ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ہم سکھوں کو کیوں نشانہ بنائیں گے۔؟ ہم نے بڑی مہارت سے بھارت کے طیارے، ڈرونز گرائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ ملکی دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، ہم نے نہ صرف بھارت کے طیارے گرائے بلکہ ان کا غرور بھی خاک میں ملایا۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے نے کہا ہے کہ پاکستان نے سرحد پار کسی ٹارگٹ کو نشانہ نہیں بنایا، بھارت جھوٹی خبریں چلا کر سکھوں اور کشمیریوں کی ہمدردی لینا چاہتا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام  میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ ہم سکھوں کو کیوں نشانہ بنائیں گے۔؟ ہم نے بڑی مہارت سے بھارت کے طیارے، ڈرونز گرائے۔ عطا تارڑ نے کہا کہ جوابی کارروائی ہو گی اور بھرپور ہو گی، کارروائی کب ہوگی انڈیا کو اس کا انتظار کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملکی دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، ہم نے نہ صرف بھارت کے طیارے گرائے بلکہ ان کا غرور بھی خاک میں ملایا، بھارت نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا، ہم نے بھارت کے 40 سے 50 فوجی ہلاک کیے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ بھارتی فوجی سفید جھنڈا لہرا رہے ہیں، سفید جھنڈا لہرانا بھارت کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے، بھارت کی ایئرفورس ناکام ہوچکی۔ عطا تارڑ نے کہا کہ پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے، عالمی برادری صورتحال دیکھ رہی ہے، پاکستان کا کیس مضبوط ہے، بھارت کی خواہش تھی پہلگام واقعہ کے بعد دوسرے ممالک کا پاکستان پر دباؤ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جھوٹے ہیرو بنانے میں نمبر ون ہے، پاکستان کا کوئی فوجی، پائلٹ بھارت کے پاس نہیں، ہماری آرمڈ فورسز ہمہ وقت تیار ہیں، پاکستان نے معاشی اصلاحات کیں، پی ایس ایل پر ابھی مشاورت جاری ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بھارت کے طیارے وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے نے کہا کہ

پڑھیں:

عطیہ زُہیر نے اپنا کپڑوں کا آن لائن اسٹور کیسے بنایا؟

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 جون2025ء) یہ کسی دکان یا فوٹو شوٹ سے شروع نہیں ہوا۔ یہ کوئی تفصیلی مارکیٹنگ مہم بھی نہیں تھی۔ بس خاندانی ورثہ رکھنے والی ایک نوجوان عورت ، ایک اسمارٹ فون، اور تعمیر نو کا عزم۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اسکرینز کے استعمال  کا غلبہ بڑھ رہا ہے، عطیہ زہیر نے اپنی دکان کسی ہائی اسٹریٹ پر نہیں، بلکہ ٹک ٹاک پر تلاش کی۔


 
کچے دھاگے"، جو کبھی ملبوسات کے لیے اُن کا خاندانی برانڈ تھا، وقت گزرنےکے ساتھ خاموشی سے ماند پڑ گیا تھا۔ لیکن عطیہ نے اسے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ روایتی طریقوں مثلاً ویب سائٹس یا بوتیکس کے ذریعے دوبارہ متعارف کرانے کے بجائے، انہوں  نے ایک زیادہ فوری اور موثر راستہ اپنایا: مختصر کہانی سنانے کا فن۔

(جاری ہے)


 
عطیہ کہتی ہیں، ”میں نے ہر چیز، اپنی جدوجہد، پردے کے پیچھے کے لمحات، اور روزمرہ کے کام کو دستاویزی شکل دینا شروع کی۔

“یہ فیصلہ کہ وہ ایک چھوٹےسے کاروبار کو چلانے کی غیر منظم، حقیقی جھلکیاں شیئر کریں، انہیں دوسروں سے منفرد بنا گیا۔ یہ صرف کانٹنٹ نہیں تھا، بلکہ رابطہ  تھا۔
 
عطیہ کے لیے، ٹک ٹاک ایک پلیٹ فارم سے بڑھ کر تھا۔ ایک ایسا موقع،اورخاص طور پر، ایک ایسے ملک میں جہاں سماجی روایات خواتین کی عوامی منظرنامے میں موجودگی کو محدود کر سکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ”یہ ایک بہترین موقع ہے، خاص طور پر اُن لڑکیوں کے لیے جو باہر جا کر کام نہیں کر سکتیں۔ میں اُن سے کہتی ہوں کہ اپنا ہنر ضائع نہ کریں، اسے شیئر کریں۔ لوگ توجہ دیں گیں۔“
 
