مستونگ سے کامیاب جے یو آئی امیدوار نواب اسلم رئیسانی کے خلاف انتخابی عذرداری خارج
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
—فائل فوٹو
سپریم کورٹ آف پاکستان نے مستونگ سے جے یو آئی کے کامیاب امیدوار نواب اسلم رئیسانی کے خلاف انتخابی عذرداری خارج کر دی۔
عدالتِ عظمیٰ نے انتخابی عذرداری تکنیکی بنیادوں پر خارج کرتے ہوئے حلقہ پی بی 37 مستونگ سے متعلق انتخابی عذرداری ناقابلِ سماعت قرار دے دی۔
جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
پیپلز پارٹی کے امیدوار نور احمد بنگلزئی نے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا اور مبینہ دھاندلی کو بنیاد بنا کر دوبارہ گنتی کی استدعا کر رکھی تھی۔
دورانِ سماعت درخواست گزار نور احمد بنگلزئی کے وکیل وسیم سجاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ٹریبونل کا آرڈر مستونگ پی بی 37 سے متعلق ہے، اس حلقے میں مسترد ووٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اتنی بڑی تعداد میں مسترد ووٹ جیت اور ہار پر براہِ راست اثر انداز ہو رہے ہیں، الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی ری کاؤنٹنگ کو مسترد کر دیا۔
جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بلوچستان میں مسائل کا انبار ہے، وسائل کچھ نہیں ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمارے پاس تو معاملہ بالکل مختلف ہے، آپ کی درخواست ہی ناقابلِ سماعت قرار دے دی گئی تھی، درخواست بیانِ حلفی مصدقہ نہ ہونے کی وجہ سے مسترد ہوئی۔
وکیل وسیم سجاد نے جواب دیا کہ ہم نے بیانِ حلفی اوتھ کمشنر کی تصدیق کا لگایا ہوا تھا۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اوتھ کمشنر نے بیانِ حلفی کو ضابطے کے مطابق ٹیسٹ نہیں کیا، گواہوں کے بیانات بھی درست طور پر نہیں لگائے گئے تھے، سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں میں کہا گیا کہ اگر تصدیق شدہ بیانِ حلفی نہ ہوں تو الیکشن ٹریبونل میں ایسی درخواست ناقابلِ قبول ہوتی ہے، آپ نے بیانِ حلفی درست نہیں دیا، طے شدہ اصولوں کے تحت بیانِ حلفی جمع کرانا ضروری ہے۔
وکیل وسیم سجاد نے بتایا کہ وکیل نے تصدیق کی تھی۔
جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ وکیل کیسے جانتا تھا اور وکیل کیسے تصدیق کر سکتا ہے؟ تصدیق کو ضروری قرار دیا گیا، بیانِ حلفی آپ نے درست نہیں دیا، بیانِ حلفی کی تصدیق ہونا ضروری ہے، سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ غیر مصدقہ بیانِ حلفی والی الیکشن پٹیشن ناقابلِ قبول ہے۔
وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ آپ تکنیکی بنیادوں پر کیوں جا رہے ہیں، میرا کیس بہت سادہ ہے، میں نے صرف ری کاؤنٹنگ کا کہا ہے، ری کاؤنٹنگ میں حرج کیا ہے؟
جسٹس شاہد وحید تے کہا کہ معذرت، آپ کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: وکیل وسیم سجاد نے جسٹس شاہد وحید سپریم کورٹ نے کہا کہ
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی صوبہ بہار کے رہائشی؟ سرٹیفکیٹ بھی جاری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اگست 2025ء) بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، ووٹرز لسٹ کی متنازع خصوصی جامع نظرثانی (ایس آئی آر) میں اندراج کے لیے ایک شخص نے 29 جولائی کو سابق امریکی صدر کا روپ دھار کر آن لائن درخواست دی۔ درخواست میں اس نے والدین کے نام فریڈرک کرسٹ ٹرمپ اور میری این میکلیوڈ ظاہر کیے، جو کہ واقعی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے والدین کے نام ہیں۔
اس نے ٹرمپ کی جائے رہائش بہار کے ضلع سمستی پور کے گاؤں حسن پور لکھا اور درخواست پر ٹرمپ کی تصویر بھی چسپاں کی۔بہار کے ضلع سمستی پور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (اے ڈی ایم) برجیش کمار نے تصدیق کی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر رہائشی سرٹیفکیٹ بنانے کی کوشش کی گئی۔
