Express News:
2025-09-25@23:06:39 GMT

مودی کا جنگی جنون سیندور میں ڈوب گیا

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

مودی کی بے وقوفیوں کے چرچے پہلے بھی بھارت میں عام تھے اب بھی ہیں، پلوامہ فالس فلیگ آپریشن کے وقت مودی نے اپنی فضائیہ کو پاکستان پر حملے کا حکم دے دیا تھا اور مشورہ بھی دیا تھا کہ جب آسمان صاف اور بادل نہ ہوں تو حملہ کیا جائے تاکہ اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا جاسکے اور پاکستان کا زیادہ سے زیادہ نقصان ہو سکے۔

بھارتی پائلیٹس مودی کے اس مشورے پر کیا کہتے کیونکہ وہ بھارت کے وزیر اعظم اور وہ بے چارے دو ٹکے کے غریب تنخواہ دار نوکر ٹھہرے۔ اب پہلگام حملے کے لیے بھی مودی نے اپنی افواج کو پاکستان پر حملے کا حکم تو دے دیا مگر کوئی مشورہ نہیں دیا۔ دوسرے ہی دن چار رافیل طیارے آزاد کشمیر میں مخصوص مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے روانہ ہوئے مگر ابھی آزاد کشمیر کی سرحد سے کچھ ہی دور تھے کہ ان کے جہازوں کے الیکٹرانک سسٹم جام ہوگئے اب وہ حملہ تو کیا کرتے ان کی اپنی جانوں کے لالے پڑگئے چنانچہ انھیں واپس ہونا پڑا مگر یہ خبر بھارتی حکومت نے خفیہ رکھی اس کی خبر میڈیا کو نہ ہونے دی کیونکہ اس ناکام حملے کے واقعے کے افشا ہونے پر اس کی بہت بے عزتی ہوتی۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ جہاز آزاد کشمیر میں داخل ہو جاتے تو یقینا اسی دن گرا دیے جاتے کیونکہ پاکستانی لڑاکا طیارے ان کی خاطرداری کا انتظار کر رہے تھے۔ اس واقعے کے بارے میں لگتا ہے اترپردیش کانگریس کے صدر اجے رائے کو خبر ہی نہیں تھی، اسی لیے وہ رافیل طیاروں کا مذاق اڑا رہے تھے۔ اخباری خبر کے مطابق انھوں نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ جدید مہنگے رافیل طیارے اب تک ہینگرز میں لیمو اور ہری مرچ لٹکائے کھڑے ہوئے ہیں۔ راج ناتھ سنگھ پوجا پاٹ بھی کر چکے ہیں مگر انھیں ابھی تک استعمال نہیں کیا جا سکا ہے۔ ادھر دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی مودی کا مذاق اڑا رہے تھے کہ پہلگام حملے کے وقت تو وہ غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے اور پاکستان سے فوراً بدلہ لینے کے لیے بے چین ہو رہے تھے۔

گودی میڈیا بھی بھارتی جنتا کا جوش آخری حد تک بڑھا چکی تھی۔ سارے ہی گودی میڈیا چینلز پہلے تو آج یا کل حملے کی نوید سنا رہے تھے مگر مودی جی کو ٹھنڈا دیکھ کر وہ بھی ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے۔

لگتا ہے مودی یا تو خود ہی سمجھ گیا یا اس کے وزیروں مشیروں نے اسے سمجھایا کہ پاکستان پر اگر حملہ نہیں کیا تو اگلے انتخابات میں جیتنا مشکل ہے چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مودی نے آخر آزاد کشمیر اور پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی اجازت دے دی لیکن مکمل حملے کی نہیں چونکہ چین کی دھمکی سے وہ پہلے ہی ڈرا ہوا تھا اور اسی لیے پاکستان پر حملے کے لیے جو پہلے بے چین تھا اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ لگتا ہے اب اس نے پیوٹن کو رام کرکے آزاد کشمیر اور پاکستان پر 6 مقامات پر سرجیکل اسٹرائیک کرائی ہیں مگر اس دفعہ بھارتی طیاروں نے ڈر کے مارے پاکستانی یا آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہوئے بغیر اپنی ہی حدود سے میزائل برسائے ہیں جن سے نقصان ہوا ہے مگر اتنا نہیں جتنا مودی چاہتا تھا۔

