بھارت نے ہم پر حملہ کر کے غلطی کی ہے، بھارت نے جو جارحیت کی ہے اس کا خمیازہ ضرور بھگتنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی حملے میں ہمارے 26 شہری شہید ہوئے، ہم عہد کرتے ہیں کہ شہیدوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا ضرور حساب لیں گے۔ پہلگام واقعہ بے بنیاد ہے جس کی ہم نے تحقیقات کی پیش کش کی مگر بھارت نے اسے قبول نہیں کیا اور جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
وزیراعظم کا قوم سے خطاب ایک قومی پالیسی کا عکس بھی ہے، جس میں واضح پیغام دیا گیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خود مختاری پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ خطاب میں شہداء کے خون کو نہ بھولنے کا عزم کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان اب کسی جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا۔ ان کے الفاظ میں وہ شدت، جذبہ اور حوصلہ شامل تھا جس کی ایک بحران زدہ قوم کو ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ شہداء کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا، محض ایک سیاسی دعویٰ نہیں بلکہ ایک قومی پالیسی کا اعلان ہے، جو پوری ریاست کی سوچ اور پالیسی کا عکاس ہے۔
پاکستان کی جانب سے بھارتی الزامات اور حملے کے بعد اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو متحرک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عالمی برادری آخرکب تک بھارت کی ہٹ دھرمی اور جنگی جنون کو نظر انداز کرتی رہے گی؟ اگر بھارت کے ان جارحانہ اقدامات کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جائیں گے۔
پاکستان کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہم نے مشرقی سرحد سے لے کر مغربی سرحد تک، ہر مقام پر دشمن کا مقابلہ کیا ہے۔ ہماری مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف طویل اور مشکل جنگ لڑی اور ہزاروں شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک کو امن دیا۔ پاکستانی قوم نے ہمیشہ مشکل حالات میں اتحاد، ہمت اور قربانی کی مثال قائم کی ہے۔
چاہے وہ 1965 کی جنگ ہو، 1999 کا کارگل معرکہ ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری قوم نے ہمیشہ اپنے ملک اور افواج کے ساتھ کھڑے ہو کر دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنایا ہے۔ بھارت کی جانب سے حالیہ مہینوں میں جس تسلسل کے ساتھ جنگی ماحول پیدا کیا گیا، اس نے پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی، دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی اور سفارتی محاذ پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں بھارت کی جارحانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔
پاکستان نے 25 بھارتی ڈرونز مارگرائے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت نہ صرف موجود ہے بلکہ پوری مہارت کے ساتھ متحرک بھی ہے۔ پاکستانی افواج کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور فوری ردعمل نے دشمن کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ کوئی بھی مہم جوئی یا اشتعال انگیزی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ محض اعداد و شمار کا معاملہ نہیں بلکہ ایک واضح سیاسی و عسکری پیغام ہے کہ پاکستان نہ صرف دشمن کی حرکات پر نظر رکھے ہوئے ہے بلکہ کسی بھی خطرے کا فوری اور مؤثر جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارتی قیادت، خصوصاً وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسیاں اب کھل کر سامنے آ چکی ہیں۔ ان کی حکومت کا جھکاؤ انتہا پسند ہندو توا نظریے کی طرف بڑھ رہا ہے، جس نے بھارت کو ایک سیکولر ریاست کے بجائے ایک ہندو قوم پرست ریاست میں تبدیل کردیا ہے۔ پاکستان کو اس حقیقت کا ادراک ہے، اور اسی بنیاد پر اس نے عالمی برادری کو بارہا خبردارکیا ہے کہ جنوبی ایشیا کا امن اس رویے سے شدید خطرے میں ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارت کے جنگی جنون کو دنیا بھر میں بے نقاب کرنے کی سعی، ایک سنجیدہ سفارتی کوشش کی غمازی کرتی ہے۔ اس میں پاکستان کا مقصد نہ صرف بھارتی پروپیگنڈا کا توڑ کرنا ہے بلکہ اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں کو اس معاملے میں فعال کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنا بھی ہے۔ بھارت کی جانب سے جو رویہ اپنایا جا رہا ہے، وہ محض پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہے۔ کشمیرکی صورتحال، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ہمسایہ ممالک کے خلاف مسلسل مداخلت، یہ سب بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی نشانیاں ہیں۔