(جاری ہے)
برجیش کمار نے کہا کہ یہ سرٹیفکیٹ ڈیجیٹل چھیڑ چھاڑ کے ذریعے بنانے کی کوشش کی گئی اور قصور واروں کے خلاف ضروری کارروائی جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ متعلقہ ریونیو اہلکار نے 4 اگست کو اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ جعلی درخواستوں کا سلسلہیہ معاملہ بہار میں بڑھتے ہوئے ایک ایسے رجحان کا حصہ ہے جس میں حالیہ ہفتوں میں متعدد جعلی درخواستیں سامنے آئی ہیں، جن میں ’ڈاگ بابو‘، ’ڈوگیش بابو‘، ’نتیش کماری‘، اور ’سونالیکا ٹریکٹر‘ جیسے نام شامل ہیں۔
بھارتی صحافی محمد سمیع احمد نے پٹنہ سے فون پر ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ووٹرز لسٹ میں نام شامل کرانے کے لیے جن گیارہ طرح کے سرکاری دستاویزات کی بات کہی ہے، ان میں سے ایک ڈومیسائل (رہائشی) سرٹیفیکیٹ بھی ہے اور اس کو بنوانے میں لوگوں کو کافی پریشانی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا بعض افراد اس میں گڑبڑی اور دھاندلی کو اجاگر کرنے کے لیے جعلی سرٹیفیکٹ بنوا کر حکومت اور متعلقہ اداروں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔
بھارت میں پاسپورٹ کو شہریت کا ثبوت سمجھا جاتا ہے۔ سمیع احمد کہتے ہیں کہ بہار میں بہت کم لوگوں کے پاس پاسپورٹ ہیں۔ اب صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ لوگ ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ دیں لیکن اسے بنوانے کے لیے کافی پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔
ٹرمپ کے ڈومیسائل سرٹیفیکٹ کے تنازع کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ’’مجھے نہیں لگتا کہ اے آئی یا فوٹوشاپ کے ذریعہ ایسا کیا گیا ہے ، بلکہ لوگوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ڈومیسائل سرٹیفیکٹ حاصل کرنا بہار میں ایک مذاق بن چکا ہے۔
ایسے کئی اور معاملے سامنے آچکے ہیںٹرمپ کے نام پر ڈومیسائل سرٹیفیکٹ کا یہ کوئی تنہا واقعہ نہیں ہے۔ جون میں، پٹنہ میں ’ڈاگ بابو‘ نامی کتے کے لیے رہائشی سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔ نوادہ میں ایک اور کتے کے لیے 'ڈوگیش بابو‘ کے نام سے سرٹیفکیٹ کی درخواست دی گئی، جس میں کتے کی تصویر بھی شامل تھی۔
اسی ضلع میں ایک اور معاملے میں ’شری رام‘ کے نام سے درخواست دی گئی، جس نے حکومتی طریقہ کار پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے۔
مشرقی چمپارن میں’سونالیکا ٹریکٹر‘ کے نام پر درخواست آئی، جس میں ایک بھوجپوری فلم اداکارہ کی تصویر بھی لگی تھی۔محمد سمیع احمد نے کہا کہ ’’ڈاگی بابو کے نام سے جو ڈومیسائل سرٹیفیکٹ بنا تھا اسے تو سرکاری اہلکار نے بنایا تھا۔ جو بعد میں پکڑا گیا اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بقیہ جگہوں پر لوگوں نے درخواست تو دی لیکن وہ اہلکاروں کی نگاہ میں آگئی۔
ڈومیسائل سرٹیفیکٹ اتنا اہم کیوں؟بہار میں اس سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ انتخابات حکمران بی جے پی اور اپوزیشن کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل وغیرہ کے لیے سیاسی زندگی اور موت کا سوال بن گئے ہیں۔ بہار میں ایس آئی آر کے بعد یہ عمل مغربی بنگال اور دیگر ریاستوں میں بھی شروع کرنے کی خبریں ہیں۔
الیکشن سے قبل حکومت نے ووٹرز لسٹ پر نظرثانی کا فیصلہ کیا۔ لیکن الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اس کے لیے جو طریقہ کار اپنایا ہے وہ انتہائی پیچیدہ اور متنازع ہے۔
مثلاﹰ آدھار کارڈ، جسے بیشتر سرکاری خدمات، حتیٰ کہ اسکولوں اور ہسپتالوں میں داخلے کے لیے ضروری بنا دیا گیا ہے اور جس کی بنیاد پر پاسپورٹ اور ووٹر کارڈ بنائے جاتے ہیں، اسے الیکشن کمیشن نے 'ویلڈ ڈاکیومنٹ‘ ماننے سے انکار کر دیا۔