بھارت کے حملے کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے 6 طیارے اور کئی ڈرونز تباہ کر دیے ہیں۔ طیاروں میں تین قیمتی رافیل طیارے بھی شامل ہیں جن کی تباہی نے بھارت میں کھلبلی مچا دی ہے، اس لیے کہ اس نے انھیں بھاری قیمت پر خریدا ہے بدقسمتی سے اس میں کروڑوں روپے کی کرپشن بھی ہوئی ہے، ادھر فرانس میں بھی بے چینی پھیل گئی ہے کیونکہ یہ اس کے مایہ ناز طیارے ہیں جو آج تک نہیں گرائے جا سکے تھے۔ رافیل طیارے گرائے جانے سے بھارت میں عوام مودی کے خلاف غم و غصے کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ اس طرح لگتا ہے اگلا عام انتخابات مودی کے لیے شکست کا پیغام لے کر آنے والا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اب تک مودی نے جتنے بھی الیکشن جیتے ہیں پاکستان کارڈ کو استعمال کرکے ہی جیتے ہیں مگر لگتا ہے اب بھارتی عوام بھی مودی کی نفرت انگیز پالیسی سے واقف ہو چکے ہیں اور لگتا ہے پہلگام حملے کے بعد مودی جو پاکستان پر اب حملے کر رہا ہے انھیں وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے کیونکہ یہ سب مودی کی سیاسی فائدہ اٹھانے کی چال ہے۔ پہلگام حملے کے بعد مودی کے جنگی جنون کو ٹھنڈا کرانے کے لیے تمام ہی ممالک نے کوششیں کی تھیں کیونکہ مودی بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام تراشی کر رہا تھا اور صرف الزام تراشی نہیں بلکہ باقاعدہ حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا یعنی کہ بالکل نیتن یاہو کے نقش قدم پر چل رہا تھا۔

افسوس اس بات پر ہے کہ جن ممالک نے بھی مودی کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا، اس نے ان کا مشورہ ہوا میں اڑا دیا اور بڑی رعونت سے کہا کہ اسے نصیحت کرنے والوں کی نہیں شراکت داروں کی تلاش ہے یعنی کہ اسے ایسے ممالک پسند ہیں جو اس کے جنگی جنون کو مزید بڑھانے کی بات کریں اور جنگ میں اس کی مدد کریں ساتھ ہی اس کی جارحیت پر اسے داد دیں۔ مودی دراصل چانکیائی سیاست پر چل رہا ہے یعنی کہ تخریب کاری اس کا نصب العین ہے۔ اس چانکیائی سیاست میں لگتا ہے محرک اجیت دوول ہے جو اس کا قومی سلامتی کا مشیر ہے۔ اجیت دوول کو نئے دورکا نیا چانکیا کہا جاسکتا ہے۔

مودی اپنے ہر تخریبی منصوبے کو بنانے میں اس کی مدد حاصل کرتا ہے۔ اجیت دوول سے پوری دنیا باخبر ہو چکی ہے۔ کینیڈا اور امریکا میں سکھوں پر وحشیانہ حملے ہوئے جن میں سکھ لیڈر ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کردیا گیا اور گرپتونت سنگھ پتو کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ محفوظ رہے۔ اب یہ تمام حقیقت کینیڈا اور امریکی حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کے پاس ثبوت کے طور پر موجود ہے، ان تمام وارداتوں کی منصوبہ بندی اجیت دوول نے انجام دی تھی جس کی شکایت کینیڈا کے سابق وزیر اعظم ٹروڈو نے مودی سے کی تھی جس پر وہ ٹروڈو سے اتنے ناراض ہوئے کہ جب وہ اور ان کے بچے بھارت کے دورے پر آئے تو ان کے ساتھ سخت بدسلوکی کی گئی۔ بلوچستان میں جو بھی دہشت گردی ہو رہی ہے وہ بھی بھارت کے ایما پر ہو رہی ہے۔

