بھارت پاک کشیدگی: فوجی تنصیبات پر حملوں کا دعوی پاکستان کی تردید
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 مئی 2025ء) بھارت اور پاکستان کے درمیان ایل او سی پر بدستور شدید شیلنگ کا سلسلہ جاری ہے اور کشیدگی کے سبب بھارت کے دو درجن سے زیادہ ایئر پورٹ جمعے کے روز بھی بند ہیں، جس سے فضائی سروسز بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
کشیدگی کے سبب دارالحکومت دہلی میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے اور تمام سول سرکاری ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ دہلی میں ضلع مجسٹریٹ اپنے ماتحتوں کے ساتھ میٹنگ کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں صحت اور آفات سے نمٹنے کی تیاریوں کا جائزہ لیا جا سکے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے سبب بھارتی بازار حصص میں جمعے کے روز آٹھ سو پوائنٹس سے زیادہ کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔
(جاری ہے)
پاک بھارت جنگ: نواز شریف خاموش کیوں؟
پاکستان کا بھارتی فوجی تنصیبات پر حملے سے انکاربھارتی فوج کا دعوی ہے کہ اس نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جموں، ادھم پور اور بھارتی ریاست پنجاب میں پٹھان کوٹ میں اپنے فوجی اڈوں پر حملہ کرنے کی پاکستان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جموں شہر میں جمعرات کی رات کو دھماکوں کی اطلاع ملی تھی اور پورا خطہ ہی رات کو بلیک آؤٹ میں چلا گیا۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے، تاہم اسلام آباد نے بھارتی دعووں کو سختی سے مسترد کیا اور کہا کہ وہ اس کے پیچھے نہیں ہے۔
پاکستان کے وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ ملک کی دفاعی افواج نے بین الاقوامی سرحد کے پار بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کسی بھی جگہ کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔
’پاکستان پر ڈرون حملے‘، اشتعال دلانے کی بھارتی کوشش؟
انہوں نے ایکس پر لکھا، "بھارتی میڈیا ہمیشہ غلط معلومات پھیلاتا ہے، جس کا مقصد ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ایک (جعلی) تصور تیار کرنا ہوتا ہے۔ ۔۔۔ ہم نے اب تک صرف دفاعی قسم کا ردعمل ظاہر کیا ہے! عالمی برادری اس کا نوٹس لے۔"
پاکستانی وزیر دفاع نے بھی اس حملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ نہ ہونے کی بات کہی ہے۔
یہ تازہ بیان بازی ایسے وقت سامنے آئی ہے، جب پاکستانی سرحد کے قریب متعدد بھارتی شہر رات کے دوران بلیک آؤٹ کی زد میں آئے اور مقامی لوگوں نے آسمان پر میزائلوں اور ڈرونز کی اطلاع دی۔ بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعرات کی شام کو اس کے تین فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ایک اور ٹویٹ میں عطا اللہ تارڑ نے بھارتی میڈیا کی ایک غیر مصدقہ خبر کا جواب دیا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دو پاکستانی جنگی طیارے مار گرائے گئے ہیں۔
انہوں نے اپنی ایک پوسٹ میں ایف 16 اور چینی ساخت کے جے ایف 17 جیسے طیاروں کو مار گرانے کے دعوؤں کو من گھڑت قرار دیا۔پاکستان کے ممکنہ حملے کے تناظر میں بھارت کی تیاریاں
بھارت نے حملوں سے متعلق کیا کہا تھا؟بھارتی فوج کا کہنا کہ اس نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جموں، ادھم پور اور بھارتی ریاست پنجاب میں پٹھان کوٹ میں فوجی تنصیبات کو پاکستان نے ڈرون اور میزائل سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے انہیں نشانہ بنایا۔
بھارت کا دعوی ہے کہ اس نے اپنے فوجی اڈوں پر حملہ کرنے کی پاکستان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔بھارتی کے محکمہ دفاع نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل ایکس پر لکھا: "کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ایس او پی کے مطابق حرکیاتی اور غیر حرکیاتی ذرائع سے بھارتی مسلح افواج کی طرف سے خطرے کو بے اثر کر دیا گیا۔"
ایک سرکاری بیان میں بھارتی فوج نے مزید کہا کہ پاکستان نے پوری مغربی سرحد پر متعدد ڈرون حملے کیے اور دیگر گولہ باری کا استعمال کیا۔
بھارتی فوج کی کرنل صوفیہ قریشی خبروں میں کیوں ہیں؟
فضا میں میزائل، زور دار دھماکے اور بلیک آؤٹ سائرنبھارت کے زیر انتظام جموں اور کشمیر کے جموں شہر میں گزشتہ شب مقامی لوگوں نے رات کے دوران آسمان میں چمکتے میزائلوں کا مشاہدہ کیا، جس کے ساتھ ہی پورے خطے میں مکمل بلیک آؤٹ دیکھا گیا۔
