Express News:
2025-06-23@07:35:52 GMT

قومی یکجہتی ، وقت کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT

بھارت نے ہم پر حملہ کر کے غلطی کی ہے، بھارت نے جو جارحیت کی ہے اس کا خمیازہ ضرور بھگتنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی حملے میں ہمارے 26 شہری شہید ہوئے، ہم عہد کرتے ہیں کہ شہیدوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا ضرور حساب لیں گے۔ پہلگام واقعہ بے بنیاد ہے جس کی ہم نے تحقیقات کی پیش کش کی مگر بھارت نے اسے قبول نہیں کیا اور جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

وزیراعظم کا قوم سے خطاب ایک قومی پالیسی کا عکس بھی ہے، جس میں واضح پیغام دیا گیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خود مختاری پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ خطاب میں شہداء کے خون کو نہ بھولنے کا عزم کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان اب کسی جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا۔ ان کے الفاظ میں وہ شدت، جذبہ اور حوصلہ شامل تھا جس کی ایک بحران زدہ قوم کو ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ شہداء کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا، محض ایک سیاسی دعویٰ نہیں بلکہ ایک قومی پالیسی کا اعلان ہے، جو پوری ریاست کی سوچ اور پالیسی کا عکاس ہے۔

پاکستان کی جانب سے بھارتی الزامات اور حملے کے بعد اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو متحرک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عالمی برادری آخرکب تک بھارت کی ہٹ دھرمی اور جنگی جنون کو نظر انداز کرتی رہے گی؟ اگر بھارت کے ان جارحانہ اقدامات کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جائیں گے۔

پاکستان کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہم نے مشرقی سرحد سے لے کر مغربی سرحد تک، ہر مقام پر دشمن کا مقابلہ کیا ہے۔ ہماری مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف طویل اور مشکل جنگ لڑی اور ہزاروں شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک کو امن دیا۔ پاکستانی قوم نے ہمیشہ مشکل حالات میں اتحاد، ہمت اور قربانی کی مثال قائم کی ہے۔

چاہے وہ 1965 کی جنگ ہو، 1999 کا کارگل معرکہ ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری قوم نے ہمیشہ اپنے ملک اور افواج کے ساتھ کھڑے ہو کر دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنایا ہے۔ بھارت کی جانب سے حالیہ مہینوں میں جس تسلسل کے ساتھ جنگی ماحول پیدا کیا گیا، اس نے پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی، دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی اور سفارتی محاذ پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں بھارت کی جارحانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔

  پاکستان نے 25 بھارتی ڈرونز مارگرائے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت نہ صرف موجود ہے بلکہ پوری مہارت کے ساتھ متحرک بھی ہے۔ پاکستانی افواج کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور فوری ردعمل نے دشمن کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ کوئی بھی مہم جوئی یا اشتعال انگیزی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ محض اعداد و شمار کا معاملہ نہیں بلکہ ایک واضح سیاسی و عسکری پیغام ہے کہ پاکستان نہ صرف دشمن کی حرکات پر نظر رکھے ہوئے ہے بلکہ کسی بھی خطرے کا فوری اور مؤثر جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارتی قیادت، خصوصاً وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسیاں اب کھل کر سامنے آ چکی ہیں۔ ان کی حکومت کا جھکاؤ انتہا پسند ہندو توا نظریے کی طرف بڑھ رہا ہے، جس نے بھارت کو ایک سیکولر ریاست کے بجائے ایک ہندو قوم پرست ریاست میں تبدیل کردیا ہے۔ پاکستان کو اس حقیقت کا ادراک ہے، اور اسی بنیاد پر اس نے عالمی برادری کو بارہا خبردارکیا ہے کہ جنوبی ایشیا کا امن اس رویے سے شدید خطرے میں ہے۔

پاکستان کی طرف سے بھارت کے جنگی جنون کو دنیا بھر میں بے نقاب کرنے کی سعی، ایک سنجیدہ سفارتی کوشش کی غمازی کرتی ہے۔ اس میں پاکستان کا مقصد نہ صرف بھارتی پروپیگنڈا کا توڑ کرنا ہے بلکہ اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں کو اس معاملے میں فعال کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنا بھی ہے۔ بھارت کی جانب سے جو رویہ اپنایا جا رہا ہے، وہ محض پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہے۔ کشمیرکی صورتحال، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ہمسایہ ممالک کے خلاف مسلسل مداخلت، یہ سب بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی نشانیاں ہیں۔

