اقوام متحدہ کے سربراہ کی جانب سے جنگ بندی کا خیرمقدم
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے انڈیا اور پاکستان کے مابین جنگ بندی کے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے حالیہ مخاصمت کے خاتمے اور کشیدگی میں کمی لانے کی جانب مثبت قدم قرار دیا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے اپنے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک کی جانب سے جاری کردہ بیان میں امید ظاہر کی ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے پائیدار امن قائم ہو گا اور دونوں ممالک کے مابین وسیع تر اور دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لیے سازگار ماحول بنانے کی راہ ہموار ہو گی۔
انہوں نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ خطے میں امن و استحکام کو تقویت دینے کی کوششوں میں تعاون مہیا کرنے کے لیے تیار ہے۔
22 اپریل کو جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کے بعد فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف ڈرون اور میزائل حملے کیے گئے۔
سیکریٹری جنرل نے ان حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین پر زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لینے کے لیے زور دیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق، جنگ بندی کی خبر آنے کے بعد انڈیا اور پاکستان میں خوشی کا سماں دیکھنے کو ملا۔ ممکنہ طور پر یہ جنگ بندی امریکہ کی ثالثی سے عمل میں آئی اور اس کا اعلان تینوں ممالک کے نمائندوں نے سوشل میڈیا پر کیا۔ تاہم اس کے بعد بھی فریقین کی افواج میں جھڑپوں اور ڈرون حملوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
میانمار میں قیدیوں پر منظم تشدد کے ناقابلِ تردید شواہد سامنے آگئے
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ میانمار کے حراستی مراکز میں قیدیوں پر منظم اور سنگین تشدد کے ناقابل تردید شواہد مل چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان مظالم میں ملک کی اعلیٰ سطحی شخصیات اور فوجی کمانڈرز ملوث پائے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی ادارے IIMM کے مطابق قیدیوں کو بدترین جسمانی اذیتیں دی گئیں جن میں مارپیٹ، بجلی کے جھٹکے، گلا گھونٹنا، اور پلاس سے ناخن نکالنے جیسے اذیت ناک واقعات شامل ہیں۔ بعض واقعات میں قیدی تشدد کی شدت کے باعث اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بچوں کو والدین کے بغیر اور قانونی جواز کے بغیر حراست میں رکھا گیا۔ اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ انہیں ملک میں معلومات حاصل کرنے اور رسائی کے لیے 24 سے زائد بار درخواستیں دی گئیں، مگر تمام مسترد کر دی گئیں۔
تحقیقات میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد ہزاروں شہریوں کو حراست میں لیا گیا، جب کہ فوجی سربراہ من آنگ ہلائنگ نے ہنگامی حالت ختم کر کے خود کو ملک کا عبوری صدر مقرر کر لیا تھا۔
رپورٹ میں 2017 میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، جنہیں عالمی سطح پر نسل کشی کے مترادف قرار دیا جاتا رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ میانمار میں انسانی حقوق کی پامالی کو روکا جا سکے۔