ان حالات میں پاکستان کے لیے سب سے بڑی ضرورت قومی یکجہتی ہے۔ دفاع وطن کے لیے جس اتحاد و یگانگت کی آج ضرورت ہے، شاید اس سے قبل کبھی نہ تھی۔ یہ وقت ہے کہ سیاسی، مذہبی اور سماجی سطح پر تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر قوم ایک جھنڈے تلے متحد ہو جائے۔ دشمن کو یہی دکھانا ہے کہ پاکستانی قوم نہ صرف اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے بلکہ اپنی خودمختاری، آزادی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔
قوم اور افواج پاکستان کے درمیان جو رشتہ ہے، وہ محض دفاعی اتحاد نہیں بلکہ ایک نظریاتی بندھن ہے، جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوا ہے۔ بھارت نے اچانک اور بلا جواز حملہ کرکے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ جنوبی ایشیاء کے امن کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ یہ حملہ نہ صرف پاکستان کی خود مختاری پرکھلی جارحیت تھی بلکہ یہ ایک ایٹمی صلاحیت کی حامل دو ریاستوں کے درمیان کشیدگی کو ناپسندیدہ حد تک لے جانے کی ناپختہ کوشش بھی تھی۔
بھارت کی جانب سے اس طرح کا حملہ اس وقت کیا گیا جب خطے میں پہلے ہی کشیدگی موجود تھی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے بارہا پاکستان مخالف بیانات، جنگی جنون اور ہندو توا کے نظریات کی ترویج نے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت نے پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ جارحیت کی، حالانکہ پاکستان نے اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی جسے بھارتی حکومت نے مسترد کردیا۔
پاکستان نے ہمیشہ امن کا راستہ اختیار کیا ہے، مگر جب بات خود مختاری، قومی سلامتی اور شہریوں کے تحفظ کی ہو، تو ہماری بہادر افواج کسی بھی قیمت پر دشمن کو منہ توڑ جواب دینے سے گریز نہیں کرتیں۔ یہ جوابی کارروائی محض ایک دفاعی قدم نہیں بلکہ دشمن کو یہ باور کروانے کا ذریعہ بھی تھی کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ ہماری فضائیہ کے شاہینوں نے جس مہارت، چابکدستی اور شجاعت کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف پوری قوم کے لیے باعث فخر ہے بلکہ عالمی سطح پر ہماری دفاعی صلاحیتوں کی ایک واضح مثال بھی ہے۔
پاکستان کو اس حملے کے بعد مزید مضبوط حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ ایک طرف ہمیں اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانا ہوگا، تو دوسری طرف سفارتی محاذ پر مؤثر طور پر اپنی بات دنیا کے سامنے رکھنی ہوگی۔ اسی کے ساتھ ساتھ داخلی استحکام، قومی یکجہتی اور عوامی فلاح کے منصوبے بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کسی قسم کی داخلی کمزوری کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔
یہ جنگ صرف سرحدوں پر نہیں لڑی جا رہی، بلکہ یہ ذہنوں اور سفارتی ایوانوں میں بھی جاری ہے۔ ہمیں ہر محاذ پر متحد ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔ یہ وقت سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنے کا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ثابت کریں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، جو شہداء کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرتی۔یہ پیغام صرف دشمن کے لیے نہیں، بلکہ دوستوں کے لیے بھی ہے۔ دنیا کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ اگر امن چاہیے، تو انصاف ضروری ہے اور اگر انصاف نہیں ہو گا تو جنوبی ایشیا میں کبھی بھی مستقل امن قائم نہیں ہو سکے گا۔