بھارتی سیاست دان اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایکس پر لکھا: "جموں سے کافی پریشان کن رپورٹس سامنے آ رہی ہیں، جہاں مبینہ طور پر کچھ علاقوں میں فضائی حملے ہوئے ہیں۔
"اخبار انڈین ایکسپریس نے اطلاع دی کہ جموں کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا، جس پر حکام نے میزائل انٹرسیپشن سسٹم کو فعال کیا۔
مقامی ذرائع کے مطابق بھارت کے دیگر شمالی شہر چندی گڑھ، جس میں فضائیہ کا ایک اہم اڈہ ہے، سری نگر جو بھارتی کے زیر انتظام کشمیر کا ایک شہر ہے اور سرحدی شہر گروداس پور بھی رات کے دوران بلیک آؤٹ کی زد میں تھے۔
روئٹرز کے ایک صحافی نے جموں سے اسی طرح کے مناظر کی اطلاع دی۔ کینیڈا کی خبر رساں ایجنسی نے ایک نامعلوم بھارتی سکیورٹی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "ہماری فوج کی تنصیبات پر حملے ہو رہے ہیں، یہ جموں (خطے) کے پانچ اضلاع میں ایک ساتھ ہو رہے ہیں۔" ۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج کے بعض ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان کی طرف سے جموں خطے کے قصبے ستواری، سامبا، رنبیر سنگھ پورہ اور ارنیا پر داغے گئے آٹھ میزائلوں کو فضائی دفاعی یونٹس نے ناکارہ بنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ میزائل ایک وسیع حملے کا حصہ تھے۔پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی مشیروں کے درمیان رابطہ
بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کی تصدیق کیبھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مصری نے پاکستان کے خلاف راتوں رات حملوں کا دفاع کیا ہے۔
انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ "ہمارا ارادہ معاملات کو بڑھانا نہیں ہے، ہم صرف اصل کشیدگی کا جواب دے رہے ہیں۔
ہمارا ردعمل ہدف، عین مطابق، کنٹرول اور نپا تلا ہے۔"مصری نے پاکستانی دعووں کی تردید کی کہ بھارت نے حملوں میں کشمیر میں ایک اہم پاکستانی ڈیم کو نشانہ بنایا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، "اگر اس قسم کا دعویٰ اسی نوعیت کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کے لیے بطور بہانہ استعمال کیا گیا، تو بلا شبہ اس کے نتیجے میں ہونے والے نتائج کا مکمل طور پر ذمہ دار پاکستان ہو گا۔
" بھارت نے پاکستانی مواد کو ہٹانے کا حکم دے دیاسوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کا کہنا ہے کہ اس نے بھارتی حکومت کی ایما پر اب تک آٹھ ہزار سے زیادہ افراد کے اکاؤنٹ بند کیے ہیں۔
بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات نے اسٹریمنگ پلیٹ فارمز سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی فلموں، گانے، پوڈ کاسٹ اور دیگر آن لائن مواد کو مکمل طور پر ہٹا دیں۔
وزارت نے ایک میمو میں کہا، "قومی سلامتی کے مفاد میں، تمام ۔۔۔۔ میڈیا اسٹریمنگ پلیٹ فارمز اور بھارت میں کام کرنے والے ایسے افراد کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں تیار کی گئی ویب سیریز، فلمیں، گانے، پوڈ کاسٹ اور دیگر اسٹریمنگ میڈیا مواد کو بند کر دیں، چاہے وہ سبسکرپشن بیس ماڈل پر دستیاب ہوں، یا بصورت دیگر۔"
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارت کے زیر انتظام کشمیر نشانہ بنایا نے پاکستان پاکستان کے پاکستان کی بھارتی فوج اور بھارت کو نشانہ بلیک آؤٹ بھارت نے نے بھارت انہوں نے کہ اس نے کا دعوی رہے ہیں کیا ہے کہا کہ نے ایک
پڑھیں:
تنازع جموں و کشمیر کا منصفانہ حل
مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کے غیر قانونی اقدامات کو 6 سال مکمل ہونے پر 5 اگست کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اور کنٹرول لائن کے دونوں جانب کشمیریوں نے یوم استحصال کشمیر منایا۔ اس دن کی مناسبت سے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور مظاہرے کیے گئے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مذمتی قراردادیں منظور کی گئیں۔ ا
س دن کی مناسبت سے لندن میں کشمیریوں اور پاکستانیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے 10ڈاؤننگ اسٹریٹ سے بھارتی ہائی کمیشن تک مارچ کیا اور بھارت مخالف نعرے بازی کی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ دن منانا نہ صرف بھارت کی جانب سے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی یاد دلاتا ہے بلکہ عالمی برادری کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی ابھی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی اسے طاقت، قانون سازی یا ریاستی جبر سے دبایا جا سکتا ہے۔