کچھ عرصہ قبل بی ایل اے کے دہشت گردوں نے جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو جو یرغمال بنا لیا تھا اور اس میں سوار سرکاری اہلکاروں کو شہید کر دیا تھا، یہ سب مودی حکومت کا شاخسانہ تھا۔

مودی کے تمام گودی ٹی وی چینلز اس واقعے کی پل پل کی خبر دے رہے تھے اور پاکستان پر لعن طعن کر رہے تھے اس سے صاف پتا چل رہا تھا کہ ٹرین کی واردات میں بھارت ملوث ہے مگر افسوس کہ ہماری حکومت نے بھارت کا نام نہیں لیا بلکہ کہا کہ اس کی انکوائری کی جائے گی پھر اس کے ذمے داروں سے نمٹا جائے گا۔ مگر ادھر دیکھ کر بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں کوئی بھی دہشت گردی کی واردات رونما ہوتی ہے بغیر کسی تحقیق کے بھارتی حکومت فوراً ہی پاکستان کو اس کا ذمے دار قرار دے دیتی ہے۔ اس طرح بھارتی پروپیگنڈے سے پاکستان کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اب ہماری حکومت کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا دہشت گرد دشمن کو اس کی زبان میں ہی جواب دینا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پہلگام حملے کے اور پاکستان رافیل طیارے پاکستان پر بھی مودی بھارت کے رہے تھے لگتا ہے رہا تھا تھا اور مودی کے کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کا ویزہ وار۔۔ مودی کی سفارتی شکست

