پاکستان کے جوابی حملے کے بعد کیا بھارت جنگ بندی کی جانب بڑھے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بھارت کی جانب سے پاکستان کے مختلف علاقوں پر حملوں اور ڈرونز کی دراندازی کے بعد پاکستان نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے ’آپریشن بنیان مرصوص‘ کا آغاز کیا جس کا مقصد بھارت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا اور ملکی سالمیت کا دفاع تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی دفاعی نظام کو نابود کرنیوالے JF-17 تھنڈر کی خصوصی ویڈیو منظرعام
اس آپریشن میں پاکستان نے بیاس میں براہموس میزائل سائٹ، ادھم پور، پٹھان کوٹ، آدم پور، سورت گڑھ ایئر بیسز، بھارتی انٹیلیجنس کا راجوڑی میں تربیتی مرکز اور متعدد سپلائی ڈپو تباہ کیے اور ساتھ ہی بھارت کے مہنگے ایس-400 ایئر ڈیفنس سسٹم کو بھی نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں بھارت کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچا اور اس کا بجلی کا 70 فیصد گرڈ سسٹم بھی ناکارہ ہوگیا۔
بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان کے آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کے بعد بھارت نے گھٹنے ٹیک دیے اور جنگ بندی پر آمادہ ہوگیا۔
بھارتی فوج کی ترجمان کرنل صوفیہ قریشی کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ بھارت جنگ نہیں چاہتا، بشرطیکہ کہ پاکستان بھی ایسا ہی چاہے۔
پاکستان کی اس جوابی کارروائی کا اس صورتحال پر کیا اثر ہوا اور کیا اس جوابی کارروائی کے بعد انڈیا جنگ بندی کو ترجیح دے گا؟
اس حوالے سے ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے شاندار جوابی کارروائی نے دنیا کو دکھایا کہ پاکستان نے بہت برداشت کرنے کے بعد جواب دیا۔ پاکستان خود جنگ کو ہوا نہیں دے گا لیکن اس کو اگر کوئی مسلسل جارحیت کا نشانہ بنائے گا تو اس کو ایسا جواب دیا جائے گا کہ دنیا دیکھے گی۔
دفاعی ماہر راشد قریشی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے 3 دن تک بھارت کی شدید جارحیت کو برداشت کرنے کے بعد جو جوابی کارروائی کی وہ قابل تعریف تھی۔ پاکستان نے پوری کوشش کی کہ کسی بھی عسکری ردِعمل سے پہلے سفارتی راستہ اپنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اتنا انتظار کیا گیا کہ عوام میں مایوسی پھیلنے لگی تھی لیکن پاکستان کی جانب سے پھر بھی برداشت کیا گیا کی کہ شاید بھارت اپنی جارحیت پر شاید قابو پا لے۔ حتیٰ کہ لوگ سوال کرنے لگے کہ جب ہمارے بچوں، ماؤں اور بہنوں کو شہید کیا جا رہا ہے تو ہماری جانب سے جواب کیوں نہیں جا رہا۔
مزید پڑھیے: پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے کن ممالک نے رابطے کیے؟
راشد قریشی نے کہا کہ پاکستان نے عالمی طاقتوں، بالخصوص امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے اپیل کی کہ وہ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی اور بھارت کی سیاسی قیادت کو اس جارحیت سے باز رکھیں۔ پاکستان نے صاف طور پر کہا تھا کہ اگر ہم نے جواب دیا تو سب دیکھیں گے اور پھر دنیا نے وہ جواب دیکھا۔ ایسا مؤثر اور حیران کن کہ بھارت دنگ رہ گیا۔
انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ فی الحال بھارتی فوجی یا سیاسی قیادت اس معاملے کو مزید آگے بڑھانے کی ہمت کرے گی۔ تاہم مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ بھارت جیسے ہی موقع پائے گا دوبارہ کسی جھوٹے پراپیگنڈے کا سہارا لے کر پاکستان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرے گا اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ مسئلہ یہی پر ختم ہو جائے گا لہٰذا، پاکستان کو ہر وقت مکمل تیار رہنا چاہیے۔
