کشمیر کا تنازع اب ختم ہوگا؟ امریکی صدر کا حیران کن بیان سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کیا ہزاروں سال سے جاری مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔
اپنے حالیہ بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ نہ صرف سفارتی سطح پر تعاون بڑھایا جائے گا بلکہ دونوں ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی بہتر کیے جائیں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کو ختم کرنے میں امریکا نے کلیدی کردار ادا کیا اور دونوں ممالک کو ایک میز پر لا کر جنگ بندی پر آمادہ کیا۔ اس حوالے سے ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کرتے ہوئے جنگ بندی کے معاہدے کی تصدیق کی تھی۔
خیال رہے کہ بھارت کی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے آپریشن "بُنيان مرصوص" کے تحت 10 سے زائد بھارتی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد خطے میں صورتحال خاصی کشیدہ ہو گئی تھی۔
ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت پر آیا ہے جب کشمیر کا مسئلہ عالمی توجہ حاصل کر رہا ہے اور اقوام متحدہ سمیت کئی ممالک اس تنازع کے پرامن حل کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستان سعودیہ معاہدہ
ٹائن بی نے قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو قومیں چیلنجز اور خطرات سے لڑتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں وہ ترقی کے زینے پر اوپر ہی اوپر سفر جاری رکھتی ہیں۔ 17ستمبر 2025 کو ریاض سعودی عرب میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹریٹیجک میوچل ڈیفنس ایگریمنٹ پر دستخط ہوئے۔
پاکستان کے اندر اور دنیا بھر میں اس اہم معاہدے پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا میں شور مچا ہے کہ سعودی عرب ویسے تو ہندوستان کے بہت قریب ہے اور ہندوستان بھی پاکستان کی طرح ایک ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے تو سعودیہ نے ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان سے آخر کیوں دفاعی معاہدہ کیا۔پاکستان کے اندر تقریباً ساری ہی سیاسی قیادت نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
پاکستان سے باہر چند مشہور تجزیہ کاروں نے رائے دی ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان کی افواج ، خطے کی برتر قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں،کہ یہ وہ فوج ہے جس پرخلیجی ممالک اپنے دفاع کے لیے بھروسہ کر سکتے ہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ بھلاہو نریندر مودی کا اگر وہ امسال اپریل میں پہلگام فالس فلیگ آپریشن اور پھر اس کو بہانہ بنا کر مئی میں پاکستان پر حملہ نہ کرتا تو ہم پاکستانی اور دنیا بھر کے لوگ پاکستانی افواج خاص کر پاکستان ایئر فورس کی حربی صلاحیت سے نا آشنا رہتے۔اس اہم معرکے نے دنیا کو باور کرا دیا کہ پاکستان ایک اہم ابھرتی فوجی قوت ہے۔
ہندوستان کی بیوقوفی کے بعد 9ستمبر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ایک غیر دانشمندانہ فیصلے کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں کے میزبان قطر پر حملہ کر کے حماس کی پوری مذاکراتی ٹیم کو تہہ تیغ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔اس حملے سے پہلے مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک امریکی سیکیورٹی چھتری کو نجات کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے لیکن قطر پر اسرائیلی حملے نے عربوں کو باور کرادیا کہ امریکی سیکیورٹی گارنٹی صرف کاغذی پیرہن ہے،یہ کہ امریکا صرف اور صرف اسرائیل کے ساتھ ہے۔
دوحہ پر اسرائیلی حملے کے فوراً بعد عرب اور اسلامی ممالک کی ایک ایمرجنسی میٹنگ بلائی گئی جس میں وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف بھی شریک ہوئے۔اجلاس کے موقع پر وزیرِ اعظم پاکستان اور سعودی ولی عہد کی ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں سعودی ولی عہد نے شہباز شریف کو سرکاری دورے کی دعوت دی۔
وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف اپنے وفد کے ہمراہ17ستمبر کو ریاض سعودی عرب روانہ ہوئے۔ وزیرِ اعظم پاکستان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔اسی روز دونوں رہنمائوں نے ایک لینڈ مارک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جس کی ایک اوپریٹو کلاز کے مطابق دونوں میں سے کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور ہوگا اور دونوں ممالک مل کر حملے کا جواب دیں گے۔ اس باہمی معاہدے کو کئی حوالوں سے پرکھنا ہوگا مثلاً یہ دیکھنا ہوگا کہ اس سے دونوں ممالک کو کیا فائدہ ہو گا، خطے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
قطر پر اسرائیلی حملے نے خلیجی ممالک خاص کر سعودی عرب کو ایک غیر متوقع مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا۔امریکا نے اس اسرائیلی حملے کو نہ تو روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کی مذمت کی۔امریکی وزیرِ خارجہ حملے کے بعد اسرائیل پہنچے اور اسرائیل کی حمایت میں کھڑے رہنے کا اعلان کیا۔اس صورتحال میں سعودی عرب چونکا اور اپنے دفاعی آپشنز کو Diversify کرنے کا فیصلہ کیا۔سعودی عرب میں افواج کو دفاعِ وطن میں وہ مرکزی حیثیت حاصل نہیں جو عام طور پر اکثر ممالک میں ہوتی ہے۔سعودی عرب میں بہترین دفاعی قوت حارث الوطنیNational Guards ہے۔
حارث الوطنی سعودی شاہی خاندان اور اس کی حکومت کو سیکیورٹی چھتری فراہم کرتی ہے۔ سب سے اچھے ہتھیار اسی کے پاس ہوتے ہیں۔ سعودی افواج دوسرے درجے کی فورس ہیں۔ پاک سعودی دفاعی معاہدے سے سعودیہ کے دفاع کے لیے جان دینے کی ذمے داری بنیادی طور پر پاکستانی افواج کے سرآ گئی ہے۔اس معاہدے سے سعودیہ کا مغرب اور خاص کر امریکا پر انحصار کم ہوگا جس سے سعودیہ کے دفاعی آپشنز بڑھ گئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ دوسرے خلیجی ممالک بھی دفاع کے لیے پاکستان کی طرف دیکھیں۔
افواجِ پاکستان کو اس دفاعی معاہدے سے بہت فائدہ ہوگا۔سعودی افواج کے جدید ترین ہتھیاروں کواستعمال میں لاتے ہوئے افواجِ پاکستان بہت کچھ سیکھیں گی۔سعودی عرب میں تعینات ہمارے فوجیوں کے ماہانہ مشاہرے میں خاصا اضافہ ہوگا۔حکومتِ پاکستان کی یہ ایک بہت اہم سفارتی کامیابی ہے جس سے حکومت پر اندرونی سیاسی دبائو کم ہوگا۔پاکستان کی فوج کے افسروں اور جوانوں کا اپنی اعلیٰ ترین قیادت پر اعتبار بڑھے گا۔
اعلی ترین فوجی قیادے کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔ریاستِ پاکستان کے چیلنجز میں بہت اضافہ ہوگا۔پاکستان کی ریاست کو پہلے ہی ہندوستان اور افغانستان کی طرف سے خطرات درپیش ہیں۔اب مشرقِ وسطیٰ کے سب سے اہم ملک کو اسرائیل،یمن و ایران کی طرف سے درپیش خطرات سے بھی ریاستِ پاکستان کو نمٹنا ہوگا۔ٹائن بی کے مطابق اگر ہم ان چیلنجز سے عہدہ برآ ہو سکے تو ایک شاندار مستقبل سامنے ہوگا۔اسرائیل مغرب اور بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیاں کرے گا۔سعودیہ دفاع کے سلسلے میں پاکستان پر بھروسہ کر سکتا ہے لیکن اس میدان میں پاکستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ہاں معیشت کے شعبے میں سعودیہ ضرور پاکستان کی مدد کر سکے گا۔
ہندوستان اور پاکستان کی لیبرفورس ایک بڑی تعداد میں سعودیہ میں مقیم ہے۔ پچھلے چند سالوں سے پاکستانی لیبر فورس پر بہت پابندیاں تھیں۔امید کی جا سکتی ہے کہ اب پاکستانی لیبر فورس کو سعودی عرب میں کام کرنے کے بہت مواقع ملیں گے۔خطے کے ممالک کے لیے یہ ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن ہندوستان اس سے سخت نالاں ہے کیونکہ اس کی مرضی کے خلاف پاکستان پر بھروسہ کیا گیا ہے۔
چین خطے کا ایک بہت اہم ملک ہے۔چین پہلے ہی سعودی عرب اور ایران کو مخاصمت سے ہٹا کر قریب لا چکا ہے۔یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ چین اس معاہدے سے مطمئن ہوگا کیونکہ چین اور پاکستان کی مثالی باہمی دوستی ہے، پاکستان کے بڑھتے اثر و رسوخ سے چین مطمئن ہوگا۔ روسی سفیر نے پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کو سراہا ہے۔ امریکا نے تا حال کوئی منفی بیان نہیں دیا۔معاہدے سے پاکستان کی پاور پروجیکشن ہوگی۔اس معاہدے سے پاکستان نے اپنے اسٹریٹیجک آپشنز کو Expandکیا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کے ہاتھ میں ایک اہم ڈپلومیٹک ٹُول ہے جس سے پاکستان بہت سے فائدے سمیٹ سکتا ہے۔