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

آپریشن سندور کی ناکامی نے بھارت کی سفارت کاری اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے ۔دنیا کی طاقتور ترین معیشت جب اپنی امیگریشن یا ورک ویزا پالیسی میں کوئی تبدیلی کرتی ہے تو اس کے اثرات براہِ راست کئی ممالک پر پڑتے ہیں۔ خاص طور پر بھارت پر، جہاں لاکھوں نوجوان ہر سال امریکہ جانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایچ ون بی ورکر ویزے کے لیے سالانہ ایک لاکھ ڈالر فیس مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ فیصلہ بجلی بن کر بھارتی معاشرے ، آئی ٹی انڈسٹری اور حکومت پر گرا ہے کیونکہ اس کا سب سے زیادہ اثر بھارتی پروفیشنل کلاس پر پڑے گا جو بڑی تعداد میں امریکہ میں ملازمت اختیار کرنے کے لیے اس ویزے پر انحصار کرتی ہے ۔ یہ محض ایک مالی رکاوٹ نہیں بلکہ ایک ایسا قدم ہے جس کے معاشی، سماجی اور سیاسی مضمرات بھارت کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈالیں گے۔
ایچ ون بی ویزا امریکی معیشت کے لیے ایک اہم انجن سمجھا جاتا ہے جو ہنر مند ورکرز کو امریکہ لے کر آتا ہے ۔ بھارت اس پروگرام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک ہے کیونکہ امریکہ میں موجود تقریباً 70 فیصد ایچ ون بی ویزا ہولڈرز بھارتی شہری ہیں۔ حیدرآباد، بنگلور، پونے اور دہلی جیسے شہروں سے ہر سال ہزاروں نوجوان آئی ٹی اور انجینئرنگ کے شعبوں سے فارغ التحصیل ہو کر امریکہ جاتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کے اس نئے اقدام کے بعد یہ خواب عام بھارتی نوجوان کے لیے تقریباً ناممکن ہو جائے گا کیونکہ 100,000 ڈالر کی سالانہ فیس ایک ایسی رکاوٹ ہے جسے صرف بڑی کمپنیاں یا انتہائی امیر افراد ہی عبور کر سکیں گے ۔ اس فیصلے کے فوری اثرات بھارتی آئی ٹی سیکٹر پر نظر آئیں گے ۔
انفو سس، ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز اور وپرو جیسی بڑی کمپنیوں کا کاروباری ماڈل اس بنیاد پر قائم ہے کہ وہ ہنر مند افراد کو امریکی کمپنیوں میں بھیج سکیں۔ اب یہ فیس ان پر بھاری پڑے گی، جس کے باعث یا تو ان کی سرگرمیاں محدود ہوں گی یا امریکی طلب کو پورا کرنے میں مشکلات آئیں گی۔ اس کا براہِ راست نقصان بھارتی معیشت کو ہوگا جو پہلے ہی بے روزگاری اور مہنگائی کے دباؤ میں ہے ۔یہ صورتحال اپوزیشن کے لیے مودی حکومت پر تنقید کا موقع بھی بن گئی ہے ۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ بھارتی عوام کے لیے بڑا دھچکا ہے اور مودی حکومت اس پر موثر حکمتِ عملی بنانے میں ناکام رہی ہے ۔ ان کے مطابق بھارت بار بار امریکہ کی خوشنودی کے لیے اپنی پالیسیوں کو جھکاتا رہا ہے لیکن جب بھارتی شہریوں کے مستقبل کی بات آئی تو وزیراعظم بے بس دکھائی دیے ۔ یہ مودی کی عالمی سطح پر کمزوری کا ثبوت ہے ۔مودی نے اپنے دور میں امریکہ سے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کئی کوششیں کیں۔ "ہاؤڈی مودی” جیسے شوز اور امریکی قیادت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بھارتی میڈیا نے کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ لیکن ٹرمپ کا یہ فیصلہ ان تمام بیانیوں پر سوالیہ نشان ہے ۔ اگر واقعی تعلقات اتنے قریبی تھے تو پھر بھارت کو ایسے سخت فیصلے سے پہلے اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت کی عالمی حیثیت کے دعوے زیادہ تر دکھاوے تک محدود ہیں۔معاشی پہلو کے ساتھ یہ مسئلہ سماجی بھی ہے ۔ بھارت میں لاکھوں خاندان اپنے بچوں کو امریکہ بھیجنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے یہ محض ملازمت نہیں بلکہ بہتر مستقبل کی امید ہے ۔ لیکن اب جب یہ دروازہ بند ہوتا جا رہا ہے تو بھارتی متوسط طبقے میں مایوسی پھیل رہی ہے ۔ یہی مایوسی سیاسی دباؤ میں تبدیل ہو کر بی جے پی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے ۔اس فیصلے کے عالمی اثرات بھی نمایاں ہیں۔ اگر امریکہ نے سخت شرائط برقرار رکھیں تو یورپ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک اس خلا کو پر کرنے کے لیے بھارتی پروفیشنلز کو اپنی طرف راغب کریں گے ۔ یہ بھارت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ اس سے "برین ڈرین” مزید تیز ہو جائے گی۔ بھارتی نوجوان جو امریکہ کو منزل سمجھتے تھے اب متبادل راستے تلاش کریں گے لیکن اس عمل میں بھارتی معیشت کو نقصان پہنچے گا کیونکہ اس کی سب سے بڑی مارکیٹ سکڑ رہی ہے ۔