دفاعی تجزیہ حارث نواز کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایک ذمے دار جوہری ریاست ہونے کا ثبوت دیا ہے جبکہ بھارت نے پروپیگنڈا کی بنیاد پر پاکستان کو زبردستی اس جنگ میں دھکیلا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر پر حملہ کیا گیا اور ہمارے سویلینز کو شہید کیا گیا جس کے بعد جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان نے بھارت کے 5 طیارے تباہ کیے اور صرف اپنا دفاع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر اس کے اگلے ہی دن بھارت نے پاکستان پر ڈرونز فائر کرنا شروع کر دیے، جن میں سے تقریباً 80 ڈرونز کو پاکستان نے مار گرایا لیکن اس کے باوجود بھارت باز نہ آیا، اور اس نے جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلانی شروع کر دیں کہ بھارت نے پاکستان کے بڑے شہروں پر حملہ کر دیا ہے، بھارتی فوج پاکستان میں داخل ہو گئی ہے، پاکستان کے جے ایف-17 تھنڈر طیارے گرائے گئے ہیں اور پائلٹ پکڑ لیے گئے ہیں، وغیرہ۔
حارث نواز نے کہا کہ گزشتہ شب ایک بار پھر بھارت کی جانب سے اسلام آباد، لاہور اور شیخوپورہ پر میزائل داغے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے سکھوں پر حملے کیے اور الزام پاکستان پر لگا دیا جبکہ افغانستان پر بھی میزائل فائر کیے گئے۔ ان مسلسل اشتعال انگیزیوں کے بعد پاکستان نے آج صبح جوابی کارروائی میں بھارت پر میزائل فائر کیے اور ان کی ایئربیسز سمیت دیگر اہم مقامات کو نشانہ بنایا جس سے بھارت کو خاصا نقصان ہوا اور بھارت نے خود بھی اس نقصان کو تسلیم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت نے دوبارہ کشیدگی بڑھانے کی کوشش کی تو پاکستان بھی اس کا بھرپور جواب دے گا اور یہی اس وقت ہماری حکمت عملی ہے اور آرمی چیف کی جانب سے بھی واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اگر بھارت نے مزید جارحیت کی تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
مزید پڑھیں: آپریشن ’بُنیان مَرصوص‘ کے بعد بھارت نے ہاتھ جوڑ لیے
بھارت مزید حملے کرے گا یا نہیں، اس کے جواب میں حارث کا کہنا تھا کہ ہم بھارت پر بالکل بھی اعتماد نہیں کر سکتے اگر آج رات اور کل کا دن خیریت سے گزر جاتا ہے تب بھی ہم مکمل تیاری کے ساتھ رہیں گے اور بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت امریکا اور دیگر ممالک کشیدگی ختم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر بات چیت سے کشیدگی کم ہوتی ہے تو یہ بہتر ہوگا۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکا نے پہلے کہا تھا کہ وہ اس کشیدگی میں مداخلت نہیں کرے گا اور دونوں ممالک کو اپنے معاملات خود حل کرنے دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان ایک بہت مضبوط جوہری صلاحیت رکھنے والا ملک ہے لیکن جب انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوا تو انہوں نے فوری طور پر مداخلت کی اور اب کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں کیونکہ 2 جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی کا اس حد تک بڑھ جانا دنیا کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آپریشن بنیان مرصوص پاک بھارت کشیدگی پاکستان کا جواب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آپریشن بنیان مرصوص پاک بھارت کشیدگی پاکستان کا جواب انہوں نے کہا کہ جوابی کارروائی کا کہنا تھا کہ کہ پاکستان نے پاکستان کے کی جانب سے جواب دیا بھارت کی بھارت نے کہ بھارت کیے اور کرنے کے کیا گیا کے لیے کے بعد
پڑھیں:
پاک بھارت اور ہندو مسلم تعلقات کی خرابی کا ذمے دار کون؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251107-03-7
شاہنواز فاروقی
پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور اور صحافی اسلام، مسلمانیت اور اسلامی پاکستان سے اتنے متغیّر ہیں کہ ان کو پاک بھارت تعلقات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان اور ہندو مسلم تعلقات کی خرابی کے ذمے دار مسلمان نظر آتے نہیں۔ ایاز امیر ایک سیکولر اور لبرل دانش ور اور صحافی ہیں روزنامہ دنیا میں انہوں نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ایک خطہ ٔ زمین پر دو قوموں کا تشکیل پانا کوئی عجیب بات نہیں۔ اور اس امر کی بنیاد پر اس خطہ ٔ زمین کا بٹوارا ہو جانا یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ ایسی کتنی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ لیکن ایسی تقسیم کی بنیاد پر نفرت کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا پیدا ہونا‘ یہ منفرد بات ضرور ہے۔ بابائے قوم نے تو کہا تھا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات ایسے دیکھتے ہیں جیسا کہ امریکا اور کینیڈا کے آپس میں۔ تقسیم ہو گئی‘ دو مختلف ممالک معرضِ وجود میں آ گئے اور بابائے قوم کو کوئی عار محسوس نہیں ہوتا تھا‘ ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو کو خط لکھنے میں۔ پنجاب لہو لہان ضرور ہوا لیکن اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ تقسیم ِ ہند کا فیصلہ ہوا تو دونوں طرف سے لیڈر تقسیم ِ پنجاب کے لیے تیار نہ تھے اور حالات ایسے بنے کہ دونوں طرف سے قتل ِ عام ہونے لگا۔
وجہ عناد تو کچھ سمجھ میں آئے۔ تقسیم ہو گئی تو وجہ عناد رہنی نہیں چاہیے تھی۔ یہ کہنا کہ ہندوستان نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا‘ بیکار کی باتیں ہیں۔ ہم نے بنگلا دیش کے قیام کو دل سے قبول کیا تھا؟ لیکن بنگلا دیش معرضِ وجود میں آگیا اور آج تک قائم ہے۔ جب اس ملک کے باسی ایسی باتیں کرتے ہیں تو ان کی خود اعتمادی پر سوال اٹھتا ہے۔ اس ضمن میں کشمیر کا ذکر کرنا بھی بات کو الجھانے کے مترادف ہے۔ کشمیر دو قومی نظریے کی بنیاد نہیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بعد میں اٹھا‘ دو قومی نظریے کا تصور ہندوستانی تاریخ کے نشیب و فراز میں پنہاں ہے۔ پاکستان تحریک جب اپنے زوروں پر تھی کشمیر کا ذکر کہاں ملتا ہے؟ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے تو ایک تقریر میں کشمیر اور حیدرآباد دکن کے تبادلے کی بات کی تھی لیکن اس وقت کے ہمارے قائدین کی دلچسپی حیدرآباد دکن میں زیادہ تھی۔ کشمیر کا مسئلہ تو ذرا بعد میں پیدا ہوا۔
سارا مسئلہ 1965ء کی جنگ سے شروع ہوا۔ کوئی خاص وجہ نہ تھی اور دونوں ممالک آنکھوں پر پٹی باندھے برسرِپیکار ہو گئے۔ 17 دن بعد سکت ِ جنگ ٹھنڈی پڑ گئی اور روس کی مداخلت پر جنگ بندی ہو گئی۔ لیکن نفرت کے بیج ایسے بوئے گئے کہ دشمنی اٹل ہو گئی۔ یہاں کے لیے میڈم نور جہاں کے نغمے ہی کافی تھے‘ سحر اتنا کہ یہ سوال ہی نہ اْٹھا کہ پہل کس کی تھی۔ حملے کی صورت میں ہندوستانی واردات ستمبر میں ہوئی لیکن اس سے پہلے کا بھی ایک سلسلہ تھا جس کے بارے میں پاکستان میں زیادہ سوال نہیں اٹھتے۔ بہرحال جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکمرانی پر گرفت کمزور ہوئی۔ دوسرا نتیجہ یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک پبلک ہیرو کے طور پر ابھرے۔‘‘ (روزنامہ دنیا، 2 نومبر 2025ء)
ہندو ازم اور ہندوئوں کے بالادست طبقات کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب وید میں صاف لکھا ہوا ہے کہ کائنات کا خالق اور مالک ورا الوریٰ ہے اور اس کی کوئی شبیہ نہیں بنائی جاسکتی مگر برہمنوں شتریوں اور ویشوں نے خدا کی مورتیاں بنا کر مورتی پوجا شروع کردی۔ ہندوئوں کی ایک اور مقدس کتاب مہا بھارت ہے۔ مہا بھارت میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ایک برہمن کے گھر شودر اور ایک شودر کے گھر میں برہمن پیدا ہوسکتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندو ازم میں ذات پات کا نظام اپنی اصل میں روحانی، اخلاقی اور علمی ہے۔ جو شخص زیادہ روحانی، اخلاقی اور علمی استعداد رکھتا ہے وہ برہمن ہے۔ جو شخص جسمانی طور پر طاقت ور ہے اور ریاست کی حفاظت کرسکتا ہے وہ ’’شتریہ‘‘ ہے۔ جو شخص ’’عقل معاش‘‘ زیادہ رکھتا ہے وہ ’’ویش‘‘ ہے اور جو شخص صرف ’’جسمانی محنت‘‘ کرسکتا ہے وہ ’’شودر‘‘ ہے۔ اصل ہندو ازم کی تعلیم یہ ہے۔ لیکن برہمنوں نے ہندوازم میں انسانوں کی تقسیم کے نظام کو صرف ’’پیدائشی‘‘ بنادیا ہے۔ چنانچہ برہمن کے گھر میں پیدا ہونے والا برہمن ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا شیطان کیوں نہ ہو اور شودر کے گھر میں پیدا ہونے والا ’’اچھوت‘‘ ہے خواہ وہ پیدائشی برہمن سے ایک لاکھ گنا اچھا کیوں نہ ہو۔ چنانچہ ہندوستان میں ہزاروں سال سے برہمن، شتریہ اور ویش عیش کررہے ہیں اور 50 کروڑ سے زیادہ شودر اور دلت جانوروں سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جو ہندو ہندوازم کی تشریح اور تعبیر حق کی بنیاد پر کرنے کے بجائے اپنے مفاد کے مطابق کرتے ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ظلم کیوں نہیں کریں گے؟ جو ہندو شودروں اور دلتوں کو جانور بنائے ہوئے ہیں وہ مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ کیا انصاف کریں گے؟ بدھ ازم کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ بدھ ازم ہندوستان میں پیدا ہوا مگر چونکہ وہ برہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت تھا اس لیے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے بدھ ازم کو یوپی اور بہار میں قدم نہ جمانے دیے۔ انہوں نے بدھ ازم کو ہندوستان کے مضافات میں دھکیل دیا چنانچہ بدھ ازم نے پاکستان میں ٹیکسلا اور افغانستان میں بامیان کو اپنا مرکز بنایا۔ سوال یہ ہے کہ جو ہندو ہندوستان کے ’’مقامی مذہب‘‘ کو گلے نہ لگا سکے وہ ہندو مسلمان اور پاکستان کے ساتھ کیا اچھا سلوک کریں گے؟ سکھ ازم ہندو ازم سے الگ ہے مگر ہندوئوں نے سکھ ازم کو اتنا بدل دیا ہے کہ سکھ ہندوئوں کی توسیع محسوس ہوتے ہیں۔ مگر جب 1984ء میں اندرا گاندھی کے دو سکھ باڈی گارڈز نے اندرا گاندھی کو ہلاک کیا تو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے سکھوں اور ہندوئوں کے قدیم تعلقات کو ایک طرف رکھتے ہوئے دلی میں ایک دن میں تین ہزار سکھوں کو ہلاک کیا۔ اس سے قبل اندرا گاندھی سکھوں کے خانہ کعبہ ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ پر ٹینک چڑھا چکی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے جو ہندو سکھوں کے ساتھ وفا نہ کرسکے وہ مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ کیا بہتر سلوک کریں گے؟
پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش وروں اور صحافیوں کا خیال ہے کہ ساری خرابی مسلمانوں کے دو قومی نظریے اور اس کی بنیاد پر ہونے والی سیاست سے پیدا ہوئی لیکن یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کی پوری تاریخ پر نظر نہ ہو۔ 1930ء میں جب دو قومی نظریے کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اعلیٰ ذات کے ہندو ’’شدھی‘‘ کی تحریک چلا کر مسلمانوں کو لالچ اور دبائو کے تحت دوبارہ ہندو بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ چنانچہ مولانا محمد علی جوہر نے ایک تقریر میں گاندھی کو مخاطب کرکے کہا کہ ہندو شدھی کی تحریک کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنارہے ہیں اور آپ خاموش ہیں۔ منشی پریم چند اردو افسانے کے بنیاد گزار ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی اردو میں ناول اور افسانے لکھے۔ وہ اسلامی تہذیب سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اس کا ثبوت ان کا معرکہ آرا افسانہ عید گاہ ہے۔ لیکن گاندھی کے زیر اثر آتے ہی پریم چند نے اردو میں افسانے لکھنے چھوڑ دیے اور وہ ہندی میں افسانے لکھنے لگے حالانکہ اردو اور ہندی جڑواں بہنوں کی طرح ہیں۔ اردو کا 30 فی صد سے زیادہ ذخیرہ الفاظ ہندی سے آیا ہے۔ اردو نے ہندی کی ایک درجن سے زیادہ اصوات یا آوازوں کو قبول کیا ہے مگر گاندھی کی سیاست نے پریم چند کو کچھ بھی یاد نہ رہنے دیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی۔
