ماہواری سے متعلق مصنوعات پر پاکستان میں عائد کیے جانے والے ’پیریڈ ٹیکس‘ کے خاتمے کی مہم میں ایک اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے خواتین کے حقوق کی کارکن کی جانب سے دائر درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیدیا۔

25 سالہ وکیل ماہ نور عمر کی دائر کردہ رِٹ پٹیشن پر لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے متعلقہ فریقین سے جواب طلب کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب آگاہی اور معلومات کی ترسیل ایکٹ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

یہ کیس، جو آئین کے متعدد آرٹیکلز کی روشنی میں خواتین کی صحت، وقار اور مساوات کے حقوق کی خلاف ورزی کو چیلنج کرتا ہے، پاکستان میں صنفی مساوات سے متعلق ایک نئی بحث کو جنم دے رہا ہے۔

 https://Twitter.

com/pprofwomenforum/status/1985947962359628164

راولپنڈی کی رہائشی ماہ نور عمر نے اس درخواست کو مفادِ عامہ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ ٹیکس نہ صرف خواتین کو ان کی حیاتیاتی ضرورت پر جرمانہ کرتا ہے بلکہ لاکھوں لڑکیوں کی تعلیم اور صحت کو بھی خطرے سے دوچار کررہا ہے۔

واضح رہے کہ ماہ نور عمر کی جانب سے ستمبر 2025 میں دائر کی جانے والی اس رِٹ پٹیشن میں وفاقِ پاکستان، وزارتِ خزانہ، ایف بی آر اور وزارتِ ریونیو کو مرکزی فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی خواتین آبادی کل آبادی کا 48.51  فیصد یعنی تقریباً 117 ملین ہے، جو 2033 تک بڑھ کر 151 ملین تک پہنچنے کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ میں جنات کے خلاف خاتون کے اغوا کا مقدمہ زیرسماعت، تحقیقاتی کمیٹی سرگرم

’ان میں سے تقریباً 62 ملین خواتین ماہواری کی عمر میں ہیں، مگر صرف 12 فیصد کمرشل سینیٹری پیڈز استعمال کرتی ہیں، باقی 88 فیصد خواتین کپڑا، راکھ یا اخبار جیسے غیر محفوظ متبادل استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جو پیشاب کی نالی کے انفیکشن، تولیدی مسائل اور طویل مدتی صحت کے خطرات کا باعث بنتے ہیں۔‘

یونیسیف کی 2023 پالیسی بریف کے مطابق، ہر 5 میں سے ایک لڑکی ماہواری کے دوران اسکول چھوڑ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں بلوغت کے دوران پورا تعلیمی سال ضائع ہو جاتا ہے۔ حالیہ سیلابوں نے اس بحران کو مزید بڑھا دیا ہے، اور ’پیریڈ غربت‘ اب 3 کروڑ سے زائد خواتین کو متاثر کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: ’آپ سے ایک گھریلو خاتون بازیاب نہیں ہورہی‘، چیف جسٹس آئی جی عثمان انور پر برہم

رٹ پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سینیٹری پیڈز پر عائد ٹیکس کا مجموعی بوجھ 40 فیصد تک ہے، مقامی پیڈز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس، درآمد شدہ پیڈز پر 25 فیصد کسٹم ڈیوٹی کے ساتھ مزید 18 فیصد سیلز ٹیکس، اور خام مال یعنی سپر ایبزربینٹ پولیمر پیپر پر 25 فیصد ٹیکس عائد ہے۔

’جو پیڈ کی لاگت کا 26 فیصد بنتا ہے، نتیجتاً 10 پیڈز کا ایک پیکٹ 450 روپے تک جا پہنچتا ہے، جبکہ اوسط ماہانہ آمدنی صرف 35 ہزار روپے ہے۔‘

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ کا اسموگ کیس میں تحریری حکم نامہ جاری، درختوں کے تحفظ اور ماحولیاتی بہتری پر زور

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ماہ نور عمر نے کہا کہ یہ ٹیکس ’لگژری آئٹم‘ پر عائد کردہ ٹیکس کی طرز پر عائد کیا گیا ہے، حالانکہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے شیڈول 6 میں بوائین سیمن، فلیورڈ ملک اور چیز جیسی اشیاء ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں، مگر سینیٹری پیڈز شامل نہیں۔

ان کے مطابق، یہ پالیسی نہ صرف معاشی بوجھ میں اضافہ کرتی ہے بلکہ صنفی امتیاز کی واضح مثال ہے، جو سیڈا 1996 اور عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔

’عالمی ادارہ صحت ماہواری کو صحت کا جامع مسئلہ قرار دیتا ہے اور اس حوالے سے سستی مصنوعات، تعلیم اور باعزت سہولیات کی فراہمی کی ضمانت کا مطالبہ کرتا ہے۔‘

مزید پڑھیں: 214 افسران کی سوشل میڈیا پر ذاتی تشہیر، لاہور ہائیکورٹ نے چیف سیکرٹری پنجاب کو طلب کر لیا

’پیریڈ ٹیکس‘ کیخلاف دائر درخواست پر جسٹس ملک محمد اویس خالد اور جسٹس جواد حسن پر مشتمل بینچ نے 15 ستمبر کو پہلی سماعت کی، ماہ نور کی جانب سے وکیل احسن جہانگیر خان نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ ٹیکس خواتین کی معاشی و سماجی مشکلات میں اضافہ اور بنیادی صحت کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم اور سابق عدالتی فیصلوں کی روشنی میں کیس کو برقرار رکھنے پر سوال اٹھایا، تاہم وکیل نے اسے خواتین کے آئینی حقوق کے تحفظ سے متعلق قرار دیتے ہوئے متعدد عدالتی نظیریں پیش کیں۔