ان حالات میں پاکستان کے لیے سب سے بڑی ضرورت قومی یکجہتی ہے۔ دفاع وطن کے لیے جس اتحاد و یگانگت کی آج ضرورت ہے، شاید اس سے قبل کبھی نہ تھی۔ یہ وقت ہے کہ سیاسی، مذہبی اور سماجی سطح پر تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر قوم ایک جھنڈے تلے متحد ہو جائے۔ دشمن کو یہی دکھانا ہے کہ پاکستانی قوم نہ صرف اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے بلکہ اپنی خودمختاری، آزادی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔

قوم اور افواج پاکستان کے درمیان جو رشتہ ہے، وہ محض دفاعی اتحاد نہیں بلکہ ایک نظریاتی بندھن ہے، جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوا ہے۔ بھارت نے اچانک اور بلا جواز حملہ کرکے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ جنوبی ایشیاء کے امن کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ یہ حملہ نہ صرف پاکستان کی خود مختاری پرکھلی جارحیت تھی بلکہ یہ ایک ایٹمی صلاحیت کی حامل دو ریاستوں کے درمیان کشیدگی کو ناپسندیدہ حد تک لے جانے کی ناپختہ کوشش بھی تھی۔

بھارت کی جانب سے اس طرح کا حملہ اس وقت کیا گیا جب خطے میں پہلے ہی کشیدگی موجود تھی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے بارہا پاکستان مخالف بیانات، جنگی جنون اور ہندو توا کے نظریات کی ترویج نے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت نے پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ جارحیت کی، حالانکہ پاکستان نے اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی جسے بھارتی حکومت نے مسترد کردیا۔

پاکستان نے ہمیشہ امن کا راستہ اختیار کیا ہے، مگر جب بات خود مختاری، قومی سلامتی اور شہریوں کے تحفظ کی ہو، تو ہماری بہادر افواج کسی بھی قیمت پر دشمن کو منہ توڑ جواب دینے سے گریز نہیں کرتیں۔ یہ جوابی کارروائی محض ایک دفاعی قدم نہیں بلکہ دشمن کو یہ باور کروانے کا ذریعہ بھی تھی کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ ہماری فضائیہ کے شاہینوں نے جس مہارت، چابکدستی اور شجاعت کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف پوری قوم کے لیے باعث فخر ہے بلکہ عالمی سطح پر ہماری دفاعی صلاحیتوں کی ایک واضح مثال بھی ہے۔

پاکستان کو اس حملے کے بعد مزید مضبوط حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ ایک طرف ہمیں اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانا ہوگا، تو دوسری طرف سفارتی محاذ پر مؤثر طور پر اپنی بات دنیا کے سامنے رکھنی ہوگی۔ اسی کے ساتھ ساتھ داخلی استحکام، قومی یکجہتی اور عوامی فلاح کے منصوبے بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کسی قسم کی داخلی کمزوری کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔

یہ جنگ صرف سرحدوں پر نہیں لڑی جا رہی، بلکہ یہ ذہنوں اور سفارتی ایوانوں میں بھی جاری ہے۔ ہمیں ہر محاذ پر متحد ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔ یہ وقت سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنے کا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ثابت کریں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، جو شہداء کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرتی۔یہ پیغام صرف دشمن کے لیے نہیں، بلکہ دوستوں کے لیے بھی ہے۔ دنیا کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ اگر امن چاہیے، تو انصاف ضروری ہے اور اگر انصاف نہیں ہو گا تو جنوبی ایشیا میں کبھی بھی مستقل امن قائم نہیں ہو سکے گا۔

پاکستان کا یہ موقف اصولی ہے، واضح ہے اور تاریخ کے تناظر میں بالکل درست ہے۔ ہمیں اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینی ہے، چاہے وہ میدان جنگ ہو، سفارتی دنیا ہو یا میڈیا کی جنگ۔عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ بھارت کو اس کے جنگی جنون سے روکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے دو جوہری ممالک کے درمیان جنگ کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہے گی۔

اگر عالمی طاقتیں واقعی امن کی خواہاں ہیں، تو انھیں فوری طور پر پاک بھارت کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ مگر یہ بھی واضح ہے کہ پاکستان کسی کی مہربانی کا محتاج نہیں۔ اگر ہمیں اپنے دفاع کے لیے تنہا بھی کھڑا ہونا پڑے تو ہم کھڑے ہوں گے، جیسا کہ ماضی میں بارہا کیا ہے۔ ہمیں نہ صرف دشمن کے حملوں کا جواب دینا ہے، بلکہ دنیا کو یہ بھی باور کروانا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں، مگر عزت کے ساتھ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے کہ پاکستان عالمی برادری پاکستان کی کی جانب سے جنگی جنون نہیں بلکہ بھارت کی بھارت نے کرنے کی کے ساتھ ہے بلکہ دشمن کو کے خلاف کی طرف کیا ہے بھی ہے

