت تمام فلسطینیوں کی شرکت سے ایک وسیع ریفرنڈم کا انعقاد۔ صرف ایسے جامع ریفرنڈم کے سائے تلے ہی فلسطینی قوم کا اپنی تقدیر کے تعین کا حق پورا ہو سکتا ہے اور خطے میں پائیدار امن برقرار ہو سکتا ہے۔ ہر دوسرا راہ حل صرف عارضی طور پر درد ختم کرنے یا پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے سفارتی ڈرامہ بازی ہی ہو سکتی ہے۔ تحریر: سید مہدی نورانی
 
یورپی یونین اور اس کے تمام رکن ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے امکان کی خبروں نے مختلف قسم کے تجزیات اور قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔ اگر یہ خبر حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے تو ہم یورپ کی سفارتی تاریخ میں اہم ترین علامتی اور ساتھ ہی ساتھ مشکوک یوٹرن کا مشاہدہ کریں گے۔ لیکن اس تسلیم کرنے کے دعوی کا کیا مطلب ہے؟ اور اس کے پیچھے کیا اہداف کارفرما ہیں؟ اور کیا یہ واقعی فلسطینی قوم اور مزاحمت کے حق میں ہے یا نہیں؟
ایک سفارتی فیصلے کے پوشیدہ پہلو اور پیش کردہ شرائط
اس بات کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں چند اہم نکات سے غافل نہیں ہونا چاہیے:
 
1۔ سماجی دھماکے سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر: غاصب صیہونی رژیم میدان جنگ میں، نفسیاتی لحاظ سے اور اپنی مشروعیت کے بارے میں ناکامیوں کی دلدل میں پھنس چکی ہے۔ مغربی رائے عامہ، خاص طور پر یورپ میں مزید غزہ میں جاری ظلم و ستم برداشت کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ ایسے حالات میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا یورپی حکمرانوں کی سوچ میں حقیقی تبدیلی کی علامت سے زیادہ ایک احتیاطی حکمت عملی ہے جو یورپ میں سماجی دھماکے کو کنٹرول کرنے اور عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے انجام پا رہی ہے۔
2۔ امریکہ پر دباو کا ذریعہ: یہ فیصلہ محض امریکہ پر دباو ڈالنے کی خاطر بھی ہو سکتا ہے تاکہ ٹیکسوں کی جنگ میں واشنگٹن سے ایک طرح کا سفارتی بھتہ وصول کیا جا سکے۔ یورپ کی کوشش ہے کہ وہ اس ہتھکنڈے کو بروئے کار لا کر امریکہ کے مقابلے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔
 
3۔ خطے میں یورپ کا کھویا ہوا کردار دوبارہ حاصل کرنا: یورپ ایک عرصے سے خطے کے سیاسی حالات میں فعال اور موثر کردار کھو چکا ہے۔ اب اس اقدام کے ذریعے وہ "امن پسندی" کے لیبل سے خود کو جارح امریکہ سے دور کرنا چاہتا ہے اور علاقائی سطح پر اپنا اثرورسوخ دوبارہ حاصل کرنے کے درپے ہے۔
4۔ مشروط اور ناقص طور پر تسلیم کرنا (بعض ممالک کی شرائط بیان کر کے): اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ بیانیہ نہ صرف اسرائیل کا وجود قبول کرنے کی شرط سے جڑا ہے بلکہ ممکنہ طور پر "فلسطینی ریاست" بھی اقوام متحدہ کی قرارداد 242 کے تحت تشکیل دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدس شریف کے بغیر، حق واپسی کے بغیر اور اسلامی مزاحمت سے عاری فلسطینی ریاست مدنظر ہے۔
 