عدالت نے ایف بی آر کو ریگولیٹری ادارہ قرار دیتے ہوئے اس کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر کے کمشنرز (اپیلز) کے ناقص فیصلے عدالتی بیک لاگ بڑھاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ تمام فریقین کے اسلام آباد میں ہونے کے باوجود کیس کی سماعت راولپنڈی میں کیسے کی جا سکتی ہے، جس پر وکیل نے تیاری کے لیے مہلت طلب کی، عدالت نے درخواست کو مشروط طور پر برقرار رکھتے ہوئے مدعا علیہان کو دو ہفتوں میں پیراگراف وار جوابات جمع کرانے کا حکم دیا۔

عدالت نے سی پی سی کے آرڈر 27-اے کے تحت اٹارنی جنرل آف پاکستان کو قانونی نکات پر رائے دینے کا نوٹس جاری کیا۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی، لاہور ہائیکورٹ کے ججز کے لیے ہاؤسنگ قرضوں کے بجٹ میں نمایاں اضافہ

’پیڑید ٹیکس‘ کیخلاف یہ کیس عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل کر رہا ہے، کیونکہ برطانیہ، بھارت، کولمبیا، نیپال، روانڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک پہلے ہی اس نوعیت کا ٹیکس ختم کر چکے ہیں۔

درخواست گزار ماہ نورعمر کے مطابق، اسکول میں سینٹری پیڈز کو ‘منشیات کی طرح’ چھپانا پڑتا تھا، جو معاشرے میں مروجہ سماجی بدنامی کو ظاہر کرتا ہے۔’یہ ٹیکس خواتین کی حیاتیاتی ضرورت پر جرمانہ ہے، جو مردانہ پالیسی سازی کی پیداوار ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آسٹریلیا اٹارنی جنرل ایف بی آر بیک لاگ پیڑید ٹیکس جرمانہ جسٹس جواد حسن جسٹس ملک محمد اویس خالد راولپنڈی سینیٹری پیڈز لاہور ہائیکورٹ ماہ نور عمر ماہواری

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: آسٹریلیا اٹارنی جنرل ایف بی ا ر بیک لاگ جسٹس جواد حسن جسٹس ملک محمد اویس خالد راولپنڈی سینیٹری پیڈز لاہور ہائیکورٹ ماہ نور عمر ماہواری لاہور ہائیکورٹ قرار دیتے ہوئے سینیٹری پیڈز ماہ نور عمر درخواست کو مزید پڑھیں کے مطابق عدالت نے یہ ٹیکس کرتا ہے ایف بی گیا ہے

پڑھیں:

حکومتی دعووں اور حقائق میں کھلا تضاد ہے، گوہر اعجاز

فائل فوٹو

سابق نگراں وزیر گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ حکومتی دعووں اور حقائق میں کھلا تضاد ہے، حکومت معیشت سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر رہی ہے۔

ایک بیان میں گوہر اعجاز نے کہا کہ ٹیکسوں کا بھاری بوجھ معاشی تباہی کا راستہ ہے، حکومت 2028ء میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 18 فیصد کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ٹیکس ادا کرنے والوں پر مزید بوجھ ڈالنا چاہتی ہے، کمزور معیشت پر بھاری ٹیکسز کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔

گوہر اعجاز نے اقتصادی استحکام کا روڈ میپ دے دیا

سابق نگراں وزیر خزانہ گوہر اعجاز نے ملک میں اقتصادی استحکا اور برآمدات کی ترقی کا روڈ میپ پیش کردیا۔

سابق وزیر نے مزید کہا کہ بزنسز سے ٹیکس وصولیاں 2 اعشاریہ 2 ٹریلین روپے سے بڑھ کر 5 اعشاریہ 3 ٹریلین روپے ہو چکیں، تنخواہ داروں سے ٹیکس وصولیاں 206 فیصد بڑھ چکی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ تنخواہ داروں سے ٹیکس وصولیاں 188 ارب سے بڑھ کر 580 ارب تک پہنچ چکی ہیں۔

گوہر اعجاز نے یہ بھی کہا کہ اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ نے بھاری ٹیکسز سے متعلق رپورٹ دی ہے، 3 برس میں کاروباری گروپس سے 131 فیصد اضافی ٹیکس وصول کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر جان بوجھ کر ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 10 فیصد ظاہر کر رہا ہے، درحقیقت ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 12 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ٹیکسوں کا بوجھ 10 فیصد سے بڑھ کر 12 اعشاریہ 2 فیصد ہو چکا ہے، 3 سال میں پیٹرولیم لیوی وصولیوں میں 760 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

گوہر اعجاز نے کہا کہ پاکستان کی جی ڈی پی 4 فیصد سے کم رہی ہے، ٹیکس وصولیوں اور جی ڈی پی میں تضاد سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ بھاری ٹیکسز کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کو چھوڑ کر جا رہے ہیں، ایف بی آر غیر حقیقی ٹیکس اہداف مقرر کر رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پولیس حراست میں نوجوان کی ہلاکت؛ گرفتار اے ایس آئی کی درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب
  • حکومتی دعووں اور حقائق میں کھلا تضاد ہے، گوہر اعجاز
  • امیر جماعت اسلامی کراچی نے ای چالان کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا
  • تحریک انصاف نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کو ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا
  • پمز برن سینٹر میں پلاسٹک سرجن کی تعیناتی چیلنج، اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین سے جواب طلب کرلیا
  • سروے کے مطابق صرف 12.03 فیصد مصنوعات پر ٹیکس اسٹیمپ پائے
  • پی ٹی آئی نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 چیلنج کردیا، کل سماعت
  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے‘ چیئرمین راشد لنگڑیال
  • لاہور ہائیکورٹ: جعلی دودھ فروخت کرنیوالے ملزم کی ضمانت مسترد