29 نومبر یومِ یکجہتیِ فلسطین یا خیات کا عالمی دن
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: 29 نومبر صرف ایک تاریخی دن نہیں، بلکہ ایک یاد دہانی ہے کہ عالمی طاقتیں اکثر انصاف کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ اقوام متحدہ مظلوم عوام کے حقوق کی حفاظت میں ناکام تھی اور آج بھی ناکام نظر آتی ہے۔ فلسطینی عوام نے کئی دہائیوں تک اپنی زمین اور آزادی کے لیے قربانیاں دی ہیں، جس کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ یہ دن بتاتا ہے کہ اقوام متحدہ اس دن کو یوم یکجہتی فلسطین قرار دے کر اپنی اس خیانت اور ناانصافی سے بچ نہیں سکتی، جو اس نے ماضی میں فلسطینیوں کے ساتھ کی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
29 نومبر کا دن ہر سال فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے اور اس دن کو منانے کے لئے اقوام متحدہ بھی اہتمام کرتی ہے، کیونکہ اس دن کی خیانت بھی اقوام متحدہ نے انجام دی تھی۔ اس دن کو یوم یکجہتی فلسطین قرار دیا گیا ہے، لیکن حقائق اور تحقیقی جائزہ سے اندازاہ ہوتا ہے کہ یہ دن یکجہتی فلسطین کا دن نہیں بلکہ خیانت کا عالمی دن ہونا چاہیئے۔ یہ دن 1947ء کی اقوام متحدہ کی قرارداد 181 کی یاد دلاتا ہے، جس نے فلسطین کی زمین کو زبردستی دو حصوں میں تقسیم کیا اور اس عمل سے فلسطینی عوام شدید نقصان اور بے گھری کا شکار ہوئی۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 181 بظاہر تقسیم کا منصوبہ تھا، لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسی خیانت تھی، جس کا خمیازہ آج تک فلسطین ہی نہیں بلکہ غرب ایشیائی ممالک سمیت دنیا کی دیگر اقوام بھی بھگت رہی ہیں۔
اسی قرارداد کی وجہ سے ہی 1948ء میں فلسطین پر ایک ناجائز غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو قائم کیا گیا۔ 1947ء میں جس وقت یہ قرارداد منظور کی گئی، اس وقت فلسطینی آبادی 67% تھی اور یہودی آبادی صرف تقریباً 33% تھی۔ زمین کا 55% صیہونیوں کو اور 45% مقامی فلسطینیوں کو دیا گیا۔ یہ ایک ایسی ناانصافی کی گئی، جس پر اقوام متحدہ کی مہر ثبت کی گئی۔ فلسطینی عوام نے اس تقسیم کو مکمل طور پر رد کر دیا، لیکن عالمی طاقتوں خصوصاً امریکہ اور برطانیہ نے اس قرارداد کو غیر معمولی دباؤ ڈال کر منظور کروایا۔ اس قرارداد کے حق میں صرف 33 ووٹ آئے جبکہ 13 ممالک نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیئے اور 10 ممالک نے خاموشی یعنی غیر حاضری کی۔ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والوں میں بھی اکثریت ایسے ممالک کی تھی، جن کا دور دور تک مغربی ایشیائی خطے سے کوئی تعلق نہ تھا، لیکن انہوں نے امریکہ اور برطانیہ کے دبائو میں ووٹ دیا۔
دراصل اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرارداد 181 سے پہلے ماضی میں پہلی عالمی جنگ کے بعد 1917ء میں برطانیہ نے Balfour Declaration جاری کیا تھا، جس میں فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس اقدام نے فلسطینی عربوں کی خود ارادیت کو نظر انداز کیا اور علاقے میں موجود آبادیاتی توازن کو خراب کیا۔ اس کے بعد سے برطانیہ نے دنیا بھر سے یہودیوں کو لا لا کر فلسطین میں آباد کیا اور آخرکار 1947ء میں قرارداد 181 کے ذریعے فلسطین کی تقسیم کی خیانت کو انجام دیا۔ برطانیہ نے یہودی آبادکاروں کو سیاسی اور عسکری حمایت فراہم کی اور نتیجہ میں 1948ء میں فلسطین پر ناجائز ریاست اسرائیل قائم کی گئی۔ برطانیہ نے فلسطین پر اپنے مینڈیٹ کے دوران فلسطینی عوام کی سیاسی خواہشات کو نظر انداز کیا۔