فرانس جیسے بعض ممالک نے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے لیے کچھ شرائط بھی پیش کی ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس نے فریقین کے درمیان مذاکرات کی ضرورت اور دو ریاستی راہ حل پر زور دیا ہے۔ عملی طور پر اس کا مطلب 1967ء کی سرحدیں مان لینا اور قدس شریف کی تقسیم ہے۔ اس شکل میں فلسطین واضح طور پر اس سے بہت زیادہ متضاد ہے جو فلسطینی قوم کی آرزو ہے۔
5۔ عمل کے بغیر علامتی سرگرمیاں: علامتی طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اور عمل میں موثر اقدامات انجام نہ دینا اور اسرائیل پر دباو نہ ڈالنا صرف حقیقت سے آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔ کیا اس طرح اسرائیل صیہونی بستیوں کی تعمیر روک دے گا؟ کیا غزہ کا محاصرہ ختم کر دے گا؟ کیا صیہونی رژیم کو اسلحہ کی فراہمی رک جائے گی؟ کیا اسرائیل مقبوضہ علاقوں سے پیچھے ہٹ جائے گا؟ یقیناً نہیں۔ عملی اقدامات کے بغیر یہ کام صرف رائے عامہ کو فریب دینے کے لیے ہے۔
 
6۔ اسلامی مزاحمت کو کنٹرول کرنا اور شہداء کا خون ضائع کرنا: اس فیصلے کا اصل مقصد اسلامی مزاحمت کی تحریک ختم کرنا اور غزہ کے شہداء کا خون ضائع کرنا ہے۔ ایسے ہی جس طرح لبنان میں حالیہ حکومت کی تشکیل کے بعد حزب اللہ لبنان کو گوشہ نشین کرنے اور حکومت کا کردار بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کیا جا سکے۔ اس بار فلسطین میں فلسطین اتھارٹی کو مشروع ظاہر کر کے، جس کا نیتن یاہو کابینہ سے کوئی فرق نہیں ہے، اور دو ریاستی راہ حل دوبارہ زندہ کر کے غزہ میں اسلامی مزاحمت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا اور اسے ختم کرنا مقصود ہے۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اگرچہ بظاہر فلسطین کے حق میں ایک اچھا قدم ہے لیکن باطن میں ممکن ہے اسی پرانی سازش کا تسلسل ہو جس کے تحت اسلامی مزاحمت ختم کر کے مسئلہ فلسطین کو قبضے اور مزاحمت کی بجائے محض ایک سفارتی تنازعہ بنانے کی کوشش جاری ہے۔
 
حقیقی راہ حل: وسیع ریفرنڈم
اگر یورپ واقعی اپنے امن پسندی کے دعوے میں سچا ہے تو اسے قبول کر لینا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین کا منطقی اور منصفانہ راہ حل وہی ہے جو بارہا پیش کیا جا چکا ہے: مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور حتی سیکولر حلقوں سمیت تمام فلسطینیوں کی شرکت سے ایک وسیع ریفرنڈم کا انعقاد۔ صرف ایسے جامع ریفرنڈم کے سائے تلے ہی فلسطینی قوم کا اپنی تقدیر کے تعین کا حق پورا ہو سکتا ہے اور خطے میں پائیدار امن برقرار ہو سکتا ہے۔ ہر دوسرا راہ حل صرف عارضی طور پر درد ختم کرنے یا پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے سفارتی ڈرامہ بازی ہی ہو سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چیٹ جی پی ٹی کی مقبولیت میں تاریخی اضافہ، کاروباری صارفین 5 کروڑ تک پہنچ گئے
  • رواں مالی سال، پہلے ماہ برآمدات میں 8.88 فیصد اضافہ
  • بھارت کے مشرق میں گہرائی تک حملہ، ڈی جی آئی ایس پی آر کا بھارتی جارحیت پر دو ٹوک موٴقف سامنے آگیا
  • امریکی ڈالر کے مقابل پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل 10ویں روز اضافہ
  • غیرملکی شپنگ کمپنی نے اسلام آباد میں اپنا پہلا رابطہ دفتر قائم کردیا
  • ڈالر کے مقابل روپے کی قدر میں مسلسل دسویں روز اضافہ
  • فلسطین کو تسلیم کرنا، سفارتی ڈرامہ یا انصاف کی جانب قدم؟
  • کارگو کمپنیوں کے ذریعے موبائل فون اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک کا پردہ فاش 
  • کارگو کمپنیوں کے ذریعے موبائل فون سمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک پکڑا گیا، 2 ملزمان گرفتار
  • پاکستان کا ہر گزرتے سال ایران سے درآمدات پر انحصار میں مسلسل اضافہ