5 اگست 2019 کو بھارت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے دفعہ 370 اور 35-A کو منسوخ کیا۔ یہ وہ دفعات تھیں جن کے تحت مقبوضہ کشمیر کو ایک نیم خود مختار حیثیت حاصل تھی اور کشمیری عوام کو اپنی شناخت اور زمین پر حقِ ملکیت حاصل تھا۔ ان دفعات کے خاتمے کا مقصد نہ صرف مقبوضہ علاقے کو بھارت میں ضم کرنا تھا بلکہ کشمیریوں کی شناخت، زمین اور وجود کو مٹانا بھی تھا۔
بھارت نے اس اقدام کو پارلیمنٹ کے ذریعے قانونی شکل دی، مگر بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں یہ اقدام سراسر غیرقانونی، یکطرفہ اور جابرانہ تھا۔ اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردیا گیا، جہاں انسانی حقوق کی پامالی معمول بن گئی۔ درحقیقت پانچ اگست 2019کا دن تاریخ میں ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز بھارت نے بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔
یہ اقدام نہ صرف اقوامِ عالم کے ضمیر پر ایک زوردار ضرب تھا بلکہ ایک ایسے خطے کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر بھی حملہ تھا جو گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بھارت نے پانچ اگست 2019 کو یکطرفہ طور پر آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کو براہِ راست مرکز کے ماتحت کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے آبادی کا تناسب تبدیل کرنے، کشمیریوں کو بے دخل کرنے اور وہاں کی سیاسی، مذہبی اور ثقافتی شناخت مٹانے کے لیے اقدامات شروع کیے۔
یہ تمام اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں، جو جموں و کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کرتی ہیں اور وہاں رائے شماری کے انعقاد پر زور دیتی ہیں۔ آج مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو ان کی قیادت سے محروم کیا گیا ہے، میڈیا پر سخت پابندیاں عائد ہیں اور اظہارِ رائے کا حق سلب کر لیا گیا ہے۔ ہر روز بے گناہ کشمیریوں کو سرچ آپریشنز کی آڑ میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ خواتین، بچے اور بزرگ بھارتی قابض افواج کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے اختیار کی گئی یہ پالیسیاں دراصل سیٹلرکالونیلزم کی بدترین مثال ہیں، جن کا مقصد کشمیری عوام کی شناخت کو مٹانا اور انھیں ان کے حقِ خودارادیت سے محروم کرنا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں آج بھی حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ بھارت نے وہاں ایک کرفیو زدہ ماحول قائم کر رکھا ہے۔ کشمیری قیادت کو نظر بند یا جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ میڈیا پر قدغن ہے، انٹرنیٹ بند یا محدود کر دیا جاتا ہے، اور عوام کو خوف کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ہر روز نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگی اور جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارتی فورسز کی جانب سے ’’ کورڈن اینڈ سرچ آپریشنز‘‘ کے نام پر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ سب اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر کی صریح خلاف ورزیاں ہیں، جن پر عالمی برادری کو فوری اور موثرکارروائی کرنی چاہیے۔ بھارت 5 اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں ایک منظم طریقے سے آبادیاتی تبدیلی کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی شہریوں کو مقبوضہ علاقے میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے، انھیں زمین خریدنے اور مستقل رہائش کے حقوق دیے جا رہے ہیں۔ اس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے تاکہ ریفرنڈم یا حقِ خودارادیت کی صورت میں بھارت کو نتائج اپنے حق میں مل سکیں۔
آزاد جموں و کشمیر ہو یا مقبوضہ کشمیر، تقسیم ہند کے طے کردہ فارمولے کے مطابق بھی پاکستان کا ہے اور اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں کے مطابق بھی ہمارا ہے۔ یہ بات صرف پاکستان ہی نہیں کہہ رہا ہے بلکہ یہ بات بھارتی قیادت، جواہر لعل نہرو سے لے کر نریندر مودی تک مانتے رہے ہیں۔
