اسموگ اور اینٹی اسموگ گنز
اشاعت کی تاریخ: 31st, October 2025 GMT
پنجاب میں اس وقت اسموگ کا راج ہے۔ لاہور فیصل آباد دنیا میں آلودہ ترین شہروں میں شمار کیے جا رہے ہیں۔ اسموگ کی وجہ سے لوگ بیمارہیں۔ سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ لیکن ایسا کوئی پہلے سال نہیں ہوا ہے۔ ہر سال ہی ایسا ہوتا ہے۔ ہر سال ہی اسموگ کا راج ہوتا ہے۔ ہر سال ہی ہم اسموگ پر شور مچاتے ہیں۔ اسموگ کی وجوہات کا بھی سب کو علم ہیں۔
سب کو پتہ ہے ایک بڑی وجہ بھارتی پنجاب سے آنے والی ہوائیں ہیں۔ بھارت میں بھی اسموگ کا مسئلہ ہے۔ بھارت کا دارالخلافہ دہلی کا بھی برا حال ہے، وہاں بھی اسموگ نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے، پورے خطہ کا مسئلہ ہے۔ ہم مل کر ہی اس کو حل کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسے تعلقات ہی نہیں ہیں کہ ماحولیات پر تعاون ہو سکے۔ مل کر کوئی پالیسیاں بنائی جا سکیں، ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھا جا سکے۔ اس لیے مشترکہ پالیسی اور حل تلاش کرنے کی کوئی صورتحال نہیں ہے۔
موجودہ حکومت نے اسموگ سے نبٹنے کے لیے ایک سال میں کافی کام کیے ہیں۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ کسان فصلوں کی باقیات جلاتے تھے، ان کو روکنے کے لیے جدید مشینیں دی جا رہی ہیں۔ لیکن کسانوں کو جلانے کی پرانی عادت ہے، ابھی بھی اس کو مکمل روک نہیں سکے ہیں۔ صنعتوں پر ماحولیات کا سخت نفاذ کیا جا رہا ہے۔ لیکن آپ کہیں سب ٹھیک ہوگیا ہے، غلط ہوگا۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہر آج بھی دنیا کے آلودہ ترین شہر ہیں۔ اسموگ کا راج ہے۔ اسموگ سے نبٹنا کوئی اتنا آسان نہیں۔ اس سے پہلے لندن اور بیجنگ جیسے بڑے شہر بھی اسموگ کا شکار رہے ہیں۔
لندن اور بیجنگ اسموگ بہت مشہور رہی ہیں۔ آج وہاں صورتحال بہتر نظر آرہی ہے۔ لیکن دس سال سے زیادہ عرصہ لگا ہے صورتحال کو تبدیل کرنے میں۔ پنجاب میں بھی اگر یکسوئی سے کام کیا جائے تو دس سال لگ جائیں گے۔ لیکن یکسوئی بنیادی شرط ہے۔ پالیسیوں کا تسلسل بنیادی شرط ہے۔ یہاں حکومت بدلتی ہے تو ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ پالیسیاں بدل جاتی ہیں، جس سے اسموگ سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔بہرحال آج کل اسموگ کا راج ہے ۔ پنجاب حکومت نے لاہور میں اسموگ کا زور کم کرنے کے لیے اینٹی اسموگ گن درآمد کی ہیں۔
لاہو رکی سڑکوں پر اینٹی اسموگ گن چلتی نظر آرہی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں اسموگ رہی ہے وہاں یہ اینٹی اسموگ گن استعمال کی گئی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ اسموگ کو مستقل ختم نہیں کرتیں۔ لیکن جس علاقہ میں اس کو استعمال کیا جائے وہاں اس کا اثر ہوتا ہے۔ یہ اسموگ کا مکمل علاج نہیں ہیں لیکن فوری ریلیف ضروری دیتی ہیں۔ جیسے درد کم کرتی ہیں لیکن بیماری کا علاج نہیں ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں جب تک ہم اسموگ کو ختم کرنے کے دیرپا حل مکمل نہیں کر لیتے اس درمیانے عرصے کے لیے اینٹی اسموگ گنز ایک بہترین آپشن ہیں۔
ایک تنقید یہ سامنے آرہی ہے کہ اس کا اثر محدود ہے۔ لیکن یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا کہ اس کا کوئی اثر نہیں۔ ویسے تجرباتی طور پر لاہور میں صرف پندرہ اینٹی اسموگ گن منگوائی گئی ہیں۔ یہ لاہور کے لیے بہت کم ہیں۔ لاہور بہت بڑا شہر ہے یہ سارے لاہور کو کور ہی نہیں کر سکتیں۔ جس سڑک پر استعمال کی جاتی ہے صرف وہیں اثر ہوتا ہے۔ مزید گاڑیاں ہونی چاہیے تا کہ ان کے صحیح اثرات لوگوں کے سامنے آسکیں۔ کم تعداد اس پر تنقید کرنے والوں کو دلیل دے رہی ہے۔ جب اینٹی اسموگ گن کی تعداد بڑھ جائے گی تو نتائج بھی بہتر سامنے آئیں گے، تنقید بھی ختم ہو جائے گی۔
اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق جہاں اس اینٹی اسموگ گن کا استعمال کیا گیا ہے وہاں اسموگ میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن یہ جس علاقہ میں استعمال کی جائے وہیں کمی ہوتی ہے۔ سارے لاہور کو یک دم کم نہیں کر سکتی۔ کئی علاقوں میں چالیس فیصد تک کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ اس لیے میں اس تجرنے کو ناکام نہیں کہہ رہا ہے۔ میں اس کو جاری رکھنے اور ان کی تعداد بڑھانے کے حق میں ہوں۔ سارے شہروں میں یکساں استعمال کی جائیں گی تو عمومی فرق بھی سامنے آئے گا۔ آپ ماحولیات کے جزیرے نہیں بنا سکتے۔ ایک علاقہ میں بہتر کر لیں ساتھ والے علاقہ کو رہنے دیں، یکساں استعمال ہی بہتر نتائج دے گا۔
سادہ سی بات ہے، ہم کہتے ہیں کہ اگر بارش ہو جائے تو اسموگ ختم ہو جاتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے نگران دور میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے متحدہ عرب امارات سے مصنوعی بارش برسانے کے لیے جہاز بھی منگوایا تھا۔ وہ دو تین دن مصنوعی بارش کر کے چلا گیا۔ وہ بہت مہنگا تھا۔ اتنی مہنگی مصنوعی بارش ممکن نہیں۔ پھرایک جہاز کافی نہیں۔ چند دن کافی نہیں۔ سارے شہروں میں کیسے کی جائے۔ یہ اینٹی اسموگ گن بھی ایک طرح سے مصنوعی بارش کی ہی ایک شکل ہے۔ پانی فضا میں ایک گن سے پھینکا جاتا ہے جو فضا میں جاکر اسموگ کو ختم کرتا ہے۔ ابھی جو اینٹی اسموگ گن منگوائی گئی ہیں، ان کی رینج 120میٹر ہے۔ جو اسموگ کے ختم کرنے کے لیے کافی ہیں۔
بیجنگ میں اور دہلی میں بھی یہی استعمال ہوتی رہی ہیں، بین الاقوامی معیار یہی ہے۔ ویسے تو پاکستان میں حکومت کوئی بھی کام کرے تواس پر تنقید کرنا سب سے آسان کام ہے۔ حکومت کوئی کام کرے تو اس پر تنقید کریں، اگر کوئی کام نہ کرے تو پھر اور تنقید کریں۔ کئی سالوں سے اسموگ کا شکار پنجاب لانگ ٹرم پالیسیاں تو بنا رہا ہے، ان کے نتائج بھی وقت سے آئیں گے۔ ہمسایوں کے بھی مسائل ہیں۔ لیکن فوری حل بھی کرنا حکومت کا کام ہے۔ کئی سالوں سے کوئی فوری حل نہیں تھا۔ ہم خاموش بیٹھے تھے۔
آج ایک حل سامنے آیا ہے تو دوست اس پر بے وجہ تنقید کر رہے ہیں۔ جب تک حکومت کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے، کام آگے کیسے بڑھے گا۔ اگر کسی کے پاس کوئی متبادل حل ہے تو بتائیں۔ اس پر بات ہو جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں وزیر اعلیٰ پنجاب اور سینئر وزیر مریم اورنگزیب خصوصی داد کی مستحق ہیں کہ کم از کم کوئی تو حل سامنے لائی ہیں۔ بہر حال اسموگ کا راج ہے اور فی الحال فوری حل اینٹی اسموگ گن ہی ہیں۔ اس پر تنقید کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ یہ مزید منگوائی جائیں تا کہ ان کا اثر کھل کر سامنے آسکے اور تنقید نگاروں کی تنقید ختم ہو سکے۔ ڈر کر اس منصوبے کو ختم کرنا بزدلی ہوگی اور مجھے پتہ ہے پنجاب حکومت بزدل نہیں ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسموگ کا راج ہے اینٹی اسموگ گن استعمال کی نہیں ہے رہی ہیں ہوتا ہے نہیں کر کو ختم رہی ہے کے لیے ہیں کہ بھی اس ہی ہیں
پڑھیں:
کوئی جتھہ ہتھیار اُٹھا کر آئے تو دین کی بدنامی ہوتی ہے، مریم نواز