دوسری طرف برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کے لئے صیہونیوں کو مکمل مدد فراہم کی اور صیہونی ملیشیاؤں کو زمین پر قبضہ، ہتھیار جمع کرنے اور سیاسی طاقت بنانے کی اجازت دی، جبکہ فلسطینی عربوں کی مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ یہ اقدام اس بات کی دلیل ہیں کہ فلسطین کے ساتھ ایک عالمی خیانت کی گئی، جس کو اقوام متحدہ کا لیبل لگایا گیا۔ فلسطین پر صیہونی تسلط کے لئے امریکہ نے بھی صیہونیوں کی بھرپور مدد کی اور امریکہ نے قرارداد 181 کے حق میں دباؤ ڈالنے کے لیے کئی ممالک پر سفارتی دباؤ اور اقتصادی دھمکیاں دی۔ اس دباؤ کے نتیجے میں کئی ممالک نے اپنے ووٹ کے آزادانہ استعمال کے بجائے امریکی پالیسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ اس نے ظاہر کیا کہ عالمی طاقتیں انصاف کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے قرارداد 181 کے بعد ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔ 1948ء کی جنگ، 1967ء کی جنگ اور اس کے بعد کی صیہونی بستیوں کی تعمیر، فلسطینی محاصرے اور نسل کشی کے خلاف اقوام متحدہ نے عملی اقدامات نہیں کیے۔ اکثر اوقات اقوام متحدہ کی قراردادوں کو محض الفاظ تک محدود رکھا گیا ہے، جس سے مظلوم فلسطینی عوام کی آواز دبتی رہی۔ یہاں پر ایک اور اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کہ جس کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل درآمد کی کوئی ضروری ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، یعنی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مقابلہ میں جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے میں اہمیت نہیں دی جاتی، لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ استعماری قوتوں نے جنرل اسمبلی کے غیر منصفانہ فیصلہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے عملی جامہ پہنایا اور غرب ایشیائی خطے میں ایک ایسی ناجائز ریاست کی بنیاد رکھ دی کہ جس نے گذشتہ 78 سالوں سے خطے میں دہشت گردی اور جنگ کو فروغ دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی اسی قرارداد کی بدولت جہاں ایک طرف فلسطین پر صیہونی قبضہ کیا گیا، وہاں ساتھ ساتھ یوم نکبہ والے دن پندرہ لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے اپنے وطن اور گھر سے جبری طور پر نکال دیا گیا، جو آج تک مہاجرین کی زندگیاں گزار رہیں ہیں۔ تاریخی شواہد کے مطابق یوم نکبہ پر صیہونیوں نے پانچ سو سے زائد فلسطینی گائوں اور شہروں پر حملے کئے اور انہیں تباہ کر دیا۔ یہ سب کچھ برطانوی استعمار کی سرپرستی اور فلسطین میں صیہونیوں کو دی گئی کھلی چھٹی کے باعث انجام پاتا رہا۔ منظم قتل عام کیا گیا اور آج تک یہ منظم نسل کشی جاری ہے۔فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کا سلسلہ جو 1948ء میں شروع ہوا تھا، وہ آج بھی جاری ہے اور فلسطینی عوام کو ان گھروں اور زمینوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی عوام کی ثقافت کو پوری طاقت کے ساتھ کچلنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی۔ اسی لئے فلسطینی عوام اس واقعہ کو نکبہ قرار دیا، یعنی ایک تباہی اور قیامت کا دن۔
دوسری طرف فلسطینی عوام نے عالمی استعماری قوتوں امریکہ اور برطانیہ کی تمام تر سازشوں کا مقابلہ کیا، چاہے وہ 1917ء میں بالفور اعلامیہ ہو یا پھر 1947ء میں اقوام متحدہ کی غیر منصفانہ قرارداد ہو اور اس کا تسلسل نکبہ ہی کیوں نہ ہو، فلسطینی عوام نے کبھی ہار نہیں مانی اور ہمیشہ اپنے حق کی آواز بلند کی ہے اور فلسطین پر فلسطینی عوام کے حق کے لئے جدوجہد جاری رکھی ہے، جو آج بھی جاری ہے۔فلسطینی عوام نے ہمیشہ سے اپنے وطن کی آزادی کے لیے مزاحمت جاری رکھی اور اس مزاحمت نے ہی فلسطینی عوام کی عالمی سطح پر مظلومیت کو اجاگر کیا ہے۔ یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے اور فلسطینی عوام عالمی ضمیر کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طوفان اقصیٰ کا آغاز فلسطینی عوام کی اس انتھک جدوجہد کا تسلسل ہے، جو ایک صدی پر محیط ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ 29 نومبر صرف ایک تاریخی دن نہیں، بلکہ ایک یاد دہانی ہے کہ عالمی طاقتیں اکثر انصاف کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ اقوام متحدہ مظلوم عوام کے حقوق کی حفاظت میں ناکام تھی اور آج بھی ناکام نظر آتی ہے۔ فلسطینی عوام نے کئی دہائیوں تک اپنی زمین اور آزادی کے لیے قربانیاں دی ہیں، جس کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ یہ دن بتاتا ہے کہ اقوام متحدہ اس دن کو یوم یکجہتی فلسطین قرار دے کر اپنی اس خیانت اور ناانصافی سے بچ نہیں سکتی، جو اس نے ماضی میں فلسطینیوں کے ساتھ کی ہے۔ فلسطینی ہی نہیں پوری دنیا کے عوام اس ناانصافی پر نالاں ہیں اور جب بھی یہ دن آئے گا، وہ زخم تازہ ہوں گے اور دنیا بھر کے انسانوں کی صدائیں چیخ چیخ کر بتائیں گی کہ فلسطین کے خیانت کی ذمہ دار اقوام متحدہ ہے، جو حقیقت میں امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی لونڈی بن چکی ہے۔ البتہ یہ دن فلسطینی عوام اور فلسطین کاز کی حمایت کرنے والوں کے لئے اس نوعیت سے زیادہ اہم ہے کہ اس دن فلسطین کے لئے جتنی آواز اٹھائی جائے، ضروری ہے اور دنیا کے عوام ان بے ضمیر عالمی اداروں کو بتائیں کہ ہم سب فلسطین کے ساتھ ہیں، فلسطین تنہاء نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکہ اور برطانیہ فلسطینی عوام کی فلسطینی عوام نے ا ج بھی جاری ہے اقوام متحدہ کی یکجہتی فلسطین اپنے مفادات میں فلسطین اور فلسطین کی قرارداد برطانیہ نے فلسطین کے نے فلسطین فلسطین پر کے بجائے کا تسلسل اس دن کو عوام کے کیا گیا کے ساتھ کی گئی کے بعد ہے اور کے لیے اور اس کے لئے
پڑھیں:
لبنان میں اسرائیلی حملے: اقوام متحدہ کا سخت ردعمل، فوری تحقیقات کا مطالبہ
جنیوا: اقوام متحدہ نے لبنان میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر ہونے والے مہلک اسرائیلی فضائی حملوں کی فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے.
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کو تقریباً ایک سال گزرنے کے باوجود اسرائیلی فوج کی کارروائیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
لبنان پہلے ہی اسرائیل پر گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا چکا ہے، جس کا مقصد حزب اللہ کے ساتھ ایک سال سے جاری جھڑپوں کو روکنا تھا۔
لبنانی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے 330 سے زیادہ افراد ہلاک اور 945 زخمی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان ہلاکتوں میں 127 عام شہری شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے جنوبی لبنان کے عین الحلوہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملے میں 13 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 11 بچے شامل تھے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان ثمین الخیطانی نے کہا کہ تمام ہلاکتیں عام شہریوں کی تھیں، جس سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
اقوام متحدہ نے مطالبہ کیا کہ عین الحلوہ واقعے سمیت تمام حملوں کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ترجمان کے مطابق اسرائیلی فوج کو اپنے حملوں کی خود تحقیقات کرنی چاہئیں جبکہ لبنان کو اپنی جانب سے ہونے والی مبینہ خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔
یو این کے مطابق اسرائیلی حملوں نے لبنان میں شہری انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے اور جنوبی لبنان کے ہزاروں متاثرہ افراد کی گھروں کو واپسی کی کوششیں متاثر ہوئی ہیں۔ ملک بھر میں 64 ہزار سے زائد افراد اب بھی بے گھر ہیں۔
اقوام متحدہ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اسرائیل نے لبنان کی حدود میں دیوار کی تعمیر شروع کر دی ہے، جس کے باعث 4 ہزار مربع میٹر علاقہ مقامی آبادی کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے۔
یو این نے تمام فریقوں سے جنگ بندی پر مکمل عملدرآمد اور شہریوں کی بحالی کے عمل میں رکاوٹیں دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