مودی سرکار 5اگست 2019تک ان تمام حقائق کے ساتھ رہی۔ حتیٰ کہ مودی سرکار نے متنازع کشمیر یعنی مقبوضہ کشمیر کا ہندوستانی آئین کے مطابق خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارتی یونین کا حصہ بنا ڈالا۔ اس بات کو کشمیریوں نے ہی نہیں بلکہ اقوام عالم نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ اس دن سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی تحریک میں ایک نئی جان اور طاقت پیدا ہو گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اپنی قراردادوں میں تسلیم کیا ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے، جس کا فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی سے ہونا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو بین الاقوامی اصولوں کے تحت تسلیم کرتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت برطانوی راج کے زیر انتظام 562 ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کریں جب 1947 میں برصغیر کی تقسیم ہوئی تو ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی، کشمیر کا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ ایک ظالم اور خود غرض حکمران تھا جو ڈوگرہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا، 1925 سے 1947 تک ریاست جموں و کشمیر کا حکمران رہا۔ کشمیری عوام کی اکثریت نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش ظاہر کی۔
قائداعظم محمد علی جناح کے نظریے کے تحت مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ، کشمیری عوام کے دل کی آواز بنا۔ پاکستان سے مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی قربت کے باعث کشمیری عوام کا جھکاؤ فطری طور پر پاکستان کی طرف تھا۔ 19جولائی 1947کو ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی نمایندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے سری نگر میں ایک تاریخی قرارداد منظورکی، جس میں ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ برصغیر انگریز سے آزاد ہوا ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں تھیں۔
اس لیے دوقومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں نے اپنا الگ ملک بنانے کا فیصلہ کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کی اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے 14اگست 1947کو ایک علیحدہ ریاست پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا۔
پاکستان کا موقف بالکل واضح اور اصولی ہے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن و استحکام کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک جموں و کشمیر کے تنازع کا منصفانہ حل تلاش نہ کیا جائے۔ بھارت کی طرف سے طاقت اور تشدد کے ذریعے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوششیں ان کی جدوجہد کو مزید تقویت بخشتی ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آزادی کی تڑپ کو کبھی بھی زنجیروں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔
اقوامِ عالم پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کو اس کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات واپس لینے پر مجبور کریں۔ اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے، تاکہ کشمیری عوام کو وہ حق دیا جا سکے جس کا وعدہ ان سے سات دہائیوں قبل کیا گیا تھا۔ پاکستان تین جنگیں لڑ چکا ہے، لیکن اس کے باوجود امن کے راستے پر قائم ہے۔ پاکستان ہر بین الاقوامی فورم پر یہ پیغام دیتا رہا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کا واحد راستہ مسئلہ کشمیر کا پر امن حل ہے۔ بھارت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فوجی طاقت سے کشمیریوں کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔
اس کی ہر چال، ہر قانون اور ہر عدالتی فیصلہ کشمیریوں کی آزادی کی خواہش کو دبا نہیں سکتا۔ یومِ استحصال ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ کشمیری عوام آج بھی ظلم، جبر اور ناانصافی کا شکار ہیں، مگر ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان کے جذبے، حوصلے اور پاکستان کے ساتھ ناقابلِ شکست رشتے بھارت کی ہر سازش کو ناکام بنا رہے ہیں۔
ہمیں بطور قوم عہد کرنا ہو گا کہ ہم کشمیری عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے، جب تک وہ اپنا جائز اور ناقابلِ تنسیخ حقِ خود ارادیت حاصل نہیں کر لیتے۔ انصاف کی دیر، امن کی موت ہے دنیا اگر آج بھی خاموش رہی تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر صرف ایک انسانی المیہ نہیں، بلکہ ایٹمی تصادم کا میدان بن سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری اب خوابِ غفلت سے جاگے اور کشمیریوں کے اس جائز اور قانونی حقِ خودارادیت کو تسلیم کرے۔