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ نبی پاک ﷺ سے عشق کا دعویٰ کرنے والے کچھ لوگ بندوق اٹھا کر تشدد کا راستہ اپناتے ہیں، خدا نخواستہ 600 افراد جاں بحق ہوئے تو لاشیں کہاں ہیں؟
لاہور میں اتحاد بین المسلمین کمیٹی سے خطاب میں مریم نواز نے کہا کہ سیاست یا مذہب کی آڑ میں انتہاپسندی، راستے بند کرنا، لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا، عمارتوں کو نقصان پہنچانا قبول نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتیں آپ کی اپنی جماعتیں ہیں، مذہب کے نام پر ہم سب ایک ہوجاتے ہیں، اگر کوئی جتھہ ہتھیار اٹھا کر رستے پر آجائے تو دین کی بدنامی کی وجہ بنتا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے مزید کہا کہ غزہ کے مظلوموں نے جنگ بندی کے معاہدے پر خوشیاں منائیں، وہاں امن کی امید جاگی، لیکن یہاں اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس شرپسند جماعت سے جلا دو، مار دو کے نعرے سنے، پولیس اہلکاروں کو گولیاں ماری گئیں، گاڑیوں کو جلادیا گیا لیکن فلسطین کا نام نہیں سنا، علمائے کرام رہنمائی کریں کہ ان لوگوں کو کیا نام دیا جائے۔
مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ مذہبی جماعتوں کو بھی سیاست کرنے کا حق ہے، مفتی منیب کے ساتھ میٹنگ میں دل کھول کر باتیں کیں، ریاست اور حکومت علمائے کرام کو اپنا رہنما مانتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں سیاسی مقاصد کےلیے کچھ جماعتوں کو بنایا گیا، ایک جماعت کی خلاف کارروائی کی ضرورت کیوں پیش آئی، حکومت چاہتی ہے کہ گھر سے نکلنے والے کسی شہری کو مشکل پیش نہ آئے ۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ مذہبی جماعتوں کے جلوسوں میں کسی کو کیلوں والا ڈنڈا لیے نہیں دیکھا، لبیک ایک مقدس تکریم والا لفظ ہے، جسے احرام کی حالت میں پڑھنے کا حکم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف ایک شر پسند جماعت نہیں بلکہ اس نے لوگوں کے ذہنوں کو زہر آلود کیا ہے، فتنے کی نشاندہی کریں، جب کوئی سیاسی اور مذہبی جماعت ہتھیار اٹھاتی ہے وہ شر پسند بن جاتی ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ جب پی ٹی آئی نے ہتھیار اٹھائے وہ سیاسی جماعتوں سے باہر نکل گئی، جو کوئی فتنہ سر اٹھاتا ہے تو قوموں کی تنزلی شروع ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے وہ اہلکار جن کی جانیں گئیں، ان کے اہل خانہ کو کیا جواب دیں، کوشش ہوتی ہے تمام مسالک کے لوگوں کو ایک لڑی میں پروئیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ کس کا کیا عقیدہ ہے یہ فیصلہ اللہ کو کرنا ہے ہم سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرسکتے، قانون توڑنے والوں میں مرد اور عورت کی تفریق نہیں، مجرم مجرم ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کالعدم جماعت کے سیل کیے گئے مدارس مفتی منیب کے حوالے کردیے ہیں، خدانخواستہ 600 افراد جاں بحق ہوئے تو لاشیں کہاں ہیں؟ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے جنازے دنیا نے دیکھے۔
مریم نواز نے کہا کہ تصاویر اور ویڈیوز کو ان کے دفاتر سے ملنے والے اسلحے کی آرہی ہیں، بتایا جائے کہ مظاہرین کے پاس اسلحہ کہاں سے آیا؟
 پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری پر مبینہ پولیس تشدد، تحقیقات جاری
پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری پر مبینہ پولیس تشدد، تحقیقات جاری