گاندھی کو اس کا علم ہوا تو وہ وجے لکشمی پر بہت ناراض ہوئے۔ کہنے لگے کہ تمہیں کروڑوں ہندو نوجوانوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں ملا جس سے تم شادی کرتیں۔ گاندھی نے وجے لکشمی پر اپنا دبائو ڈالا کہ انہوں نے مسلمان کے ساتھ اپنی شادی ختم کردی۔ یہ باتیں دو قومی نظریے کے ظہور اور تحریک پاکستان سے بہت پہلے کی ہیں۔
پاکستان ایک پرامن اور جمہوری جدوجہد کا حاصل تھا۔ 1940 سے 1947ء تک کہیں مسلمانوں نے ہندوئوں سے تصادم کی کوشش نہیں کی۔ مگر ہندو قیادت نے قیام پاکستان کے بعد دلی، یوپی اور پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام کراکے پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کو خون آشام کردیا۔ ایسا نہ ہوتا تو پاک بھارت تعلقات بڑی حد تک ’’نارمل‘‘ رہ سکتے تھے۔ ہندو قیادت نے تنگ نظری اور تھڑدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کے مالی اثاثے روک لیے۔ یہ اتنی بڑی ناانصافی تھی کہ گاندھی تک کو ہضم نہ ہوئی اور گاندھی نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کردی۔ چنانچہ ہندو قیادت کو طوعاً وکرہاً پاکستان کے حصے کے اثاثے پاکستان کو دینے پڑے۔ بدقسمتی سے بھارت کی ہندو قیادت نے تقسیم کے فارمولے کی روح کی بھی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔ حیدر آباد دکن نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا تھا مگر بھارت نے وہاں فوج کشی کرکے حیدر آباد کو پاکستان کے ساتھ الحاق سے روک دیا۔ کشمیر کے عوام بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی تھے مگر ہندو سامراج نے کشمیر پر بھی فوج کشی کے ذریعے قبضہ کرلیا۔ بھارت ایسا نہ کرتا تو پاک بھارت تعلقات معمول کے تعلقات ہوسکتے تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1962ء کی بھارت چین جنگ کے وقت ہندوستان اپنی ساری فوجی طاقت کو چین کی سرحد پر لے گیا تھا۔ چین نے جنرل ایوب سے کہا کہ آپ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا کشمیر لے لیں مگر جنرل ایوب امریکا کے دبائو میں آگئے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کی اس رعایت کو کبھی رعایت نہ گردانا اور اسے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں گھس کر اسے بنگلا دیش بنانے کا موقع ملا تو بھارت نے یہ موقع ضائع نہ کیا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ مسئلہ کشمیر کو بھارت اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا چنانچہ اصولاً بھارت کو کشمیر کے لوگوں کے حق رائے دہی کو تسلیم کرنا چاہیے تھا مگر بھارت نے آج تک ایسا نہیں کیا۔ بھارت پاکستان کے حکمرانوں پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ’’جنگ پرست‘‘ ہیں مگر پاکستانی حکمرانوں کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیاقت علی خان نے لیاقت نہرو پیکٹ پر دستخط کیے۔ جنرل ایوب نے تاشقند میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کیے۔ بھٹو نے بھارت کے ساتھ شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کے 9 ادوار ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کارگل کے ہیرو تھے مگر اس ’’ہیرو‘‘ نے کشمیر کے حوالے سے آگرہ میں ایسے مذاکرات کیے جو کشمیر اور پاکستان کے مفاد سے غداری کے مترادف تھے مگر بھارت نے ان مذاکرات کو بھی سبوتاژ کردیا۔ میاں نواز شریف تو تھے ہی بھارت کے آدمی۔ وہ نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں اس طرح شریک ہوئے جیسے وہ مودی کے غلام ہوں۔ جنرل عاصم منیر کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روز تک جنگ ہوئی مگر اس جنگ کے خاتمے پر جنرل عاصم منیر کے غلام میاں شہباز شریف نے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی۔ اس تاریخ کے باوجود بھی اگر کوئی پاکستانی سیکولر اور لبرل دانش ور یہ کہتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی خرابی کا ذمے دار دو قومی نظریہ یا خود پاکستان ہے تو اس سے زیادہ جاہل اور بے ایمان کوئی نہیں ہے۔