پاکستان کا یہ موقف اصولی ہے، واضح ہے اور تاریخ کے تناظر میں بالکل درست ہے۔ ہمیں اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینی ہے، چاہے وہ میدان جنگ ہو، سفارتی دنیا ہو یا میڈیا کی جنگ۔عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ بھارت کو اس کے جنگی جنون سے روکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے دو جوہری ممالک کے درمیان جنگ کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہے گی۔
اگر عالمی طاقتیں واقعی امن کی خواہاں ہیں، تو انھیں فوری طور پر پاک بھارت کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ مگر یہ بھی واضح ہے کہ پاکستان کسی کی مہربانی کا محتاج نہیں۔ اگر ہمیں اپنے دفاع کے لیے تنہا بھی کھڑا ہونا پڑے تو ہم کھڑے ہوں گے، جیسا کہ ماضی میں بارہا کیا ہے۔ ہمیں نہ صرف دشمن کے حملوں کا جواب دینا ہے، بلکہ دنیا کو یہ بھی باور کروانا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں، مگر عزت کے ساتھ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے کہ پاکستان عالمی برادری پاکستان کی کی جانب سے جنگی جنون نہیں بلکہ بھارت کی بھارت نے کرنے کی کے ساتھ ہے بلکہ دشمن کو کے خلاف کی طرف کیا ہے بھی ہے
پڑھیں:
ایٹم بم پھٹنے کے ہولناک اثرات
دنیا میں انسان نے جتنی ترقی کی ہے اتنے ہی خطرناک ہتھیار بھی ایجاد کرلئے ہیں۔ ان میں سب سے تباہ کن ہتھیار ایٹم بم ہے۔ اگرچہ یہ ہتھیار جنگی مقاصد کے لیے بنایا گیا مگر اس کے اثرات صرف دشمن فوج یا عسکری اہداف تک محدود نہیں رہتے بلکہ شہری آبادی، نسلوں، ماحول اور انسانیت پر اس کے دیرپا اور ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگرایٹم بم کسی آبادی میں پھٹ جائےتو اسکے اثرات تصورسے زیادہ ہولناک ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے زبردست روشنی اور حرارت پیدا ہوتی ہے جو ہزاروں ڈگری سینٹی گریڈ پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس حرارت کی وجہ سے قریبی انسان، جانور، درخت، عمارتیں، سب کچھ راکھ بن جاتے ہیں۔ جو لوگ کچھ فاصلے پر ہوتے ہیں وہ یا تو جھلس جاتے ہیں یاشدید زخمی ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک زوردار دھماکہ خیز لہر (blast wave) آتی ہے جو کئی کلومیٹر کے دائرے میں عمارتوں کو زمین بوس کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تابکاری (radiation) کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ نظر نہ آنے والی زہریلی توانائی انسانی جسم کے خلیوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ متاثرہ افراد کو الٹی، بخار، بال جھڑنے، جلد کا سیاہ ہونا، اندرونی خون بہنا اور دیگر مہلک علامات لاحق ہو جاتی ہیں۔ بعض افراد فوری موت کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ کینسر یا دیگر بیماریوں سے مرتے ہیں۔
ایٹمی حملے کے صرف فوری اثرات ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے طویل المدتی نتائج بھی تباہ کن ہوتے ہیں۔ تابکاری زمین، پانی اور ہوا کو آلودہ کر دیتی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں کئی سال تک فصلیں نہیں اگتیں، جانور بیمار ہو جاتے ہیں، اور انسانوں میں جینیاتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ آئندہ نسلوں میں معذوری، دماغی کمزوری اور پیدائشی نقائص دیکھنے میں آتے ہیں۔یہ سب صرف نظریاتی خطرات نہیں بلکہ 1945 ء میں جاپان پر ہونے والے دو ایٹمی حملے ان کا عملی ثبوت ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے۔6 اگست 1945 ء کو امریکہ نے ہیروشیما پر “Little Boy” نامی یورینیم بم گرایا۔ اندازا 70,000 لوگ فورا ہلاک ہو گئے۔ اگلے چند دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں مزید ہزاروں افراد تابکاری، زخموں اور بیماریوں سے مر گئے۔ شہر کا 90 فیصد حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔9اگست 1945 ء کو ناگاساکی پر “Fat Man” نامی پلوٹونیم بم گرایا گیا، جس سے تقریبا ً40,000 افراد فوری طور پر ہلاک ہو گئے اور بعد میں مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچی۔ دونوں شہروں میں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی، معاشی اور سماجی تباہی کئی دہائیوں تک جاری رہی لیکن آج جو ایٹمی ہتھیار دنیا کے کچھ ممالک بشمول پاکستان اور بھارت کے پاس ہیں ان کی طاقت ہیروشیما پر گرائے گئے بم سے درجنوں یا سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔ جدید نیوکلیئر ہتھیار نہ صرف بڑے علاقے کو آنِ واحد میں تباہ کر سکتے ہیں بلکہ ان کے بعد آنے والی تابکاری، ماحولیاتی آلودگی اور ’’نیوکلیئر ونٹر‘‘ جیسے اثرات پوری دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں۔جدید تھرمو نیوکلیئر بم جب پھٹتے ہیں تو وہ تقریبا 28 ملین ڈگری سینٹی گریڈ (یعنی تقریبا 50 ملین ڈگری فارن ہائٹ) تک حرارت پیدا کرتے ہیں جو سورج کے مرکز کے درجہ حرارت جتنا یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔
تھرمو نیوکلیئر بم دو مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے کو ’’فشن‘‘ کہا جاتا ہے جس میں ایک عام ایٹم بم جیسا دھماکہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یورینیم یا پلوٹونیم کے ایٹمز کو توڑ کر بے پناہ توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ یہ توانائی دوسرے مرحلے یعنی ’’فیوژن‘‘ کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں ہائیڈروجن کے ایٹمز کو آپس میں ملا دیا جاتا ہے اور اس عمل سے کئی گنا زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو کائنات کے خالق و مالک اللہ رب العزت نے سورج میں پیدا کیا ہے۔ تھرمو نیوکلیئر بم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ملین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا دائرہ اثر سینکڑوں کلومیٹر تک پہنچ جاتاہے۔اس میں پیداہونے والی تابکاری، شدیدحرارت، جھٹکا اوردبائو چاروں انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کی تباہی کا دائرہ محض ایک شہر تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے ملک کو متاثر کرسکتا ہے۔ اس خوفناک دھماکے سے بچ جانے والے افراد شدید تابکاری کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجےمیں انہیں کینسر،جسمانی و ذہنی بیماریاں، جلدکا جھلس جانا اور جینیاتی خرابیاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بم سے اٹھنے والے دھوئیں اور راکھ کی موٹی تہہ سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک دیتی ہے جس سے زمین کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور دنیا بھر میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، جسے جوہری سردی یا نیوکلیئر ونٹر کہا جاتا ہے۔
جاپان پر کئےگئے حملوں کے بعد دنیا کو پہلی بار ایٹمی ہتھیاروں کی ہولناکی کا احساس ہوا۔ تب سے لے کر آج تک دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیار تو بنائے گئے، تجربات بھی ہوئے، مگر کسی ملک نے دوبارہ کسی دوسرے ملک پر ایٹم بم استعمال نہیں کیا۔ یہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ایٹمی جنگ کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔دنیا میں اب نو ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ہیں جن میں امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس، بھارت، پاکستان، اسرائیل (غیر رسمی طور پر) اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں ممالک کی ایٹمی صلاحیت نے ایک توازن پیدا کر رکھا ہے مگر یہ توازن بہت نازک ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو لاکھوں افراد فوری ہلاک ہو سکتے ہیں اور اس کے بعد کے اثرات پورے برصغیر بلکہ پوری دنیا میں محسوس کیے جائیں گے۔ تابکاری، ماحولیاتی تبدیلی، غذائی قلت، اور عالمی معیشت پر شدید اثرات پڑ سکتے ہیں۔ایٹمی ہتھیاروں کے خطرات کو دیکھتےہوئےدنیا میں کئی معاہدے اور کوششیں کی جا رہی ہیں جیسے NPT (Non-Proliferation Treaty) اور CTBT (Comprehensive Test Ban Treaty)، مگر بدقسمتی سے ان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ طاقتور ممالک اپنے مفادات کی خاطر ان معاہدوں کو نظرانداز کرتے ہیں جس سے ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو جاری ہے۔انسانیت کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ کسی روایتی جنگ سے نہیں بلکہ ایٹمی جنگ سے ہے۔ اس لیے تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے دفاع کے نام پر ایسے ہتھیاروں کی دوڑ سے باہر نکلیں اور پائیدار امن کی کوشش کریں۔