پی ٹی آئی رہنما رؤف حسن اور علیمہ خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے بڑا ریلیف
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
ویب ڈیسک : اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا۔
عددالت نے رؤف حسن کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی قرار دے دیا۔
جسٹس انعام امین منہاس نے رؤف حسن کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست منظور کر لی۔ رؤف حسن کو بیرون ملک سفر کی اجازت کے لیے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی۔
اکراس دی بورڈ فائر بندی، ڈرون مداخلت بند؛ ملٹری آپریشنز ڈی جیز کا اتفاق رائے
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کورٹ رؤف حسن کی درخواست پر قانون کے مطابق جلد فیصلہ کرے، وکیل کے مطابق رؤف حسن کینسر surviver ہیں جنہیں چیک اَپ کے لیے برطانیہ جانا ہے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ وکیل کے مطابق پٹیشنر پر ایف آئی اے کا مقدمہ ہے جس میں وہ ضمانت پر ہیں، وکیل نے دلائل دیے کہ محض مقدمہ درج ہونے پر کسی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنا بلا جواز ہے۔ وکیل کے مطابق رؤف حسن کا ہر چھ ماہ بعد یو کے میں چیک اَپ ہوتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ قطر سے لگژری طیارہ بطور تحفہ قبول کرنے پر رضامند
فیصلے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ ایف آئی اے نے 24 جولائی 2024 کو پٹیشنر کا نام پی سی ایل میں شامل کرنے کی سفارش کی اور ڈی جی امیگریشن اینڈ پاسپورٹس نے 26 اگست 2024 کو نام پی سی ایل میں شامل کر دیا، کریمنل کیس زیر التوا یا تفتیش جاری ہونا پٹیشنر کا نام پی سی ایل میں شامل کرنے کا جواز نہیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق پٹیشنر اپنے خلاف درج مقدمہ میں ضمانت پر ہے اور ریاست نے ضمانت منسوخی دائر نہیں کی، وفاقی حکومت سے رؤف حسن پر سفری پابندیاں عائد کرنے کی منظوری نہیں لی گئی۔ پاسپورٹ رولز کے مطابق ملک میں داخلے اور روانگی کو ریگولیٹ کرنے کی اتھارٹی وفاقی حکومت کے پاس ہے۔
فضائی سفر کرنے والوں کے لیے خوشخبری ؛ائیرپورٹس پر فلائٹ شیڈول بہتر ہونے لگا
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: کا نام ای سی ایل سی ایل میں رؤف حسن کا کے مطابق کرنے کی
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر ٹرانسفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر ٹرانسفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا اور ہائی کورٹ کے ججوں کا ٹرانسفر آئین اور قانون کے مطابق قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں سینیارٹی اور تبادلے کے کیس کا 55 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا، جس میں کہاگیا ہے کہ اصل نکتہ یا بنیادی شرط یہ ہے کہ جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے سے پہلے صدر مملکت کو متعلقہ جج کی رضامندی لینا ضروری ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ سب سے اہم دوسرا پہلو مشاورت کا عمل ہے، مشاورت کے عمل میں صدر مملکت چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے پابند ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صدرمملکت کو آئین کے تحت ججوں کے ٹرانسفر کا اختیار حاصل ہے، آئین کے آرٹیکل 175 اے اور 200 میں کوئی تضاد نہیں ہے، دونوں آرٹیکلز کے مطابق مختلف مواقع سے نمٹنے کے لیے موقف مختلف تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جج کی منتقلی جج کی رضامندی اور مشاورت کے بغیر ممکن نہیں، ججوں کی منتقلی کا فیصلہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے، منتقلی کے عمل میں عدلیہ کی رائے کو اولیت حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ ججوں کی منتقلی سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی، ججوں کی منتقلی میں بدنیتی یا انتقامی کارروائی ثابت نہیں ہوئی، ججوں کی منتقلی آئین اور قانون کے مطابق ہوئی ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 منتقلی پر قدغن نہیں لگاتا اور صوبائی نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، معاملہ سینیارٹی کے تعین کے لیے صدر کو واپس بھجوایا جاتا ہے۔
Post Views: 1