محمد سمیع احمد کہتے ہیں،’’دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آدھار کارڈ کو تسلیم نہیں کرتا جو کے بنیادی کارڈ ہے، ووٹر کارڈ کو نہیں مان رہا ہے جو اسی کا دیا ہوا ہے۔ راشن کارڈ حکومت کا جاری کردہ ہوتا ہے لیکن کمیشن اسے بھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو بہت پریشانی ہو رہی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ’’یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ڈومیسائل سرٹیفیکٹ بنانے کے لیے آدھار کارڈ ضروری۔
دوسری طرف ووٹر لسٹ میں نام شامل کرانے کے لیے آدھار کارڈ کو تسلیم نہیں کیا جارہا ہے۔‘‘محمد سمیع احمد نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ نے بھی کہا تھا کہ آدھار کارڈ، ووٹر کارڈ اور راشن کارڈ کو ویلڈ دستاویز تسلیم کیا جائے۔ اور الیکشن کمیشن اس کی بنیاد پر لوگوں کا نام ووٹر لسٹ میں شامل کرے۔
سیاسی ردعملان واقعات نے سیاسی حلقوں میں بھی ہلچل مچا دی ہے۔
اپوزیشن کانگریس کے رہنما رندیپ سنگھ سرجے والا نے بہار انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے ’ٹرمپ‘ واقعہ پر ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ’’بہت سے لوگ اسے مذاق سمجھ کر ہنسیں گے اور آگے بڑھ جائیں گے، لیکن ذرا سوچیے… یہ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ بہار میں 'الیکٹورل رول ریویژن‘ کا پورا عمل ایک فراڈ ہے اور ووٹ چرانے کا طریقہ ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’الیکشن کمیشن کی جانب سے بہار کے 65 لاکھ ووٹرز کو فہرست سے ہٹانا انتخابی جمہوریت پر براہ راست حملہ ہے۔ اب یہ فراڈ سب کے سامنے آ چکا ہے، جس کے خلاف کانگریس اور راہول گاندھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسے میں خاموش رہنا جرم ہے۔ آئیں، آواز اٹھائیں اور جمہوریت کے محافظ بنیں۔‘‘
65 لاکھ ووٹروں کا اخراجبہار میں ووٹرز لسٹ کی خصوصی جامع نظرثانی (ایس آئی آر) کا کام جاری ہے، لیکن اسی کے ساتھ الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ ریاست کی حکمراں جنتا دل یو اور بی جے پی اپنے انتخابی فائدے کے مدنظر اپوزیشن جماعتوں کے ووٹروں کا نام ووٹرز لسٹ سے نکلوا رہی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی ممکنہ شکست کے مدنظر افواہیں پھیلا رہی ہے۔
اس دوران سپریم کورٹ نے بدھ کو الیکشن کمیشن آف انڈیا سے کہا کہ وہ بہار کی ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے نکالے گئے 65 لاکھ ووٹروں کی انفرادی تفصیلات اور وجوہات پیش کرے۔
عدالت نے یہ حکم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر دیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ اخراج کی وجوہات میں ہر نام کے اخراج کی انفرادی تفصیل یا حلقہ وار یا بوتھ وار وضاحت موجود نہیں ہے۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا الیکشن کمیشن کو ہدایت دی جائے کہ وہ اسمبلی حلقے اور بوتھ وار ایسے تمام 65 لاکھ ووٹروں کی تفصیلی فہرست جاری کرے جن کے فارم جمع نہیں ہوئے، اور ہر ووٹر کے ساتھ اخراج کی وجہ (موت، مستقل منتقلی، تکرار، وغیرہ) درج کی جائے۔
ان ووٹروں کی فہرست بھی مانگی گئی ہے جن کے فارم بوتھ لیول پر افسران کی طرف سے 'نامنظور‘ کیے گئے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کو 9 اگست تک تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت دی۔ اس معاملے کی سماعت 12 اگست کو طے ہے۔
اپوزیشن سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک سمری رویژن جنوری میں کی تھی اور اب یہ کہہ رہا ہے کہ پینسٹھ لاکھ لوگ درست درج نہیں تھے تو سوال یہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں کیسے ووٹ دیے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ الیکشن فرضی ووٹر لسٹ پر کیا گیا تھا۔
ادارت: صلاح الدین زین