اور واقعی ایساہی ہوا۔ جب وہ اپنی ایک کلیکشن کے لیے کپڑا خرید رہی تھیں، ایک دکاندار نے گفتگو کے دوران رک کر پوچھا، ”آپ کچے دھاگے سے  تعلق رکھتی ہیں نا؟“ وہ یاد کرتی ہیں، ”مجھے یہ سن کرحیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔

تب مجھے احساس  بھی ہوا کہ یہ پلیٹ فارم کتنا طاقتور ہے—لوگ واقعی دیکھتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں۔“
 
ایسے لمحات نے ان کے عزم کو مزید مضبوط کیا۔ وہ کہتی ہیں، ”میں نے خود سے وعدہ کیا کہ میں ہار نہیں مانوں گی۔ میں محنت جاری رکھوں گی اور اُن باصلاحیت لڑکیوں کے لیے آگاہی کا باعث بنوں گی جنہیں شاید ایسے مواقع میسر نہ ہو۔“
یہ حکمت عملی محض نظر آنے کے بارے میں نہیں تھی، بلکہ اس نظر آنے کو وفاداری میں بدلنے کے بارے میں تھی۔

عطیہ کہتی ہیں، ”لوگ اکثر میرے پاس آ کر کہتے ہیں، ’میں نے آپ کو ٹک ٹاک پر دیکھا ہے۔‘ یہ میرے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔“ یہ قدرتی تعاملات عام  ناظرین کو مستقل گاہکوں میں، اور فالورزکو برانڈ کے حامیوں میں بدلنے میں مددگار ثابت ہوئے۔“
 
کیمرے کے پیچھے، سب کچھ ہمیشہ آسان نہیں رہا۔ ایک دوبارہ بحال کیے گئے برانڈ کو سنبھالنا، اور ساتھ ہی مارکیٹر، ڈیزائنر، اور کہانی سنانے والے کے کردارکو نبھانا، محنت طلب کام ہے۔

وہ کہتی ہیں، ”سب کچھ سنبھالنا مشکل ہے، لیکن اپنے خاندان کی حمایت سے، میں اسے ممکن بناتی ہوں۔“
 
”کچے دھاگے“ محض ایک برانڈ نہیں، بلکہ ماضی اور حال کو جوڑنے والا ایک دھاگا ہے۔ عطیہ وضاحت کرتی ہیں، ”یہ میرا خاندانی کاروبار تھا۔ میں نے اسے اپنی بصیرت کے ساتھ دوبارہ زندہ  اورروایات کو نئے انداز سے جوڑا ہے۔“ یہ ذاتی وابستگی ہی ہے جو ان کے آڈئینس کے ساتھ گہری ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔


 
چھوٹے کاروباری مالکان جو ٹک ٹاک کو ممکنہ چینل کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ان کے لیے عطیہ کا مشورہ تجربےپر مبنی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”اپنی حقیقی کہانی دکھانے سے نہ گھبرائیں۔ ٹک ٹاک صرف تفریح کے لیے نہیں، اگر آپ مخلص  اورمحنتی ہیں، تو یہ آپ کے کاروبار کو اگلے درجے تک لے جا سکتا ہے۔“
 
مستقبل کی جانب دیکھتے ہوئے، عطیہ اس رفتار کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ”میں اپنے کنٹنٹ کو مزید بڑھانا چاہتی ہوں اور کچے دھاگے کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتی ہوں۔“
 
ایک جانب ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے اکثر محض تفریحی مشغولیت سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک نوجوان کاروباری شخصیت ہے جس نے اسے ایک ورثے میں نئی جان ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ اور ان دونوں کے درمیان کہانیاں، جدوجہد، اور کامیابیاں بُنی گئی ہیں—جو ایک پوسٹ کے ذریعے پروان چڑھیں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کے ایران پر گرائے گئے ایم اوپی بم اور بی-2 بمبار طیارے کتنے خطرناک ہیں؟
  • پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی، اسحاق ڈار
  • امریکا کے سب سے تباہ کن طیارے بحرالکاہل روانہ کر دیے جانے کی اطلاعات
  • پشاور؛ مولانا حامدالحق حقانی کو دودشمن ملک کی ایجنسیوں کی مدد سے نشانہ بنایا گیا، آئی جی
  • ایران نے اسرائیل کے "سائبر دارالحکومت" کو کیوں نشانہ بنایا؟
  • ڈرائیور کا انوکھا احتجاج، ٹریفک پولیس کو شہد کی مکھیوں سے نشانہ بنایا
  • وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کی مقتولہ ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے گھر آمد، لواحقین سے تعزیت
  • سعودی ریگولیٹر کا سخت ردعمل، جوہری تنصیبات پر حملوں کی مذمت
  • کیا امریکا چاہتا ہے اسرائیل کی تھوڑی بہت پٹائی ہو جائے؟
  • عطیہ زُہیر نے اپنا کپڑوں کا آن لائن اسٹور کیسے بنایا؟