راہول گاندھی نے درست کہا کہ بھارت اگر خودمختار بننا چاہتا ہے تو اسے اپنی پالیسیوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت اس قابل ہے کہ وہ عالمی سطح پر ایک ایسی حکمتِ عملی اپنائے جو عوام کے مفاد میں ہو؟ اب تک کے تجربات بتاتے ہیں کہ زیادہ تر اقدامات محض نمائشی ہیں جبکہ معیشت اور نوجوان طبقہ مغربی ممالک کی پالیسیوں پر انحصار کرتے ہیں۔یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ امریکہ کا یہ قدم صرف بھارت کے خلاف نہیں بلکہ امریکی داخلی سیاست کا حصہ ہے ۔ ٹرمپ بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ امریکی ملازمتوں کو امریکی شہریوں کے لیے محفوظ بنائیں گے ۔ ان کے مطابق غیر ملکی ورکرز امریکی نوجوانوں کی نوکریاں چھین لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ فیصلہ مقامی ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے ہے ، لیکن سب سے زیادہ قیمت بھارتی نوجوان ادا کریں گے ۔آنے والے دنوں میں بھارت کے سامنے کئی بڑے سوال کھڑے ہوں گے ۔ کیا وہ اپنی آئی ٹی انڈسٹری کے لیے متبادل مارکیٹیں تلاش کر پائے گا؟ کیا وہ اپنے نوجوانوں کو اندرونِ ملک بہتر مواقع فراہم کر سکے گا؟ اور کیا وہ عالمی سطح پر اپنی سفارت کاری کو مضبوط بنا سکے گا تاکہ ایسے جھٹکوں کا مقابلہ کیا جا سکے ؟ یہ سوالات مودی حکومت کے لیے کڑی آزمائش ہیں۔آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کے لیے یہ وقت امتحان کا ہے ۔ اگر واقعی مودی ایک طاقتور لیڈر ہیں تو انہیں اس چیلنج کو موقع میں بدلنا ہوگا۔ فی الحال صورت حال یہ ہے کہ ٹرمپ کے ایک فیصلے نے بھارتی معیشت اور سیاست دونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ بھارت کو خوابوں سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا۔ امریکہ پر انحصار کم کر کے اپنی اندرونی پالیسیوں کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو روزگار کے لیے بیرونِ ملک جانے کے بجائے اپنے ملک میں ہی مواقع مل سکیں۔
اقدامات کے طور پر بھارت کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی تعلیمی اور صنعتی پالیسی کو عالمی معیار کے مطابق بنائے تاکہ نوجوانوں کو معیاری مواقع مل سکیں۔ دوسرا، حکومت کو سفارتی سطح پر امریکہ سے بات کرنی چاہیے تاکہ فیس میں کمی یا رعایت کے امکانات پیدا کیے جا سکیں۔ تیسرا، یورپ، کینیڈا اور مشرقِ وسطیٰ جیسے متبادل بازاروں کو بھارتی ورکرز کے لیے کھولنا ہوگا۔ چوتھا، اندرونِ ملک آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی کے لیے ٹیکس مراعات اور بہتر انفراسٹرکچر مہیا کرنا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو بیرونِ ملک جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔ پانچواں، عوام کو یہ
اعتماد دینا ضروری ہے کہ بھارت بیرونِ ملک ملازمتوں پر انحصار کرنے والا ملک نہیں بلکہ ایک ابھرتی ہوئی خود کفیل معیشت ہے ۔ یہی وہ راستہ ہے جو بھارت کو حقیقی معنوں میں طاقتور اور خودمختار بنا سکتا ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • بھارت کا جنگی جنون: ریل گاڑی پر نصب لانچر سے اگنی میزائل کاتجربہ
  • انڈیا کا 97 مقامی جنگی طیاروں کے لیے 7 ارب ڈالر کا معاہدہ
  • مودی سرکار کی ضد نے ہزاروں سکھوں کو بابا گرونانک کی تقریبات سے دور کر دیا
  • بھارتی حکومت کا ظلم و ستم اور سفاکیت، کشمیر میں احتجاج شدت اختیار کرگیا
  • بھارت: جھارکھنڈ یورینیم ذخائر جنگی جنون کی نذر، عوام تابکار خطرات سے دوچار
  • بھارت، جھارکھنڈ یورینیم ذخائر مودی کے جنگی جنون کی نذر، عوام تابکار خطرات سے دوچار
  • مودی حکومت نے گرو پتونت سنگھ کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا
  • جھارکھنڈ کے یورینیم ذخائر مودی کے جنگی جنون کا شکار، عوام کی زندگیاں داؤ پر
  • چین نے متروک طیاروں کو جنگی ڈرون میں تبدیل کردیا،بھارت کیلئے خطرہ
  • ٹرمپ کا ویزہ وار۔۔ مودی کی سفارتی شکست