پڑھیں:

میدان جنگ سے سفارت کاری تک، پاکستان کی فتح

فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان حالیہ غیر معمولی ملاقات نے عالمی مبصرین، تجزیہ کاروں اور حکومتوں کی بھرپور توجہ حاصل کی ہے۔ یہ محض دو اہم شخصیات کی ایک اعلیٰ سطحی ملاقات نہ تھی، بلکہ ایک تاریخی علامت تھی—پاکستان کو ایک پُرامن، ذمہ دار اور عسکری لحاظ سے قابل ملک کے طور پر تسلیم کرنے کی علامت، اور اس بات کی تصدیق کہ اس کی مسلح افواج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے جنرل عاصم منیر کو دیا گیا احترام اور اعزاز پاکستان کی بڑھتی ہوئی ساکھ، اس کی اسٹریٹیجک اہمیت اور اخلاقی مقام پر ایک سفارتی مہر تھی۔
یہ ملاقات ہزار پیغامات کا وزن رکھتی تھی۔ اس کا اصل مفہوم یہ تھا کہ دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان کے معاملات میں سنجیدہ اور پیشہ ورانہ عسکری طرزِ عمل کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ اس کی تقلید بھی کی جاتی ہے۔ جنرل منیر، جو پاک فوج کے نظم و ضبط، بہادری اور وقار کی علامت ہیں، دنیا کے سامنے ایک ایسے ملک کی تصویر لے کر آئے جو غصے کے بجائے فہم، جلد بازی کے بجائے تدبر، اور بے قابو انتقام کے بجائے ذمہ داری کو ترجیح دیتا ہے۔ جب بھارت نے حالیہ جارحانہ اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا، تب پاکستان نے بالکل اتنی ہی طاقت سے، بالکل مناسب وقت پر جواب دیا—نہ ایک انچ زیادہ، نہ ایک لمحہ کم۔ اس متوازن مگر مضبوط ردِعمل نے نہ صرف بھارت کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ ان حلقوں کے لیے بھی ایک پیغام تھا جو نئی دہلی کی جنگجویانہ پالیسیوں کے پسِ پردہ خاموشی سے سرگرم ہیں۔
تاریخی طور پر جنگیں اور عسکری تصادم اکثر اپنی تباہ کاریوں کے لیے یاد رکھے جاتے ہیں، مگر بہت کم مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں تحمل کو تاریخ نے سراہا ہو۔ پاکستان کا جواب، جو انتقام کے بجائے فہم اور تدبر پر مبنی تھا، جدید تاریخ کے ان نادر لمحات میں شامل ہوگا جب ایک قوم، تباہی پھیلانے کی مکمل صلاحیت رکھنے کے باوجود، عقل مندی اور محدود کارروائی کا راستہ چنتی ہے۔ یہ بذاتِ خود ایک اخلاقی اور عسکری فتح تھی۔
اور جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ آلِ عمران (3:26) میں فرمایا گیا ہے:
کہو، اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی عطا کرے، اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے، اور جسے چاہے عزت دے، اور جسے چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کو اس عالمی مقام پر جو عزت و توقیر ملی، وہ دراصل اسی الٰہی اصول کی عملی تصویر تھی،عزت انہی کو ملتی ہے جو عزت کے اہل ہوں، اور غرور کرنے والے ذلیل کیے جاتے ہیں۔
اس ملاقات کی گونج مشرقی سرحد پار سب سے زیادہ محسوس کی گئی۔ بھارتی سیاسی اور میڈیا حلقے ایک بے یقینی کی خاموشی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو طویل عرصے سے خطے میں بالادستی اور عسکری غلبے کے خواب دیکھتا رہا، اس کے لیے ایک پاکستانی جنرل کو عالمی سطح پر،خصوصاً صدر ٹرمپ جیسے مغربی سیاسی اثر و رسوخ کی علامت سے،عزت و احترام حاصل کرتے دیکھنا ناقابلِ برداشت امر بن گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی وہ حکمتِ عملی، جو پاکستان دشمنی کے بیانیے پر کھڑی تھی، اب دھیرے دھیرے بکھرنے لگی ہے۔ بھارت کی نام نہاد علاقائی برتری کا افسانہ، جنگ سے نہیں بلکہ سفارت کاری، عالمی قبولیت اور سچائی کے ذریعے بے نقاب ہو گیا ہے۔
یہ ملاقات عالمی طاقت کے بدلتے ہوئے رجحانات کی علامت بھی ہے۔ جنرل منیر کا یہ سفارتی قدم ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب پاکستان نے حال ہی میں چینی دفاعی ساز و سامان کے کامیاب استعمال کا مظاہرہ کیا۔ دنیا کے عسکری تجزیہ کار اس پیش رفت کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ سفارت کاری میں جذبات نہیں بلکہ مفادات غالب ہوتے ہیں۔ چین کی دفاعی ٹیکنالوجی کو پاکستان نے جس مہارت سے استعمال کیا، اس نے مشرق و مغرب دونوں کے لیے نئی سوچ کے دروازے کھول دیے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جنرل منیر سے ملاقات کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ایک نئی اسٹریٹجک صف بندی، روابط کی بحالی، اور اس اعتراف کے طور پر کہ خطے کا مستقبل پاکستان کو نظر انداز کر کے نہیں بلکہ اس کے ساتھ مل کر طے کیا جا سکتا ہے۔
جنوبی ایشیاء سے آگے بڑھ کر، اس ملاقات نے عالمی سطح پر امید کی نئی لہریں پیدا کی ہیں۔ جنرل منیر محض ایک قومی عسکری رہنما نہیں بلکہ اب انہیں ایک ایسے مدبر سیاستدان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس کا اثر و رسوخ پاکستان کی حدود سے کہیں آگے ہے۔ سفارتی حلقوں میں یہ بات اب سرگوشیوں میں کہی جا رہی ہے کہ ان کا متوازن رویہ اور تدبر ایران و اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر،جسے طویل عرصے تک یا تو نظرانداز کیا گیا یا محض دو طرفہ مسئلہ سمجھا گیا—اب ایک بار پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ جب پاکستان کی حیثیت ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ابھر رہی ہے، تو اس مسئلے پر سنجیدہ عالمی ثالثی کا امکان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف بھارتی میڈیا، جو عموماً شور، غرور اور بڑھکوں سے بھرا ہوتا ہے، اب الجھن، دفاعی رویے اور تضادات کا شکار ہے۔ دہائیوں سے بنایا گیا بیانیہ پاکستان کی خاموش، پُرعزم اور حکمت پر مبنی سفارت کاری کے سامنے بکھر گیا ہے۔
دنیا نے اس لمحے میں، جب صدر ٹرمپ اور جنرل سید عاصم منیر کی ملاقات ہوئی، صرف ایک مصافحہ نہیں دیکھا—بلکہ ایک تبدیلی دیکھی۔ ایک ایسی تبدیلی جو تاثرات، تعلقات اور جنوبی ایشیا کی سیاست کے بیانیے کو نئی شکل دے گئی۔ یہ ایک غیر اعلانیہ مگر پُراثر اعلان تھا کہ پاکستان، جو کبھی علاقائی کشیدگی اور عالمی بداعتمادی کی آنکھ سے دیکھا جاتا تھا، اب ایک قابلِ اعتماد، سنجیدہ اور ناقابلِ نظرانداز عالمی کردار بن چکا ہے۔
یہ ملاقات صرف اپنی علامتی اہمیت کے لیے یاد نہیں رکھی جائے گی، بلکہ ان امکانات کے لیے بھی جو اس نے پیدا کیے—خطے میں امن، متوازن سفارت کاری، اور سچائی کی فتح کے امکانات۔ اس نے مستقبل کی ایک جھلک دکھائی، جہاں پاکستان کی آواز صرف سنی نہیں جاتی، بلکہ عزت کے ساتھ سنی جاتی ہے۔ اور اس باوقار ابھار میں، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی میراث محض عسکری تاریخ میں نہیں، بلکہ عالمی سفارت کاری اور امن کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے رقم ہو چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جھوٹے دیو قامتوں کا زوال
  • دشمن ایران کی حقیقی عسکری، سائنسی اور تزویراتی صلاحیتوں سے ناآشنا ہے، ناصر شیرازی کا خصوصی انٹرویو
  • مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں مظالم، مسلم امہ کے اتحاد کی ضرورت ہے، اسحاق ڈار
  • مشکل حالات میں مسلم امہ کے اتحاد اور مشترکہ اقدامات کی اشد ضرورت ہے، نائب وزیراعظم
  • درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، اسحاق ڈار کا او آئی سی رابطہ گروپ برائے جموں و کشمیر سے خطاب
  • پاک فوج جدید جنگی حکمت عملی کے تحت دشمن کو بھرپور جواب دے رہی ہے، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف
  • قومی اسمبلی میں روایت اور جدت کا امتزاج
  • ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام قومی کانفرنس دینی جرائد و میڈیا آج ہوگی
  • پارلیمینٹیرینز کافی کارنر: قومی اسمبلی میں روایت اور جدت کا امتزاج
  • میدان جنگ سے سفارت کاری تک، پاکستان کی فتح